تفسیر “سورہ البقرة ” (آیات ا تا 5)

بسم الله الرحمن الرحیم
اللهم صلی علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم

سورہ بقرہ:
یہ مدنی سورہ یعنی بعدِ ھجرت کا نازل شدہ قرآن کے تمام سوروں میں سب سے بڑا سورہ ھے جو 286 آیات پر مشتمل ھے.(1)
“بقرہ” گائے اور بیل کو کہتے ھیں.چونکہ اس سورہ میں ایک گائے یا بیل کے ذبح کا قصہ درج ھے جو کسی اور جگہ قرآن میں نہیں ھے.اس لیے اس نام کے ساتھ موسوم ھوا.یہ سورہ علاوہ بسیط ھونے کے اسلام کے بہت سے اھم حقائق اور تعلیمات پر مشتمل ھے جیسے ایمان بالغیب کی اھمیت، متقین کی شان، منافقین کے اوصاف، اعلان خلافت اور امتحان آدم علیہ السلام و ملائکہ، متعدد واقعات جناب موسی علیہ السلام و قوم بنی اسرائیل، یہود و نصارٰی کے مزعومات اور انکی سبق آموز رد، واقعہ ھاروت و ماروت، اعلان امامت، اور ذریت ابراھیمی میں اس کا بقا، اسلام کی قدامت اور ابراھیم علیہ السلام اور ان کے بعد اسحٰق و یعقوب علیہم السلام اور اسباط یعنی پیشروان یہود و نصارٰی کا اس ملت میں مندرج ھونا، تحویل قبلہ ، حیات شہداء ، اقام امتحان ، فضلت صبر، احکام حج و عمرہ، آیات قدرت، حکم وصیت، فرضیت و احکام صوم، حکم دعا، حکم جہاد، دنیا و آخرت کا امتزاج، حدود اتفاق، حرمت شراب، حرمت قمار، احکام حالات مخصوصہ نسواں، احکام طلاق و رضاع، عدہ وفات و طلاق، نماز خوف، واقعہ طالوت، حرمت ربوا، احکام دَین و رھن و دیگر معاملات وغیرہ وغیرہ.ان میں بہت سے امور ایسے ھیں جن کا صرف اس سورہ میں ذکر ھے اور کہیں درج نہیں کیے گئے ھیں.اس لیے ابتدائے زمانہ نزول سے اس سورہ کی اھمیت قرار پائی ھے.ھماری قدیم تفسیر میں بطور حدیث وارد ھے کہ اس ایک سورہ میں پانچ سو احکامِ شریعت درج ھیں. (2)
طریق اھل سنت سے وارد شدہ بعض روایات سے معلوم ھوتا ھے کہ بعض صحابہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر ان الفاظ میں کرتے تھے کہ :
“الذی انزلت علیه سورةالبقرة”
وہ ھستی جس پر سورہ بقرہ اتارا گیا” (صحیح مسلم: ج1)

“بِسْمِ الله الرَحْمٰنِ الرَحِیْمِ
سہارا اللہ کے نام کا جو سب کو
فیض پہنچانےوالابڑا مہربان ھے” (3)

“الم “1
الف . لام . میم”
ان حروف کو اور ایسے ھی جو بہت سے سوروں کی ابتدا میں ھیں جسے :حٰم ، المر ، المص وغیرہ ان سب کو “مقطعاتِ قرآنیہ” کہتے ھیں.ان کے بارے میں صحیح یہی ھے کہ وہ رازھائے سربستہ ھیں جو مابین خدا اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک خصوصی پیام کی حیثیت رکھتے ھیں.
فریقین کے یہاں وہ شخصیتیں جن کے اقوال سر آنکھوں پر رکھے جاتے ھیں یہی بتاتی ھیں.ایک طرف علامہ رازی لکھتے ھیں :
“قال ابوبکررضی الله عنه فی کل کتاب سر و سره فی القراٰن اوائل السور و قال علی رضی الله عنه ان لکل کتاب صفوة و صفوة”
حضرت ابوبکر(رض)کاقول ھے کہ ھر کتاب سماوی میں اللہ کاکوئی راز ھےاور قرآن میں اس کا راز ان سوروں کےابتدائی حروف هیں اور حضرت علی(رض)کا ارشاد هے کہ ھر کتاب میں ایک خاص منتخب چیز
هےاوراس کتاب کا منتخب ترین جزء یہ حروف ھیں” (تفسیر کبیر ج:2)
پھر لکھا ھے :
“سئل الشعبی عن هذه الحروف فقال سرالله فلا تطلبوه و روی ابوظبیان عن ابن عباس قال عجزت
العلماء عن ادرکها و قال الحسین ابن الفضل هو من المتشابهات”
شعبی سے ان حروف کے بارے میں دریافت کیاگیا انہوں نے کہا یہ اللہ کا راز ھے اسے معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو اور
ابوظبیان کی روایت ھےابن عباس نے کہا کہ صاحبانِ علم ان کے سمجھنےسےقاصرھیں اور حسین بن فضل نے کہا ھے کہ وہ
متشابہات میں سے ھیں”
دوسری طرف علامہ طبرسی لکھتے ھیں :
“انهامن المتشابهات التی امتأثر الله بعلمها ولایعلم تأویلها الاالله و هذاهوالمروی عن أئمتنا”
یہ ان متشابہات میں سے ھیں جن کاعلم اس نے اپنے سے مخصوص رکھا ھے اور سوا اللہ کے کوئی اُن کےمطلب سے واقف نہیں ھے یہی روایت ھمارے آئمہ (ع) سے وارد ھوئی ھے”
جناب تاج العلماء نے اپنے ترجمہ کے حاشیہ میں لکھا ھے :
“یہ متشابہ آیتوں میں قرآن مجید کے بین اورایسی آیتوں کی تفسیرھو اور ھوس اور اپنی خودرائی سے حرام
قطعی ھےاوراسی کو تفسیربالرائے کہتے ھیں”
بےشک خود قرآن مجید میں ھماری مانی ھوئی تفسیر کے مطابق متشابہات کے علم میں اللہ کے ساتھ “راسخون فی العلم” کا ذکر بھی موجود ھے.اس لیے ان مقطعات کے معانی معصومیں علیہم السلام کے دائرہ علم میں ھوسکتے ھیں.چنانچہ ھماری قدیم تفسیر میں جو زیادہ تر اقوال آئمہ علیہم السلام سے ماخوذ ھیں. “الم” کے بارے میں جس سے مقصود غالبًا تمام مقطعات کے بارے میں بتانا ھے کہ :
“هوحرف من حروف اسم الله الاعظم المنقطع فی القراٰن الذی یؤلفه النبی والامام فاذادعابه اجیب”
وہ اللہ کے اسمِ اعظم کے کچھ حروف ھیں جو قرآن میں الگ الگ آئے هیں جنہیں پیغمبر اور امام ترتیب دیتے هیں
توان سے جو دعا مانگتے ھیں وہ قبول ھوتی ھے” (تفسیر علی بن ابراھیم)
نتیجہ اس کا بھی یہی ھے کہ وہ ھمارے لیے راز سربستہ ھی کی حیثیت رکھتے ھیں.
جن لوگوں نے اپنی ذھنی کاوش کا ان مقطعات کو آماجگاھ بناکر ان کی حقیقت بتانا چاھی ھے ان کے اقوال کی کثرت بھی خود مذکورہ بالا حقیت کی مؤید ھے.چنانچہ ان میں سے ان اقوال کی جو “علامہ طبری کی جامع البیان” یا “امام فخرالدین رازی کی تفسیر کبیر” یا “علامہ طبرسی کی مجمع البیان” میں درج ھیں تعداد تقریبًا 23 تک پہنچتی ھے جن میں سے کوئی بھی کسی معصوم علیہ السلام سے وارد نہیں ھے.ایسی صورت میں ان کا ذکر کرنا ھی بیکار ھے.
جبکہ ان ھستیوں نے جن کا حق تھا کہ وہ ایسے متشابہات کی تشریح فرمائیں خود یہ کہہ دیا کہ یہ راز قدرت ھے تو پھر اس کے درپے ھونا بنص قرآن انہی کاکام ھوسکتا ھے جو قرآنی الفاظ میں “فی قلوبھم زیغ” (4) کا مصداق ھوں.
قرآن کے بحیثیت مجموعی ھمارے لیے سرمایہ ھدایت ھونے سے یہ ضروری قرار نہیں پاتا کہ اس کا ھر ھر جزء ھمارے سمجھانے کےلیے نازل کیاگیا ھو بلکہ اسی میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےلیے خصوصی رموز و اوقاف بھی ودیعت کردیے جائیں جنکی بقدرِ ضرورت تبلیغ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے وارثانِ علم کی حکیمانہ مصلحت بینی سے وابستہ رکھی گئی ھو تو اس میں اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ھے.خود اسی سورہ میں ھے :
“خلق لکم مافی الارض جمیعا”
تمام کائناتِ ارضی تمہارے لیے خلق فرمائی ھے” (البقرہ#28)
مگر ان میں بےشمار چیزیں وہ ھیں جنکا علم ابھی تک ھم کو نہیں ھے یا علم حاصل ھواھے تو مخصوص معلمین کی تعلیم سے.اسی طرح قرآن ھمارے لیے نازل ھوا ھے مگر اس کے ھر جزو کا علم ھمیں بالذات حاصل ھونا ضروری نہیں ھے.

“ذٰلِكَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ ^فِیْهِ^ هدًیلِلْمُتَقِیْنَ 2
یہ خاص کتاب ھے اس میں بدگمانی (5(کی کوئی گنجائش نہیں ھدایت ھے فکرِ نجات رکھنے والوں کے لیے”

قرآن اپنا وصف خود پیش کررھا ھے. “کتاب” کے لفظ سے ظاھر ھے کہ اگرچہ تنزیل قرآن کی متفرق آیتوں کی شکل میں بحسبِ ضرورتِ وقت ھوتی تھی مگر کوئی ظرف مکان ایسا ضرور تھا جہاں ان تمام آیات کا مجموعہ کتابی شکل میں موجود تھا.آیتیں جو بھی نازل ھوتی تھیں وہ اُسی کتاب کے اجزاء کی حیثیت سے.
پھر اس کے علاوہ کچھ ایسی بھی وحی ھوتی تھی جو اس کتاب سے علٰیحدہ تھی.وہ جب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان اقدس پر آگئی ھے تو وھی “حدیث قدسی” کہلائی.
یہ خواہ بوقتِ تنزیل فرشتہ تصریح کردیتا ھو کہ وحی منجملہ قرآن ھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خداداد قوتِ امتیاز تھی جس سے وحی کے وہ حصے الگ رھتے تھے جو بطور قرآن نازل ھوئے ھوں اور وہ الگ کہ جو اس سے علٰیحدہ ھوں.
وحی اترتے ھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی صحابی کو بلا کر وہ آیات لکھوا دیتے تھے.اسی سے یہ ظاھر ھے کہ از اول قرآن مجید کا مکتوبی صورت سے محفوظ رکھا جانا ھی منظور الہی تھا.صرف حفظ اور قراءت پر اعتماد کرنا مقصود نہ تھا.نہ ایسا ھے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حسب موقع جو تعلیمات زبان پر لاتے رھے انہیں صحابہ نے بطور یادگار جمع کرلیا ھو. یہ حیثیت احادیث کے ان ذخیروں کی ھے جو محدثین کے یکجا کیے ھوئے موجود ھیں.قرآن کی کتابی صورت اس سے مختلف ھے.وہ خدا کی طرف سے مکتوبی شکل میں اگرچہ نازل نہیں کیاگیا مگر حیثیت اسے کتاب کی منجانب اللہ حاصل ھے کسی انسان کی طرف سے نہیں.
“اس کتاب میں شک کی کوئی گنجائش نہیں” اُن آیات اعجاز اور دلائل حقانیت کی بنا پر جو اس کے الفاظ (6) ، معانی (7) ، تنزیلی پس منظر (8) اور مرتب شدہ نتائج (9) سب میں مضمر ھیں.
نہ یہ کہ شک کرنے والے اُس میں نہیں ھیں (10).شک کرنے والے یا تو حقیقۃً ایسے ھیں کہ وہ دل میں شک نہیں رکھتے بلکہ جان بوجھ کر ازروئے عناد تصدیق سے گریز کرتے ھیں اور ایسے ھیں کہ جو مبتلائے غفلت ھیں اور ان دلائل پر غور نہیں کرتے اور اسی لیے اس کی ھدایت کی تاثیر سب میں نمودار نہیں ھوتی بلکہ ایک مخصوص جماعت میں نمودار ھوتی ھے جن کے اوصاف متقین اور اُس کے بعد کے لفظوں سے بیان کیے گئے ھیں.اگر اس میں شک رکھنے یا انکار کرنے والے موجود نہ ھوتے اور سب اُس پر یقین کی کیفیت کے ساتھ متوجہ ھوتے تو اس کی ھدایات سے سب فیض یاب کس لیے نہ ھوتے.
اُس سے فیض حاصل کرنے والے وھی ھونگے جو اُن ارشاد و ھدایت کی باتوں پر جنہیں قرآن پیش کرتا ھے غور کریں اور فائدہ اٹھانے کے قصد سے سنیں.رہ گئے سرکش مخالف یا بےپرواہ غافل وہ اس پر توجہ ھی نہ کریں گے تو ھدایت کا اثر کیا قبول کریں گے بلکہ ھٹ دھرم اور متعصب مخالف تو جتنا ھدایت کی باتیں زیادہ سنتے ھیں اتنا ھی کفر و عناد میں شدت اختیار کرتے جاتے ھیں. (11)
یہ وہ ھیں جن کےلیے نتیجۃً وہ باعث ھدایت ھونے کی بجائے زیادتئ مرض و ضلالت کا سبب ھوجاتا ھے جس میں قصور خود اُن کا ھے اس کتاب کا نہیں جو درحقیقت مجسمہ ھدایت ھے.
ع:
گرنہ بیندبروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ

 

 

اَلَذیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَلٰوة وَ مِمَارَزَقْنٰهمْ یُنْفِقُوْنَ 3
جو غیب پر ایمان رکھتے ھیں نماز اداکرتےھیں اورجو کچھ  ھم نے ان کو دیا ھےاس میں  سےخیرات کرتے ھیں”

اس جماعت کا جس نے قرآن سے فیض حاصل کیا جامع وصف “متقین” کے لفظ سے بیان ھوگیا. یہ اس کی تفصیل ھے.
“تقوٰی” کے معنی خوفناک انجام سے اپنا بچاؤ کرنے کے ھیں مگر متقی کا لفظ جس ڈر کو بتاتا ھے وہ کسی مادی نقصان یا ظاھری طاقت کا نہیں ھے بلکہ یہ ایک ان دیکھی ذاتِ خدا کی عظمت کا احساس اور اُس کی ناراضگی سے بچنا ھے.انسان جب اس سے ڈرتا ھے تو صحیح انسانی فرائض کے ادا کرنے کا خیال رکھتا ھے.پھر وہ دنیا کی طاقتوں سے نڈر ھو کر حقانیت کا پابند رھتا ھے.
حقیقت یہ ھے کہ مادی چیزوں کی حرص اور اُنکا خوف ھی اکثر سیدھے راستے سے ھٹانے کا باعث ھوتا ھے اور ظاھر ھے کہ آنکھوں کے سامنے جو آسکتے ھیں وہ یہی مادی نفع اور نقصان کے ذرائع ھیں.جتنا ان مشاھدات سے آدمی متاثر ھوگا اتنا ھی دولت ، کثرت اور طاقت کے اصنام کے سامنے جھکنے پر مائل ھوگا اور جتنا ان عالم شہود کے مظاھرے سے بے تعلق ھوگا اور ان سب کی طرف سے آنکھیں بند کرکے دل کی آنکھوں کو کھول کر ان دیکھی قوت کی طرف متوجہ ھوگا اتنا ھی اس نقطہ حق کے ساتھ وابستہ ھوگا جو اس سے عدل و احسان کے سوا کبھی برائی اور ناحق کوشی کا روادار نہیں ھوتا.اسی لیے قرآن نے متقین کے وصف میں سب سے پہلے “ایمان بالغیب” کو رکھا ھے کہ یہ سرچشمہ ھے تمام دوسرے اوصاف کا.اس میں مرکزی نقطہ تو حق سبحانہ کی ذات ھی ھے جو بہرصورت غیب الغیوب ھے مگر اس کے ساتھ مذھب سے متعلق تمام حقائق جن کا اعتقاد ضروری ھے داخل ھوجاتے ھیں کیونکہ وہ سب ھی کسی نہ کسی حیثیت سے غیب ھیں. (12(
مولوی عبدالماجد صاحب نے لکھا ھے “دین کا مغز کہیئے یا ایمان کی روح یہی عالم غیب کا عقیدہ ھے یعنی یہ اعتقاد کہ اس عالم مادی سے ماورا اس کائنات حسی سے اوپر کچھ اور ایک عالم ھے ضرور اور جو اس عالم کے وجود کا قائل نہیں وہ سرے سے مذھب ھی کا قائل نہیں”
ایسی صورت میں ظاھر ھے کہ امام غائب کے تسلیم کرنے میں بھی مومنین متقین کو کوئی عذر نہیں ھونا چاھیئے جو مسلمانوں کے درمیان سب سے آخری منزل امتحان ایمان کی بن گئی ھے.جیسا کہ امین الاسلام طبرسی نے لکھا ھے :
“ویدخل فیه ماء واہ اصحابنا من زمان غیبةالمھدی ووقت خروجه”
اور اس میں داخل ھے وہ جو ھمارے یہاں واردھواھے امام مہدی(عج) کی غیبت اور آپ کے ظہور کے وقت کے
بارے میں” (مجمع البیان)
اس سے علامہ رازی کا یہ اعتراض ختم ھو جاتا ھے کہ عام کی تخصیص بغیر دلیل درست نہیں ھے اس لیے کہ ھم کب اس کے قائل ھیں کہ غیب سے مراد بالخصوص یہی ھے بلکہ ھم اُسے ایک فرد کی حیثیت سے اس حکم عام میں داخل سمجھتے ھیں جیسا کہ ھمارے جدِاعلٰی جناب جنت مآب سید نقی صاحب قبلہ نے فرمایا ھے :
“لسنا نقول ان المراد بالغیب المھدی  لا غیر حتٰی یلزم تخصیص المطلق من  غیر دلیل بل نقول المراد به ماغاب عن  العبادعله من امورالدین کماعن الحسن  اد ماجاء عنداللہ کما عن ابن عباس وما جاء فی المھدی صلوات اللہ علیه داخل  فیه”
ھم یہ نہیں کہتے کہ غیب سے امام مہدی(عج)ھی مراد ھیں اورکچھ نہیں تاکہ مطلق کی تخصیص لازم آئے بغیر
دلیل بلکہ ھم یہ کہتے ھیں کہ اس سےمراد وہ دینی باتیں ھیں جوبندگان  الہی کی نگاہ سے اوجھل ھیں جیسا
کہ حسن کا قول ھے یاوہ جو اللہ کی  طرف سےآیاھےجیساکہ ابن عباس کا  قول ھےاور امام مہدی(عج)کےبارے میں جواحادیث وارد هوئیں وہ اس میں  داخل ھیں” (ینابیع الانوار)
پھر کوئی شیعہ اگر تخصیص کا قائل بھی ھو تو وہ بلا دلیل نہ ھوگا جبکہ اس بارے میں اُن ھستیوں کے ارشادات موجود ھیں جو دینی حیثیت کے دلیل قرار پانے کے لیے کافی ھیں. (13)
اعتقادات کی اصل یعنی “ایمان بالغیب” کو ذکر کرنے کے بعد دو وصف اعمال سے متعلق ذکر کیے ھیں جو دو شعبوں کی نمائندگی کرتے ھیں :

*- اول : انفرادی فرائض یعنی حقوق اللہ
ان میں سب سے اھم نماز ھے جس کے لیے قرآن مجید میں ھے کہ یہ تمام برائیوں سے روکنے والی چیز ھے.(14)
اور حدیث میں ھے :
“ان قبلت ماسوا ها و ان ردت  ماسوا ها”
اگر یہ قبول تو سب اعمال  قبول اور یہ مسترد تو سب  اعمال مسترد”

*- دوسرے اجتماعی فرائض یعنی حقوق الناس
ان میں انفاق کی صفت کا ذکر کیا گیا ھے جو خلق خدا کو ھر طرح کے فائدے پہنچانے پر شامل ھے.(15) جس طرح اس میں مال ودولت داخل ھے جو رزقِ جسمانی کا ذریعہ ھے اسی طرح علم و معرفت جو رزقِ روحانی ھے.اسی لیے آئمہ اھلبیت علیہم السلام سے اس کے معنی وارد ھوئے ھیں :
“ومماعلمناهم یثبون”
اور ھم نے جو تعلیم دی ھے  اُنہیں وہ اسکی اشاعت کرتے  ھیں”
اسے علی بن ابراھیم قمی نے اپنی تفسیر میں وارد کیا ھے اور علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں بروایت محمد بن مسلم امام جعفر الصادق علیہ السلام سے نقل کیا ھے.

“وَالَذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ° وَبِالاٰخِرَةِ  همْ یُوْقِنُوْنَ 4
اور جو ایمان رکھتے ھیں اس پر جو آپ (ص) پر نازل کیا گیا ھےاور جو آپ(ص) سے پہلے نازل کیا گیا تھا اور آخرت کا یقین رکھتے ھیں”

ان ھی متقین کے متعلق جن کے لیے قرآن فیض رساں ثابت ھوتا ھے اوصاف کا ایک دوسرا سلسلہ ھے پہلے اوصاف وہ تھے جو بذاتِ خود اُن کے بیش قیمت ذاتی جواھر ھیں یعنی غیب پر ایمان ، حقوق اللہ اور حقوق الناس سب کی ادائیگی اب یہ ان کے وہ اوصاف امتیازی ھیں جو روسری جماعتوں کے تقابل سے اُن میں نمایاں ھیں.پہلی بات یہ ھے کہ اُن کے بالمقابل جتنی دوسری جماعتیں ھیں ان کی صفت امتیازی انکار ھے.ایک طرف مشرکین ھیں جو خدا ھی کے منکر ھیں یا اس کے انبیاء پر نازل شدہ تمام ھی تعلیمات کے منکر ھیں اور کسی بھی شریعت و کتاب کے پابند نہیں ھیں.اسی لیے وہ “اھلِ کتاب” نہیں کہلاتے.وہ کسی “ماانزل” پر نہ ایمان رکھتے ھیں اور نہ ھی اس کے دعویدار ھیں.
دوسری طرف “اھلِ کتاب” یعنی یہود و نصارٰی ھیں.یہ فی الجملہ “ماانزل” پر ایمان کے مدعی ھیں مگر ان میں سے پہلا گروہ یہود ، وہ موسٰی علیہ السلام پر نازل شدہ توریت تک تو تسلیم کرتا ھے مگر عیسٰی علیہ السلام اور اُن پر نازل شدہ انجیل اور پھر اس کے بعد کا منکر ھے.دوسرا گروہ نصارٰی وہ بخیالِ خود سہی عیسٰی علیہ السلام اور اُن کی انجیل تک مانتا ھے لیکن حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اُن پر نازل شدہ شریعت و کتاب کا انکار کرتا ھے.تو جہاں تک “ایمان بماانزل” کی صفت کا تعلق ھے مخالف جماعتوں میں سے کچھ میں تو سرے سے مفقود ھے جیسے دھریین اور مشرکین اور کچھ میں وہ ایمان اس طرح ھے کہ بعض کا ایمان اور بعض کا کفر.مگر اس جماعت کا جو قرآن سے ھدایت قبول کرنے والی ھے خاص وصف یہ ھے کہ ان کے یہاں ایمان ھی ایمان ھے.یہ اس ایمان کے بھی حامل ھیں جس کے یہود مدعی ھیں ، اس ایمان کے بھی جس کے نصارٰی مدعی ھیں اور پھر اس کے آگے یہ اس کتاب و شریعت پر بھی ایمان رکھتے ھیں جو حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ھوئی ھے.
قرآن کی ھدایت سے ھر مسلمان اس کا اعتقاد رکھتا ھے کہ ابتدائے دورِ کائنات سے ھر قوم اور ھر ملک میں اللہ نے ھادیان دین پیدا کیے ھیں اور ان کی حقانیت پر “ایمان جزوِ اسلام” ھے.
بےشک ان میں سے جن جن کے نام قرآن کریم میں آگئے ھیں اُن کی رسالت پر بالتفصیل ایمان ھے لیکن جن کے نام نہیں آئے ھیں اور ھمارے لیے کوئی قابلِ اطمینان ذریعہ اُن کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا نہیں ھے ان کی رسالت کا ھم نام بنام یقین نہیں کرسکتے.پھر بھی اجمالی طور پر اس کا اعتقاد رکھتے ھیں کہ جو بھی رھ نمایانِ دین جس ملک میں آئے وہ سچے تھے.اور اسی لیے اُن مذاھب کے قدیم پیشواؤں کے بارے میں جن کے نام ان اھلِ مذاھب کی زبانی سنے جاتے ھیں ، ایک مسلمان کی یہ شان نہیں ھے کہ وہ کوئی کلمہ نازیبا اور توھین آمیز جملہ زبان پر لائے جبکہ احتمال ھے کہ وہ بھی اُن سچے رھبرانِ دین میں سے ھو جن پر ایمان ازروئے قرآن لازم ھے.
دوسری صفت یہ ھے کہ وہ روزِآخرت پر یقین رکھتے ھیں.یقین وہ راسخ اعتقاد ھوتا ھے جو انسان کے عمل پر لازمی طور سے اثرانداز ھوتا ھے.دوسری جماعتوں میں مشرکین و ملاحدہ کو اس زندگی کے بعد کسی دوسرے دور کا تصور ھی نہیں ھے اور وہ اس مرکز عدالت ھی کے قائل نہیں ھیں جو جزاء و سزا کے دینے کا حقدار ھے.یہود کے یہاں جزاء و سزا کا تصور اس موجودہ توریت کی رو سے جو اُن کے یہاں متداول ھے دنیوی ھے.توریت میں کفر و عصیاں کی سزا میں جو دھمکیاں دی گئی ھیں وہ کھیتوں کے جل جانے عمریں کم ھوجانے اور اسی طرح کی دوسری باتوں کے قبیل سے ھیں.اس کا نتیجہ یہ ھے کہ انسان مادی تحفظات کرنے کے بعد بہت حد تک مطمئن ھوجاتا ھے.
عیسائیوں نے جزاء و سزا کے عقیدے کو فدیہ مسیح کا اعتقاد قائم کرکے بالکل ختم کردیا.اب انہیں اصلاحِ عمل کی ضرورت ھی باقی نہ رھی.
مسلمان ازروئے آیاتِ قرآن اس دورِحیاتِ دنیا کو عبوری سمجھتا اور آخرت کی منزل کو جزاء و سزا کا مرکز جان کر ھر اس اقدام سے باز رھتا ھے جو ظلم و ستم اور طغیان و عدوان میں داخل ھو خواہ اس سے دنیوی زندگی میں کتنی ھی بڑی کامیابی حاصل ھو اور عدالت و انصاف ، سچائی اور امانت داری بلکہ ایثار و قربانی تک کے لیے آمادہ رھتا ھے چاھے اس میں کتنا ھی اُسے نقصان کہ دنیوی تباھی تک سے دوچار ھونا پڑے.
یہ زندگی وہ ھے جو آخرت کے سچے یقین کا لازمی نتیجہ ھے اور اگر مسلمان کی زندگی میں یہ توازن و اعتدال نظر نہ آئے تو اس کے معنی یہ ھیں کہ وہ زبان سے اصول عقائد کا مقر ھے مگر دل میں اس کے یقینِ آخرت کا شائبہ تک نہیں ھے.

“اُوْلئٰك عَلٰی هدًی مِنْ رَبِهمْ ^ وَ اُوْلَئٰكَ همُ الْمُفْلِحُوْنَ 5”
یہ ھوتےھیں وہ جواپنے رب کی ھدایت پر قائم ھوں اور یہ ھیں وہ جوھر حیثیت سے بہتری پانے والے ھیں”
بطور اثر سے موثر پر استدلال کے جسے منطق میں “برھان انی” کہتے ھیں اس جماعت کو دکھلا کر قرآنی ھدایات کی رفعت کا ثبوت پیش کیا جارھا ھے.
کاش آج بھی ایسے مسلمان نظر آئیں جنہیں فخر کے دنیا کے سامنے پیش کرکے انہیں اسلامی تعلیمات کی رفعت پر غور کرنے کی دعوت دی جاسکے.اور یہی اصلی اور مؤثر تبلیغ ھے “کونوا دعاة بانفسکم قبل السنتکم”
“فلاح” کے لفظ کے ترجمہ میں “ھر حیثیت سے بہتری” لکھنا اردو میں اس کے ترجمہ کےلیے کوئی واحد لفظ دست یاب نہ ھونے کا نتیجہ ھے.اھلِ لغت کا قول ھے کہ کلامِ عرب میں جامعیتِ خیر کے لیے “فلاح” سے بڑھ کر کوئی لفظ موجود نہیں ھے.(16(
__________________________________
(1). مائتان وثمانون وست اٰیات مدنیة (تفسیر کبیرج:1) مائتان وست وثمانون فی العدد الکوفی وهو العدد المروی عن امیرالمومنین علیه السلام (مجمع البیان ج:1(
(2). روی ان فی البقرة خمس مائۃ حکم (علی بن ابراھیم)
(3). اس آیت کی تشریح و تفسیر کےلیے اسی سلسلہ “فہم القرآن” کی قسط نمبر 73/74 ملاحظہ کیجیئے.
(4). انکے دلوں میں کجی هے (آل عمران)
(5). الریب تویب من الشك وفیه زیادة كانه
(6). فصاحت و بلاغت
(7). ان حقائق و معانی کا بیان جن سے اس وقت دنیا ناواقف تهی
(8). اس کا رسول امی (ص) کے ذریعہ سے پیش ھونا جس نے امیین ھی کے درمیان پرورش پائی تھی
(9). اس کے ادعائے اعجاز کے مقابلہ میں مخالف طاقتوں کی سپرانداختگی اور دائمی عاجزی
(10). مانفی ان احد الایرتاب فیه وانما المنفی کونه متعلقاللریب ومظنة له لانه من ضوح الدلالة وسطوع البرهان بحيث لا ينبغی لمرتاب ان یقع فیه (نیشاپوری)
(11). فالمؤمن به هتدوالكافربه محجوج (جامع البیان للطبری)
(12). یدخل فیه العلم بالله تعالی وبصفاته والعلم بالاخرة والعلم بالنبوة والعلم بالاحكام والشرائع. (رازی)
(13). جناب شیخ صدوق محمد بن علی بابویہ قمی (رض) نے اپنی جلیل القدر کتاب “اکمال الدین” میں اس بارے میں امام جعفر الصادق علیہ السلام کی کئی حدیثیں درج فرمائی هیں.
(14). ان الصلوة تنهی عن الفحشاء والمنکر. (العنکبوت #45)
(15). الظاهر ان الایة تعم جمیع انواع الصدقة. (ینابیع الانوار)
(16). لیس فی کلام العرب کله اجمع من لفظة الفلاح لخيرالدنيا والاخرة كما قال ائمۃ اللسان (تاج العروس للزبیدی)

تبصرے
Loading...