تشنہ لب ساقی کربلا کی شہادت کا واقعہ

حضرت ابا الفضل العباس بن علی بن ابی طالب، ایک خوبصورت اور رشید القامت جوان تھے، آپ کی خوبصورتی اور خوش سیمائی کی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ آپ بے نظیر شجاعت، دلیری اور جنگی فنون میں انتہائی درجہ کی مہارت رکھتے تھے اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے جب کربلا میں جنگ کے لیے مختصر افراد پر مشتمل

حضرت ابا الفضل العباس بن علی بن ابی طالب، ایک خوبصورت اور رشید القامت جوان تھے، آپ کی خوبصورتی اور خوش سیمائی کی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ آپ بے نظیر شجاعت، دلیری اور جنگی فنون میں انتہائی درجہ کی مہارت رکھتے تھے اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے جب کربلا میں جنگ کے لیے مختصر افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا تو آپ کو اپنے لشکر کا علمدار بنایا اور پرچم آپ کے ہاتھ میں دیا۔
حضرت عباس علیہ السلام کو شجاعت اور بہادری اپنے آباؤ و اجداد سے ورثے میں ملی، آپ کے باپ اسد اللہ الغالب تھے جبکہ ماں کا تعلق عرب کے شجاع ترین خاندان بنی کلاب سے تھا۔
معتبر تاریخی منابع میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا(س) نے اپنی شہادت سے چند روز قبل امیر المومنین علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد کسی اچھے خاندان میں شادی کر لینا۔
جناب زہرا سلام علیہا کی شہادت اور ان ناگوار واقعات کے کچھ عرصہ بعد حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل سے مشورہ کیا کہ آپ کے لیے کسی ایسے خاندان کی عورت تلاش کریں جو شجاعت اور بہادری میں نامدار ہو تاکہ اس سے ایک بہادر اور دلیر بچہ دنیا میں آئے۔
جناب عقیل نے عرب کے معروف شجاع خاندان بنی کلاب کی خاتون فاطمہ بن حزام بن خالد کو آپ کی زوجیت کے لیے انتخاب کیا اور کہا: عرب میں اس کے اباؤ و اجداد سے زیادہ کوئی بہادر اور جنگجو نہیں ہے۔ امیر المومنین اور فاطمہ بن حزام کے درمیان عقد نکاح انجام پایا اور فاطمہ بن حزام کو اس شادی سے چار بیٹے اللہ نے عطا کئے’’ عباس‘‘، ’’عبد اللہ‘‘، ’’جعفر‘‘ اور’’ عثمان‘‘ اسی وجہ سے فاطمہ بن حزام کو ام البنین کا لقب دیا گیا۔
شاید اس دور میں کوئی امیر المومنین کے اس انتخاب کی وجہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا لیکن امیر المومنین حال کے آئینے میں مستقبل کو دیکھ رہے تھے، آپ کے اس اہتمام کا راز اس وقت سمجھ میں آیا جب زہرا کا لخت جگر کربلا میں بے یار و مددگار نرغہ اعداء میں گھرا تو ام البنین کے لاڈلوں نے ایک ایک کر کے خود کو حسین پر قربان کیا۔ خاص طور پر حضرت ابو الفضل العباس(ع) نے شجاعت اور وفاداری کے وہ جوہر دکھلائے جو تاریخ قیامت تک نہیں بھول سکتی۔
نو محرم کو شمر بن ذی الجوشن نے عبید اللہ بن زیاد کے حکم سے امام حسین (ع) پر حملہ کیا، شمر جو خود بھی قبیلہ بنی کلاب سے تھا اور خود کو جناب ام البنین کا قرابتدار سمجھتا تھا جناب عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے امان نامہ لے کر آیا تاکہ اپنے خیال خام سے انہیں امام حسین علیہ السلام سے الگ کر لے اور امام کو اس طرح کمزور بنا کر انہیں یزید کی بیعت پر مجبور کرے۔
درحقیقت شمر عباس (ع) اور ان کے سگے بھائیوں کا دور کا رشتہ دار سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ وہ نویں محرم کے آخری ساعات میں پھر خیام حسین (ع) کے قریب آیا اور آواز دی: “میرے بھانجے کہاں ہیں؟” عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان علیہم السلام باہر آئے اور کہنے لگے:
“کیا چاہتے ہو؟”
شمر نے کہا:
“میں تمہارے لئے امان نامہ لایا ہوں۔ تم امان میں ہو!”
چاروں بھائیوں نے جواب دیا:
“لعنت ہو تم پر اور تمہارے امان نامے پر۔ کیا تم ہمیں امان دینا چاہتے ہو جبکہ فرزند رسول (ص) کے لئے امان نہیں ہے؟!” عباس (ع) نے شیر غراں کی مانند گرجدار آواز میں ساتھ جواب دیا:
“تیرے ہاتھ کٹ جائیں کہ تم کیا برا امان نامہ لائے ہو!، اے دشمن خدا!، کیا تم ہم سے چاہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی، سید و آقا حسین فرزند زہرا (س) کو چھوڑ دیں؟ اور لعینوں اور لعین زادوں کی فرمانبرداری قبول کریں؟”۔ شمر نہایت غصے میں اپنی لشکرگاہ کی طرف لوٹا۔
عصر عاشور، وہ وقت بھی آیا جب تمام اصحاب و انصار اور اہل بیت (ع) شہید ہوئے تھے اور صرف حسین(ع) اور عباس – علیہماالسلام – باقی تھے۔ عباس سے اپنے بھائی کی تنہائی نہ دیکھی گئی اور اپنے امام اور بھائی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
عرض کیا: “ جان برادر! اجازت دیں گے کہ میں بھی جہاد کے لئے چلا جاؤں؟”
امام (ع) نے شدت سے گریہ کیا اور فرمایا: “بھائی جان! تم میرے علمدار ہو اور جاؤگے تو قافلہ منتشر ہوجائے گا”۔
عباس نے عرض کیا: “میرا سینہ تنگ ہوچکا ہے اور مزید جینے سے بیزار ہوچکا ہوں اور ان منافقین سے خون کا انتقام لینا چاہتا ہوں”۔
اجازت ملی تو علی و حسن و حسین علیہم السلام کی آغوش میں پرورش پانے والے عباس لشکر یزید کے مقابل کھڑے ہوئے انہیں نصیحت کی اور انہیں ان کے عمل کی انجام سے خبردار کیا مگر وہ سنگدل، سنگدل ہی رہے اور ان کے دلوں پر علمدار کربلا کے کلام کا کوئی اثر نہیں ہؤا۔
عباس (ع) ایک بار پھر خیموں کی جانب لوٹ آئے اور بھائی کو اپنے اقدام کی خبر دی۔ اس حال میں عباس (ع) کو ایک صدا آئی، پیاسے بچوں کے رونے بلکنے کی صدا سنائی دے رہی تھی۔ بچے “العطش، العطش” کی صدا بلند کررہے تھے۔
عباس (ع) اب ساقی بن کر میدان کی طرف جانا چاہ رہے تھے چنانچہ نیزہ اور مشک اٹھا کر رجز پڑھتے پڑھتے فرات کی جانب روانہ ہوئے:
لا ارہب الموت اذا الموت زقا
حتی اواری فی المصالیت لقا
نفسی لنفس المصطفی الطہر وقا
انی انا العباس اغدو بالسقا
ولا اخاف الشر یوم الملتقی
یعنی: میں اس ندا دینے والی موت سے نہیں ڈرتا
جب تک کہ کارآزمودہ مَردوں کے درمیان گر پڑوں اور خاک میں نہاں ہوجاؤں
میری جان ڈھال ہے مصطفی (ص) کی جان گرامی (حسین (ع) کی
میں ہوں، عباس! مشک لے کر آرہا ہوں
اور میں جنگ کے دن کسی شر سے خائف نہیں ہوا کرتا
لشکر یزید کے چار ہزار اشقیاء مقابلے پر آئے۔ یہ اشقیاء درحقیقت عباس کو پانی خیموں تک پہنچانے سے روکنا چاہتے تھے۔ وہ حملہ کررہے تھے او تیر پھینک رہے تھے تا کہ عباس (ع) یعنی تک نہ پہنچ سکیں۔ عباس (ع) نے طویل جنگ لڑی اور بدن پر پیاس کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ کا بوجھ بھی تھا کہ فرات کے آب رواں میں وارد ہوئے۔ پانی گھوڑے کے پیروں کے نیچے جاری تھا عباس نے پانی اپنی ہتھیلیوں میں بھرکر اٹھایا اور ہونٹوں کے قریب لے گئے مگر امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی پیاس یاد آئی چنانچہ پانی پئے بغیر مشک پانی سے بھرکر اپنے دائیں کندھے پر لادا اور گھوڑے کا رخ خیموں کی جانب کرکے روانہ ہوئے۔
یزیدی دشمن بچوں تک ایک قطرہ پانے پہنچنے کے بھی خلاف اور اس سے خائف تھے چنانچہ انھوں نے عباس علیہ السلام کا راستہ بند کردیا اور ہر جانب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ عباس (ع) نے ان کے خلاف شدید لڑائی لڑی یہاں تک کہ ایک شقی یزیدی نے اپنی تلوار سے ان ان کا دایاں ہاتھ قطع کردیا اور عباس قہرمان نے فرمایا:
واللہ ان قطعتموا يميني
اني احامي ابدا عن ديني
و عن امام صادق اليقين
نجل النبي الطاہر الامين

اس کے بعد مشک کو بائیں ہاتھ میں تھاما اور دشمنوں کے درمیان سے خیام کی طرف راستہ جاری رکھا اچانک ایک اور شقی نے وار کیا اور آپ کا بائیاں بازو بھی قلم کر دیا۔

جناب عباس نے مشک کو دانتوں میں لیا اور پانی کو خیموں تک پہنچانے کی کوشش جاری رکھی۔

لیکن ہوا میں لہراتا ہوا ایک ایسا تیر آیا جس نے عباس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا مشک سکینہ چھد گئی اور سارا پانی زمین پر بہہ گیا۔ عباس مایوس ہو گئے گھوڑے کو موڑ لیا۔

اب دوسرا تیر آپ کے سینے پر پیوست ہوا ( یا بعض روایتوں کے مطابق آپ کی آنکھ میں لگا جس کو نکالنے کے لیے آپ جھکے کہ گھٹنوں میں دبا کر تیر کو آنکھ سے نکالیں کہ ایک شقی نے آہنی گرز آپ کے سر مبارک پر مار دیا بابا علی کی طرح بیٹے کا سر بھی شگافتہ ہو گیا عباس گھوڑے پر سنبھل نہ سکے بن بازوں عباس گھوڑے سے زمین پر گرے۔۔۔۔۔

آواز دی: یا اخاہ ادرک اخاہ۔ بھیا بھائی کی مدد کیجیے۔

امام نے خود کو بھائی کے بن بازوں لاشے پر پہنچایا اور آواز دی الآن انکسر ظھری و قلت حیلتی۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور ۔۔۔۔

الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

تبصرے
Loading...