بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

قرآنی نصوص ایسی قدیم تاریخی نصوص ہیں جو نہایت صحیح اور دقیق ہیں نیز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور علمی طریقۂ کار کی رو سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عصر نبی کے واقعات کے بارے میں صرف قرآنی آیات و نصوص پر ہی بھروسہ کریں اور ان سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ آنحضرتؐ کی بعثت کے ساتھ ہی نزول آیات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا۔

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

قرآنی نصوص ایسی قدیم تاریخی نصوص ہیں جو نہایت صحیح اور دقیق ہیں نیز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور علمی طریقۂ کار کی رو سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عصر نبی کے واقعات کے بارے میں صرف قرآنی آیات و نصوص پر ہی بھروسہ کریں اور ان سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ آنحضرتؐ کی بعثت کے ساتھ ہی نزول آیات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا۔
جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ جو تاریخی روایتیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں درج ہیں ان کی تدوین حوادث کے عہدِ وقوع کے بعد ہو ئی ہے اور ان میں جھوٹ اورآمیزش کا امکان ہے تو یہ بات منطقی اور فطری ہے کہ ہم ان روایتوں کو قرآن و سنت اور عقل کے میزان پر پرکھیں پھر جو روایتیں ان کے موافق ہوں انہیں قبول کر لیں اور جوان کے مخالف ہوں ان کو رد کر دیں۔
واضح رہے کہ نبوت خدائی نمائندگی اور الٰہی منصب ہے یہ عہدہ اسی کی طرف سے ملتا ہے تاکہ نبی ضروری ہدایت کے ذریعہ بشریت کی مدد کرے۔ اس منصب کے لئے خدا اپنے بندوں میں سے اسی کو منتخب کرتا ہے جو مثالی خصوصیتوں سے سرشار ہوتا ہے ۔ یہی خصوصیتیں آپؐ کو ان مہموں کو سر کرنے پر قادر بنا دیتی ہیں جو آپؐ سے مطلوب تھیں۔
نبی کا خدا کی طرف سے منتخب ہونا ضروری ہے تاکہ وہ رسالت اور اس کے مقاصد کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کو صحیح انداز میں سمجھا سکے اور تبلیغ و بیان ، دفاع و تحفظ کے میدان میں ناتواں ثابت نہ ہو جو امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، ان کی انجام دہی کے لئے علم و بصیرت ، نفس کا صحیح سالم ہونا، ضمیر کا درست ہونا، صبر و پائیداری ، شجاعت و حلم، انابت، بندگئ خدا ، خوفِ خدا، اخلاص عمل، گناہوں اور خطا و لغزش سے محفوظ رہنا، صراط مستقیم پر تائید الٰہی سے ثابت رہنا درکار ہے ، پھر خاتم النبیین کوئی انوکھے اور کم پایہ کے رسول نہیں تھے بلکہ وہ تمام انبیاء سے زیادہ عظیم اور کامل تھے، آپؐ کے اندر گذشتہ انبیاء کے سارے صفاتِ کمال موجود تھے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور طبیعتوں کا اقتضا بھی یہی ہے کہ خدائی ذمہ داری کے حامل کے اندر اسے قبول کر نے اور اسے نافذ کرنے کی صلاحیت و استعداد ہونا چاہے ۔ اس صورت میں خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر ہر وہ صلاحیت ہونا چاہئے جس کے ذریعہ اس خدائی ذمہ داری کو پورا کیا جا سکے اور اس خدائی مہم کو سر کرنے کے لئے ان خصوصیتوں کو بعثت سے پہلے ہی فراہم ہونا چاہئے، قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتا ہے ارشاد ہے :
۱۔ (کذالک یوحی الیک والیٰ الذین من قبلک، اللّٰہ العزیزالحکیم) (۱)
عزت و حکمت والا خدا اسی طرح آپؐ کی طرف وحی کرتا ہے جیسے آپ سے پہلے والوں پر وحی بھیجتا تھا۔
۲۔( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری)ٰ (۲)
ہم نے آپؐ سے پہلے انہیں مردوں کو رسولؐ مقرر کیا جو آباد ی میں رہتے تھے اور ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے۔
۳۔ (وما ارسلنا من قبلک من رسولؐ الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون۔)(۳)
اور ہم نے آپؐ سے پہلے کوئی رسولؐ نہیں بھیجا مگر اس پر وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم سب میری عبادت کرو۔
۴۔( وجعلنا ھم ائمۃ یہدون بامرنا و اوحینا الیھم فعل الخیرات و اقام الصلٰوۃ و ایتاء الزکاۃ وکانوا لنا عابدین) (۴)
ہم نے انہیں امام بنا یا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں، ہم نے ان پر نیک کام کرنے، نماز قائم کرنے، اور زکات دینے کی وحی کی ہے اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔
پس وحی کا سرچشمہ خدا ہے اور خدا ہی رسولوں کی طرف توحید کی نشانیوں اور اپنی عبادت کے طریقوں کی وحی کرتا ہے اور انہیں ائمہ قرار دیتا ہے وہ اس کے حکم سے شریعت کی اس تفصیل کے ساتھ جو کہ ان کے پاس وحی کے ذریعہ پہنچی ہے لوگوں کو نیک کام انجام دینے، نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی ہدایت کرتے ہیں عبادت میں یہی غیروں کے لئے نمونہ ہیں اور یہی خدا کے اسلام کا زندہ مرقع ہیں۔
حضرت خاتم الانبیاء کے بارے میں خدا وند عالم بطور خاص فرماتا ہے :
۱۔ (وکذالک اوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ و من حولھا و تنذر یوم الجمع لا ریب فیہ…) (۵)
اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے مضافات میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور روز حشر سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔
۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ و ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیہ کبر علیٰ المشرکین ما تدعوھم الیہ اللّہ یجتبی الیہ من یشاء و یھدی الیہ من ینیب…(۶) فلذلک فادع و استقم کما امرت ولا تتبع اھواءھم و قل آمنت بما انزل اللّہ من کتاب و امرت لا عدل بینکم اللّہ ربنا و ربکم لنا اعمالنا و لکم اعمالکم لا حجۃ بیننا و بینکم اللّہ یجمع بیننا و الیہ المصیر)۔ (۷)
اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نوح کو نصیحت کی تھی اور تمہاری طرف بھی اس کی وحی کی ہے ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو بھی اسی کی نصیحت کی تھی کہ وہ دین قائم کریں اور تفرقہ کا شکار نہ ہوں مشرکوں کو وہ بات بہت ناگوارہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس سے لو لگاتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے…لہذا آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جیسا کہ آپ ؐ کو حکم دیا گیا ہے ، ان کی خواہشوں کا اتباع نہ کریں، ، اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے اللہ ہم سب کو ایک دن جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہوگی۔
۳۔( اللّہ الذی انزل الکتاب بالحق و المیزان )۔ (۸)
اللہ ہی وہ ہے جس نے کتاب و میزان کو حق کے ساتھ نازل کیا۔
۴۔( ام یقولون افتریٰ علیٰ اللّہ کذباًفان یشاء اللّہ یختم علیٰ قلبک و یمح اللّہ الباطل و یحق الحق بکلماتہ انہ علیم بذات الصدور) (۹)
کیا ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رسولؐ، اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتا ہے حالانکہ خدا چاہے تو تمہارے دل پر بھی مہر لگا دے اور اللہ باطل کو محو کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت کر دیتا ہے ۔ بیشک وہ دلوں کے راز کو جانتا ہے ۔
۵۔( وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا و حیاً او من و رای حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشاء انہ علیّ حکیم و کذالک اوحینا الیک ر وحاً من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولکن جعلنٰہُ نورا نھدی من نشاء من عبادنا و انک لتھدی الیٰ صراط مستقیم) (۱۰)
اور کسی انسان کے لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وہ وحی کر ے یا پردے کے پیچھے سے بات کرے یا کسی فرشتے کو نمائندہ بنا کر بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ وحی پہنچا دے یقیناًاسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف (قرآن) روح کی وحی کی ہے اور آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیدیتے ہیں یقیناًآپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے بعثت سے پہلے رسولؐ کے ساتھ زندگی گزاری ہے بلکہ جو وفات تک آپ کے ساتھ رہے ہیں انہوں نے بھی رسولؐ کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے وقت کی صحیح اور واضح تصویر کشی نہیں کی ہے ، سب سے مضبوط و محکم نص وہ ہے جو آپ کی آغوش کے پالے ابن عم اور وصی نے بیان کی ہے وہ آپؐ سے بعثت سے پہلے بھی جدا نہیں رہے ، آپؐ کی وفات تک آپ کے ساتھ رہے۔ اس شخصیت کی تصویر کشی میں انہوں نے پوری امانت داری اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے بعثت سے پہلے زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ولقد قرن اللّہ بہ من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ۔ لقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ۔
یرفع لی کل یوم من اخلاقہ علماً ۔ و قد کان یجاور کل سنۃ بحراء فاراہ ولا یراہ غیری۔ (۱۱)
اور خداوند عالم نے ، ان کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ، ایک عظیم فرشتے کو ان کے ساتھ لگا دیا تھا وہ آپ کو رات دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا اور میں اس طرح آپ کا اتباع کرتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے آپؐ ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور ہر سال آپؐ کچھ مدت کے لئے غار حراء میں قیام کرتے تھے وہاں انہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھتا تھا۔
آپ کا یہ قول خدا وند عالم کے اس قول:’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘(۱۲)کے موافق ہے ۔ یہ آیت ابتداء بعثت میں نازل ہوئی تھی، واضح رہے خُلق ایک نفسانی ملکہ ہے نفس کے اندر راسخ ہوتا ہے، مرورِ زمانہ سے پیدا نہیں ہوتا۔آپؐ کے خُلقِ عظیم کے ساتھ خدا نے آپؐ کی توصیف کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ بعثت سے پہلے ہی خلقِ عظیم سے متصف تھے۔
آپؐ کے نواسے حضرت امام جعفرصادق ؑ کی حدیث سے آپؐ کی شخصیت کی وہ خوبیاں روشن ہو جاتی ہیں جو قبلِ بعثت بھی آپؐ کے اندر پائی جاتی تھیں۔ فرماتے ہیں:
’’ ان اللّہ عزّ وجلّ ادب نبیہ فاحسن ادبہ فلما اکمل لہ الادب قال: (انک لعلیٰ خلق عظیم) ثم فوّض الیہ امر الدین والا مۃ لیسوس عبادہ‘‘(۱۳)
خدا نے اپنے نبی کو ادب و اخلاق سے آراستہ کیا چنانچہ آپ ؐ کااخلاق بہترین ہو گیا جب آپ کا اخلاق و ادب کامل ہو گیاتو فرمایا: بیشک آپ اخلاق کے بلند درجہ پر فائز ہیں پھر دین و امت کی زمام ان کے سپرد کی تاکہ اس کے بندوں کی قیادت کریں۔
خلق عظیم ان تمام مکارم کو اپنے اندر لئے ہے جن کی تفسیر رسولؐ سے منقول حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔
’’انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘
مجھے تو بس مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے پس جو مکارم سے تہی دامن ہو، وہ مکارم اخلاق کی کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟! ماننا پڑے گا کہ رسولؐ نے بعثت سے پہلے ہی تمام مکارم حاصل کر لئے تھے تاکہ آپ کے لئے خلق عظیم کی صفت صحیح اور منطقی قرار پائے۔
بعثت سے پہلے رسول کی شخصیت مثالی، موزوں، معتدل مزاج ،روشن خیال اور مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور شائستہ افعال کے حوالہ سے مشہور تھی۔
قرآن مجید کی وہ آیتیں جو کہ رسالی و پیغامی وحی اور رسولؐ کی وحی فہمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے واضح ہوتاہے کہ رسول باطمانیت اور صاحب ثبات و استقلال تھے اور خدا کی طرف سے آپ کے قلب پر جو امر و نہی ہوتی تھی آپ اسے تہہ دل سے قبول کرتے تھے ملاحظہ فرمائیں سورۂ شوریٰ کی وہ آیتیں جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں نیز درج ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں:
۱۔(و النجم اذا ھوی، ما ضل صاحبکم وما غویٰ، وما ینطق عن الھویٰ، ان ھو الا وحی یوحیٰ، علمہ شدید القویٰ، ذو مرۃ فاستویٰ،و ھو بالافق الاعلیٰ، ثم دنا فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ، فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ، ما کذب الفواد ما رأیٰ)(۱۴)
قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا نہ بہکا اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام تووہ وحی ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے۔وہ اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے ۔حسن و جمال والا سیدھا کھڑا ہوا جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ دوکمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا پھر خدا نے اپنے بندہ پر جو چاہا وحی کی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جو دیکھا۔
۲۔(قل انی علیٰ بینۃ من ربی) (۱۵)
کہہ دو کہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی نشانی رکھتا ہوں۔
۳۔ (قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی) (۱۶)
کہ دو کہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لیکن میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔
۴۔(قل انما انذرکم بالوحی)(۱۷)
کہہ دو کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعہ ڈراتاہوں۔
۵۔(قل انما یوحیٰ الي انما الٰھکم الٰہ واحد) (۱۸)
کہہ دو کہ بس میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔ تمہارا خد ابس ایک ہے ۔
۶۔(ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ و قل رب زدنی علماً)(۱۹)
اور آپ وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہا کریں پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔
۷۔(و ان اھتدیت فبما یوحیٰ اليّ ربي) (۲۰)
اگر میں نے ہدایت حاصل کر لی ہے تو یہ میرے رب کی وحی کا نتیجہ ہے۔
۸۔(قل ھذہ سبیلی ادعوا الیٰ اللّہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی) (۲۱)
کہہ دو کہ میرا یہی راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے ۔
جب آپ پر قرآن مجید کی ان آیتوں کا مفہوم واضح ہو گیا تو اب آپ حدیث و تاریخ کے بعض ماخذ و مصادر کا مطالعہ فرما سکتے ہیں تاکہ ان کے محکم و متشابہات سے واقف ہو جائیں۔
امام احمد کہتے ہیں: ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا اور کہا: ہم سے معمر نے بیان کیا اور انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ نے کہا:  سب سے پہلے رسولؐ پر جو وحی ہوئی تھی وہ از راہ رویا ئے صادقہ تھی۔
آپ غار حراء میں گوشہ نشیں ہو جاتے اور وہیں عبادت کرتے تھے پھر جناب خدیجہ کے پاس لوٹ آتے تھے پھر ایسا ہی کرتے تھے یہاں تک کہ غار حراء میں آپ پروحی نازل ہوئی۔
مذکورہ روایت میں کوئی چیز قابل گرفت نہیں ہے سوائے اس کے کہ جب آپؐ پر وحی نازل ہوئی تو عائشہ موجود نہیں تھیں اور روایت میں اس بات کی وضاحت و تصریح نہیں ہے کہ یہ معلومات انہیں کہاں سے فراہم ہوئی ہیں براہ راست انہوں نے رسولؐ سے روایت نہیں کی ہے لیکن روایت میں کچھ تعجب خیز چیزیں بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پھر خدیجہ انہیں اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لے گئیں زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی تھے۔ عربی میں کتاب لکھتے تھے، انہوں نے انجیل کو عربی میں لکھا تھا وہ بہت ضعیف تھے، نابینا ہو گئے تھے جناب خدیجہ نے ان سے کہا: ابن عم اپنے بھتیجے سے بھی تو کچھ سنئے ورقہ نے کہا: بھتیجے! تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے ، رسولؐ نے جو دیکھاتھا بیان کیا۔ ورقہ نے کہا: یہ وہ ناموس(فرشتہ)ہے جو حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوا تھا۔اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکالے گی۔ رسولؐ نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں لایا جیسی آپ لائے ہیں اگر میں اس زمانہ میں رہا تو میں ایک پشت پناہ کی حیثیت سے آپ کی مدد کروں گا۔
ورقہ بن نوفل مسلمان نہیں ہوا جبکہ وہ جانتا تھا کہ رسولؐ کن حالات سے دوچار ہونگے اور یہ بھی جانتا تھا کہ آپؐ نبیؐ ہیں لیکن صاحب رسالت و دعوت کے لئے بات واضح نہیں تھی اور انہیں اپنی رسالت کا علم نہیں تھا حالانکہ ورقہ اس بات سے مطمئن تھے کہ آپؐ نبی ہیں، اور قرآن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ رسولؐ اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہیں۔ اکثر آیتوں میں بھی یہی بیان ہوا ہے کہ لوگوں کے ہادی رسول ہی ہیں اور وہی واضح دلیل رکھتے ہیں اگر اس کے برعکس ہو تو صحیح نہیں ہے ۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ورقہ نبیؐ کی رسالت کو پہلے ہی سے جانتے تھے اور اسی لئے انہوں نے آپ کو اطمینان دلایا تھا۔
یہ ہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر اہل کتاب کو آپؐ کی رسالت سے چشم پوشی کرنے کا راستہ مل گیا کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ-تمہاری اس نص کے بموجب- تمہارے نبی اپنے رسولؐ ہونے سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ورقہ، جو کہ مسیحی تھے، کے اطمینان دلانے سے مطمئن ہوئے تھے،ان میں سے بعض نے تو، اس روایت کا سہارا لیتے ہوئے جو کہ حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور مورخین کے درمیان مشہورہے یہاں تک کہہ دیا کہ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ ) ان قسیسوں میں سے ایک تھے جن کو ورقہ نے تعلیم و تربیت دی تھی۔ یہ عظیم رخنہ عقل ، قرآن اور سنت سے دور رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔
جو شخص قرآن کی نظر میں انبیاء کی شخصیت کا علم رکھتا ہے اور قرآنی منطق سے آگاہ ہے کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے ؟ وہ اس حدیث کے مضمون کو محض اس لئے کیسے صحیح تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حدیث زوجہ رسولؐ عائشہ سے منسوب ہے؟!
اس روایت کے علاوہ تاریخ طبری میں ایک حدیث اور نقل ہوئی ہے جو قباحت میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے مضمون ہی میں شک ہوتا ہے؛ یہاں کہا گیا ہے: رسولؐ محو خواب تھے کہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سورۃ علق کی ابتدائی آیتیں آپ کو تعلیم کیں اس کے بعد روایت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور خود رسولؐ کی زبانی منقول ہے۔ پس میں نیند سے بیدار ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میرے صفحۂ دل پر کتاب لکھ دی گئی ہے ۔ پھر فرماتے ہیں: میری نظر میں شاعر یا مجنون سے بدتر کوئی اور نہیں تھا، میں انہیں ایک نظر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ نیز فرمایا: میں شاعر و مجنون سے بہت دور رہتا تھا۔ ان کے بارے میں قریش مجھ سے ہرگز گفتگو نہیں کرتے تھے۔ میں پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گیا میں چاہتا تھا کہ وہاں سے خود کو گرا کر خودکشی کر لوں تاکہ نفس کو آرام مل جائے چنانچہ میں اسی ارادہ سے نکلا اور جب پہاڑ پر پہنچا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی وہ یہ تھی: اے محمد! تم اللہ کے رسولؐ ہو اور میں جبرئیل ہوں۔(۲۲)
نبی ؐ کے ذہنی خلفشار اور خوف کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپؐ نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تو خدا نے چاہا کہ آپؐ کو نبیؐ ؛ لوگوں کی ہدایت کرنے والا اور انہیں حق کی طرف بلانے والا بنا دے ۔ کیا روایت کا مضمون آپ کی عظمت و شوکت کے مطابق ہے؟!
ہم کو چاہئے کہ نصوص کو قرآن و عقل نیز سنت کے محکمات پر پرکھیں تاکہ تاریخ سے معتبر اور موثق چیزیں اخذ کریں اور ان چیزوں کو چھوڑ دیں جو علمی تنقید کے سامنے ثابت نہیں رہ سکتیں۔
جب ہم کتاب خدا کی صریح آیتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان روایتوں کو دیکھتے ہیں جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں آپ پر پہلی بار وحی نازل ہونے سے متعلق ہیں تو وہ نصوص قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں، اس سے ہمیں اطمینان ہوجاتاہے کہ روایتوں میں اسرائیلیات شامل ہو گئے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایتوں کا اس روایت سے موازنہ کریں جس کو علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے یہ حدیث وحی کے حصول کی آمادگی اور اس سے متعلق امداد اور رسولؐ کی شخصیت و کردار کی عکاسی کرتی ہے۔
حضرت امام علی نقی ؑ سے روایت ہے :
اللہ کے رسولؐ نے جب تجارت کے لئے شام جانا بند کر دیا اور جو کچھ تجارت کی وجہ سے نفع ہوا تھا اسے خیرات کر دیاتو اس کے بعدہر صبح کوکوہ حراء کی چوٹی پر تشریف لے جاتے اور وہاں سے خدا کی رحمت کے آثار، اس کی رحمت کے کرشمے اور اس کی حکمت کی بوقلمونیاں دیکھتے ، آسمان کے آفاق اور زمین کے اطراف پر نظر ڈالتے، سمندروں کو دیکھتے ان سے عبرت و معرفت حاصل کرتے اور اس طرح خدا کی عبادت کرتے جیسے عبادت کا حق ہے ۔
جب آپ پورے چالیس سال کے ہو گئے تو خدانے آپؐ کے قلب کو دیکھا، تو اسے تمام قلوب سے افضل زیادہ روشن ومنور زیادہ مطیع و خاشع اور خضوع کرنے والا پایا تو آسمان کے دروازوں کو کھول دیا تاکہ محمدؐ انہیں دیکھیں، ملائکہ کو اجازت دیدی وہ نازل ہونے لگے محمدؐ انہیں دیکھنے لگے، رحمت کو حکم ملا تو وہ ساقِ عرش سے محمدؐ کے سروپیشانی پر نچھاور ہونے لگی ، روح الامین، طاوس ملائکہ کو دیکھا وہ آپؐ پر نازل ہوئے اور آپ کا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا:
اے محمد! پڑھو! فرمایا: کیا پڑھوں؟! کہا: اے محمدؐ!
(اقرأ باسم ربک الّذی خلق۔ خلق الانسان من علق، اقرأ و ربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم ۔ علّم الانسان ما لم یعلم) (۲۳)
اپنے رب کے نام سے پڑھو، جس نے پیدا کیا ہے ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑی شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اس نے انسان کو اس چیز کی تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔
پھر جبرئیل نے آپ پر وحی کی جو کہ ان پر خدا نے کی تھی اور اس کے بعد پرواز کر گئے۔
محمدؐ پہاڑ سے اترآئے لیکن خدا کی عظمت و جلالت کی وجہ سے آپؐ پر غشی اور حرارت و کپکپی کی سی کیفیت طاری تھی، آپؐ کواس بات کا شدید خوف تھا کہ اس سلسلہ میں قریش آپ کی تکذیب کریں گے اور آپؐ کو مجنون کہیں گے (معاذ اللہ) یہ کہیں گے کہ ان پر شیطان سوار ہو گیا ہے ۔ حالانکہ آپؐ خداکی مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور مخلوقات میں سب سے بلند و بالا تھے۔ آپؐ کی نظر میں شیطان اور مجنونوں کے افعال و اقوال نہایت ہی قابل نفرت تھے، پس خدا نے چاہا کہ آپ کا سینہ کشادہ اور دل جری ہو جائے تو خدا نے پہاڑوں، چٹانوں اورسنگریزوں کو گویائی عطا کر دی چنانچہ آپ جس چیز کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ سے اس طرح مخاطب ہوتی تھی:
’’السّلام علیک یا محمد۔ السّلام علیک یا ولیّ اللّہ، السّلام علیک یا رسول اللّہ‘‘
اے محمد! آپ پر سلام ہو اے اللہ کے ولی آپ پر سلام، اے اللہ کے رسول آپ پر سلام، بشارت ہو کہ خدا نے آپ کو فضیلت دی ہے ، جمال و زینت بخشی ہے اور اولین و آخرین سب پر فوقیت و برتری دی ہے آپؐ اس بات سے نہ ڈریں کہ قریش آپ کو مجنون کہیں گے اورکہیں گے کہ آپ دین سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ با فضیلت وہی ہے جس کو خدا فضیلت دے، کریم و سر فراز وہی ہے جس کو خدا سر فرازی عطا کرے پس آپ قریش اور عرب کے سر کشوں کی تکذیب سے خوف نہ کھائیں، عنقریب آپ کا رب آپؐ کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا دے گا اور اعلیٰ مراتب پر فائز کرے گا اور آپؐ کے وصی حضرت علی ؑ کے سبب آپؐ کے چاہنے والوں کو خوش کرے گا اور عنقریب آپ کے بابِ حکمت علی بن ابی طالب ؑ کے ذریعہ آپ کے علوم کو پوری دنیا میں پھیلا دے گا۔ جلدہی وہ آپ کو ایک بیٹی فاطمہ ؑ عطا کرے گااس کے بطن اور صلب علی ؑ سے اہل جنت کے سردار حسن ؑ و حسین ؑ کو پیدا کرے گا آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا دے گا ، آپ کے اور آپ کے بھائی کے دوستوں کے اجر کو عظیم قراردے گا، آپؐ کے ہاتھ میں لوائے حمد دے گا آپ اسے اپنے بھائی علی ؑ کو عطا کر یں گے چنانچہ ہر نبی صدیق اور شہید اس کے نیچے ہوگا۔ اور علی ؑ ان سب کو جنت کی طرف لے جائیں گے۔(۲۴)
جب ہم اس روایت اور طبری کی روایت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے لحاظ سے رسولؐ کی ابتدائے بعثت اور بعثت کے بعد کی زندگی میں واضح فرق نظر آتا ہے ، طبری کی روایت کے لحاظ سے بعثت سے پہلے آپ کی زندگی اضطرابی و بے چینی و بے یقینی کی زندگی ہے -ظاہر ہے کہ اضطراب وبے چینی کا سبب نادانی ہوتی ہے -جبکہ بحار الانوار کی روایت کی رو سے آپ کی زندگی میں ابتدا ہی سے اطمینان و سکون اور علم نظر آتا ہے۔ آپ کی زندگی کی یہی تصویر، قرآن و حدیث اور تاریخ کے محکمات و معیارکے مطابق ہے ۔
 حوالہ جات
۱۔ شوریٰ:۳۔
۲۔ یوسف: ۱۰۹۔
۳۔ انبیاء: ۲۵۔
۴۔ انبیاء:۷۳ ۔
۵۔ شوریٰ: ۷۔
۶۔ شوریٰ ؍۱۳۔
۷۔ شوریٰ؍۱۵۔
۸۔ شوریٰ ؍۱۷ ۔
۹۔ شوریٰ؍۲۴ ۔
۱۰۔ شوریٰ ؍۵۱،۵۲۔
۱۱۔ نہج البلاغہ خبطۂ قاصعہ ۲۹۲ ۔
۱۲۔ قلم:۴۔
۱۳۔ اصول کافی ج۲ ص ۶۶ ج۴۔
۱۴۔ النجم: ۱ تا ۱۱ ۔
۱۵۔  انعام: ۵۷۔
۱۶۔ کہف:۱۱۰۔
۱۷۔ انبیاء :۴۵ ۔
۱۸۔ انبیاء: ۱۰۸ ۔
۱۹۔ طہ: ۱۱۴۔
۲۰۔ یوسف:۱۰۸۔
۲۱۔ سباء:۵۰۔
۲۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۲۰۱تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم طبع دار سویدان بیروت۔
۲۳۔ العلق:۱۔۵۔
۲۴۔ بحار الانوار ج۱۸ ص ۲۰۷ و ۲۰۸۔

ماخوذ از کتاب منارہ ہدایت جلد ۱ ناشر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی



source : abna

تبصرے
Loading...