ایرانی انقلاب اور مسئلہ فلسطین 

حوزہ نیوز ایجنسیl 
جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو صدیوں کی خاموشی کا پردہ چاک ہوا جمود حرکت میں بدلا اور حرکت میں اللہ نے اتنی برکت ڈالدی کہ دنیا بھر کی تمام دبی کچلی قوموں کے اندر بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی مسلمانوں کے بہتر فرقوں نے اپنے اندر ایک قسم کی طاقت محسوس کی لبنان کے مجاہدوں کو تازہ خون ملا مصر کے اخوان المسلمین کو قوت کا خزانہ ملا فلسطینی مزاحمت کو نہضت اور قائدین نہضت کو فکری رہنمائی ملی افریقا کے کالے مسلمانوں کو بلال کی اذان یاد آگئی بحرین کے نوجوانوں کو قیام کا حوصلہ ملا پاکستان کو عارف حسینی نائجیریا کو زکزاکی بحرین کو عیسی قاسم سعودی عرب کو شیخ النمر اور افغانستان کو مزاری جیسے زمانہ شناس رہنما ملے ھندوستان میں چونکہ دین سے زیادہ مراسم دین پر زور دیا جاتا ہےلہذا یہاں بھی انقلاب کے بعد دعائے کمیل دعائے ندبہ اور زیارت عاشورہ کا چلن عام ہوا لیکن سیاسی بیداری نہیں آئی اپنے حقوق کے لئے آواز  اٹھانے اپنے جائز مقام کیےحصول اپنی معیشت اور اپنی سالمیت کے لئے تنظیم ڈسپلن وحدت اور قیادت کا آج بھی فقدان ہے زیادہ سے زیادہ جس طرح عربوں کو فرانس کی کلاسیک پرفیوم اور جرمن کی باریک سگریٹ اچھی لگتی ہے اسی طرح ھندوستانی شیعوں کو ایرانی یا عراقی قائد اچھا لگتا ہے کل تک موسوی صاحب کے زیر پرچم تھے بڑے بڑے سمینار اور بڑے بڑے احتجاجات انکی قیادت میں ہوئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے کام بھی کیا اور ان  میں بلا کی تنظیمی صلاحیت بھی تھی اور آج ماشاء اللہ نمائندہ رہبر جناب مہدوی پور صاحب کے زیر فرمان ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی انقلاب ہی کی دین ہے۔
اللہ اکبر کی صدا پہلے مسجدوں تک محدود تھی اب میدان جنگ میں بھی گونجنے لگی مظلوم کی حمایت ظالم سے نفرت شرم و حیا حجاب دعائے کمیل دعائے ندبہ زیارت عاشورہ صدقات اور خیرات وغیرہ پہلے تھیوری کی شکل میں تھے انقلاب نے اسے پریکٹس میں بدلا انقلاب سے واجبات کی ادائیگی میں بھی تیزی آئی نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا حاجیوں کی شرح بڑھی امربالمعروف اور نہی از منکر کی اہمیت آشکار ہوئی گویا اسلام زندہ ہوا۔

اسلام کی زندگی کا مطلب ہے استعمار کی موت اسلام کی حیات کا مطلب ہے ڈکٹیٹرشپ کی مات واشنگ ٹاؤن پر آسمان ٹوٹ پڑا صیہونیوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی چالیس سال پہلے ہی یہودیوں نے یروشلم کو  “شہاب ” کے نشانے اور تل ابیب کو “قیام “کے دہانے پر دیکھ لیا تھا اج “فاتح “اور “ذوالفقار” کے نام سے کانپنے والے اسرائیل کو انقلاب کے آغاز ہی میں اپنا وجود خطرے میں نظر آگیا تھا دنیا کی بڑی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اب کیا کیا جائے ؟ جو نہ ہونا تھا وہ ہوچکا ہے پہلے تو انقلاب کو ختم کرنے کی ناکام سعی کی گئی مطہری رجائی اور باہنر جیسے نابغہ روزگار مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو شہید کروایا گیا پارلیمنٹ پر حملہ ہوا مگر جسے” اللہ رکھے اسے کون چکھے”  انہوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب ختم ہونے والا نہیں ہے تو آپس میں مشورے ہوئے کم سے کم ایسا انقلاب ایران کے باہر نہ آنے پائے اسلام ناب کی لہریں اور انقلاب کے بہتے دھارے کویت مصر سعودی عرب انڈونیشیا ملیشیا پاکستان شام اردن اور عراق تک نہ پہنچنے پائیں تو کونسی تدبیر اختیار کی جائے؟؛انہوں نے اپنے بحری بیڑوں کا جائزہ لیا اپنی مشین گنوں کو دیکھا ان کو اپنے اسلحوں کی کمزوری اور ہمارے عقیدے کی دیواروں کی مضبوطی کا علم ہے بدر احد خندق خیبر صفین جمل نہروان اور کربلا کو ہم فقط ایک فتح سمجھتے ہیں لیکن یہ لوگ فتح کے اسباب و عوامل سے بھی واقف ہیں اور پھر ان کو ماضی کی جنگوں کا تجربہ بھی ہے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کردینے کے باوجود کیا ہوا ؟ جاپان پھر کھڑا ہوگیا نا  ؟  لہذا انکو اپنا پرانا حربہ ہی کارامد معلوم ہوا یعنی مذہب کو مذہب سے لڑاؤ اور خوب لڑاؤ شیعہ سنی ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح سینگیں دکھائیں جب لڑتے لڑتے تھک جائیں تو ان کے گلے میں اپنی رسی ڈالدو پھر فلسطین سے نکالو افغانستان کو مارو عراق کو لوٹو ایران کو ڈراؤ پاکستان کو پیکیج دو سعودی عرب کو چاکلیٹ دو کویت کی پیٹ تھپکو اور قطر کو بہلاؤ وغیرہ- 

11 فروری 1979 مطابق 8 ربیع الثانی 1399 کو جب ایران کا انقلاب کامیاب ہوا تو صرف چار ماہ بعد اسی سال رمضان المبارک میں امام خمینی نے “قدس ڈے” کا اعلان کردیا جس طرح امیرالمومنین ع کو مشورہ دیا گیا تھا کہ ابھی آپ معاویہ کو نہ چھیڑیں رہنے دیں پہلے قدموں کو جم لیںنے دیں وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔امام خمینی سے بھی کہا گیا کہ ابھی یروشلم کے ناجائز قبضہ کو نہ چھیڑیں وغیرہ ۔۔۔۔۔۔امام خمینی نے کہا نہیں فلسطین ہماری اولین ترجیح ہے یعنی اپنی مشکلات کے باوجود دوسروں کے مسائل کا خیال رکھنا ہی اسلام ہے یہ واحد ایران ہے جو چالیس سال سے دوسرے ملک کے ایشو کو سرکاری طور پر اپنے ملک میں مناتا آرہا ہے اوراسی پر اکتفا نہیں  بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس ایشو پر متوجہ بھی کررہا ہے کیونکہ ” قدس ڈے ” محض ایک سالانہ رسم نہیں بلکہ صیہونزم کے خلاف ایک فکری تحریک ہے امام خمینی کی تجربہ کار نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اسرائیل کی بقا کے لئے مستقبل میں شیعہ سنی تفرقہ میں بھی شدت لائی جائے گی لہذا قدس ڈے کا اعلان کرکے امام خمینی(رح) نے دشمن کے منصوبہ پر پانی پھیر دیا۔

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...