تدوین قرآن کا پس منظر

قرآن کی جمع آوری کے متعلق کئی اقوال اورنظریے موجود ہیں، اور قرآن کی تدوین اور جمع آوری کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے ،علوم قرآن کے مباحث میں اس بحث کو مرکزیت حاصل ہونے کے باوجود بہت سارے محققین نے اعتراف کیاہے کہ یہ مسئلہ علوم قرآن کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے جس کے متعلق امت مسلمہ کو کڑی نظر سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور مسلمین تحریف اور کورکورانہ عقیدہ اور اندھی تقلید سے نجات حاصل کر سکے، کیونکہ ایک طرف سے تمام مسلمین کا اجماع ہے کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، جو بشر کے لئے تا قیام قیامت ضابطہ حیات ہے ،خود اللہ نے فرمایا :”انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون” ” ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں”یا دوسری آیت میں فرمایا: ”ان علینا جمعہ و قرآنہ ””بیشک اسکا جمع کرنا اور قرائت کرنا ہم پر فرض ہے”( قیامت/١٧)
نیز فریقین کے علوم قرآن کے ماہرین نے کاتبین وحی کے اسامی اپنے مقالات اور کتابوں میں مفصل بیان کئے ہیں،حتی لکھا گیا ہے کہ اصحاب میں سے ایک وفد کاتبین وحی کے لقب سے معروف اور مشہور تھا۔
اور بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: عبداللہ قرآن کو ایک مہینے میں مکمل کرو اسوقت مےں نے کہا اس سے زیادہ قدرت ہو تو آنحضرت ؐنے فرمایا ہر دس دن کے بعد مکمل کرو، میں نے کہا اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہو تو آنحضرت(ص) نے فرمایا ہر ہفتہ میں مکمل کرو اس سے زیادہ نہ کرو،(نقل شناخت قرآن ص١٠٧)
جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طبیہ میں ہوئی تھی ، نیز عین اسی کہانی کو ابو عبیدہ نے قیس بن ابی صعصعہ کے بارے میں نقل کیاہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قیس بن ابی صعصعہ سے پوچھاتم قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کرتے ہو؟ اس نے کہا چالیس دنوں میں ختم کرتاہوں(شناخت قرآن،ص١٠٨)
اور اسی روایت کی بنا پر امام احمد بن حنبل نے کہاہے کہ چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی میں جمع آوری اور تدوین ہوئی تھی ،بخاری اور ابو داود اورنسائی نے روایت کی ہے۔
ابو سعید العلاء نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھا رہاتھا اتنے میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا (نماز سے) فارغ ہونے کے بعد آپ کی خدمت میں گیا اور کہا یا رسول اللہؐ میں نماز پڑھا رہا تھا، اس وقت آپ نے فرمایا مگر اللہ نے نہیں فرمایا :” یا ایہاالذین آمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم”” یعنی اے ایمان والو جب تمہیں خدا اور اس کا رسولؐ نے بلائے تو جواب دو ” اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا کیا میں تجھے ایسا کوئی سورۃ نہ بتا دوںجو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہے،(بخاری،نسائی)اس روایت سے بظاہر معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و جمع آوری پیامبر اکرم (ص) کی حیات میں ہو چکی تھی۔ ابن عباس سے روایت ہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا کونسا عمل اللہ کی نظر میں زیادہ محبوب ہے ؟ آنحضرت ؐنے فرمایا کہ قرآن کے آغاز سے آخر تک تلاوت کرنا اللہ کی نظر میںزیادہ محبوب ہے۔(ترمذی ج٣ص٩)
ان کے علاوہ بہت سی روایات بخاری اور دیگر محققین نے نقل کی ہیں کہ جن میں لفظ قرآن کی تلاوت یا قرآن جمع کرنے والے افراد کا نام مذکور ہے ایسے الفاظ سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہی ہوئی تھی ، اگرچہ اس زمانے کی جمع آوری کی کیفیت اور اس دور کی کیفیت میں یقینا فرق ہے۔
نیز اصحاب کے دور اور پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی تدوین کی کیفیت میں یقینا بڑا فرق ہے. لہذا قرآن و سنت اور عقل کی رو سے واضح ہوا کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہوئی ہے لیکن اگر ہم قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو حیات پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہونے پرروایت اور بعض آیات اور عقل کی رو سے تائید ہونے کے باوجود قبول نہ کریںتو اس کا لازمی نتیجہ تحریف ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد کچھ اصحاب جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ اکثرو بیشتر رفت و آمد رکھتے تھے ، امامت اور خلافت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے جو آج تاریخ اسلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں بخوبی روشن ہے، اگر پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق قرآن کریم بین الدفتین کتاب کی شکل میں تدوین نہ ہوتی تو آج مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہ قرآن کے نسخون میں طرح طرح کے اختلافات نظرآنا چاہیے حالانکہ تمام قرآن کی کیفیت اور نسخے کتابت اور چاپی ڈیزائن اور جلد سازی کے علاوہ باقی تمام جہات یعنی سورتوں اور آیات کی ترتیب اورنظم و ضبط میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی امت سے یہ کہیں کہ میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ آخری کتاب ہے جس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی تمہارامرجع قرآن وعترت ہے لیکن اس کی تدوین اور جمع آوری کے بغیر پیغمبر اکرم (ص) چلے جائیں کیا اسکی حفاظت کرنا ہر حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) پر لازم نہ تھا؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ذمہ داری کوا داء کرنے میں کوتاہی کی ہے؟ 
کیا پیغمبر اکرم (ص) امت کے سلوک و رفتار سے واقف نہ تھے کیاپیغمبر اکرم (ص)اپنی امت کے قرآن اور امامت کے ساتھ کرنے والے سلوک اور رفتار سے آگاہ نہ تھے کیا امت محمدی مثل پیغمبراکرمؐ معصوم تھی؟ اگرچہ بہت سارے مسلمان نبی (ص)اور جانشین نبیؐ کا معصوم ہونا ضروری نہیں سمجھتے ،لیکن قرآن کی حفاظت کرنالاز م سمجھتے ہیں۔

تبصرے
Loading...