بچے اور دینى تعلیم

الله اور دین کى طرف توجہ انسان کى فطرت میں داخل ہے اسکا سرچشمہ انسان کى اپنى سرشت ہے الله تعالى قرآن حکیم میں فرماتا ہے : فاقکم وجہک للدّین حنیفا فطرة الله التى فطر النّاس علیہا

اپنا رخ دین مستقیم کا طرف کرلو وہى دین کو جو فطرت الہى کا حامل ہے اور وہى فطرت کى جس کى بنیاد پر اس نے انسان کو خلق فرمایاہے (روم 30

ہر بچہ کى فطرى طور پر خدا پرست ہے لیکن خارجى عوامل اثر انداز ہوجائیں تو صورت بدل جاتى ہے جیسا کہرسول اسلام صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: کل مّولد یولد على فطرة الاسلام…

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعدا ز اں اس کے ماں باپ اسے یہودى ، عیسائی یا مجوسى ، بنادیتے ہیں ( 1

ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ اس میں فطرى طور پر ودیعت کیے گئے عقائد نشو و نما پا سکیں انسان بچپن ہے سے ایک ایسى قدرت کى طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جو اس کى ضروریات پورى کر سکے لیکن اس کا ادراک اسحد تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنى مرتکز شدہ توجہ کو بیان کرسکے لیکن آہستہ آہستہ یہ توجہ ظاہر ہوجاتى ہے جو بچہ ایک مذہبى گھرانے میں پرورش پاتا ہے وہ کوئی چار سال کى عمر میں الله کى طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہى وہ عمر ہے جس میں بچے کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات ابھر نے لگتے ہیں کبھى کبھى وہ الله کا نام زبان پر لاتا ہے اس کے سوالوں اور باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کى فطت بیدا ہوچکى ہے اور وہ اسسلسلے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہے

بچہ سوچتا ہے کہ :

سورج کسنے بنایا ہے ؟

چاندتارے کسنے پیدا کیے ہیں؟

کیا الله تعالى مجھ سے پیار کرتا ہے؟

کیا الله تعالى میٹھى چیزیں پسند کرتا ہے؟

بارش کون برساتا ہے؟

ابو کو کسنے پیدا کیا ہے؟

کیا الله ہمارى باتیں سنتا ہے؟

کیا ٹیلى فون کے ذریعے الله سے باتیں کى جاسکتى ہیں؟

الله کہاں رہتا ہے ؟

اس کى شکل کس طرح کى ہے ؟

کیا خدا آسمان پر ہے؟

چارسال کے بعد بچے اس طرح کے ہزاروں سوال کرتے اور سوچتے ہیں ان سوالات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کى فطرت خداپرستى بیدار ہوچکى ہے اور وہ یہ باتیں پوچھ کر اپنى معلومات مکمل کرنا چاہتا ہے معلوم نہیں کہ ننّھا منّا بچہ خدا کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے شاید وہ یہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ابّو کى طرح ہے لیکن اس سے بڑا اور زیادہ طاقتور ہے بچے کا شعور جسقدر ترقى کرتا جاتا ہے خدا کے بارے میں اس کى شناختبرھتى جاتى ہے اس سلسلے میں ماں باپ پر بھارى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے وہ اپنے بچوں کے عقائد کى تکمیل میں بہت اہم خدمت انجام دے سکتے ہیں اس سلسلے میں اگر انہوں نے کوتاہى کى تو روز قیامت ان سے بازپرس کى جائے گى ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے تمام سوالوں کا جواب دیں اگر انہوں نے ایسانہ کیا تو بچے کى روح تحقیق مرجائے گى لیکن بچے کے سوالوں کا جواب دینا کوئی آسان کام نہیں جواب صحیح ، مختصر اور بچے کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے بچے کا شعور جسقدر ترقى کرتا جائے جواب بھىاس قدر عمیق ہونا چاہیے یہ کام ہر ماں باپ نہیں کرسکتے اس کے لیے ضرورى ہے کہ وہ پہلے سے اسکے لیے تیارى کریں زیادہ گہرے اور صبر آزما مطلب بیان نہ کریں کیونکہ یہ نہ فقط بچے کے لیے سودمند نہ ہوں گے بلکہ ناقابل فہم اور پریشان کن بھى ہوں گے چھوٹا بچہ مشکل مطالب نہیں سمجھ پاتا لہذا اس کى طبیعت ، فہم اور صلاحیت کے مطابق اسے دینى تعلیم دى جانا چاہیے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بچہ تین سال کا ہوجائے تو اسے ”لا الہ الا الله ” سکھائیں پھر اسے چھوڑدیں جب اس کى عمر تین سال ،سات ماہ اور بیسدن ہوجائے تو اسے” محمد رسول الله” یاد کروائیں پھر چار سال تک اسے چھوڑدیں جب چار سال کا ہوجائے تو اسے پیغمبر خدا پر درود بھیجنا سکھائیں 2

بچوں کا چھوٹے چھوٹے اور سادہ دینى اشعار یادکروانا ان کے لیے مفید اور لذت بخشہوتا ہے اسى طرح انہیں آہستہ آہستہ نبوت اور امامت کے بارے پہلے رسول الله صلى الله علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بتائیںکہ الله نے انہیں نبى بنا کر بھیجا تا کہ ہمارى ہدایت کریں پھر ان کى خصوصیات اور کچھ واقعات بتائیں پھر عمومى نبوت کا مفہوم بتائیں اور نبوت کى ضرورى ضرورى شرائط سے انہیں آگاہ کریں او ر یوں ہى امامت کے بارے میں بھى سمجھائیں چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے کہانى کى صورت میں پیار سے یہ باتیں کریں گے تو بہت مؤثر ہوں گے ہاں قیامت کے بارے میں بچہ جلدى متوجہ نہیں ہوتا وہ سوچتا ہے کہ وہ اور اس کے ماں باپ ہمیشہ یوں ہى رہیں گے مرنے کو وہ ایک لمبے سفر کى طرح خیال کرتا ہے جب تک بچہ موت کى طرف متوجہ نہ ہو توضرورى نہیں ہے بلکہ شاید مناسب بھى نہیں کہ اس سے اس سلسلے میں بات چیت کى جائے البتہ نہ چاہتے ہوئے بھى ایسے واقعات پیشآجاتے ہیں کہ ماں باپ کو مجبوراً ان کے سامنے موت کى حقیقت کے بارے میں کچھ اظہار کرنا پڑجاتا ہے ممکن ہے کسى رشتے دار، دوست یا جان پہچان والے شخص کى موت بچے کو سوچنے پر مجبور کردے مثلاً خدا نخواستہ بچے کے دادا وفات پاجائیں اور وہ پوچھے کہ : امّى دادا بّو کہاں چلے گئے ہیں؟

ایسے موقع پر بچے کو حقیقت بتادنى چاہیے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے بچے سے یہ کہا جا سکتا ہےتمہارے دادا جان وفات پاگئے ہیں ، وہ دوسرے دنیا میں چلے گئے ہیں ہر مرنے والا اس دنیا میں چلا جاتا ہے اگر کوئی نیک ہوا تو جنت کے خوبصورت باغوں میں خوشى رہے

تبصرے
Loading...