اہل بيت اہل زمين کے محافظ ہيں

اماميہ مذہب کا عقيدہ يہ ہے کہ کائنات کا حدوث وبقاء ہي اہل بيت کے صدقے ميں ہے ،جيساکہ ہمارے برادران اہل سنت کي کتابوں ميں بھي کچھ اس طرح کي حديثيں نظر آتي ہيں کہ اہل بيت اہل زمين کے محافظ ہےں يعني جس طرح آسماني مخلوقات چاہے نوري ہو ياخاکي جاندار ہو يابے جان ،خدا نے ان کي حفاظت کے لئے ستاروں کو خلق فرمايا ہے اسي طرح اہل زمين کي حفاظت کي خاطر اہل بيت کو خلق فرمايا ہے چنانچہ اس مطلب کو پيغمبر اکرم (ص)نے يوں بيان فرماياہے :
”النجوم امان لاہل السماء فاذا ذہبت النجوم ذہبت السماء واہل بيتي امان لاہل الارض فاذا ذہبت اہل بيتي ذہبت الارض-”[1 ]
ستارے آسماني مخلوقات کي نجات اور حفاظت کاذريعہ ہيں لہ-ذا اگر ستارے 
ختم ہوجائے تو آسماني مخلوقات نابود ہوںگي اورميرے اہل بيت انسانوں اوراہل زمين کي نجات اور امان کا ذريعہ ہيںلہذا اگر زمين ميرے اہل بيت سے خالي ہوجائے تواہل زمين نابود ہونگے –
نيز حمويني نے اپني سند کے ساتھ اعمش سے وہ امام جعفر صادق – سے اور آپ- اپنے آباء واجداد ميں سے حضرت علي بن حسين – سے روايت کرتے ہے:
”قال :نحن ائم- المسلمين وحجج اللّہ علي العالمين وساد- المؤمنين قاد- الغر المحجلين وموال المسلمين ونحن امان لاہل الارض کماان النّجوم امان لاہل السماء ونحن الذين بناء تمسک السماء ان تقع علي الارض الاباذن اللہ وبناينزل الغيث وتنزل الرحم- ، وتخرج برکات الارض ولولاماعلي الارض منّا لانساخت باہلہا ثم قال ولم تخل الارض منذ خلق اللّہ آدم عليہ السلام من حج- اللّہ فيہا ظاہر ومشہود او غائب مستور ولاتخلوا الي ان تقوم الساع- من حج- فيہا ولولا ذالک لم يعبداللّہ ”-[2]
حضرت امام سجاد -نے فرمايا: ہم [اہل بيت ] مسلمانوں کے پيشوا اور کائنات پر خدا کي طرف سے حجت ،مومنين کے مولي- وآقا اورمسلمانوں کے سردار ہيں اور جس طرح ستارے آسماني مخلوقات کے محافظ ہيں اس طرح ہم اہل زمين کے محافظ ہيں ہماري وجہ سے خدا نے آسمان کو زمين پر گر کرتباہي مچانے سے روک رکھا ہے اور ہمارے صدقے ميں بارشيں اور رحمتيں نازل ہوتي ہيں اور زمين کي برکتيں نکالي جاتي ہے- اگر کرہئ ارض ايک لحظہ کے لئے اہل بيت سے خالي ہوجائے تو 
زمين اہل زمين سميت نابود ہوجائے گي -اسي لئے خدا نے جب سے آدم – کو خلق کيا ہے زمين کوحجت خدا سے خالي نہيں رکھا -چاہے حجت خدا کھلم کھلا لوگوں کے درميان موجود ہوںيالوگوں کي نظروں سے پوشيدہ اور مخفي ہوںاوريہ سلسلہ تاروز قيامت جاري رہے گا -اگر ايسا نہ ہوتا تو کبھي خدا کي عبادت اور پرشتش نہ ہوتي –

اہم نکات:
مذکورہ حديث سے ستاروں اور کہکشانوں کي خلقت اور اہل بيت کي خلقت کا فلسفہ سمجھ ميں آتا ہے ، يعني ستاروں کو خدا نے آسماني مخلوقات کےلئے امان بنا کرخلق کياہے جبکہ اہل بيت کو بشر اوراہل زمين کےلئے امان بنا کر خلق کياہے لہ-ذا ستاروں سے آسماني مخلوقات کي حفاظت ہوتي ہے اور اہل بيت کے اہل زمين کي حفاظت ہوتي ہے-
خلاصہئ کلام يہ کہ اگر بشر ايسي انسان سازاحاديث کا غور سے مطالعہ کرے تو کئي مطالب واضح ہوجاتے ہيں ، کائنات کے تمام مسائل ميں اہل بيت کي نمايندگي اور رہنمائي ضروري ہے اوران کي ہدايت کے بغير انحراف اور مفاسد کے علاوہ کچھ نہيں ہے – چاہے اعتقادي مسائل ہوں يافقہي ، سياسي ہوںياسماجي ، اخلاقي ہوںيافلسفي ہرمسئلہ کا سرچشمہ اہل بيت کوقرار نہ دينے کي صورت ميں ہماري ہدايت اور تکامل ناممکن ہے – کيونکہ اہل بيت کے وجود کافلسفہ ہماري قيادت اور ہدايت ہے انکي سيرت کو ہميشہ کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دينے کي صورت ميں پشيماني اورندامت سے دوچار ہوگ- 
نيز پيغمبر اکرم (ص)سے روايت کي ہے ،آنحضرت (ص)نے فرمايا: آسماني مخلوقات کے محافظ ستارے ہيں جبکہ اہل بيت ،اہل زمين کےلئے امان کا ذريعہ ہيں:
”النجوم امان لاہل السماء واہل بيتي – امان لاہل الارض”[3]
تب ہي تو قرآن مجيد ميں خدا نے اہل بيت کو وسيلہ نجات اور ان کے اقوال وافعال کو نمونہ عمل قرار ديا ہے لہذا ان کے بغيرروز قيامت نجات ملنے کا تصور کرنا يادنيا ميںکامياب انسان ہونے کا سوچ فضول ہے –
پيغمبر اکرم (ص)نے صاف لفظوں ميں فرمايا: ميري رسالت کاصلہ صرف ميري اہل بيت کي محبت ہے ميري شفاعت صرف ميرے اہل بيت سے دوستي اور محبت رکھنے کي صورت ميں نصيب ہوگي جس سے واضح ہو جاتاہے حقيقي مسلمان وہ ہے جواہل بيت کو اپنے کاموں ميں اسوہ اور نمونہ قرار دے – لہذا ابوذر -نے پيغمبر اکرم (ص)سے روايت کي ہے کہ جس طرح نوح -کي امت کے لئے نوح -کي کشتي نجات کاذريعہ تھا ، اسي طرح امت محمدي- کي نجات کاذريعہ اہل بيت ہےں-
فرمايا:ان مثل اہل بيتي فيکم مثل سفين- نوح من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا ہلک -[4]
ميرے اہل بيت ،حضرت نوح – کي کشتي کي مانند ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگيا جس نے اس سے منہ پھيرا وہ ہلاک ہوگي-

اہم نکات:
اس حديث سے بخوبي درک کرسکتے ہيں کہ حضرت نوح -کي امت کو جب نوح – نے ہزار بار سمجھايا مگر ايمان نہ لائے تو آخر خدا سے دعا کي پالنے والے يہ امت قابل ہدايت نہيں ہے ميں کيا کروں؟ خدا کي طرف سے حکم ہوا کشتي بناو – کشتي تيار کي ،جو اس پر سوار ہوا وہ زندہ رہا -جس نے اس سے منہ پھيرا وہ ہلاک اور نابود ہوگي- اس طر ح اگر ہم اہل بيت کو مانيں اور ان کي معرفت اور شناخت حاصل کرليں تو قيامت کے دن ہم بھي نجات پاسکتے ہيں ليکن اگر ان سے منہ پھيرا 
تو يقينا نابود ي ہي ہمارا مقدر ہوگا –
جيساکہ پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: 
”[ياعلي]سعد من اطاعک وشقي من عصاک وربح من 
تولاک وخسر من عاداک فاز من رکبہا نجي–ومن تخلف عنہا
غرق مثلک کمثل النجوم کلما غاب النجوم طلع نجم الي يوم القيام- -”[5]
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:[ياعلي -!] تيري اطاعت کرنے والا سعادتمند اورنافرماني کرنے والا بد بخت ہے – جس نے تيري سرپرستي اور ولايت کو قبول کيا اس نے نفع پايا ،جس نے تجھ سے دشمني کي اس نے نقصان اٹھاي-جو تجھ سے متمسک رہا وہ کامياب ہے اورجس نے تيري مخالفت کي وہ ہلاک ہو- اے علي – تو اور تيرے جانشين حضرت نوح – کي کشتي کي مانند ہےں جواس پر سوار ہوا وہ نجات پاگيا جس نے منہ پھيرا وہ غرق ہوگي- اے علي -! تو ستاروں کي مانندہے کہ روز قيامت تک ايک ستارہ غروب کرجائے تو دوسرا طلوع کرتا رہے گ-
نيز ابو ہريرہ نے پيغمبراکرم (ص)سے روايت کي ہے : 
قال رسول اللہ : اناا للّہ المحمود وہذا محمد وانا العالي وہذا علي واناالفاطروہذہ فاطم- واناالاحسان وہذا الحسن وانا المحسن وہذا الحسين آليت بعزتي انّہ لايأتيي احد بمثقال حب- من خردل من بغض احدہم الا ادخلہ ناري ولاابالي ياآدم ہ-ولآء صفوتي بہم انجّيھم وبھم اُہْلِکُھم فاذا کان لک اليّ حاج- فبہ-و 
ئل-اء توسل فقال النبي(ص) نحن سفين- النج- من تعلق بہا نجاومن عاد عنہا ہلک فمن کان لہ الي اللہ حاج- فليسال عن اہل بيت [6]
حضرت پيغمبراکرم (ص)نے فرماياکہ اللہ تبارک وتعالي نے حضرت آدم-کو ان پانچ نوروں کا نام بتايا کہ جن کاحضرت آدم -نے مشاہدہ کيا تھا اے آدم -ان پانچ کانام ميرے نام سے مشتق ہے يعني ميں محمود ہوں يہ محمد(ص) ہے ميں عالي ہوںيہ علي – ہے ميں فاطر ہوں يہ فاطمہ =ہے ميں احسان ہوں يہ حسن (ع)-ہے ميں محسن ہوں يہ حسين – ہے پھر فرمايا اپني ذات کي قسم ايک ذرہ بھي جس کے دل ميں ان کي دشمني اور کينہ ہو اسے جہنم ميں ڈال دوں گا اور مجھے ايسا کرنے پر کوئي پروا نہ ہوگي -اے آدم -! يہ ميرے برگزيدہ بندے ہيں ان کے صدقے ميں لوگ نجات پائےںگے [يعني ان سے محبت اور دوستي کرنے کے نتيجے 
ميں نجات ملے گي اور ان سے دشمني اوربغض رکھنے کانتيجہ ہلاکت اور نابودي ہوگا] جب تجھے مجھ سے کوئي حاجت ہو توان کے وسيلہ سے مانگو پھر پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: ہم نجات کي کشتي ہيں جو اس سے منسلک رہا وہ نجات پاگيااور جو اس سے جدا رہا وہ نابود اور ہلاک ہو- لہذا جس کو خدا سے کوئي حاجت ہو توہم اہل بيت کے وسيلہ سے مانگيں-

تحليل :
مذکورہ حديث کي روشني ميں يہ بات واضح ہوجاتي ہے اہل بيت کو وسيلہ بنا کر خدا سے مانگنے کو بدعت قرار دينا غلط ہے کيونکہ خدا نے ہي اہل بيت کواپنے اور بندوںکے درميان وسيلہ قرار دياہے، اہل بيت کے وسيلہ کے بغير حاجت روائي نہيں ہوسکتي- لہذا اہل بيت کے وسيلہ سے خدا سے طلب حاجت کرنا نہ صرف بدعت نہيں ہے بلکہ اہل بيت کو وسيلہ قرار دينا خدا اور اس کے رسول کے حکم کي اطاعت ہے اوراہل بيت کو وسيلہ قرار دينا حاجت روائي کي شرط ہے –
علامہ قندوزي نے روايت کي ہے :
قال علي -: قال رسول اللّہ: من احب ان يرکب سفين- النج- ويتمسک بالعرو- الوثقي ويعتصم بحبل اللّہ المتين فيوال علياً ويعاد عدوہ وليأتم بالائم- الہد- من ولدہ فانّہم خلفائي واوصيائي وحجج اللہ علي خلقہ من بعدي وسادات امتي وقواد الاتقياء الي- الجن- حزبہم حزبي وحزب اللہ وحزب اعدائہم
حزب الشيطان -[7]
حضرت علي – فرماتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:جونجات کي کشتي پر سوار ہونا اور اللہ تبارک وتعالي کي مضبوط رسي سے متمسک رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہيئے کہ علي بن ابي طالب -سے محبت اور دوستي رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمني رکھے اور ان کي نسل سے آنے والے اماموں کي پيروي کرے -کيونکہ وہ ميرے بعد حجت خدااور خليفہ الہي اور ميرے وصي وجانشين ہيںاور يہي لوگ ميري امت کے سردار اور بہشت کي طرف دعوت دينے والے پيشوا ہيں ان کي جماعت ميري جماعت ہے، ميري جماعت، اللہ کي جماعت ہے اور ان کے دشمنوںکي جماعت شيطان کي جماعت ہے –

تحليل :
اس حديث سے درج ذيل مطالب واضح ہوجاتے ہيں :
اہل بيت ، پيغمبراکرم (ص)کے جانشين ہيں – اہل بيت ، خليفہ الہي ہيں- اہل بيت سے تمسک، خدا اور رسول (ص)سے تمسک ہے- جو اہل بيت سے بغض رکھے وہ شيطان کي جماعت کا رکن ہے-

 

[1]-ينابع المود-ج1،ص،19،-

 

[2]-ينابيع المود-، ج1،ص20،

 

[3]-فرائدالسمطين ، ج2،ص،252حديث521-

 

[4]- ينا بيع المود-ج1،ص26 ،

 

[5]-ينابيع المود- ج1،ص 130-

 

[6]-فرائدالسمطين ، ج2،ص،252حديث521-

 

[7]-ينابيع المود- ، ص445

تبصرے
Loading...