اہل سنت، نے سنت نبی (ص(کے ساتھ کیا برتاو کیا؟

اس فصل میں ہم اس اہم چیز کی وضاحت کرناچاہتے ہیں کہ جس میں غور کرنے سے کوئی محقق مستغنی نہیں ہوسکتا تاکہ بغیر کسی اشتباہ کے یہ بات واضح ہوجائے کہ جو لوگ خود کو اہل سنت کہتے ہیں، حقیقت میں انھیں سنتِ نبی(ص) سے کوئی سروکار نہیں ہے اور  سنتِ نبی(ص) میں سے کوئی چیز ان کے پاس ایسی نہیں ہے جس کا ذکر کیا جاسکے۔ کیوں کہ ان کا یا صحابہ و خلفائے راشدین میں سے انکے اسلاف کا موقف بدرجہ اولی سنتِ نبی(ص) کے خلاف تھا۔ یہاں تککہ انھوں نے حدیثوں کو جلا ڈالا تھا، ان کے لکھنے پر پابندی کگادی تھی اور بیان کرنے سے منع کردیا تھا اور اہلِ سنت والجماعت ان ہی کی محبت سے خدا کو تقرب ڈھونڈتے ہیں۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ہماری کتاب ” فاسئلوا اھل الذکر” ص200، اور اس سے بعد)
اگر چہ ہم اس چیز کی وضاحت کرچکے ہیں لیکن اس پست سازش سے پردہ ہٹانا ضروری ہے کہ جو نبی(ص) کی سنت مطہرہ پر پابندی لگانے اور حکام کا اسے اپنی بدعت و اجتہاد اور صحابہ کی آراء و تاویل سے بدلنے کے لئے کی گئی تھی۔

 
اوَلین حکام کی کارستانیاں

۱ ۔ایسی جھوٹی احادیث گھڑی جو کہان کے مذاہب کی تائید میں نبی(ص) کی عام سنت اور احادیث لکھنے کی مخالفت تھیں۔
جیسا کہ مسلم اپنے صحیح میں ہداب بن خالد الازدی سے ہمام نے زید بن اسلم سے انھوں نے عطا بن یسار سے اور انھوں نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے۔ رسول(ص) نے فرمایا:
“میری کوئی بات نہ لکھنا اور جس نے قرآن کے علاوہ میری کوئی بات تحریر کرلی ہے وہ اسے مٹادے ہاں میری حدیث بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے”۔
(صحیح مسلم، ج۸، ص۲۲۹، کتاب الزھد والرقائق باب التسبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم)
اس حدیث کو گھڑنے کا مقصد ہی ابوبکر و عمر کے افعال کی برائت تھی کیونکہ انھوں نے بعض صحابہ کی جمع کی ہوئی  احادیث نبوی(ص) کو جلادیا تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ حدیث خلفائے راشدین کے عہد کے بعد گھڑی گئی ہے لیکن گھڑنے والے چند امور سے غافل تھے۔
الف: اگر رسالت مآب نے یہ حدیث فرمائی تھی تو وہ صحابہ بھی اس پر عمل کرتے جنھوں نے رسول(ص) کی حدیثیں قلم بند کر لی تھیں  اور انھیں ابوبکر و عمر کے زمانہ خلافت سے پہلے محو کردیتے کہ جنھوں نے وفات نبی(ص) کے کئی سال بعد  انھیں نذر آتش کیا۔
ب: اگر یہ حدیث صحیح ہوتی توو اول ابوبکر ،دوسرے عمر اس حدیث سے استدلال کرتے تاکہ احادیث کی تحریر اور محو کرنے والے فعل سے بری ہوجاتے وہ اور انکے سامنے صحابہ بھی عذر پیش کرتے جنھوں نے بھولے سے احادیث لکھ لی تھیں ۔اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ابوبکر وعمر پر ان احادیث کا محو کرنا واجب تھا نہ کہ جلادینا۔
ث: اگراس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ سے لےکر آج تک سارے مسلمانوں نے گناہ کیا ہے کیونکہ وہ اس فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جس سے رسول(ص) نے منع کیاتھا۔ اور سب سے پہلے عمر بن عبد العزیز ہیں کہ جس نے علما کو احادیث جمع کرنے اور ان کی تدوین کا حکم دیا تھا۔ بخاری ومسلم دونوں ہی اس حدیث  کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ اور پھر دونوں گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ ہزاروں احادیث نبی اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں۔
ج: اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو باب مدینۃ  العلم  علی ابن ابی طالب (ع) سے کیونکر مخفی رہی کہ جنھوں نے نبی(ص) کی احادیث کو اس صحیفہ میں جمع کیا ہے جس کا طول ستر(۷۰) گز ہے۔ اور جس کا صحیفۃ الجامعۃ نام ہے ( اس صحیفہ سے متعلق انشاء اللہ عنقریب بیان آئے گا)
۲۔بنی امیہ کے حکام کا سارا زور اس بات پر تھا کہ رسول(ص) معصوم عن الخطا نہیں تھےبلکہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح بشرتھے ان سے غلطی بھی ہوتی تھی اور صحیح کام بھی انجام پذیر ہوتےتھے۔چنانچہ اس سلسلہ میں وہ متعدد احادیث بیان کرتے ہیں۔ در اصل ان احادیث کو گھڑنے کا مقصد یہ تھا کہ نبی(ص) اپنی رائے سے اجتہاد  فرماتے تھے۔ چنانچہ ان سے اجتہاد میں خطا بھی ہوتی تھی جسے بعض صحابہ صحیح کرتےتھے۔ جیسا کہ تابیرالنخل (کھجوروں کے گابھ) اور  حجاب والی آیت کے نزول کا واقعہ گواہ ہے یا منافقین کے لئے استغفار کرنا،بدر کے قیدیوں کی طرف سے فدیہ قبول کرنا اور ایسے ہی نہ جانے کتنے واقعات ہیں جنھیں اہلِ سنت والجماعت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے وہ محمد(ص) کو رسول(ص) نہیں مانتے ہیں۔
اہلِ سنت والجماعت سے ہماری گذارش ہے کہ:
جب رسول اللہ (ص) کے متعلق تمھارا یہ اعتقاد و مذہب ہے تو پھر یہ دعوا کیوں کرتے ہو کہ ہم ان کی سنت سے تمسک رکھتے ہیں جبکہ رسول(ص)  کی حدیث و سنت تمھارے اور تمھارے اسلاف کے نزدیک غیر محفوظ ہے، نا معلوم ہے۔ لکھی ہوئی بھی تو نہیں ہے۔ ( کیونکہ حدیث کی تدوین عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں یا اس کے بعد ہوئی ہے جبکہ اس سے قبل حکام و خلفا احادیث کو جلا چکے تھے اور اس کے لکھنے اور بیان کرنے سے منع کرچکے تھے۔)
ہمارے اوپر ان ناقص خیالات اور جھوٹ  کے پلندوں کا باطل کرنا واجب ہے۔ انشاء اللہ ہم آپ کی صحاح اور دوسری کتابوں ہی سے آپ کی بات رد کردی گے۔( تعجب  کی بات تو یہ ہے کہ اہلِ سنت  بہت سی احادیث اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں جبکہ ان کی نقیض بھی خود اسی کتاب میں موجود ہوتی ہے اور اس سے زیادہ تعجب خیز  بات تو یہ ہے کہ جھوٹی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صحیح کو چھوڑدیتے ہیں۔)
امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم میں اور باب کتابۃ العلم میں ابوہریرہ  سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:  اصحاب نبی (ص) میںسے کسی کو بھی مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد نہیں تھیں لیکن عبداللہ بن عمرو کو مجھ سے زیادہ یاد تھیں کیونکہ وہ لکھتے تھے میں لکھتا نہیں تھا ۔ ( صحیح بخاری،ج۱، ص۳۶، باب کتابۃ العلم)
اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اصحاب نبی(ص) میں سے کچھ لوگ آپ کی احادیث لکھتے تھے اور جب ابوہریرہ سنکر نبی(ص) سے چھ ہزارحدیثیں نقل کرتے ہیں تو عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے پاس تو اس سے کہیں زیادہ حدیثیں ہو ں گی کیونکہ وہ لکھتے تھے۔ چنانچہ ابوہریرہ کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد ہیں اس لئے کہوہ لکھتے تھے۔ لاریب اور بھی بہت سے صحابہ نبی(ص) کی حدیث لکھتے تھے۔ لیکن ابوہریرہ نے ان کا  تذکرہ شاید اس لئے نہیں کیا ہے کہ وہ اس بات میں مشہور نہیں تھے کہ انھیں زیادہ تر نبی(ص) کی حدیثیں یاد ہیں۔
ان حافظانِ حدیث میں ہم علی ابن ابی طالب(ع) کا بھی اٖضافہ کرتے ہیں جو کہ منبر سے الجامعہ نامی صحیفہ کو متعارف کراتے ہیں۔ اس صحیفہ میں نبی(ص) سے منقول وہ احادیث موجود تھیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ صحیفہ ائمہ اہلِ بیت(ع) کو ایک دوسرے سے  میراث ملتا چلا آرہا ہے اور وہ اکثر اسی سے حدیثیں بیان فرماتے ہیں:
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ :
” ہمارے پاس ایک صحیفہ ہے جس کا طول ستر(۷۰) گز ہے۔ یہ رسول(ص) کا املا ہے۔ جس کو علی(ع) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ تمام حلال و حرام اور جن چیزوں کی لوگوں کو ضرورت ہوسکتی ہے وہ سب اس میں مرقوم ہیں۔ ہر واقعہ یہاں تک کہ خدش ارش بھی اس میں مرقوم ہے۔” (اصول کافی، ج۱، ص۲۳۹)
خود بخاری نے اپنی صحیح میں اس صحیفہ کا ذکر کیا ہے جو کہ متعدد ابواب پر مشتمل علی(ع) کے پاس تھا۔ لیکن جیسا کہ بخاری کی عادت کتربیونت کے ساتھ نقل کرنا ہے۔ لہذا اس صحیفہ کےمتعلق بھی کتربیونت کے ساتھ تحریر کیا ہے اور اس کے بہت سے خصائص مضامین کو حذف کردیا ہے۔
بخاری نے باب کتابۃ العلم میں شبعی سے انھوں نے جحفہ سے روایت کی ہے کہ میں نے علی(ع) سے عرض کی:
کیا آپ (ع) کے پاس کوئی (اور) کتاب ہے؟
آپ نے فرمایا کتابِ خدا اور وہ فہم جو اس نے ایک مسلمان مرد کو عطا کیا ہے کے علاوہ یہ صحیفہ ہے۔
میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے؟
آپ نے فرمایا :
اس میں عقل اور قیدی کی رہائی اور یہ کافر کے بدلہ مسلمان قتل نہیں کیا جائے گا،تحریر ہے۔ (صحیح بخاری،ج۱،ص۳۶)
بخاری ہی میں دوسری جگہ اعمش ابراہیم تمیمی اورابراہیم کے والد سے مروی ہے کہ علی(ع) نے فرمایا:
ہمارے پاس کتابِ خدا  اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ جس میں احادیث نبی(ص) مرقوم ہیں۔(صحیح بخاری، ج۲،ص۲۲۱، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۱۵)
ایک دوسرے باب میں بخاری ابراہیم تمیمی اور ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : علی (رضی اللہ عنہ) ہمارے درمیان اینٹوں کےمنبر سے خطبہ دے رہے تھے ۔ اور ان کے پاس ایک تلوار تھی جس میں صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔
آپ(ع) نے فرمایا:
قسم خداکی ہمارے پاس کتابِ خدا اور اس صحیفہ کے علاوہ ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جو پڑھی جاتی ہے۔(صحیح بخاری، ج۸، ص۱۴۴)
بخاری نے الجامعۃنامی صحیفہ کے متعلق امام جعفر صادق(ع) کا قول نقل نہیں کیا کہ اس میں کل حرام و حلال، انسانوں کی ہر ضرورت ، یہاں تک کہ ارش خدش بھی تحریر ہے۔ یہ  رسول اللہ (ص) کا املا ہے جسے علی(ع) نے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہے۔
بخاری اسے ایک مرتبہ ان الفاظ میں مختصر کرتے ہیں۔ اس عقل ( سے مربوط باتیں) قیدی کی رہائی ، اور یہ کہ کافر کے عوض مسلمان قتل نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جگہ کہتے ہیں اسے علی(ع) نے ظاہر کیا تو اس میں اونٹ  کی عمر مرقوم ہے۔ جبکہ اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی ایک پناہ گاہ ہے۔ اور یہ بھی تحریر تھا کہ جو کسی قوم کا ولی بنے در حالانکہ اس قوم کی اجازت نہ ہو۔
یہ حقائق کی پردہ پوشی ہے ورنہ یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ علی(ع) ایک صحیفہ میں چار جملے لکھیں اور اسے تلوار میں لٹکائیں اور جہاں بھی خطبہ دیں اس کو ساتھ رکھیں اور کتابِ خدا کے بعد اسے دوسرا مرجع متائیں ، چنانچہ فرماتے ہیں : ہم نے نبی(ص) سے قرآن اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں لکھا؟

 

 
کیا ابوہریرہ کی عقل حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی عقل سے بڑی تھی؟

کیونکہ ابوہریرہ کو بغیر لکھے ہوئے رسول (ص) کی ایک لاکھ حدیثیں یاد تھیں!
قسم خدا کی ان لوگوں کا عجیب معاملہ ہے۔ یہ ابوہریرہ سے تو بغیر لکھے ہوئے ایک لاکھ حدیثیں قبول کرلیتے ہیں جو کہ صرف  نبی(ص)  کے ساتھ تین سال  رہے اور پڑھنے  لکھنے سے بھی جاہل تھے۔ اور جس علی(ع) کو علم کا سرچشمہ ، صحابہ کو معارف کی تعلیم دینے والا تصور کرتے ہیں ، اسے ایک صحیفہ اٹھائے ہوئے دکھلاتے ہیں کہ جس میں چار حدیثیں ہیں اور زمانہ رسول(ص) سے اپنی خلافت کے زمانے تک اسے اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں۔ اگر منبر پر تشریف لے جاتے ہیں تو وہ تلوار میں لٹکا ہوا صحیفہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا ہے؟ یہ سب افترا اور جھوٹ ہے۔
اگرچہ بخاری کا اتنا ہی لکھا ہوا محققین  اور عقلمند لوگوں کے لئے کافی ہے۔ بخاری نے یہ لکھا ہے کہ اس میں عقل سے مربوط باتیں ہیں۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں بہت سی چیزیں ہیں جو عقل بشری اور فکرِ اسلامی سے مخصوص ہیں۔
ہم اس بات پر دلیل قائم نہیں کرنا چاہتے کہ صحیفہ کیا مرقوم ہے اہلِ مکہ اس کی فصول و ابواب سے اچھی طرح واقف ہوں گے اور گھر والے گھر کی بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ اہل بیت(ع)  ہی نے فرمایا ہے کہ اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوسکتی ہے۔ چاہے وہ حلال ہو یا حرام یہاںتک کہ خدش ( وہ جرمانہ جو کسی چیز میں نقص یا خراش پیدا کرنے کے سبب دینا پڑتا ہے) ارش بھی اس میں تحریر ہے۔
اس بحث میں جو چیز ہمارے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ احادیث نبی(ص) لکھتے تھے ابوہریرہ کو یہ قول کہ عبداللہ بن عمرو  احادیث نبی(ص) کو لکھتے تھے اور حضر ت کا قول کہ ہم نے رسول (ص) سے صرف قرآن اور یہ صحیفہ لکھا ہے۔ خوداس بات کی قطعی دلیل ہے کہ رسول(ص) نے اپنی  احادیث لکھنے سے کبھی بھی منع نہیں فرمایا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس صحیح ہے اور جس حدیث کو مسلم نے اپنے صحیح  میں نقل کیا ہے کہ ” قرآن کے علاوہ میری اور کوئی چیزنہ لکھا کرو اور اگر کسی نے لکھی ہے تو اسے مٹادے” وہ جھوٹی ہے، اس سے خلفاء کےمددگاروں نے خلفاء کی تائید کی اور ابوبکر و عمر اور عثمان کو احادیث جلانے اور سنانے  پر پابندی لگانے کے سلسلہ میں بری قرار دیا۔
اورجو چیز ہمارے اس یقین کو مزید استحکام بخشتی ہے کہ نبی(ص) نے اپنی احادیث لکھنے سے منع نہیں کیا تھا بلکہ لکھنے  کا حکم دیا تھا وہ حضرت علی (ع) کو قول ہے جو کہ نبی(ص) سے بہت قریب تھے، ہم نے نبی(ص) سے قرآن اور صحیفہ کےسوا کچھ نہیں لکھا ہے، اسی کو بخاری نے بھی صحیح مانا ہے۔
اور جب ہم اس پر امام جعفر صادق(ع) کے قول کا اضافہ کرتے ہیں کہ صحیفہ جامعہ رسول(ص) کا املا ہے۔ جسے علی(ع) نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہے ۔ تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی(ع)  کو (احادیث) لکھنے کا حکم دیا ہے۔
قارئین محترم کے مید اطمینان کے لئے ہم اسی سے متعلق چند دیگر روایات پیش کرتے ہیں۔
حاکم نے اپنی مستدرک میں ابوداؤد نے  اپن صحیح میں اور احمد بن حنبل نے اپنی مسندمیں اور دارمی نےھ اپنی سنن میں ایک بہت ہی اہم عبداللہ بن عمرو سے مخصوص ایک حدیث نقل کی ہے ، جن کے متعلق ابوہریرہ نے یہ بیان کیا تھا کہ عبد اللہ بن عمرو حدیث لکھ لیتے تھے۔
عبداللہ بن عمرو  خود  کہتے ہیں کہ میں جو چیز بھی رسول اللہ (ص) سے سنتا تھا اسے لکھ  لیتا تھا لیکن قریش  نے مجھے لکھنے سے منع کردیا اور کہا: تم ہر  اس چیز کو لکھ لیتے ہو جو رسول(ص) سے سنتے ہو جبکہ وہ بشر ہیں وہ غیظ و غضب کے  عالم میں بھی گفتگو کرتے ہیں اور سنجیدگی کی حالت میں بھی!
عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس دن سے حدیث  لکھنی بند کردی ۔ ایک روز میں نے اس واقعہ کا تذکرہ رسول(ص) کی خدمت کیا تو آپ (ص) نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
” تم لکھاکرو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری زبان سے صرف حق بات نکلتی ہے”
(مستدرک ، ج۱، ص۱۰۵)
اس واقعہ سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ عبداللہ بن عمرو ہر اس چیز کو  لکھ لیا کرتے تھے جو نبی(ص) سے سنتے تھے اور نبی(ص) نے انھیں کبھی اس سے منع نہیں کیا تھا۔ بلکہ انھیں حدیث لکھنے سے قریش نے منع کیا تھا لیکن عبد اللہ بن عمرو  نے ان افراد کے ناموں کی تصریح نہیں کی۔ جنھوں نے حدیث لکھنے سے منع کیا تھا، کیونکہ ان کی ممانعت میں رسول(ص)  پر اعتراض تھا۔ اس لئے اس قول کی نسبت قریش کی طرف دی گئی ظاہر ہے قریش سے مراد مہاجرین کے رئیس و سردار ابوبکر و عمر، عثمان ، عبدالرحمان بن عوف ابو عبیدہ اور طلحہ و زبیر اور وہ لوگ تھے جو ان کی تقلید کرتے تھے۔
واضح رہے عبداللہ کو حدیث لکھنے سے حیاتِ نبی(ص) میں منع کیا گیا تھا جس سے اس سازش  کی گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اور پھر عبد اللہ نے نبی(ص)  سے کچھ معلوم کئے بغیر قریش کی بات پر کیسے  اعتماد کیا؟ ایسے ہی ان کے اس قول سے کہ رسول اللہ (ص) بشر ہیں وہ غیظ کے عالم میں بھی گفتگو کرتے ہیں اور سنجیدگی کی حالت میں بھی کلام کرتے ہیں، اس کے سلسلہ میں ان کے عقیدہ کی کمزوری کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ رسول(ص) کے بارے میں وہ مشکوک رہتے تھے کہ رسول(ص)  ( معاذ اللَہ) لاف گزاف بکتے ہیں، غلط فیصلہ کرتے ہیں خصوصا غضب کی حالت میں اور جب عبد اللہ بن عمرو نے رسول (ص) سے یہ بتایا کہ قریش نے مجھے حدیث لکھنے سے منع کیا ہے تو آپ (ص) نے فرمایا:
” تم لکھو! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے( اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) جو کچھ اس سے  نکلتا ہے وہ حق ہوتا ہے۔”
یہ اس بات کی دوسری دلیل ہے کہ رسول (ص) جانتے تھے کہ قریش میری عدالت کے سلسلے میں مشکوک ہیں۔ وہ رسول(ص) سے خطا سرزد ہونے کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کی زبان سے لاف گزاف کو بھی ممکن تصور کرتے ہیں۔ اسی لئے رسول(ص) نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ جو بات میری زبان سے نکلتی ہے وہ حق ہوتی ہے آپ (ص) کا یہ قول بالکل حق ہے کیونکہ قرآن میں خدا کا ارشاد ہے:
” وہ (رسول (ص))  تو اپنی خواہش نفس سے کچھ کہتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہی کہتے ہیں جو ان پر وحی ہوتی ہے۔”
(النجم، ۳۔۴)
رسول(ص) معصوم عن الخطا ہیں اور بے ہودہ گوئی سے پاک ہیں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی احادیث کہ جن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ” محمد رسول(ص) نہیں ہیں۔ وہ امویوں  کے زمانہ کی گھڑی ہوئی ہیں۔ وہ قطعی صحیح نہیں ہیں ۔ جیسا کہ مذکور حدیث ہمیں یہ بات بھی سمجھاتی ہے کہ عبداللّہ بن عمرو  قریش سے بہت متاثر تھے یہاں تک کہ ان کے منع کرنے سے آپ نے حدیث لکھنا بند کردی، جیسا کہ خود فرماتے ہیں ، میں نے حدیث لکھنے سے ہاتھ کھینچ  لیا ۔ اور کافی دنوں تک کچھ نہ لکھا۔ یہاں تک ایک مباسبت آئی اور وہ عصمتِ رسول(ص) کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک کے  ازالہ کے لئے رسول(ص) کی خدمت میں پہونچے۔ ایسے ہی اور بہت سے لوگوں کے اقوال ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ بعض نے آپ(ص) کے سامنے ہی اظہار کردیا تھا۔ جیسے ” کیا آپ (ص) بر حق نبی(ص)  ہیں” ( صلح حدیبیہ میں عمر بن خطاب نے کہا  تھا۔ ملاحظہ فرمائیں بخاری، ج۲،ص۱۲۲، )  آپ ہی ہیں جو اپنے کو  نبی(ص) سمجھتے ہیں ( عائشہ بنت ابوبکر نے نبی(ص) سے کہا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں غزالی کی احیاء العلوم، ج۲، ص۲۹) قسم خدا کی یہ تقسیم خدا کی خوشنودی کے لئے نہیں ہوئی(انصار میں ایک صحابی نے کہا تھا۔ بخاری، ج۴، ص۴۷)
اسی طرح عائشہ نے نبی(ص)  سے کہا تھا: ہم نے تو آپ (ص) کے خدا کو آپ کی خواہش کے سلسلہ میں  جلد باز پایا ہے۔ ( بخاری ، ج۶، ص۲۴، نیز  ج۶، ص۱۲۸)
اکثر صاحبِ خلقِ عظیم ، مہربان ورحیم نے اس شبہات کو اس طرح رد کیا ہے۔ میں حکم (خدا) کا بندہ ہوں۔ کبھی فرمایا: قسم خدا کی میں خدا ہی کے لئے نیکیاں کرتا ہوں اور اسی کا تقوای اختیار کئے ہوں۔ کبھی فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری زبان سے جو کچھ نکلتا ہے وہ حق ہوتا ہے ۔ بسا اوقات فرماتے : خدا  میرے بھائی موسی پر  رحم کرے ۔ انھیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا۔
پس یہ دل برما دینے والے کلمات  جو کہ نبی(ص) کی عصمت میں خدشہ ظاہر کرتے ہیں اور نبوت میں شک پیدا کرتے ہیںوہ معمولی افراد یا منافقین نے استعمال نہیں کئے ہیں بلکہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ یہ کلمات آپ کے اصحاب کی نمایاں شخصیتوں کی زبان سے نکلے ہیں۔ یا ام المؤمنین نے اداکئے ہیں اور یہ لوگ اہل سنت والجماعت کے قائد  و اسوۃ حسنہ ہیں ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
اور ہمیں یقین ہے کہ یہ حدیث ” مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ بہ لکھا کرو،گھڑی ہوئی اور بے بنیاد ہے۔ یہ رسول خدا (ص) کا کلام نہیں ہے۔ خود ابوبکر بھی رسول(ص) کی بعض احادیث لکھا کرتے تھے۔اور وہ انھوں نے عہد رسول(ص) ہی میں جمع کرلی تھیں، لیکن خلیفہ بنے تو بداء واقع ہوگیا اور احادیث کو کسی  بات کے پیش نظر  جلادیا ۔ اس بات کو صاحبانِ مطالعہ و تحقیق جانتے ہیں۔
اب ان کی بیٹی عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے والد نے رسول(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں ۔ ایک شب ان کا ارادہ بدل گیا۔ ارادہ میں تبدیلی کسی شک یا کسی اور چیز کی بناء پر رونما ہوئی تھی۔ جب صبح ہوئی تو مجھ سے کہا ، بیٹی وہ احادیث لے آو جو تمہارے پاس ہیں، میں نے لاکر ان کے سپر د کردیں تو انھوں نے احادیث کو نذر آتش کردیا۔ ( کنز العمال ، ج۵، ص۳۳۷، ابن کثیر البدایہ والنہایہ، تذکرۃ الحفاظ ، ج۲، ص۵)
ایک روز عمربن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں خطبہ دیتے ہوئے کہا : تم میں سے جس کےپاس بھی کوئی کتاب لکھی ہوئی ہے وہ میرے پاس پہونچا دے میں اس سلسلہ میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں ، لوگوں نے سوچا کہ ابن خطاب احادیث کو دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک نہج پر جمع ہوجائیں اور کوئی اختلاف باقی نہ رہے لہذا انھوں نے اپنی اپنی کتاب لاکر عمر کے حوالے کردی اور عمر نے سب کو جلاڈالا۔ ( الطبقات الکبری لابن سعد،ج۵، ص۱۸۸ ؛ یہی خطیب بغدادی نے تقلید میں لکھا ہے۔)
اسی طرح انھوں نے دوسرے شہروں میں یہ حکم بھیجا کہ جس کے پاس حدیث کے سلسلہ میںلکھی ہوئی کوئی چیز موجود ہے وہ اس کو مٹادے۔ ( جامع بیان العلم لابن عبد البر)
عمر کا یہ فعل خوداس بات کی دلیل ہے کہ عام صحابہ خواہ مدینہ کے باشندے ہوں یا دوسرے اسلامی شہروں کے رہنے والے، سب نے احادیث رسول(ص) جمع کر رکھی تھیں اور زمانہ رسول(ص) ہی میں انھیں کتابوں کی صورت دیدی تھی۔ لیکن افسوس پہلے ابوبکر نے ان کتابوں کو جلایا پھر عمر  دوسرے شہروں میں محفوظ کتابوں کو برباد کیا۔ ( خدا آپ کے سلامت رکھے ذرا، سنت نبی(ص) کے ساتھ ابوبکر و عمر اس بے جا سلوک کو اور اس نقصان کو ملاحظہ فرمائیں کہ جس کا جبران ناممکن ہے۔ اس امتِ اسلامیہ پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ قسم اپنی جان کی جن احادیث کو ملیامیٹ کیا گیا ہے وہ سب صحیح تھیں کیونکہ انھیں صحابہ نے بالمشافہ لکھا تھا، کوئی واسطہ درمیان میں نہیں تھا جبکہ بعد میں جمع کی جانے والی احادیث میں اکثر جعلی حدیثیں ہیں۔ کیونکہ بہت سے مسلمان حوادث کے بھینٹ چڑھ چکے تھے اور جو بعد میں لکھی گئیں وہ ظالم حکام کےحکم سے لکھی گئیں۔)
اس بات کی ہم ہی کیا کوئی بھی عقلمند تصدیق نہیں کرے گا کہ رسول(ص) نے صحابہ کو اپنی احادیث لکھنے سے منع کردیا تھا خصوصا اس آگہی کے بعد کہ اکثر صحابہ کے پاس احایث کی کتاب موجود تھی خاص طور سے وہ صحیفہ جو حضرت علی(ع) کا جز لاینفک  بن چکا تھا۔ جس کا طول ستر(۷۰) گز تھا۔ اور جس میں تمام چیزوں کا بیان ہے ۔ جس کو الجامعہ کہتے ہیں۔
لیکن حکومت اور اس کی سیاست کا یہی تقاضا تھا کہ سنتِ نبی(ص) کو مٹادیا جائے ، کتابوں کو جلادیا جائے اور بیان کرنے پر پابندی لگادی جائے۔ پھر ان کی خلافت کی تائید کرنے والے صحابہ ان کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ اسے نافذ کرتے تھے، سنت کے مٹ جانے کے بعد صحابہ اور تابعین میں سے ان کا اتباع کرنے والوں کے پاس اجتہاد بالرائے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا یا پھر وہ سنتِ ابوبکر، عمر ، عثمان اور سنتِ معاویہ و یزید ، سنتِ مروان بن حکم  و عبد الملک بن مروان اور سنتِ ولید بن عبد الملک ، سنتِ سلیمان بن عبد الملک پر عمل کرتے تھے۔ یہاں تک عمر بن عبد العزیز  کا زمانہ آگیا اوراس نے ابوبکر حزمی سے احادیثِ رسول(ص) یا سنتِ عمر بن خطاب لکھنے کے لئے کہا: (موطا۔ لامام مالک،ج۱،ص۵)
اس طرح ہم پر یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ جس زمانہ میں احادیثِ نبوی(ص) کی تدوین کو بہت اہمیت دی جارہی تھی اور اس کے مٹ جانے اور مستقل پابندی میں جکڑے رہنے کے سو سال بعد ہم سلسلہ اموی کے معتدل مزاج حاکم کو سنتِ نبی(ص) کو سنتِ خلفائے راشدین سے ملاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ عمر بن عبد العزیز سنتِ رسول(ص) اور سنتِ عمر کو جمع کرنے کا حکم دیتا ہے گویا عمر بن خطاب  محمد (ص) کی رسالت میں شریک ہیں۔
اور پھر عمر بن عبد العزیز نے اپنے ہم عصر اہل بیت (ع)  سے احادیث نبی(ص) کے سلسلہ میں کیوں رجوع نہیں کیا کہ وہ اسے صحیفہ الجامعۃ کا ایک نسخۃ دیدیتے، اور احادیث نبی(ص) جمع کرنے کی ان سے کیوں درخواست نہ کی کہ وہ اپنے جد کی حدیث کے دوسروں کی بہ نسبت اعلم تھے؟؟
کیا ان احادیث سے اطمینان  حاصل ہوسکتا ہے جن کو بنی امیہ کے اعوان و انصار، اہل سنت والجماعت نے جمع کیا تھا۔اور جن پر قریش کی خلافت کادارومدار رتھا۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور آپ کی سنت کے بارے میں قریش کی عقیدت کا حال تو ہمیں معلوم ہے؟!
اس حالت کے بعد واضح ہے کہ بر سرِ اقتدار پارٹی زمانہ دراز تک اجتہاد و قیاس اور آپسی مشوروں پر عمل کرتی رہی۔
اس کے ساتھ ہی برسرِ اقتدار پارٹی نے حضر ت علی علیہ السلام کو سیاسی میدان سے الگ کردیا اور انھیں نظر انداز کردیا ۔ حالانکہ اس پارٹی کے پاس ان کتابوں کو جلانے کے سلسلے میں کوئی دلیل نہیں تھی جن کو خود رسول(ص) نے املا کرایا تھا اور صحابہ نے آپ کے زمانہ حیات ہی میں انھیں لکھ لیا تھا۔
 فقط علی ابن ابی طالب(ع)  صحیفہ کی حفاظت کرتے رہے کہ جس میں لوگوں کی احتجاج کی تمام چیزیں جمع تھیں یہاں تک کہ ارش  خدش بھی موجود تھا اور جب خلافت علی(ع) تک پہونچی تو اسے تلوار میں لٹکا کر خطبہ دینے کے لئے منبر پر تشریف لے جاتے اور اس صحیفہ کی اہمیت  بتاتے تھے۔
یہ بات ائمہ (ع) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہےکہ وہ صحیفہ ایک امام سے دوسرے کو میراث میں ملتا رہا اور وہ اپنی پیروی کرنے والے ہمعصر وں کو ضرورت کے وقت  اس صحیفہ سے فتوا دیتے رہے۔ اور شاید یہی وجہ تھی جو امام صادق(ع) و امام رضا(ع) اور دیگر ائمہ(ع) فرماتے تھے ہم اپنی رائے سے لوگوں کو فتوا نہیں دیتے ہیں، اگرہم اپنی رائے اور خواہش نفس سے لوگوں کو فتوی دیتے تو ہلاک ہو جاتے لیکن اوریہ صحیفہ جامعہ رسول اللہ(ص)  کے آثار میں سے ہے جو ہم اہل علم کو باپ سے بیٹے کومیراث میں ملتا ہے اور ہم اسے  ایسے ہی محفوظ رکھتے ہیں جیسے لوگ سونے چاندی کو محفوظ رکتھے ہیں۔( معالم المدرستین، مرتضی عسکری، ج۲، ص۳۰۲)
آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے:
“میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین(ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسن(ع) کی حدیث ہے اور حسن(ع) کی حدیث امیر المؤمنین(ع)  کی حدیث ہے اور امیر المؤمنین (ع)  کی حدیث رسول(ص) کی حدیث ہےاور حدیث رسول (ص) خدا کا کلام ہے۔”
( اصول کافی، ج۱، ص۵۳)

 

 
حدیثِ ثقلین متواتر ہے:

” ترکت فيکم الثقلين کتاب الله و عترتی ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا۔ “
” میں تمھارے درمیان دو گرانقد چیزیں چھوڑ رہا ہوں (ایک) کتابِ خدا (دوسرے) میری عترت  جب تک تم دونوں سے متمسک  رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔”
(صحیح مسلم، ج۵، ص۱۲۲، صحیح ترمذی، ج۵،ص ۶۳۷)  
یہ حق ہے اس کے بعد ضلالت و گمراہی ہے نبی(ص) کی صحیح سنت کا نگہبان و محافظ اہلبیت (ع) مصطفے میں سےائمہ اطہار(ع)  کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعیان اہل بیت(ع) نے عترت (رسول (ص)) سے متمسک  کیا جو کہ اہل سنت ہیں ” اہل سنت والجماعت ، تو اس چیز کا دعوی کررہے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کے دعوے پر کوئی دلیل ہے۔

 

 
والحمد لله الذی هدانا لهذا….

تبصرے
Loading...