بارہویں مجلس ـ شہادت امام زین العابدین علیہ السلام

امام علي بن الحسين عليہ السلام” جو “سجاد”، “زين العابدين”، اور “سيد الساجدين”، جیسے القاب سے مشہور تھے، شہادت کے وقت وصیت فرمائی كہ: “خبردار! ظلم نہ کرنا ایسے شخص پر جس کا تمہارے مقابلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے”۔

امام علي بن الحسين عليہ السلام” جو “سجاد”، “زين العابدين”، اور “سيد الساجدين”، جیسے القاب سے مشہور تھے، شہادت کے وقت وصیت فرمائی كہ: “خبردار! ظلم نہ کرنا ایسے شخص پر جس کا تمہارے مقابلے میں خدا کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے”۔

امام علي بن الحسين عليہ السلام” جو “سجاد”، “زين العابدين”، اور “سيد الساجدين”، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔

یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ امام سجاد کو “عابد بیمار” کہنا درست نہیں ہے۔ آپ (ع) فقط مکہ سے کربلا کے سفر کے دوران بیمار ہوئے اور عاشورا کے دن بیمار رہے اور اس امر کا راز اس وقت کھلا جب اس روز امام کے تمام فرزند – حتی کہ اصغر شیرخوار تک … شہید ہوئے اور جب شمر ملعون اپنے اوباش کے ہمراہ آپ (ع) کے خیمے میں پہنچا تو اس نے امام (ع) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر دشمن کے لشکر میں موجود “حميد بن مسلم” – اور دوسرے قول کے مطابق “عمر بن سعد” نے امام علیہ السلام کی بیماری کا ذکر کیا اور شمر کے ارادے کو عمل جامہ نہیں پہننے دیا۔ 

پس حضرت سجاد (ع) کی بیماری صرف ان ہی دنوں تک محدود تھی اور شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے لئے غیر شائستہ ہے کہ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوں اور امام سجادعلیہ السلام کو “زين العابدين بيمار یا امام بیمار یا عابد بیمار” جیسے القاب سے نوازیں! اور پھر یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کو امام بیمار کا لقب اموی فکر نے دیا ہو کیونکہ ایسے بےجا القاب کا فائدہ بھی صرف امویوں کو ملتا ہے۔

11 محرم کو عمر بن سعد نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنادیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔ 

اس کے بعد عرب قبائل کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور اللہ کی لعنت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کرکے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لئے تیار ہوئے؛ اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بےچادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔ 

جب ابن سعد اسيروں کے ہمراہ نزدیک پہنچے تو وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے  کے لئے آئے تھے۔ ایک کوفی خاتون اپنے گھر کی چھت سے اسیروں کے کارواں کا نظارہ کررہی تھی۔

اس نے اسراء سے پوچھا: “تم کس قوم کے اسیر ہو؟”۔

جواب ملا :”ہم اسیران آل محمد (ع) ہیں”۔

چنانچہ وہ خاتون جلدی سے نیچے اتر آئی اور بیبیوں کے لئے چادریں، مقنعے اور لباس لے آئی۔

اب ذرا تصور کریں کہ امام سجاد علیہ السلام کا حال کیا رہا ہوگا؟

ایک طرف سے بیماری کی وجہ سے نقاہت جسم مبارک پر طاری تھی، دوسری طرف سے اہل خاندان، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں، رشتہ داروں، چچاؤں اور بابا کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور ان کے قلم شدہ سر آپ (ع) کے سامنے نیزوں پر جارہے تھے مگر ان سب غموں اور دکھوں سے بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ یہ تھا کہ آپ (ع) امام تھے اور غیرت الہی کا مظہر تامّ و تمام تھے اور اب خاندان محمد (ص) کی سیدانیاں اس حال میں آپ (ع) کے ہمراہ اسیر ہوکر جارہی تھیں اور اردگرد دشمن تھے… 

دارالامارہ میں اسیران آل محمد کے داخلے سے قبل امام حسين (ع) کا سر مطہر ابن زياد کے سامنے لایا گیا۔ ابن مرجانہ کے ہاتھ میں خیزران کی ایک چھڑی تھی اور امام کے لب و دندان پر اس چھڑی سے بے ادبی کرنے لگا۔ 

یہ بے ادبی اور جسارت حاضرین کے اعتراض و تنقید کا باعث ہوئی رسول اللہ (ص) کے صحابی اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ جہاد کرنے والے بزرگ “زيد بن ارقم” جو اس وقت معمر اور بوڑھے ہوچکے تھے، نے عبيداللہ سے خطاب کرکے تنبیہ کی: “اپنی چھڑی اٹھالینا! خدا کی قسم میں نے پيغمبر اکرم (ص) کو دیکھا کہ جن لبوں اور دانتوں کو تم چھڑی مار رہے ہو آپ (ص) ان کے بوسے لیا کرتے تھے”۔ ابن ارقم یہ کہہ کر رونے لگے۔

یزید کے گورنر نے کہا: “اگر تم پاگل اور عقل باختہ بوڑھے نہ ہوتے ابھی اسی وقت تمہارا سر قلم کردیتا”۔

ابن ارقم اسی وقت اٹھے اور دارالامارہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا: “اے عرب! آج سے تم سب غلام بن گئے۔ تم نے فرزند فاطمہ (س) کو قتل کیا اور ابن مرجانہ کو اپنا امیر تسلیم کیا!۔

خدا کی قسم! یہ شخص تمہارے نیک اور صالح افراد کو قتل کرے گا اور تمہارے شریروں اور جرائم پیشہ افراد سے کام لے گا”۔

“انس بن مالك” بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام کا سر دیکھ کر اور عبیداللہ کی جسارت کا مشاہدہ کرکے روئے اور کہا: “یہ رسول اللہ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں”۔ 

اس کے بعد اسراء ابن زیاد کے دربار میں لائے گئے۔

ابن مرجانہ نے امام سجاد (ع) کو دیکھا تو کہا: “تم کون ہو؟”

فرمایا: “علي بن الحسين”۔

اس ملعون نے کہا: “کیا علی ابن الحسین کو خدا نے نہیں مارا؟”

امام نے فرمایا: “میرے ایک بھائی کا نام بھی علی تھا جن کو لوگوں نے قتل کر ڈالا”۔

ابن زياد نے کہا: “خدا نے مارا اسے”۔

امام نے فرمایا:” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا = خدا موت کے وقت انسانوں کی روح اپنے قبضے میں لے لیتا ہے” (سورہ زمر آیہ 42)

ابن زياد نے غصے میں کہا: “میرے جواب میں دلیری دکھاتے ہو؟” اور اپنے جلادوں کوحکم دیا کہ ان کا کلام قطع کردیں اور ان کا سر قلم کردیں”۔

پس حضرت زينب نے فرمایا: “اے پسر زياد! تم نے ہمارا جتنا خون بہایا اتنا ہی بس ہے” اور جناب سیدہ (س) نے امام کو اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا: “واللہ میں ان سے جدا نہ ہونگی۔ اگر تم انہیں مارنا چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل کردو”۔

ابن زياد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: “عجبا كہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ہمراہ قتل ہونا چاہتی ہے! چھوڑو اس کو کیوں کہ یہ اپنی بیماری سے ہی مر جائے گا”…

امام سجاد (ع) نے اس کے بعد سفر شام کی مشقتیں، اسيري کے دکھ درد اور دربار یزید کے عذاب کو برداشت کیا… اور اپنی عمر شریف کے آخری ایام تک کربلا اور کوفہ و شام کے مصائب کو یاد کرتے تھے اور ان مصیبتوں سے متاثر تھے … 

روايت ہے کہ مدینہ میں ایک باطل گو مسخرہ رہتا تھا جو اپنی بذلہ گوئی اور مذاق کے ذریعے لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ اس نے ایک روز کہا: “علي بن الحسين نے مجھے تھکا کر رکھ دیا ہے اور میں عاجز آگیا ہوں؛ کیونکہ میں نے جتنی بھی کوشش کی انہیں نہ ہنسا سکا”۔ 

امام سجاد (ع) محرم الحرام سنہ 94 (يا 95) ہجري، کو 57 سال کی عمر میں اموی بادشاہ “عبدالملك بن مروان” کے حکم پر اس کے ایک بیٹے کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بستر شہادت پر لیٹ گ

تبصرے
Loading...