ایمان ابوطالب(ع) تمام لوگوں کے ایمان پر بھاری

پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھ دیا جائے اور دیگر تمام لوگوں کے ایمان کو ترازو کے دوسرے پلے میں رکھا جائے تو ایمانِ ابوطالب کا پلہ بھاری ہو گا‘‘۔ 

ماہ مبارک رمضان کی ساتویں تاریخ حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کا دن ہے۔ حضرت ابوطالب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار ہیں۔ آپ تاریخ اسلام کی ایسی عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اس دور میں اسلام اور رسول اسلام(ص) کی حمایت اور حفاظت کی جب ہر کوئی اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کا قلع قمع کرنے پر تلا ہوا تھا۔ حضرت ابوطالب اس ذات گرامی کا نام ہے جنہوں نے اسلام کو ایسے اپنی آغوش میں پالا جیسے ایک ماں اپنی اولاد کو پالتی ہے اور اپنا سارا چین و سکون حرام کر کے اپنی اولاد کی حفاظت کرتی ہے۔ بلکہ ماں تو جب تک زندہ رہتی ہے اولاد کی حفاظت کرتی ہے لیکن حضرت ابوطالب نے اپنے مرنے کے بعد بھی دین اسلام کی ویسے ہی حفاظت کی جیسے زندگی میں کی۔ دین اسلام پر جب بھی دشمنوں نے وار کیا تو یا حضرت ابوطالب ڈھال بن کر سامنے آئے یا خون ابو طالب۔ تاریخ اسلام حضرت ابوطالب کا بدیل نہیں پیش کر سکتی۔ حضرت ابوطالب کائنات میں ایسے موحد ہیں جو ایمان کے بالاترین درجے، توحید کے بلندترین مرتبے اور قرب الہی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں۔ عالم تکوین میں آپ کا وجود بلندیوں کے اس مقام پر واقع ہے جہاں آپ کے صلب سے سلسلہ امامت کا آغاز ہوا ہے۔ آپ کا وجود مقدس نور الہی کا حامل رہا ہے۔

لیکن زمانے کے ستمگر جو اصل اسلام کے دشمن تھے جو پیغمبر اکرم (ص) کے دشمن تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ اسلام ظہور کرے جب وہ اسلام کی عظمت و منزلت کے سامنے ماند پڑ گئے تو انہوں نے اس شخصیت کی عظمت پر وار کرنا شروع کر دیا جس نے عظمت اسلام کی حفاظت میں خود کو داو پر لگایا۔ حضرت ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں سوال اٹھا کر ان کی شخصیت کو گرانے کی ناکام کوشش شروع کر دی کہ کیا ابوطالب خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان لائے تھے یا نہیں؟ یہ سوال اس ذات والا صفات کے بارے میں اٹھایا گیا جن کی آغوش میں تربیت پانے والوں میں سے کوئی رسول بنا اور کوئی امام ۔ یہ سوال اس محافظ اسلام کے بارے میں کیا گیا جس نے فرزند عبد اللہ حضرت محمد مصطفیٰ (ص) سے کہا: ’’بیٹا جاو جو کہنا چاہتے ہو کہو خدا کی قسم میں تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ ایسے شخص کے ایمان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو خدا کی قسم کھا کر خدا کے بھیجے ہوئے رسول کی آخری دم تک حمایت کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنا کر دکھلا دیتا ہے کہ جب تک ابوطالب زندہ ہے کوئی فرزند عبد اللہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ تعجب اس بات پر ہے کہ جو مرتے دم تک رسول اسلام (ص) کی نصرت کرے لوگ اس کے ایمان میں شک کریں جو رسول اسلام (ص) کو دشمنوں کے گھیرے میں چھوڑ کر پہاڑوں کی چوٹیوں چڑھ جائیں انہیں سب سے بڑے قسم کے مومنین اور سابقین میں شمار کیا جائے۔ اگر ایمان اسی چیز کا نام ہے تو یہ ایمان تمہیں مبارک اور وہ کفر ابوطالب کو مبارک۔

پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھ دیا جائے اور دیگر تمام لوگوں کے ایمان کو ترازو کے دوسرے پلے میں رکھا جائے تو ایمانِ ابوطالب کا پلہ بھاری ہو گا‘‘۔ جس بیٹے کی ایک ضربت ثقلین کی عبادتوں پر بھاری ہو سکتی ہے اس کے  باپ کا ایمان اگر تمام انسانوں کے ایمان پر بھاری ہو جائے تو تعجب کیا ہے؟

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک دن امیر المومنین علی علیہ السلام ’’رحبہ‘‘ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی اٹھا اور اس نے آپ کو طنزیہ لہجے میں کہا: یا امیر المومنین کیسے آپ کا خدا کے نزدیک اتنا بڑا مرتبہ ہے جبکہ آپ کے والد ابوطالب آتش جہنم میں گرفتار ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام شدید غضبناک ہوئے اور فرمایا: ’’۔۔۔ اس خدا کی قسم جس نے محمد ـ صلی ‌الله عليه و آله ـ کو حق پر مبعوث کیا اگر میرے والد ابوطالب قیامت کے دن روئے زمین کے تمام انسانوں کی شفاعت کریں تو خدا انکی شفاعت کو قبول کرے گا۔ کیسے ممکن ہے باپ جہنم میں جل رہا ہو جبکہ بیٹا قسیم النار و الجنہ ہو؟  اس خدا کی قسم جس نے محمد ـ صلی ‌الله عليه و آله ـ کو حق پر مبعوث کیا ہے قیامت کے دن نور ابوطالب نور پنجتن اور نور ائمہ ہدیٰ کے علاوہ تمام خلائق پر برتر ہو گا۔ اس لیے کہ ان کا نور اسی نور اہلبیت سے ہے جسے خدا نے خلقت آدم سے دو ہزار سال قبل خلق کیا تھا‘‘۔

جناب ابوطالب کی اس عظمت کے باوجود ان کے ایمان میں شک کرنا سوائے جہالت اور حسادت کے کچھ نہیں ہے۔ بقول ابی ابن الحدید کے کہ ’’اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا علی نہ ہوتے تو اسلام قائم نہیں ہو سکتا تھا، ابوطالب نے مکہ میں اور علی (ع) نے مدینہ میں پیغمبر کی نصرت کی‘‘۔

رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: ’’جب تک ابوطالب زندہ تھے قریش مجھ سے خوف کھاتے اور ڈرتے تھے‘‘۔ 

جناب ابوطالب کی وفات کے بعد کفار و مشرکین کے سامنے سے سب سےبڑی دیوار ہٹ گئی۔ لہذا انہوں نے رسول اسلام(ص) پر حملے کرنا شروع کر دئے یہاں تک کہ حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: خدا نے آپ کو سلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ کا ناصر چلا بسا ہے اب مکہ کو چھوڑ دیں اور مدینہ کا رخ کریں۔

جناب ابوطالب کی قربانیوں کا خلاصہ

شيخ الابطح حضرت ابوطالب (ع) آنحضور (ص) کی حمایت اور حفاظت میں:

1) اپنى قوم كے درميان حاصل مقام و مرتبے كو خيرباد كہہ كر اہل مكہ بلكہ پورى دنيا كى دشمنى مول لي، يہاں تك كہ انہوں نے اپنے حاميوں كے ہمراہ معاشرتى بائيكاٹ كو برداشت كيا ليكن كسى قسم كے دباؤ ميں نہ آئے.

2) نہ صرف فقر وفاقے اور معاشى بائيكاٹ برداشت كرنے پر راضى ہوئے بلكہ اپنے پاس موجود دولت اور ہر چيز راہ خدا ميں پيش كردی۔

3) بوقت ضرورت ايك تباہ كن جنگ ميں كود پڑے جو بنى ہاشم اور ان كے دشمنوں كى بربادى پر منتج ہوسكتى تھي۔

4) انہوں نے سب سے چھوٹے نور چشم حضرت علي (ع) كو راہ خدا ميں قربانى كيلئے پيش كيا، اور دوسرے بيٹے حضرت جعفر(ع) جنہوں نے حبشہ كو ہجرت كى تھى كى جدائي كا صدمہ برداشت كرليا۔

5) حضرت ابوطالب (ع) اپنى زبان اور ہاتھ دونوں سے مصروف جہاد رہے اور ہر قسم كے مادى ومعنوى وسائل كو استعمال كرنے سے دريغ نہ كيا ۔ ہر قسم كى تكاليف و مشكلات سے بے پروا ہوكر حتى المقدور دين محمد (ص) كى حفاظت و حمايت ميں مصروف رہے. 

ایک سوال

يہاں يہ سوال پيدا ہوسكتا ہے كہ حضرت ابوطالب نے جو كچھ كيا وہ ممكن ہے جذبات يا نسلى و خاندانى تعصب كا نتيجہ ہو يا بالفاظ ديگر آپ كى فطرى محبت كا تقاضا ہو؟ ليكن اس كا جواب يہ ہے كہ ايسا كبھى نہيں ہوسكتا كيونكہ ايك طرف حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر قطعى دلائل خاص كر ان كے اشعار وغيرہ اور حضرت رسول (ص) اكرم اور ديگر ائمہ كى ان كے متعلق احاديث موجود ہيں(۱) جن میں سے بعض کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا اور دوسرى طرف جس طرح حضرت محمد(ص) ان كے بھتيجے تھے اس طرح حضرت علي(ع) ان كے بيٹے تھے اگر رشتہ دارى كا جذبہ كارفرما ہوتا تو وہ كيونكر بيٹے كو بھتيجے پر قربان كرتے؟ وہ بھى اپنى مرضى سے نيز اس كے انجام كے بارے ميں غوروفكر اور تا مل و تدبر كے بعد؟ انہيں بھتيجے كى بجائے بيٹے كا قتل ہوجانا كيونكر منظور ہوا؟ كيا يہ معقول ہے كہ اپنے بيٹے اور جگر گوشے كے مقابلے ميں بھتيجے كى محبت فطرى طور پر بيشتر ہو؟

اسى طرح اگر قومى يا خاندانى تعصب كارفرما ہوتا تو پھر ابولہب لعنة اللہ عليہ نے اس جذبے كے تحت وہ موقف كيوں اختيارنہيں كيا جو حضرت ابوطالب نے اختيار كيا اور حضرت ابوطالب كى طرح رسول (ص) اللہ كى حمايت كيوں نہيں كي؟ نيز اپنے بيٹے، اپنى حيثيت اور ديگر چيزوں كى قربانى كيوں نہيں پيش كي؟ بلكہ ہم نے تو اس كے برعكس ديكھا كہ ابولہب نبى كريم (ص) كا سخت ترين دشمن، آپ (ص) كى مخالفت ميں پيش پيش اور آپ (ص) كو اذيت دينے ميں سب سے آگے تھا.

رہے بنى ہاشم كے ديگر افراد تو اگرچہ وہ رسول(ص) اللہ كے ساتھ شعب ابوطالب ميں داخل ہوئے ليكن رسول (ص) اللہ كيلئے انكى قربانياں ابوطالب كى قربانيوں كا دسواں حصہ بھى نہ تھيں_ نيز ان كا يہ اقدام بھى حضرت ابوطالب كے اثر و رسوخ اور اصرار كا مرہون منت تھا۔

لہذا واضح ہوا كہ مرد مسلمان كا دينى جذبہ قومى يا خاندانى جذبات كے مقابلے ميں زيادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اسى لئے ہم تاريخ ميں بعض مسلمانوں كو واضح طور پر يہ كہتے ہوئے ديكھتے ہيں كہ وہ راہ خدا ميں اپنے آباء اور اولاد كو قتل كرنے كيلئے بھى تيار ہيں۔ چنانچہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابى نے رسول اللہ (ص) سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابي) كو قتل كرنے كى اجازت مانگي (2) ۔ نيز جنگ صفين ميں بھائي نے بھائي كو نہ چھوڑا جب تك كہ اميرالمؤمنين (ع) نے چھوڑنے كى اجازت نہ دي (3) ۔ان كے علاوہ بھى تاريخ اسلام ميں متعدد مثاليں ملتى ہيں.

ان باتوں سے قطع نظر اس بات كى طرف اشارہ بھى ضرورى ہے كہ اگر حضرت ابوطالب كا موقف دنيوى اغراض پر مبنى ہوتا تو اس كا تقاضا يہ تھا كہ وہ اپنے بيٹے كى بجائے بھتيجے كو قربان كرتے ۔ نيز بھتيجے كو اپنے خاندان پر قربان كرتے ۔نہ كہ خاندان كو ايك بھتيجے پر۔ كيونكہ دنيا كا معقول طريقہ يہى ہوتا ہے جيساكہ خليفہ مامون نے اپنے بھائي امين كو قتل كيا اور ام ہادى نے اپنے بيٹے كو زہر ديا۔ ليكن حضرت ابوطالب نے تو ہر چيز كو بھتيجے پر قربان كرديا اور يہ دنيوى مفادات كے حصول كا منطقى اور معقول طريقہ ہرگز نہيں ہوسكتا.

اسى طرح اگر بات قبائلى تعصب كى ہوتى تو اس تعصب كا اثر قبيلے كے مفادات كے دائرے ميں ہوتا۔ ليكن اگر يہى تعصب اس قبيلے كى بربادى نيز اس كے مفادات يا مستقبل كو خطرات ميں جھونكنے اور تباہ كرنے كا باعث بنتا تو پھر اس تعصب كى كوئي گنجائش نہ ہوتى اور نہ عقلاء كے نزديك اس كا كوئي نتيجہ ہوت۔

مختصر يہ كہ ہم حضرت ابوطالب (ع) كى مذكورہ پاليسيوں اور حكمت عملى كے بارے ميں اس كے علاوہ كچھ نہيں كہہ سكتے كہ يہ پاليسياں عقيدے اور ايمان راسخ كى بنيادوں پر استوار تھيں جن كے باعث انسان كے اندر قربانى اور فداكارى كا جذبہ پيدا ہوتا ہے۔

خدا كا سلام ہو آپ پر اے ابوطالب(ع)! اے عظيم انسانوں كے باپ! اے حق اور دين كى راہ ميں قربانى پيش كرنے والے كاروان كے سالار! خدا كى رحمتيں اور بركتيں آپ پر نازل ہوں.

حوالہ جات

1- تفسير ابن كثير ج 3ص 39

2- تفسير صافى ج5 ص 180 ، السيرة الحلبيہ ج2 ص 64 ، الدرالمنثور ج6 ،ص 24 از عبد بن حميد و ابن منذر اور الاصابہ ج2 ص 336

3- صفين (المنقري) ص 271 و 272_

تبصرے
Loading...