تربت سید الشہدا(ع) کے چند فضائل

سرزمین کربلا کو برتری اور فضیلت نہ صرف سید الشہدا (ع) کی شہادت سے حاصل ہوئی بلکہ آپ (ع) کی شہادت سے پہلے بھی یہ زمین فضیلت کی حامل تھی امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اس سر زمین میں سینکڑوں انبیاء اور ان کی اولادیں مدفون ہیں سید الشہدا مظلوم کربلا(ع) کے پاک خون نے تو اس کی فضیلت میں چار چاند لگا دئے، شہادت امام حسین(ع) سے تو یہ زمین ” ذالک و من یعظم حرمات اللہ فھو خیر لہ عند ربہ‘‘(حج،۳۰) اور ” من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب‘‘(حج،۳۲) کا مصداق بن گئی۔

بقلم: افتخار علی جعفری

تربت سید الشہدا(ع) کے چند فضائل
اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں برابر نہیں ہیں۔ بعض کوبعض پر فضیلت حاصل ہے نباتات جمادات سے افضل ہیں، حیوانات نباتات سے افضل اور انسان حیوانوں سے افضل ہیں۔ حتیٰ ایک صنف کے اندر بھی سب برابر نہیں ہیں انسانوں میں بعض انسان دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں، حیوانات بھی سب کے سب برابرنہیں ہیں حتی بعض حیوان بعض انسانوں سے بہتر ہیں اصحاب کہف کا کتا نجس ہونے کے باوجود کتنے انسانوں سے افضل ہے نباتات میں بھی سب ایک درجہ پر نہیں ہیں بلکہ بعض درخت دوسرے درختوں پر فضیلت رکھتے ہیں درخت طوبیٰ تمام درختوں سے افضل ہے۔ اسی طرح جمادات بھی سب کے سب برابر نہیں ہیں حجر اسود ایک پتھر ہونے کے باوجود تمام پتھروں بلکہ بعض انسانوں سے بھی افضل ہے۔ خانہ کعبہ کی زمین کا تمام کرہ ارض کی زمین پر برتری رکھنا ناقابل انکار ہے۔ مدینہ منورہ، نجف اشرف اور کربلائے معلی وہ سر زمینیں ہیں جو خانہ کعبہ کے بعد باقی تمام زمینوں پر فضیلت اور برتری رکھتی ہیں۔ لہذا اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کائنات میں افضل و مفضول کا قانون حاکم فرما ہے۔
ہمارا موضوع سخن کربلا کی سر زمین ہے جس کو برتری اور فضیلت نہ صرف سید الشہدا (ع) کی شہادت سے حاصل ہوئی بلکہ آپ (ع) کی شہادت سے پہلے بھی یہ زمین فضیلت کی حامل تھی امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اس سر زمین میں سینکڑوں انبیاء اور ان کی اولادیں مدفون ہیں سید الشہدا مظلوم کربلا(ع) کے پاک خون نے تو اس کی فضیلت میں چار چاند لگا دئے، شہادت امام حسین(ع) سے تو یہ زمین ” ذالک و من یعظم حرمات اللہ فھو خیر لہ عند ربہ‘‘(حج،۳۰) اور ” من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب‘‘(حج،۳۲) کا مصداق بن گئی۔
کربلا کی زمین وہ زمین ہے جہاں کی ایک مٹھی خاک شیعہ سنی متفق علیہ احادیث کے مطابق جناب جبرئیل(ع) نے حضرت رسول خدا(ص) کو دی اور فرمایا اس سر زمین پر آپ کا نواسہ حسین شہید کر دیا جائے گا آپ نے اس کا بوسہ لیا اور اسے سونگھنے کے بعد گریہ فرمانے لگے کہ اس سے میرے حسین (ع) کے خون کی خوشبو آرہی ہے اس کے بعد اسے جناب ام سلمہ کو دے دیا اور انہوں نے اسے شیشی میں بند کر کے اپنے پاس رکھ دیا۔( مقتل خوارزمی، ج۱، ص۲۳۳)
تربت کربلا طول تاریخ میں تمام مسلمانوں کے نزدیک مورد احترام واقع رہی ہے اور تمام مسلمان اس سے شفا حاصل کرتے اور اس کی سجدہ گاہ بنا کراپنی نمازوں میں اس پر سجدہ کرتے رہے ہیں۔
یہاں پر اس عظیم تربت کے چند فضائل اور کمالات بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:
۱: خاک کربلا میں شفا
متواتر روایات میں منقول ہے کہ سید الشہداء (ع) کی قبر مبارک کی تربت لا علاج بیماریوں کے لیے شفا ہے اور اس مدعیٰ کو ثابت کرنے والے بہت سارے ایسے واقعات و حادثات تاریخ میں موجود ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طول تاریخ میں اس خاک کے ذریعے لوگ اپنی لاعلاج بیماریوں سے چھٹکارا پاتے رہے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی روایت میں بیان ہوا ہے کہ ”طین قبر الحسین(ع) شفاء من کل داء‘‘ تربت قبر امام حسین (ع) ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: فی طین قبر الحسین الشفاء من کل داء و ھو الدواء الاکبر‘‘۔ امام حسین (ع) کی قبر کی خاک میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے اور وہ سب سے بڑی دوا ہے۔(کامل الزیارات، ص۲۷۵،باب ۹۱،ح۳)
اس طرح کی بہت ساری روایتیں موجود ہیں جن میں خاک کربلا کو شفا کے عنوان سے بتایا گیا ہے اور ہمیشہ طول تاریخ میں لوگ اس سے شفا حاصل کرتے رہیں ہیں جیسا کہ یہاں پر مختصرا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں:
امام باقر اور امام صادق علیہا السلام کے ایک صحابی محمد بن مسلم ایک دن بیمار ہو گئے امام باقر علیہ السلام کو جب ان کے مریض ہونے کی خبر ہوئی تو آپ نے خاک کربلا کو پانی میں گول کر اپنے غلام کے ہاتھ ان کے لیے بھیج دیا۔ محمد بن مسلم نے جب پانی پیا تو ایسا محسوس ہوا کہ انتہائی مزے دار پانی ہے۔ غلام نے کہا کہ ہمارے امام نے بھجوایا ہے جب اسے پی لو تو ان کی خدمت میں حاضر ہونا۔ محمد بن مسلم سوچنے لگے کہ میں تو مریض ہوں کیسے امام نے مجھے طلب کیا ہے۔ پانی پینے کےکچھ دیر بعد انہوں نے احساس کیا کہ درد ان کے بدن سے دھیرے دھیرے دور ہو رہا ہے آخر کار کچھ ہی دیر میں درد بدن سے دور ہو گیا اور وہ تر و تازہ اٹھ کر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام کے پاس پہنچتے ہی محمد بن مسلم رونے لگے: مولا میں آپ کی حضور میں آنا چاہتا ہوں پر راستہ لمبا ہے اور جسم کمزور۔ امام نے فرمایا تم نے اس پانی کو پیا کیسا محسوس کیا اس کے بعد؟ ابن مسلم نے شکریہ ادا کرنے کے بعد کہ اسی پانی کی وجہ سے تو میں یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ میں بستر بیماری سے اٹھنے کے قابل کہاں تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اس پانی میں میرے جد حسین(ع) کی تربت ملی ہوئی تھی تو بہترین شفا بخش ہے۔ کبھی بھی اس کی نسبت بے توجہی سے کام نہ لینا ہمارے بچے اور عورتیں اس کو پانی میں ملا کر پیتے ہیں جس کی وجہ سے ہر بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔(کامل الزیارات، ص۲۷۵ ح۱)
۲: خطرات سے حفاظت
تربت امام حسین (ع) کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے امام رضا علیہ السلام نے لباس کا ایک صندوقچہ ایک آدمی کی طرف بھیجا اس میں کپڑوں کے ساتھ تھوڑی سے خاک کربلا بھی رکھ دی۔ اس شخص نے پرس و جو کی کہ کیوں امام (ع) نے کپڑوں کے ساتھ خاک کربلا کو بھجوایا ہے تو معلوم ہوا کہ امام (ع) نے فرمایا کہ تربت کربلا انسان کو ہر طرح کے خطروں سے امان میں رکھتی ہے جیسا کہ امام صادق (ع) نے بھی فرمایا: امام حسین (ع) کی قبر کی خاک میں شفا بھی ہے اور ہر خوف سے امان بھی۔( کامل الزیارات، ص۲۷۸، باب ۹۲،حدیث ۱)
۳: خاک کربلا پر سجدہ مستحب
سجدہ کے لیے سب سے زیادہ باارزش، قیمتی اور حائز اہمیت چیز خاک کربلا ہے۔ تمام ائمہ اطہار(ع) نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ حتی المقدور سجدہ، خاک کربلا پر کیا جائے اور وہ خود بھی ہمیشہ سجدہ خاک شفا پر کیا کرتے تھے۔ معاویۃ ابن عمار کا کہنا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے پاس زرد رنگ کا ایک رومال تھا جس میں خاک شفا رکھی ہوئی تھی اور جب نماز کا وقت آتا تھا تو آپ اسی پر سجدہ کرتے تھے۔
خاک کربلا پر سجدہ کرنا امام زین العابدین (ع) کی سنت ہے تاریخ میں ہے کہ جب آپ نے سید الشہداء(ع) کو دفن کر دیا تو آپ کی قبر مبارک سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور اس کی سجدہ گاہ بنا کر اپنے پاس رکھ لی اور ہمیشہ اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ آپ کے بعد دیگر ائمہ بھی ہمیشہ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام سوائے خاک کربلا کے کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے۔( بحار الانوار، ج۱۰۱، ص۱۵۸)
۴: کربلا کی خاک خود تسبیح پڑھتی ہے
خاک کربلا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ خود بخود تسبیح پڑھتی ہے چاہے کوئی اس پر تسبیح پڑھے یا نہ پڑھے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: السجود علی طین قبر الحسین(ع) ینور الی الارضین السبعہ و من کانت معہ سبحۃ من طین قبر الحسین(ع) کتب مسبحا ان لم یسبح بھا‘‘ (وسائل الشیعہ، ج۱۳،ص۶۰۷)
قبر امام حسین(ع) کی خاک پر سجدہ سات زمینوں کو روشن کر دیتا ہے اور وہ شخص جس کے پاس خاک کربلا کی تسبیح ہو اس کے نامہ اعمال میں تسبیح پڑھنے کا ثواب لکھا جائے گا اگر چہ وہ اس کے ساتھ تسبیح نہ پڑھے۔
دوسری جگہ پھر آپ سے منقول ہے کہ السبحہ التی ھی من طین قبر الحسین تسبح بید الرجل من غیر ان یسبح‘‘۔ (بحار الانوار، ج۱۰۱ ص۱۳۳)
وہ تسبیح جو خاک کربلا سے بنی ہو انسان کے ہاتھ میں تسبیح پڑھتی رہتی ہے اگر چہ انسان خود اس پر تسبیح نہ پڑھے۔

 

تبصرے
Loading...