بنی نوع انسان کی زندگی میں زبان کا کردار از نظر قرآن

انسانی زندگی میں زبان کا اہم کردار ہوتی ہے۔ یہ انسان کی پیدائش سے لیکر لحد تک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔انسان کی شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا کرار بھت ہی اہم ہوتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا// ثقافتی اوراق

بنی نوع انسان کی زندگی میں زبان کا کردار از نظر قرآن

زبان کی تعریف:

“زبان” فارسی کا لفظ ہے جس کو عربی میں “لسان” کہاجاتا ہے جیساکہ حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوے فرماتے ہیں :” وجعل لی لسان صدق فی الآخرین” میرے لئے ائندہ انے والوں میں تحسین والی زبان قراردے[i] اور انگلش میں tongue ،اور بولی کو language کہا جاتا ہے۔            

لغت میں زبان سے مراد:اللسان جمع السن ِ “ھوجسم لحمی مستطیل متحرک ، یکون فی الفم و یصلح للتذوق و البلغ واللنطق” یعنی لسان کی جمع السن ہے ، یہ ایک مستطیل گوشت کا متحرک حصہ ہے، جو منہ کے اندر ہوتا ہے ،اور جو زایقہ چکھنے ، غذا نگلنے اور بات کرنے کا زریعہ ہے[ii].دوسرے الفاظ میں منہ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوت ذائقہ ہوتی ہے اور نطق کا آلہ ہے زبان کہتے ہے۔

اصطلاح میں اس سے مراد:۔انسان کا روزمرہ انداز بیان ، بات کرنے کا ڈھنگ،یا بولی جس کے زریعے انسان تکلم یا تحریر کی صورت   میں اپنے خیالات اور جذبات ظاھر کرتا ہے۔مولانہ محمد حسین آزاد جو ماہر لسانیات ہے کہتے ہے” زبان اظہار کا وہ وسیلہ ہےکہ جو متواتر آوازاں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلہِ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں ،جن میں ہمارے خیالات سوار ہو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے راستےاوروں کے دماغوں میں پہنچتے ہیں”[iii]

زبان کی اہمیت:

اللسان ھو وسیلۃ اعلان مافی داخل الانسان ومافی قلبہ” یعنی انسان کی زبان اس کے باطن اور قلب میں موجود شی کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے، انسان کی عقل میں موجود خیالات اور تفکرات کے اظہار کا واحد زریعہ لسان ہے، جس طرح انکھ اور کان شناخت کا ایک زریعہ ہے اسی طرح زبان بھی ایک زریعہ ہے۔ زبان ہی سے چکھ کر چار زائقے یعنی مٹھاس ، ترش،نمکین اور کڑواہٹ کی شناخت ہوتی ہے۔ان تمام چیزوں کی شناخت دیکھنے سے یا چھونے سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ قوۃ زایقہ زبان ہی کی مدد سے ان چیزون کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔لیکن ان تمام چیزون سے بالا صفات قوۃ گویائی ہے جو زبان ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ دنیا میں انسانوں کی پہچان بھی اس کی بیان سے کرتا ہے ۔ ایت اللہ جعفر سبحانی فرماتے ہیں “انسان اپنی زبان اور قوت گویائی ہی کے توسط سے گفت و شنید ، سوال و جواب اور بحث و تمحیص کے مراحل سے گزر کراپنی شخصیت میں گہرائی پیدا کرسکتا ہے”[iv]اور اسی طرح تعلیم و تربیت کے زریعے انسان کی زہنی اور فکری ارتقاء اور نمو کا وسیلہ بھی زبان ہے ۔اگر دیکھا جائے تو انسانی فکر اور زہن ایک محفوظ اور چھپا ہوا خزانہ ہے تو اس کی کنجی اس کی زبان ہے ، جب تک اس خزانے کا در نہ کھولا جاے انسان کا صحیح مقام و مرتبت اور حیثیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔جیساکہ نھج البلاغہ میں حضرت علی ؑ کا ارشاد گرامی ہے” تکلموا تعرفوا،فان المرءمخبوء تحت لسانہ”بات کرو تاکہ پہچانے جاو،کیونکہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔[v]

آیۃ اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں ” زبان انسان کے لئے دوسرے انسانوں سے ارتباط اور ایک قوم دوسرے قوم اور ایک نسل دوسری نسل کی طرف اطلاعات اور معلومات کے نقل اور مبادلہ کا ایک اہم ترین زریعہ ہے،اگر یہ ارتباط کا زریعہ نہ ہوتا تو انسان ہرگز بھی علم و دانش اور مادی تمدن اور معنوی مسائل میں اس حد تک ترقی نہ کرسکتا” [vi]

مطلب یہ زبان اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،بندہ اس کاکما حقہ شکر ادانہیں کرسکتا۔یہ انسان کی پیدائش سے لیکر مرتے دم تک ساتھ دیتی ہے۔یہ ہماری ملکیت نہیں بلکہ ایک امانت اللہی ہے۔تو پھر اس امانت کو رضایت اللھی کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال انتہائی ضروری اور لازمی ہے، قرآن و سنت میں اس کی بڑی تاکید ائی ہے.

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں”بیان قدرت برسخن از اعظم نعمت الای است کہ برای بشر موقف انسانیش راحفظ نمودہ،بہ سوی ہر خیر ی ھدایتش می کند” [vii] صاحب تفسیر المنیر فرماتے ہیں:الانسان، علمہ النطق والتعبیر عما فی نفسہ، لیتخاطب مع غیرہ و یتفاہم مع ابناء مجمعہ، فیتحقق التعاون والتالیف والانس و بذالک اکتملت عناصر التعلیم ،الکتاب والمعلم،ھماالقرآن والنبی،والمتعلم ھو الانسان، و طریق التعلیم و کیفیتہ و البیان”

یعنی اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کو نطق اور تعبیر کی تعلیم دی تاکہ دوسروں کے ساتھ اور اپنی بچون کے ساتھ گفتگو کرسکیں جس کے نتیجے میں اپس مین تعاون اور انس و محبت قائم ہوتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالی نے تعلیمی عناصر کو مکمل کیا کتاب اور معلم کی صورت میں یعنی قرآن اور پیغمبر اسلام اور متعلم انسان ہے اور طریقہ تدریس اور انداز، بیان یعنی انسان کی بولی ہے۔[viii]

زبان کی اقسام

زبان کی کوالیٹی یعنی خصوصیات اور کوانٹیٹی کے اعتبار سے ہم دوحصون میں تقسیم کیا جاسکتاہے

حصہ اول: دنیا میں رائج زبانوں کی تعداد یعنی کوانٹیٹی کے اعتبار سے: دنیا میں زبانوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ صحیح طور پر شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زمانہ گزرنے کا ساتھ ساتھ نئی نئی زبانیں اور لغتین بتدریج تشکیل پاتی رہتی ہیں اور کچھ زبانین معدوم ہورہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی تعداد کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔لیکن بعض محقیقن کہتے ہیں کہ ذبان کی تعداد سات ہزار ہیں کچھ کا نظریہ ہے کہ زبانوں کی تعداد چھ ہزار ہیں ۔

حصہ دوم : کوالیٹی کے اعتبار سے زبان کی تقسیم۔ اس اعتبار سے زبان کی چار اقسام ہیں۔

1-       قسم ھو ضرر محض، وہ زبان جس میں نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں، مثلا جھوٹ، غیبت،گالی گلوج وغیرہ

2-       قسم ھو نفع محض، جس میں نفع ہی نفع ہے، مثلا ؛ تلاوت قران، سچائی،وغیرہ

3-       قسم ھو ضرر و منفعۃ، اس قسم میں نفع و ضرر دونوں ہیں۔مثلا؛حصول مال کےلئے جھوٹ بولنا

4-       قسم لیس فیہ ضرر ولا منفعۃ، جس میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔ بے مقصد کلام کرنا

اما القسم الاول فھول فضول والاشتغال بہ تضییع زمان و ھو عین الخسران، فلابد من السکوت عنہ وکذالک مافیہ ضرر و منفعۃ لاتفی بالضرر۔ یعنی ان اقسام میں سے قسم الاول وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے یہی خسارہ ہے ،پس ایسی کلام سے خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔اسی طرح جس میں نفع اور نقصان دونوں ہو ایسی کلام سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ قرآن مجید میں قسم دوم کے علاوہ باقی تمام قسم کے کلام سے منع کیا ہے۔

قرآن میں زبان کی حیثیت:

زبان کی بہت سی زمہ داریاں ہیں، ان تمام زمہ داریوں کو بطریق احسن انجام لاتے ہوے انسان ارتقائی منازل طے کرسکتے ہیں ۔اور اگر ان کی ادائگی میں سستی کا مظاہرہ کرے تو انسان تنزلی کی طر ف جاتے ہیں۔ قرآن مجید زبان کی ایک ذمہ داری یعنی بات کرنے اور بیان کرنے کی کی صلاحیت کو مورد نظر رکھتا ہے، اور زبان کو صرف اسی زاوئے سے دیکھتے ہیں۔زبان میں بیان کی یہ قوت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ باقی تمام صفات پر یہ غالب اگئے۔ زبان کی اسی اہمیت کو مورد نظررکھتے ہوے قرآن مجید انسان کی خلقت کے بعد زبان کی تعلیم کا ذکر کرتے ہیں۔ الرحمن علم القرآن ،خلق الانسان ،علمہ البیان ، [ix]      خداے رحمن جس نے اپنے رسول کو قرآن سیکھایا انسان پیدا کیااور اس کو بیان کی تعلیم دی۔ اسی طرح سورۃ لبلد میں ارشاد رب العزت ہے، الم نجعل لہ عینین ولسان وشفتین [x]

کیا ہم نے انسان کے لئے دو انکھیں ،ایک زبان اوردو ہونٹ نہیں بنائے ۔ اس ایت میں خداوند عالم کی عظیم نعمتوں کا تذکرہ ہورہا ہے، ان سے ایک زبان ہے جو ذمہ داری زبان کو سونپی گئی ہے ایسی کسی اور عضو کو نہیں سونپی گئی،گفتگو کی صلاحیت اور استعدادجس کی مدد سے انسان اپنے مافی الضمیر کو دوسروں کو منتقل کرسکتا ہے اسی ذبان کے زریعے، جس کے استعمال سے ابھی تک ہزاروں زبانیں معرض وجود میں ائی ہیں۔اور اس ایت میں لسان کے بعد دو ہونٹوں کا تذکرہ ہوا ہے ،جس کے بارے میں علامہ طبرسی نے ایک روایت نقل کی ہے اپنی تفسیر میں، ایک حدیث نبوی میں ہے کہ اللہ تعالی انسان سے فرماتا ہے ” یابن آدم ان نازعک لسانک فی ماحرمت علیک فقد اعنتک بطبقتین” اے فرزند آدم ؛ اگر تیری زبان تجھے گناہ پر اکساے تو اسے قابو میں رکھنے کے لئے میں نے تجھے دو ہونٹ دئیے ہیں ایسی حالت میں اپنے ہونٹوں کو بند کرلے” [xi]

زبان انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں کلیدی کردار آداکرتی ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے ؛ فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین۔[xii] یعنی جب اس نے حضرت یوسف سے گفتگو کی تو ان سے کہا تم آج سے ہمارے یہاں خاص اہمیت رکھتے ہو اور معتبر ہو” جب حضر ت یوسف ؑ نے بادشاہ مصر کی خواب کا تعبیر بتادیئے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ تجاویز بھی دے دی( ان میں گوداموں میں غلہ جمع کرنا تاکہ قحط کے ایام میں لوگوں کےلئے کوئی مشکلات پیش نہ آے) تو بادشاہ کی نگاہوں میں ان کی اعالیٰ شخصیت نمایاں ہوئی،جس کے نتیجے میں آپ کو وزیر بنایا۔ اگر حضرت یوسف اپنے زبان کو اس انداز میں استعمال نہ کرتا تو قید خانے میں ہی زندگی گزرجاتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کی زبان انسان کی شخصیت کونکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی لئے پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے”تکلمواتعرفوا” بات کرو تاکہ پہچانو۔[xiii]

فانما یسرنٰہ بلسانک لتبشر بہ المتقین و تنذربہ قوما لدا۔[xiv](اے محمدص) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آ پ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دین اور جھگڑالو قوم کی تنبیہ کرین-یعنی خداوند عالم پیغمبر اسلام کی ذات کو یہ بشارت دے رے ہیں کہ ہم نے اپنے پیغاموں کو آپ کی زبان پر آسان کردیا کہ ان کے زریعے آپ متقین کو بشارت دین اور جو لوگ آپ ص اور اسلام کے دشمن ہیں ان کو ڈرائیں۔اسی طرح ذبان کے بارے میں کچھ ایات اور ترجمہ پیش خدمت ہے

حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوے فرماتے ہیں :” وجعل لی لسان صدق فی الآخرین” میرے لئے ائندہ انے والوں میں تحسین والی زبان قراردے۔[xv]

ووھبنا لھم من رحمتنا و جعلنا لھم لسان صدق علیا، [xvi]حضرت یعقوب اور اسحاق نبی کے بارے میں خداوند عالم فرماتے ہیں کہ ان کو ہم نے اپنی رحمت سے بہرہ ور فرمایا اور لوگوں کی زبان پر ہم نے ان کو نیک نام اور بلند کیا۔

حضرت موسی ؑ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوے فرماتے ہیں: وحلل عقدۃ من لسانی، یفقھوا قولی۔[xvii] خدایا میری زبان کی گرہ کھول دےتاکہ وہ لوگ میری بات کو سمجھ سکین۔ پیغام رسائی میں زبان کا کردار کلیدی ہے ، اس کے بغیر کوئی بھی پیغام چاہے اسمانئ ہو یا زمینی بطریق احسن نہیں پہنچا سکتا۔زبان ہی وہ واحد زریعہ ہے جس سے پیغام رسائی ممکن ہوتی ہے، اس کے علاوہ انسان کے اندر موجود خصلتین اور صفات اسی زبان سے ظاہر ہوتاہے ،جیساکہ حضرت علی ؑ فرماتاہے” ان فی الانسان عشر خصال یظھرھا لسانہ: انسان میں دس خاصیت ایسی ہیں جو زبان سے ظاہر ہوتی ہیں۔

    شاہد یخبرعن الضمیر، یہ ایک شاہد ہے جو باطن کی خبر دیتی ہے۔
    وحاکم یفصل بین الخطاب ۔ایک قاضی ہے جو حق و باطل کو جدا کرتی ہے
    وناطق يرد به الجواب۔ وہ ایک ترجمان ہے جو سوالات کا جواب دیتی ہے۔
    وشافع يدرك به الحاجه۔ وہ ایک شفاعت کرنے والی ہےجس کے ذریعے مقاصد کا حصول ہوتا ہے.
    وواصف يعرف به الاشياء، وہ ایک توصیف گر ہے جو چیزوں کی اوصاف بیان کرتی ہے
    وامير يعرف بالحسن۔ وہ حاکم ہے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیتی ہے
    وواعظ ينهى عن القبح۔ وہ ایک واعظ ہے جو برائیوں سے روکتی ہے
    ومعز تسكن به الاحزان۔وہ ایک تسلی دینے والی ہے جس سے حزن کی شدت کم ہوجاتی ہے
    وحاضر تجلى به الصغائن، وہ ایک تعریف کرنے والی ہے، جو دشمنی اور عداوت کے زنگ کو دورکردیتی ہے
    ومونق تلذ به السماع، وہ ایسی ہنر مند ہے جو کانوں کی لذت کا سامان فراہم کرتی ہے”[xviii]

گویا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانوں پر ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ انسان کی خوبصورتی اور حسن و جمال بھی ہے ، جیساکہ حضرت علی ؑ فرماتے ہے” الجمال فی اللسان والکمال فی العقل” انسان کا حسن وجمال اس کی زبان میں ہے اور اس کا کمال عقل ہے۔[xix]

خلاصہ :انسانی زندگی میں زبان کا اہم کردار ہوتی ہے۔ یہ انسان کی پیدائش سے لیکر لحد تک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔انسان کی شخصی اور اجتماعی عروج و زوال میں بھی زبان کا کرار بھت ہی اہم ہوتا ہے۔ایک اچھی اور تربیت بافتہ گفتگو شخصی زیبائی کے ساتھ ساتھ معاشرتی حسن و جمال کو بھی دوام بخشتی ہے ،اور لوگوں کے لئے ایک مثالی سماج بن جاتا ہے ،کہ جس میں سچائی ،خوش اخلاقی اور مروت سے مذین گفتگوہوتی ہیں۔اس کے برعکس اسی زبان کو اگر بے ہودہ ،اور بے مقصد تکلم میں استعمال کرے تو انفرادی یا شخصی تذلیل کے ساتھ ساتھ سماج کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ اسی حساسیت کی بنا پر شریعت اسلامی میں اس کی اہمیت ، موارد استعمال اور استعمال سے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگراپنی زبان کو قرآن وسنت کی روشنی میں استعمان کرے تو دینا و آخرت میں بھلائی ہوگی۔لیکن اگر ا س کو غیر شرعی امور میں استعمال کیا تو غذاب اللھی کا موجب بنے گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی زبان قرآن اور فرامین معصوم ؑکے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عنایت فرمائں ،آمین

بقلم: محمد عسکری کریمی اسلام آباد

منابع وماخذ

1۔ شعراء 114

[ii]- معجمع للغات العربیہ،ج1، ص 87

[iii]- محمد حسین آذاد، سخن دان فارس،قومی کونسل براے فروع اردو زبان،لکھنو،انڈیا

[iv]- منشور خاور، جعفر سبحانی ،ج1-2، ص200

[v]- نہج البلاغہ ،کلمات قصار،نمبر148

[vi]- تفسیرنمونہ،ناصرمکارم شیرازی،ج27،ص41

[vii]- المیزان، طباطبائی،ج19،ص159، انتشارات اسلامی ،قم،ایران

[viii]- تفسیر المنیر فی العقیدۃ ولشریعہ ولمنھج، دلدکتور وھبۃ الزحیلی،ج 27-28،ص197، دارلفکر،بیروت،لبنان

[ix]- الرحمن،1-4

[x]- البلد، 7-9

[xi]- مجمع البیان /طبرسی،ج10،ص494۔علم الاخلاق،مکارم شیرازی،ج1،ص262،مصباح القرآن ،لاہور،پاکستان

[xii]- سورہ یوسف 54

[xiii]- قرآن کا دائمی منشور،ایۃ اللہ جعفرسبحانی،ج1،ص 202، مصباح القرآن،لاہور،پاکستان

[xiv]- سورہ مریم،97

[xv]- شعراء 114

[xvi]- سورۃ مریم ،50

[xvii]- شعراء 13

[xviii]- اصول الکافی/شیخ کلینی،ص20۔بحوالہ عل

تبصرے
Loading...