باب ولایت فقیہ

اس مسئلہ (ولایت فقیہ)کی وضاحت کی غرض سے ہم یہاں سب سے پہلے اقسام حکومت کو بیان کردینا بہتر سمجھتے ہیں تا کہ یہ مسئلہ قارئین کرام کے لئے مزیدواضح ہو جا ئے ۔
حکومت کی قسمیں :
١)حکومت کی پہلی قسم :انبیاء و آئمہ معصومین علیہم السلام کی حکومت ہے اور یہ حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو ایک فرد ،کسی امت یا کسی ایک خاص جامعہ پر کیا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے انبیاء و اصیاء الہی کی حکومت ہے جو دراصل حکومت الہی ہے لیکن ان کے وسیلہ سے ہے ۔ شیعہ امامیہ قائدہ لطف کے مطابق (جو ایک عقلی دلیل ہے )اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا وند عالم پر یہ واجب ہے کہ انسان کی ہدا یت و سعادت ،جامعہ میں نظم و ترتیب اور ہرج و مرج کی قید و بند کے لئے اپنے فرد خاص ،صالح اور فرد معصوم کو لوگوں کے درمیان بھیج کر اپنی حکومت کو تشکیل دے ۔”کان النّاس امةًواحدةً فبعث اللّٰہ النبیّن مبشّرین ومنذرین   وانزل معھم الکتاب باالحقّ لیحکم بین النّاس فی مختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعدہ ماجائتھم البیّنات بغیاً بینھم فہدی اللّٰہ الذین آمنوا اختلفوا فیہ من الحق باذنہ واللّٰہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔””سارے انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف انھیںلوگوں نے کیا ہے جنھیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہو گئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر …تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دیدی اور انھوںنے اختلافات میں حکم الہی سے حق دریافت کرلیااور وہ تو جسکو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیدیتا ہے ۔” (٢٣)
٭ انسانی معاشرہ پہلے مرحلہ میں با لکل سادہ اور مترفق تھا پھر تکامل حیات کے لئے اجتماعیت پیدا ہو ئی ۔اجتماعیت نے مفادات میںتصادم پیدا کردیا مفادات کے تصادم نے رہبری کی ضرورت ایجاد کی ۔
رہبری ، فطر ت بشر کے اعتبار سے بشارت اور انداز کا راستہ اختیار کیا اور اس کے بعد بغاوت کرنے والے صرف وہ بد بخت تھے جنہیں ان وا ضح ہدایات سے بھی کو ئی راستہ نہ مل سکا!لہذا انسان کو عارضی اختلافات میں بھی پرہیز کرنا چا ہیئے اور فطری اختلافات میں بھی قانون الہی کا اتباع کرنا چا ہیئے ۔”فلا وربّک لا یومنون حتّٰی یحکّموک فی ما شجربینہم ثمّ لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت و یسلّموا تسلیماً۔””پس آپ کے پرور دگار کی قسم یہ ہرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپاتسلیم ہوجائیں ۔”(٢٤)
ان دو آیتوں میں دو بنیادی نکتہ قابل تو جہ قرار پا تے ہیں :
١۔انبیاء کی بعثت کا غرض انسان کی ہدا یت و سعادت اور جامعہ میں نظم و عدالت ہے تا کہ معاشرہ ہرج و مرج سے بچ کر سعادت و کمال کی طرف گامزن ہو جا ئے ۔
٢۔انبیا  کی حکومت حکومت فردی تھی یعنی ایک فرد کا ایک امت اور ایک جامعہ پر مستقل حکومت کرنا ،البتہ یہ یا د رہے نہ آج کی حکومت کی طرح ڈیکٹا ٹوری اور زور ظلم کی حکومت !(جسکا پس منظر آپ کے سامنے ہے )نہیں بلکہ حقیقت میںیہ خدا ئی حکومت ہے جو وحی الہی اور کتب آسمانی کے زیر تحت بدست افراد صالح و معصومین ہوا کرتی ہے ۔اور اس کا مطلب اب یہ بھی نہیں ہے کہ انبیا کی حکومت چونکہ خدا ئی حکومت ہے تو وہ اپنی اس حکومت میں کسی دوسرے افراد غیر معصوم کی دخل اندازی (مشورے …وغیرہ )نہیں پسند کیا کرتے تھے ! نہیں بلکہ بہت سے ایسی جگہیںہیں جہاں انہوں نے لوگوں سے مشورہ تو کیا ہے لیکن نہا ئی اور آخری نتیجہ وہ خود نکالا کرتے تھے ”فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک فاعف عنہم واستغفر لہم وشاورہم فی الا مر فاذا عزمت فتوکّل علی اللّٰہ انّ اللّٰہ یحبّ المتوکّلین ۔” ”پیغمبر !یہ اللہ کی مہر بانی ہے کہ تم ان لوگوں کیلئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انھیں معاف کردو ان کیلئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔”(٢٥)
اس آیت میں پیغمبروں کو دوسروں سے مشورہ کا حکم تو خدا وند عالم کی طرف سے تھا لیکن آخری اور نہا ئی قدم اٹھانا ان کے عہدہ پر تھا نہ غیر کے اور یہی وہ حکومت ہے جو منحصر ہے فقط فرد صالح اور معصوم سے کہ جو تمام خطاؤں سے عاری تھے اور اسے عقل سلیم بھی قبول کیا کرتی ہے ۔(اگر افراد صالح کی حکومت نہ ہو گی تو آج کی طرح جامعہ میں ہرج و مرج اور ایک خلفشار برپا ہو کر رہ جا ئے گا جہاں نہ فقط انسان کا استحصال بلکہ پوری انسانیت کو پائمال کیا جا رہا ہے ۔)
٢)حکومت کی دوسری قسم :اس حکومت میں ایک فرد خاص کی حکومت تو ہے لیکن اسکا منبع زور و ظلم، قدرت طلبی(حکومت شاہی)وغیرہ جیسا کہ اگر آپ ماضی کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو بات آپ کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہو جا ئیگی اور اس زمانے کی شاہی حکومتوں کے بد نما چہرے خود بخود آپ کے سامنے آجا ئیں گے جہاں جہلا ء نے مسند شاہی کی خاطر پورے جامعہ میں ظلم و جور قتل و غارت گری کے ذریعہ بڑی بڑی ریاستوں اور بڑے بڑے ملکوں پر طاقت کے زور پر قابض ہوجا یا کرتے تھے !اور بسا اوقات ایسے افراد جنہیں قدرت طلبی اور مسند شاہی کی ہوس ہوا کرتی تھی یہ دوسرے بیگانہ افراد اور سامراج کی سیاست کے زیر نظر لوگوں پر حکومت کیا کرتے تھے ۔جیسا کہ آج دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ایک فرد اپنی بادشاہی سے مغرور و مست ہو کر لوگوں پر ظلم کے پہاڑ دھانے لگتا ہے تو مظلوم و بے گناہ لوگوں کی آہیں اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا کرتی ہیں آخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چونکہ یہ دوسروں کے سازشوں کے تحت بنا ئے ہو ئے بادشاہ تھے (جیسے صدام ملعون و…) تو اسے سامراجی طاقتیںمعزول کر کے اس کی جگہ ایک دوسرے فرعون کو بٹھا دیتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے ۔اور اس ظلم و جور کی حکومت میں زندگی بسر کرنے والی رعایا کو یہ حق بھی نہیں دیا جا تا ہے کہ وہ اپنے شعبہ ٔ حیات پر قادر ہو جا ئیں !
٣)حکومت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اس حکومت کا منبع نہ ہی کو ئی فرد خاص ہے اور نہ ہی کو ئی عدل و انصاف بلکہ یہاں انسان انسان پر حکومت کیا کرتا ہے جسے اصلاح میں ڈموکراسی کہتے ہیںاور اسکا منبع صرف لوگ ہوا کرتے ہیں جو جسے چاہیں بغیر کو ئی قید و شرط کے وہ چاہے کو ئی بھی شخص ہواس کا تعین کرکے اسکے حوالے زمام حکومت کر دیا کرتے ہیں اور یہ کبھی ایک پڑھے لکھے شخص کے ہاتھوں میں تو کبھی ایک جاہل پیشہ ور افراد کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی جا ری رہتا ہے جسکا کو ئی خاص معیار نہیں ہو ا کرتا حکومت کی مسند پر آنے والا فرد وہ چا ہے کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو وہ چاہے فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو لوگوں کو کو ئی فرق نہیں پڑتا!اور جو قوانین اس کے رفقائے کار(پارلمنٹ)نے معین کردیا ولو لوگوں (جامعہ)کے شیایان شان اور انکے اخلاقی اقدار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو وہ انکے لئے حجت ہے۔ جس کی زندہ مثال آپ کے سامنے ہے جیسے انگلینڈ اور بعض یورپین ملک کے قوانین ہیں ۔تو یہ ڈموکراسی حکومت ہے جو نہ ہی کسی مکتب سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی لوگوں کی فطرت اور عفت آبرو کے لحاظ سے !
٤)حکومت کی چوتھی قسم یہ ایسی حکومت ہے جو لوگوں کی رای سے برقرار کی جا تی ہے لیکن نہ یہ کہ بغیر کو ئی قید و بند اور شرط کے بلکہ اس حکومت میں مذہب و ملت کے لحاظ کے ساتھ لوگوں کو یہ حق حاصل ہو تا ہے کہ وہ اپنی نظر کا اظہار کریں اور اپنے آیندہ کے لئے ایسے کو انتخاب کریں جو اخلاقی اقدار کا حامل ہو جو مکتب دین کے مقرارت کا پایبند ہو نہ یہ کہ کو ئی اوباش قسم کے ہنر پیشہ فرد کے حوالے لوگوں کی مستقبل کا باگ ڈور سنوپ دیا جا ئے لہذا جب جامعہ میں لوگوں کو اس چیز کی آزادی دی جا ئے گی تو آنے والا قانون کے پیرائے میں رہے گا اور مذہب کے اصول کا پابند بھی ۔اور ایسی صورت میں جامعہ اخلاقی پستی سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جا ئے گا ۔جہاں بھی یہ طریق کار ہے وہاں لوگوں میں یک جہتی کے ساتھ ساتھ غور و فکر کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور جس ملک میں لوگوں کو اظہار نظر کا حق حاصل نہیں اس جگہ انسانی قوانین نہیں بلکہ حیوانی قوانین کا اجرا ہوتا ہے جسکی بنیاد پر وہاں کے لوگ انسانیت کے دائرہ سے نکل کر حیوانیت بلکہ اس سے بھی پست اخلاق کے حامل ہو جاتے ہیں ۔
جامعہ میں حاکم و رہبر کے وجود کی ضرورت: 
حکم عقل( و شرع )کی اساس و بنیاد پر جامعہ کو ایک حاکم و رہبر کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے ورنہ جامعہ میں اس کے بغیر ہرج و مرج ،قتل و غارت گری اور فساد برپا ہو جا ئے گا ۔لہذا حاکم فاسد و ظالم کے وجود سے بہتر جامعہ بغیر حاکم کے ہو امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام آپ فرماتے ہیں کہ”انہ لا بدّ للناس من امیر برٍّ او فاجرٍ۔” نظام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہو نا ضروری ہے ”اور اگر حاکم نیک کرردار نہ ہو تو ”ولو فاسق ہی کیوں نہ ہو ،فاسق کی حکومت کے زیر سایہ مومن کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے ۔”(٢٦)
تمام اسلامی جوامع حاکم و رہبر کے وجود پر اتفاق نظر رکھتی ہیں فقط ایک خوارج ہی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حکومت خداوند عالم سے مخصوص ہے ۔اور کو ئی بھی اس بات کا حق نہیں رکھتا ہے کہ وہ دوسروں پر حاکمیت کرے ۔(لا حکم الا للہ )
ابن خلدون کہتے ہیں کہ :حاکم و رہبر کا لوگوں پر ایک اجماعی لازمہ ہے اور یہ لازمہ عقل و شرع ہے لیکن اس میں اختلاف نظر ہے۔ کہ کیا خدواند عالم کا لوگوں پر حاکم و رہبر نصب کرنا لازم ہے کہ یا نہیں !نیز وہ اپنی بات کو ادامہ دیتے  ہو ئے کہتے ہیں کہ :معتزلہ اور مکتب تشیع اس مسئلہ کو عقلی (عقل کے مطابق ) جانتے ہیں اور اہلسنت کے بعض گروہ اسے حکم شرعی جانتے ہیں ۔(٢٧)
حافظہ کعبی (عالم اہلسنت)کہتے ہیں کہ :معتزلہ اس بات کے معتقد  ہیںکہ امام و حاکم کا لوگوں پر نصب کرنا عقلاً و شرعاً واجب ہے ۔(٢٨ )
لیکن شیعہ معتقد ہیں کہ امام و حاکم کا انتصاب، ضروری ہے کہ خدا وند عالم کی طرف سے ہو یا اس کا نصب کرنا خدا پر ختم ہو تا ہو اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ مسئلہ مشروعیت نہیں رکھتا ہے ۔
یعنی اگرلوگوں نے خود سے کسی بھی شخص کو اپنا حاکم و رہبر اور امام مان لیا اور اسے رہبری کے لئے انتخاب کر لیا ہے اور اسمیں کسی بھی قسم کی خدا ئی انتصاب کی بو نہ آتی ہو تو وہ اسلامی نقطہ نگاہ سے مشروعیت نہیں رکھتا ہے اور اسلام کی نظر میں اس حاکم اوراس کے انتخاب کی کو ئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس عالم میں جتنے انبیا بھی بشری لباس زیب تن کر کے آئے وہ خدا کی طرف سے منسوب و مبعوث رسالت ہو ئے تھے اور انکے اوصیا اور آئمہ معصومین  ان کی طرف سے بہ حکم پروردگار لوگوں کے لئے حاکم ،رہبر اور امام منتخب کئے گئے تھے ۔یا داوود انا جعلنا فی الارض فاحکم بین النا س با لحق۔(٢٩)
لہذا حکومت اسلامی کی مشروعیت اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جب خدا وند عالم نے مستقیم یا غیر مستقیم اسے تعیین و تأیید کیا ہو ۔انبیا علیھم السلام کی حکومت کا تذکرہ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ہوا ہے لیکن ان کے اوصیا اور ائمہ معصومین  کہ جیسا ہم نے اپنی پہلی بحث میں ذکر کیا ،قرآن کی آیات کے علاوہ بہت ساری روایات بھی موجود ہیں جو رسول اکرم ۖ سے منقول شدہ ہیں ۔
شرایط و صفات حاکم
تمام فرق و مذاہب اسلامی رہبریت و حاکمیت کے قائل ہیں اور اس میں ان کے درمیان کو ئی اختلاف بھی نہیں ہے مگر یہ کہ حاکم و رہبر کے صفات و شرایط میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ابن خلدون اپنے مقدمہ میں رہبر و حاکم کے صفات و شرایط کو پانچ شرطوں میں خلاصہ کیا ہے :
١۔علم ۔    
٢۔ عدالت۔
٣۔کفایت(یعنی شجاعت ،تدبیرو سیاست)
٤۔حواس و صحت کی سلامتی (اعضاء بدن کی سلامتی کیونکہ یہ دونوں چیزیں حکم و عمل میں تأثیر رکھتی ہیں ۔)
٥۔قرشی ہونا۔(مقدمہ ابن خلدون صفحہ ١٩٣)
علامہ حلی (کہ جو فقہائے شیعہ میں ایک خاص منزلت و مقام کے حامل ہیں )جامعہ ٔ اسلامی کی رہبری اور حاکم اسلام کے لئے بہت زیادہ شرطیں بیان کی ہیں :
١۔بلوغ۔
٢۔اسلا م ۔
٣۔ عدالت۔
٤۔آزاد ہونا(یعنی غلام نہ ہو )
٥۔مر د ہو ۔
٦۔احکام کا جاننے والا ہو ۔
٧ ۔شجاعت۔
٨۔صاحب نظر ہو اور وظیفہ کے انجام دینے پر توانا ئی رکھتا ہو .
٩۔اپنے اعضاء جوارح (آنکھ ،کان اور زبان …)پر مسلط ہو .
١٠۔قرشی ہو ۔
١١۔ روح و جسم سلامت و سالم ہوں ۔
١٢۔شیعوں کے اعتقاد کے مطابق معصوم ہو ۔
١٣۔تما م برائیوں سے دور ہو ۔
بزرگوار نے ان میں بعض شرائط کو امامت عظمیٰ میں سے جاننا ہے جیسے عصمت و قرشی (سید)ہونا ۔(٣١)
علمائے جمہور (عامہ)و رہبری کی شرطیںاہلسنت کی کلامی کتابوں میں امامت و رہبری کی پانچ شرطیں بیان کی گئی ہیں :
١۔قرشی ہونا ۔
٢۔اجتہاد ۔
٣۔صاحب رأی۔        
٤۔شجاعت۔    
٥۔عدالت۔

تبصرے
Loading...