ایک تابناک مستقبل کا انتظار

ان الارض یرثھا عبادی الصالحون>(۲)

اسلام خدائے واحد پر ایمان اور توحید حقیقی کے عقیدے کی دعوت دیتا ہے،اسلام کے عقائد اور اخلاقی نظام ،جزا وسزا، طرز حکومت اور تمام انفرادی ومعاشرتی احکام سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کا اصل ہدف لغو اور بے بنیاد امتیازات اوربرتری کی دیواروں کو توڑکر تمام گروہوں اور قوموں کو متحد کرکے پوری نوع بشر کے درمیان اتحاد ویگانگت اورتعاون وخیرخواہی کا ایسا مستحکم رشتہ برقرار کرنا ہے جس کی بنیاد صرف ”کلمہٴ توحید“ اور خدائے وحدہ لاشریک کاایمان ہو۔

اسلام عقیدہٴ توحید کے ذریعہ ہر طرح کے اختلافات کو ختم کردینا چاہتا ہے،چاہے وہ نسلی، طبقاتی، قومی، ملکی، جغرافیائی یا لسانی اختلاف ہوں یامسلک ومذہب اور پارٹی یا گروہ کے نام پر، ان میں سے کوئی اختلاف باقی نہیں رہنا چاہئے ،اسلام کی نگاہ میں انمیں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کے لئے فضیلت وبرتری کا باعث ہو یا جس پر انسان فخر کرسکے حتیٰ کہ دینی اختلافات کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے اور بلا استثناء سبھی کو خدا کے حکم (واقعی) کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے۔

اسلام کا اعلان ہے کہ قافلہٴ بشریت ایک دن اس منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا، اسلام کے

(۱)یہ مضمون رسالة مکتب انبیاء (دین در عصر دانش )نمبر ۲  میںص۶۱سے۲۳تک طبع ہوا ہے۔

(۲)  اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔ سورہٴ انبیاء آیت ۱۰۵۔

قوانین اور نظام کسی حد تک اس کے مقدمات بھی فراہم کردیتے ہیں البتہ اس کو عملی شکل دینے کے لئے مناسب ماحول اور حالات کا انتظار ہے۔

عالمی حالات، مادی وصنعتی ترقی اور دور حاضر میں رابطہ کے ذرائع کے باعث جو نزدیکیاں پیدا ہوئی ہیں ان تمام چیزوں کی بدولت تمام انسانوں کے درمیان حقیقی اتحاد اور اخوت اور پختہ روابط کی ضرورت آج شدت سے محسوس کی جارہی ہے اور انسانیت جتنا آگے قدم بڑھائے گی اس ضرورت کا احساس شدید تر ہوتا جائے گا۔

آج اقوام عالم ایک اکائی کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور پوری دنیا کے انسان ایک دوسرے کے پڑوسی بلکہ ایک ہی کنبہ کے افراد کی مانند ہوگئے ہیں، اگر دو پڑوسیوں یا ایک گھر کے دو افراد کے درمیان اختلاف ہو، ہر ایک کا دین ومسلک، وطن، زبان، عادات واطوار الگ الگ ہوں اور دونوں کو ایک ہی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا پڑے یا دونوں کو کوئی ایک مکتب فکر اور طرز معاشرت اختیار کرنا پڑے تو دونوں کی زندگی تلخ اور دشوار ہوجائے گی، دونوں کے درمیان ہمیشہ رسہ کشی اور جنگ وجدال کی کیفیت برقرار رہے گی۔

آج کی دنیا بعینہ اسی صورت حال سے دوچار ہے جب تک ایک عقیدہ، ایک نظریہ، ایک قانون، ایک طرح کے عادات واطوار، ایک نظام نہ ہو امن وآسائش میسر نہیں ہوسکتی اور یہ نظام وقانون بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جس میں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے سماجوں کو برابرکے حقوق دئے گئے ہوں، یورپ کو افریقہ پر اور مغرب کو مشرق پر کوئی برتری حاصل نہ ہو اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیشہ ایک طبقہ محروم رہے گا اور دوسرا خوشحال، ایک فاتح وغالب ہوگا اور دوسرا مفتوح ومغلوب، اختلاف وجدائی کے ایسے تمام اسباب کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

آج فکر بشرارتقا ء کی اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ اسے اختلاف وجدائی کے اسباب کی بے مایہ حقیقت کا احساس بخوبی ہوچکا ہے لہٰذا انسانیت کو ایسے بے مایہ و بے بنیاد اسباب سے دست بردار ہو جانا چاہئے اور روئے زمین پرایک ایسا حقیقت پسند، ایسا صالح او رمستحکم معاشرہ وجود میں آنا چاہئے جس کا وعدہ قرآن نے کیا ہے۔

یہ بالکل واضح ہے کہ ایسا صالح معاشرہ خودبخود وجود میں نہیں آسکتا اس کے لئے مختلف اسباب درکار ہیں اس کے لئے عادلانہ قوانین، اجتماعی تعلیم، جزا وسزا کے منصفانہ نظام کے ساتھ ذاتی یا طبقاتی مفادات سے بلند ہوکر عالی مرتبت افراد کے ہاتھوں تعلیم وتربیت کا صحیح انتظام ضروری ہے اور صرف دین اسلام ہی اعلیٰ پیمانہ پر ان امور کی فراہمی کا ضامن ہوسکتا ہے، اسی کے ساتھ فکر بشر کا ارتقاء بھی ضروری ہے تاکہ ظلم وجور، قتل وغارتگری کی کثرت، بڑھتی ہوئی بدامنی کے باوجود حکام وقت کو اصلاح سے عاجز دیکھ کر بشریت خود متوجہ بلکہ فریادی ہوجائے کہ عدل وانصاف سے لبریز سماج اور نظام کی ضرورت ہے!

صرف عادلانہ نظام بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عالی ہمت وعالی مرتبت رہبر کی ضرورت ہے، ایسا قائد ورہبر جو مادیت پرست نہیںبلکہ روحانیت کا علم بردار ہو، خواہشات نفس، غروروتکبر، غضب وغصہ اور خود غرضی جیسے پست جذبات واحساسات سے مبرا ہو، ایسا رہبر وپیشوا جو صرف خدا کو پیش نظر رکھے اور اتنا عالی نظر وعالی ظرف ہو کہ قومی، جغرافیائی اور نسلی اختلافات کے بجائے تمام انسانوں کو رافت ورحمت اور مساوات کی نگاہ سے دیکھے اور یہ اعلان کرے:

”لا فضل لعربيعلیٰ اٴعجمي“

”عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں ہے۔“

”الناس کلہم سواسیة کاٴسنان المشط“

”تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ہیں۔“

”الخلق کلہم عیال اللّٰہ فاٴحبّھم الی اللہ انفعہم لعیالہ“

”لو گ عیال خدا ہیں، ان میں سب سے زیادہ محبوب ِخدا وہ ہے جو عیال خدا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہو۔“

جن رہبروں میں یہ صفات نہیں پائے جاتے جو ایسے بلند وبالا مفاہیم سے واقف ہی نہیں یقینی طور پر وہ اس عادلانہ دنیا کے سربراہ نہیں ہوسکتے جس کی آج انسانیت متلاشی ہے، ہماری آج کی دنیا کے قائدین سیاہ وسفید، ایشیائی، یوروپی، افریقی، امریکی کو برابر نہیں تسلیم کرسکتے اور نہ ہی سب کے مساوی حقوق قرار دے سکتے ہیں۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ ایک طبقہ کے مفاد میں دوسرے طبقہ کا استحصال، طاقتور معاشرہ کے ذریعہ کمزور سماج کو نگل جانا اور اپنی قوم کے منافع کا حصول ہے۔ یہ لوگ افریقہ کے غریب و بے نوا اور الجزائر کے حریت پسند افراد کو شدید قتل وغارتگری اور سخت ترین آزار وشکنجہ کے ذریعہ اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں ان کے منھ کا لقمہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں، دوسرے ممالک کے قدرتی ذخیروں پر قبضہ کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے عیاش دولت مند ان سے ناراض نہ ہونے پائیں، دوسری جانب کچھ سربراہ کمزوروں اور ضعیفوں کی حمایت اور سامراجیت کے خلاف جنگ کے پر فریب نعرہ کے بہانے ”فردکی آزادی“ کو نیست نابود کرکے انسان کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کردینا چاہتے ہیں، شخص کے بجائے معاشرہ اور سماج کے اختیارات کے قائل ہیں اور سماج کو بالکل ایک ایسی زندہ مشین میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں جس میں ارادہ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس کا کنٹرول خودا س کے بجائے چند بے ضمیرافراد کے ہاتھوں میں ہو۔

تیسری طرف اقلیتوں کی تقویت کے نام پر قوموں کے درمیان پھوٹ ڈال کر انھیں تقسیم کررہے ہیں ، اس طرح کمزور ممالک پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں،دنیاوی رہبروں اور لیڈروں کا یہی طریقہ کار ہے، کل بھی یہی صورت حال تھی اورآئندہ بھی یہی رہے گی، یہ لوگ کتنے ہی ناوابستہ کیوں نہ ہوں ان کا مقصد اپنے ملک وملت کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے انھیں دوسرے ممالک یا اقوام کی آزادی سے کیا واسطہ؟ اور جب یہ لوگ ایک پارٹی یا سماج کے لئے منتخب ہوتے ہیں تو ان سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی،آج کل سربراہان مملکت کی لیاقت وصلاحیت کا کل معیار اپنے سماج ومعاشرہ کے مفادات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلتی رہتی ہے، طاقتور، کمزور کو دباتا ہے اور کمزور قوموں کو وہ حقوق نہیں دئیے جاتے جو طاقتور قوموں کو حاصل ہیں،ا وروہ اپنے منافع حاصل کرنے کے لئے خطرناک جنگوں سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔

اس کے برخلاف خدا ئی منصب دار اور الٰہی رہبر چونکہ کسی خاص گروہ یا قوم سے تعلق نہیںر کھتا اور اپنے کو اس خدا کا نمائندہ سمجھتا ہے جو سب کا خالق ورازق ہے لہٰذا اس کا مقصد سب کے لئے راحت وآسائش اور سبھی کی آزادی ہوتا ہے وہ ایک ایسے عالمی ادارہ اور معاشرے کی تعمیر کرتا ہے جس کے زیر سایہ پورا عالم انسانیت گھر کے افراد کی طرح زندگی بسر کرسکے، گورے، کالے کا کوئی فرق نہ ہو سب ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہوں البتہ اس مقصدتک رسائی کے لئے انسانوں کی ذہنی آمادگی، علمی سطح کی بلندی اور فکری رشد درکا رہے۔

احادیث وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں علوم وفنون کی ترقی، وسائل ارتباط کی وسعت، اقوام عالم کی قربت ہلاکت خیزجنگ کے نتیجہ میں دوتہائی یا اکثر آبادی کی نابودی، ظلم وجور، فسق وفجور، فحشاء وفساد کے رواج اور حکام وقت کے ہاتھوں ان امور کی اصلاح سے عاجزی کے بعد عالم انسانیت دھیرے دھیرے دینی ومذہبی رہبر کی معصوم قیادت (یعنی حضرت مہدی موعود) کے تحت عدل وانصاف پر مبنی حکومت الٰہی کی ضرورت کو محسوس کرے گا۔(۱)

(۱) آخری زمانہ کے فتنوں اور حوادث کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے نامور محدثین نے اپنی کتب (جن میں بعض کتب ایک ہزار سال سے زائد عرصہ قبل لکھی گئی ہیں) میں بے شمار روایات واحادیث نقل فرمائی ہیں،درحقیقت ان روایات کو بھی معجزات اورغیبی اخبار میں شمار کرنا چاہئے۔ تفصیل کے خواہاں افراد کو ان کتابوں کی طرف مراجعہ کرنا چاہئے۔آخری زمانہ سے متعلق روایات میں عورتوں کی بے پردگی، عریانیت، مردوں پر غلبہ، مشوروں میں شرکت، مردوں کے امور میں مداخلت، حکومتی مشاغل میں حصہ داری، شراب خوری اور مے فروشی، سود، زنا، جوے کا رواج، نماز کو سبک سمجھنا، سربفلک عمارتوں اور محلوں کی تعمیر، نااھلوں کی تقرری، کھلم کھلا گناہ، باطل اور لایعنی امور میں رقوم صرف کرنا (جیسا کہ آج نائٹ کلب اور کیبرہ ڈانس، سال نو کی خوشی یا دیگر راتوں میںعیاشی وفحاشی کا رواج ہے) بے حیا اور بدکردار عورتوں کی تعریف وتوصیف، گلوکاری، موسیقی اور عورتوں کو فحشا وفساد کی جانب راغب کرنے والے افراد کی خوشامد وچاپلوسی، حدود واحکام الٰہی کا معطل ہوجانا، حکم خدا کے خلاف فیصلہ کرنا، طلاق کی کثرت، امربالمعروف سے روکنا، مردوں کا سونے کے ذریعہ آرائش کرنا مثلا سونے کی انگوٹھی پہننا، نیززنازادوں کی بھرمار کا تذکرہ ملتا ہے۔ انہیں علامات میں شہر مقدس قم کی علمی مرکزیت اور اس کی حجیت اور اس شہر سے دوسرے شہروں تک علم دین کی تبلیغ وترویج بھی شامل ہے۔

جس طریقہ سے جزیرہ نمائے عرب اور عالمی سطح پر نظام کی خرابیوں اور انتظامی برائیوں اور کمزور طبقوں کے شدید اضطراب وبے چینی کی بدولت دنیا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی   کے ظہور کا استقبال کرنے کے لئے آمادہ ہوچکی تھی اسی طرح آخری زمانہ میں بھی دنیا عظیم مصلح اورآپ کی ذریت واہلبیت کے جانشین کے ظہورکے لئے آمادہ ہوگی، اگرچہ عہد پیغمبر   میں طویل مسافت، وسائل ارتباط کی قلت اور فکری سطح کے انحطاط کے باعث اقوام عالم کو اس ارفع واعلیٰ مقصد تک  پہنچانا ممکن نہ ہوسکا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کے ظہور کے باعث دنیا اس مقصد سے قریب ضرور ہوئی ہے اور اس کی جھلک صدر اسلام کی حق وانصاف پر مبنی پیغمبر اکرم        کی حکومت اور امیرالمومنین کے دور حکومت کے ان صوبوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں سلمان فارسی، حذیفہ یمانی، عمار یاسر، مقداد جیسے خاص اصحاب گورنر تھے۔

چودہ صدی قبل اگر قرآن مجید کایہ حریت بخش پیغام ”تعالَوا الیٰ کلمة سواء بیننا وبینکم“(۱)تمام اقوام عالم تک پہنچانے کے لئے طویل مدت درکار تھی تو آج زمان ومکان کے فاصلہ ختم ہوچکے ہیں آج عالمی نجات دہندہ کی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے اور بلا شبہ مستقبل میں ایسے وسائل مزید ترقی یافتہ اور فراواں ہوں گے۔

پیغمبراسلام  نے قرآنی وعدہ کی تکمیل کے لئے شریعت ونبوت کے  قوانین اوراپنی متعلقہ ذمہ داریوں کی حد تک مقدمات فراہم کردئے ہیں اور دوسرے مقدمات اور حالات کو آنے والے زمانہ کے حوالہ کردیا ہے، اور اسلام کی پیشین گوئی کے مطابق دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعجب خیز تبدیلیاں رونما  ہوں گی، قرآنی آیات اور متواتر روایات میں بہت صراحت کے ساتھ یہ بشارت موجو دہے کہ آخر ی زمانہ میں ایک عظیم مصلح ولی عصر حضرت حجة بن الحسن العسکری ارواح العالمین لہ الفدا کا ظہور ہوگا اور شرق وغرب عالم میں دین اسلام کا پرچم لہرائے گا اور ایک شخص

(۱)سورہٴ آل عمران آیت۶۴۔

بھی ایسا نہ ہوگا کہ جو کلمہ ٴطیبہ ”توحید“ کا قائل نہ ہو۔

حضرت کے ظہور، علائم وخصوصیات اور ان سے متعلق جزئیات کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے اکابر علماء اور بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں متواتر، قطعی اور کثرت سے مشہور ومعروف روایات جمع کی ہیں کہ عقائد واحکام میں سے چندمسائل کے علاوہ کسی بھی مسئلہ میں اتنی روایات نظر نہیں آئیں۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم  کی رسالت اور آنحضرت   کے ذریعہ بیان کی گئی غیبی باتوں پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور اورآپ کے ہاتھوں اسلام کے آفاقی مذہب ہونے پر بھی ایمان لایا جائے۔

ہم بہت سے ایسے مذہبی امور اور اعتقادی مسائل پر عقیدہ رکھتے ہیں (اور عقیدہ ہونا بھی چاہئے)جن کے بارے میں صرف چند صحیح روایات ہی پائی جاتی ہیں توآخرکیا وجہ ہے کہ جس بات کی تائیدو تصدیق عقل وشریعت کرتی ہے، عہد پیغمبر   سے لے کر آج تک جو علما ئے اسلام اور محدثین کرام کی توجہ کا مرکز رہی ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے متعدد علماء نے کتابیں لکھی ہیں ایک ہزار سے زائد روایات جس مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کی تفسیر کی گئی ہو آخر اس پر عقیدہ کیوں نہ ہو؟ اس کا ایمان وعقیدہ تو اور مستحکم ہونا چاہئے۔

بے شک! ہمارا عقیدہ ہے اور ہمیں یقین کامل ہے کہ ایک دن نظام کائنات کی مہار بشریت کی صالح ترین فرد کے دست حق پرست میںہوگی اور انسانیت ظلم وستم، فقروفاقہ اور ہر طرح کی بدامنی سے نجات حاصل کرلے گی، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا ایک تابناک مستقبل، روحانی وعقلی ترقی وتکامل اور مستحکم دینی والٰہی نظام اور صلح وآشتی، پختگی اور خیرسگالی کی جانب گامزن ہے۔

ہم بے کراں شوق ونشاط اور زندہ دلی کے ساتھ اس نورانی دور کی تمنا میں ثبات قدم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مشغول ہیں اور شب نیمہٴ شعبان یعنی روز ولادت مصلح اعظم ومنجی بشریت کوعظیم عید سمجھتے ہیں اور ہر سال اس موقع پر چراغاں، جشن مسرت، محفل فضائل اور مدح وثنا کے گل نچھاور کرکے اس آستانہ کی غلامی کا اظہار کرتے ہیں جس کی پاسبانی ملائکہ کرتے ہیں اس طرح اپنے ایمان کے لئے نشاط تازہ کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ تمام شیعیان اہلبیت  اور عشاق قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو مذہبی شعائرکی تعظیم اور دینی وظائف پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

خداوند عالم ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہمیں ان کے مددگاروں میں قرار دے آمین۔

 

 

تبصرے
Loading...