ایمان اور ذہنی سکون تحقیقات کی روشنی میں!

امریکا کی ڈوک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات نے دینی مسائل کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے میڈیکل سائنس اور سماجی علوم میں قابل قبول ٹکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نتائج پیش کئے

دینداری کے سخت پابند افراد کا روز مرہ کے مسائل کی وجہ لاحق ہونے والی پریشانی میں مبتلا ہونے کا خدشہ دوسرے افراد سے کم ہے اور اگر مبتلا ہو بھی جائیں تو ان میں ٹھیک ہونے کی امید دوسروں سے زیادہ ہے

دیندار افراد کا طرز زندگی دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ سالم اور صحت مند ہےhealthy life style) )

دین کے سخت پابندلوگ ہاسپٹل میں بھرتی(admit)کے زمانے یا اس کے بعد دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم،پریشانی اور بے چینی کا شکار ہوتے ہیں

محکم ایمان رکھنے والے وہ لوگ جو جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں دوسروں سے زیادہ بہتر اور جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں

وہ سن رسیدہ افراد جو عمیق اور باطنی دینی عقائد کے حامل ہوتے ہیں دوسروں سے زیادہ سلامتی و تندرستی کا احساس کرتے ہیں اور زندگی سے راضی ہوتے ہیں

دیندار لوگ زیادہ طولانی عمر گذارتے ہیں

وہ لوگ جو منظم طریقے سے عبادتگاہوں میں جاتے ہیں ان کے اندر سلامتی کا دفاعی نظام ان لوگوں سے زیادہ قوی ہوتا ہے جو دین کے پابند نہیں ہوتے [1]

سؤال: کیا سکون و اطمینان،خوف خدا کے ساتھ تناسب رکھتا ہے؟

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال پیدا ہو کہ ہم ایک طرف قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ایمان اور خدا کی یاد دلوں کے اطمینان اور سکون کا سبب بنتی ہے اور دوسری طرف سورہ انفال کی دوسری آیت میں آیا ہے کہ مومن انسان جب خدا کو یاد کرتے ہیں تو ان کا دل خوفزدہ اور ڈر جاتا ہے ”انّما المومنون الّذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم”یعنی مؤمنین وہ ہیں جب خدا کا نام آتا ہے تو وہ لرزتے ہیں

اس سؤال کا جواب یہ ہے کہ سکون سے ہماری مراد ان مادی عوامل و اسباب کے مقابلہ میں سکون ہے جو اکثر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں جس کے کچھ نمونے ہم نے ذکر کئے ہیں لیکن یہ مسلم ہے کہ مومن لوگ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں ہر وقت فکرمند رہتے ہیں،بہ الفاظ دیگر جو چیز مومنین کے اندر نہیں پائی جاتی وہ ہولناک پریشانیاں،جیسا کہ اکثر لوگوں میں یہی پریشانیاں ہوتی ہیں لیکن وہ تعمیری فکرمندی اور پریشانی جو انسان کو خدا اور مخلوق کے سلسلہ میں اپنے فرض کی انجام دہی اور زندگی کی مثبت سرگرمیوں کے لئے ابھارتی ہے ان کے اندر ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیئے”[2]

حضرت استاد جوادی آملی اس سؤال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”۱ یہ کہ خدائی سکون اور اطمینان قلبی،باطنی شوق کے آتش فشاں اور ملکوتی عشق کے انگاروں کے ساتھ ہی ہم آہنگ اور سازگار ہے اس لئے کہ”والّذین آمنوا اشدّ حبا للہ’

یعنی مؤمنین خدا سے شدید محبت کرتے ہیں

‘اگرچہ نفس مطمئن ہے لیکن شوق کا آتش فشاں اس کے باطن کو پگھلا دیتا ہے اور کبھی یہ شوق دھماکے کی حد تک پہونچ جاتا ہے جیسا کہ بعض جوان رسول خدا(ص)کے شوق دیدار میں اسی حالت میں مبتلا ہواکرتے تھے وہ راتوں کے سناٹے میں آنحضرت(ص)کے پاس چلے جاتے اور جب تک آپ کے جمال مبارک کی زیارت نہیں کرلیتے تھے ان کو چین نہیں ملتا تھا اس قسم کی بے تابی اور بے نظیر شوق(کہ جو انسان کا جمال خدا کے ساتھ عشق کی علامت ہے)پر سکون روح اور اطمینان سے لبریز دل کے ساتھ مکمل طور پر سازگار ہے اس لئے کہ پہاڑ کی بلندی جتنی زیادہ ہوگی اس کے آتش فشان کے انگاروں کی شدّت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی”[3]

منابع

1۔ مجلہ تقد و نظر،شمارہ سوم و چہارم،سال نہم ۱۳۸۳ ص۷۷

2۔ آیۃ اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ ج۱۰ ص۲۱۵

3۔ آیۃ اللہ جوادی عاملی،مراحل اخلاق در قرآن ص۲۳۸،۲۳۹

 

تبصرے
Loading...