ایک سوپر پاور کے زوال کی نشانیاں

بڑی طاقتوں اور ان کی سلطنت کی عملداری کے عروج و زوال، صدیوں سے انسانی تاریخ کے بنیادی حقائق میں شمار ہوتا ہے۔ یہ زمرہ سیارۂ زمین کے انجام کے بارے میں سوچ بچار کے حساس اور متعدد بار تائید شدہ دائروں میں سے ایک ہے؛ چنانچہ جب ہمیں ایک ملک ـ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو تسلسل کے ساتھ “واحد بڑی طاقت” (Sole superpower)، “آخری بڑی طاقت (last Superpower)” اور حتی کہ “عالمی ماورائی طاقت

بڑی طاقتوں اور ان کی سلطنت کی عملداری کے عروج و زوال، صدیوں سے انسانی تاریخ کے بنیادی حقائق میں شمار ہوتا ہے۔ یہ زمرہ سیارۂ زمین کے انجام کے بارے میں سوچ بچار کے حساس اور متعدد بار تائید شدہ دائروں میں سے ایک ہے؛ چنانچہ جب ہمیں ایک ملک ـ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو تسلسل کے ساتھ “واحد بڑی طاقت” (Sole superpower)، “آخری بڑی طاقت (last Superpower)” اور حتی کہ “عالمی ماورائی طاقت (Global Hyperpower)” کہلاتا ہے اور پھر جب وہی ملک کسی وقت عجیب و غریب صورت سے دچار ہو کر کچھ بھی نہیں کہلاتا تو  انسان شدید حیرت سے دوچار ہوتا ہے، کہ کیا پھر بھی “زوال” کے بارے میں سوچنا چاہئے؟ کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اسی صورت حال کا سامنا ہے یا نہیں؟ کیا ہمیں یہی سمجھنا چاہئے کہ اس کو سلطنت کی عظمت زوال کی ڈھلوان آکھڑی ہوئی ہے؟
آپ امریکہ کے کسی بھی مقام پر ایک سست رفتار گاڑی کو ـ خواہ وہ جو بھی گاڑی ہو ـ تصور کریں اور اس کے بعد زمین کے بھی کسی بھی دوسرے نقطے پر ایک تیز رفتار گاڑی کا تصور کریں تو دیکھ لیں گے کہ امریکہ کے زوال کا تصور بہت مشکل نہیں ہے۔ یعنی تاریخ انسانیت کی یہ عظیم ترین طاقت، یہ یک قطبی طاقت حتی تیز رفتار گاڑی چلانے کے لئے ایک کیلومیٹر کی پٹڑی بچھانے سے عاجز ہے؟ واقعی؟ حالانکہ اس وقت امریکی کانگریس اس وقت اس موضوع پر بحث کررہی ہے کہ کیا ملک کی موجودہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے بچانے کے لئے بجٹ منظور کروایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
کبھی سوچتا ہوں کہ گویا میں اپنے والدین سے بات چیت کررہا ہوں کو عرصہ قبل دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں؛ کیونکہ جانتا ہوں کہ یہ حقائق ان دونوں کے لئے کس حد تک باعث حیرت ہوسکتے تھے کہ اس ملک کے حکمران عظیم کساد بازاری، بعدازاں دوسری جنگ عظیم اور اور بعد از جنگ کا نیم دلانہ دور گذار چکے ہیں جب اس ملک کی عظیم دولت اور طاقت میں چون و چرا کی گنجائش نہ تھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ میں ان سے کہہ سکتا کہ “کس طرح اس بدستور صاحب ثروت ملک کے حیاتی ڈھانچے ـ جیسے پلوں، پائپ لائنوں، سڑکوں وغیرہ ـ کو بدترین بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ وہ عدم مرمت اور عدم دیکھ بھال کی کیفیت سے دوچار ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی شکست و ریخت کا آغاز ہوچکا ہے؟ اس طرح کی بات انہیں یقینی طور پر چونکا دیتی۔
یا مثلا وہ اس موضوع کو جان کر کیا سمجھتے کہ سوویت روس کے تاریخ کے کوڑے دان میں روانہ ہوجانے کے بعد ـ گذشتہ ربع صدی سے اب تک ـ ریاست ہائے متحدہ امریکہ واحد فاتح ملک کی حیثیت سے بلا منازع عسکری اور معاشی قوت کو مؤثر انداز سے بروئے کار نہیں لا سکا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ جان کر گُم صُم اور ششدر رہ جاتے؛ کیونکہ سوویت روس کے زوال کے لمحے سے امریکہ مسلسل دوسرے ممالک کے خلاف برسر پیکار رہا (تین جنگیں اور بے انتہا کشمکش)؛ میں تمام ممالک کے بارے میں بات کررہا ہوں؛ منجملہ عراق اور یہ کہ اس ملک میں امریکی مشن کسی وقت بھی صحیح طور پر اختتام پذیر نہیں ہوسکا ہے۔ کس قدر یہ بات میرے مرے ہوئے والدین کے لئے بعید از قیاس ہے؟ اور وہ کیا سوچتے سرد جنگ کے بعد افغانستان کے ساتھ عظیم تنازعے کو جان کر؟ (ایک عشرے کے وقفے سے دو جنگیں)؛ اور چھوٹے چھوٹے غیرسرکاری کرداروں کی طرف بھی ـ جن کو آج ہم دہشت گرد کہتے ہیں ـ اشارہ کروں اور ان تنازعات کے نتائج بھی بیان کروں تو وہ کیا رد عمل ظاہر کریں گے: عراق میں ناکامی، افغانستان میں ناکامی، عظيم تر مشرق وسطی (مغربی ایشیا) اور افریقہ کے متعدد علاقوں میں دہشت گرد جماعتوں کی افزائش (منجملہ ایک حقیقی دہشت کی خلافت کا معرض وجود میں آنا)۔
میرے خیال میں وہ کہیں گے کہ “امریکہ ایک ٹیلے کی چوٹی پر واقع ہوا تھا، چنانچہ جلدی یا بدیر اس کو زوال پذیر ہونا تھا اور یہ ہمیشہ سے ہر طاقت کا انجام ہے۔ اور کیا ہوگا اگر میں ان سے کہہ دوں کہ اس نئی صدی میں حتی امریکہ ـ جس کی فوج دنیا بھر کی بہترین جنگی قوت کے طور پر پہچانی جاتی ہے ـ کا ایک عسکری اقدام بھی آخر کار رسوا کن شکست کے سوا کسی اچھے نتیجے پر منتج نہیں ہوسکا یا یہ کہ امریکہ کے صدور، صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار اور واشنگٹن کے سیاستدان ایسی چیز پر زور دینے کے پابند بنائے گئے ہیں جس کے کہنے پر پر میرے والدین کے زمانے میں کسی بھی مجبور نہیں کیا جاتا تھا؛ یہ کہ “ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایک غیر معمولی ۔ استثنائی ملک بھی ہے اور ایک ضروری ملک بھی؛ یا یہ کہ انہیں (نیز ہمارے ہم وطنوں کو) لامحدود و لامتناہی صورت میں ان کامیابیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کی شکل تک انہیں آج تک نظر نہیں آسکی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ مذکورہ جنگی علاقوں میں حاصل شدہ یہ غیر مرئی کامیابیاں! ان کے لئے جسمانی اور نفسیاتی معذرویوں کا سبب بنی ہے یا پھر ان کی جان تک چلی گئی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں ممنون رہنا پڑتا ہے!
ایسا کیوں لگتا ہے کہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی طاقت ـ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سینکڑوں چھاؤنیوں کے باوجود، اس بات سے قطع نظر کہ اپنی فوج کو کہاں بھیج رہی ہے ـ اپنی طاقت کو مؤثر انداز میں استعمال کیوں نہیں کرسکتی؟ یا سوویت یونین کے زوال کے بعد ایران یا روس جیسے ممالک کو ـ مختلف النوع دھمکیوں، پابندیوں اور دیگر اقدامات کے باوجود ـ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتی؟ یا پھر مشرق وسطی میں خودخواندہ دہشت گردانہ ریاست کو کچل سکتی؟
میرے حیرت زدہ والدین! اپنی قبروں کی طرف پلٹ جاؤ، یہ ساری باتیں ذہن نشین کرو اور ایک بےمثال بڑی طاقت کے زوال کی تصویر کشی کرو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ:http://www.huffingtonpost.com/tom-engelhardt/the-superpower-conundrum_b_7713372.html
1- Tom Engelhardt, امریکی ادارے “The American Empire Project” کے بانیوں میں سے ہیں وہ کتاب “The United States of Fear” نیز کتاب “The End of Victory Culture” کے مصنف ہیں۔

تبصرے
Loading...