اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا خطبہ قید خانہٴ شام سے رہائی مدینہ میں رسیدگی

اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا خطبہ قید خانہٴ شام سے رہائی مدینہ میں رسیدگی اور حضرت مختار کے خروج تک حضرت محمد حنفیہ(ع) کی روپوشی علماء کا بیان ہے کہ کوفہ سے ایک ہفتہ قید کے بعد حضرات آلِ محمد کو شام کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ یزید کے حکم سے وہاں دربار سجایا جا رہا تھا۔ آئینہ بندی ہو رہی تھی کہ اہلِ حرم کا لُٹا ہوا قافلہ بے شمار فوج کی حراست میں شام (دمشق) پہنچا۔ دربار کے سجنے میں چونکہ تاخیر تھی۔ اس لیے اہلِ حرم کا قافلہ “باب الساعات” پر تین گھنٹے بروایت تین دن تک ٹھہرا رہا۔ ذکر العباس ص ۱۹۱ میں ہے کہ چند دن قید خانہٴ کوفہ میں رکھنے کے بعد مخدراتِ عصمت وطہارت اور سرہائے شہداء کو امام زین العابدین (ع) کے ساتھ شام کے لئے روانہ کر دیا گیا۔ 

یہ تباہ حال قافلہٴ حسینی(ع) اس طرح روانہ کیا گیا کہ آگے آگے سرہائے شہداء ،اُن کے پیچھے مخدراتِ عصمت تھیں۔ 

علّامہ قائنی فرماتے ہیں کہ سروں میں حضرت عباس(ع) کا سر آگے اور امام حسین(ع) کا سر سب سے پیچھے تھا۔ 

(کبریت احمر ص ۱۲۰) علّامہ سپھر کاشانی کی تحریر سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان حضرات کی روانگی کا انداز یہ تھا 

کہ راستے میں جا بجا جناب زینت(ع) خطبہ فرماتی تھیں۔ جناب اُم کلثوم مرثیہ پڑھتی تھیں۔ جناب سکینہ “نحن سبایا آل محمد” “ہم قیدی اہل بیت رسول ہیں”۔ امام حسین(ع) کا سر مبارک تلاوت سورہٴ کہف کرتا تھا۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۵۰) ابو مخنف کہتے ہیں کہ اس قافلہ کا شام میں داخلہ باب خیزران سے ہوا… پھر دربار میں داخلہ ہوا۔ ایک شامی نے جناب سکینہ(ع) کو اپنی کنیزی میں لینے کی خواہش کی۔ (لہوف ص ۱۶۷) امام حسین(ع) کے لب ودندان سے ادبی کی گئی۔ (صواعق محرقہ) یزید نے حضرت زینب(ع) سے کلام کرنا چاہا۔ (رو ضۃ الشہداء) اور سرِدربار حضرت زینب(ع) کو پکار کر کہا کہ اب زینب(ع)! خدا نے تم کو کیسا ذلیل کیا اور کس طرح تمہارے بھائی کو قتل کرا دیا۔ یہ سُننا تھا کہ حضرت زینب(ع) کھڑی ہو گئیں اور بہ لہجہ امیرالمومنین(ع) فرمانے لگیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:۔ “تمام حمد اس خدائے کائنات کے لئے سزاوار ہے جس نے عالمین کے لیے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور اس کی رحمتیں جناب رسالت ماب اور ان کی آلِ اطہار کے لیے موزوں ہیں۔ اے شامیو! خداوند عالم نے قرآن مجید میں تم جیسے لوگوں کی طرف سچا خطاب فرمایا ہے کہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھٹھہ بنا کر جھٹلانے کے باعث فسق وفجور کے سمندر میں غوطہ لگایا ہے ان کی عاقبت اور ان کا نتیجہ نہایت مہلک اور قبیح ہو گا۔ اے یزید! خدا تجھ پر لعنت کرے، تُو نے ہمارے اوپر اطرافِ عالم کو تنگ کر دینے اور مصائب وآلائم نازل کر کے اسیر بنانے کے باعث یہ ظن قائم کر رکھا ہے کہ تُو اللہ کے نزدیک مقرب اور ہم ذلیل وخوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تیرے اس بے محل خوشی منانے کا باعث فقط تیرا تکبر اور تیری حماقت ہے اور لوگوں کا تیری طرف رغبت کرنا۔ اے ملعون! اس خوشی اور فخریہ اشعار (جسے تُو نے ابھی ابھی پڑھا ہے) یکسوئی اختیار کر کے کیا تُو نے خداوند عالم کے اس ارشاد باصواب کو نہیں سُنا کہ کفار کو جو مہلت دی گئی ہے، یہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ سرکش اور معصیت کی طغیانی میں کماحقہ غرق ہو لیں۔ “یاابن الطلقا”اے گندی نسل کی بنیاد !کیا تُو نے یہ عدل برتا ہے کہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کو تو پردہ میں محفوظ رکھا ہے اور دخترانِ رسول کو بے مقنع وچادر شہربہ شہر پھریا جا رہا ہے۔ اور ہر خاص وعام بطور تماشبین ان کے گِرد محیط ہے، اے ملعون! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ دخترانِ رسول کو اس منظرِ عام میں لا کر خوشی مناتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ساتھ کوئی مددگار نہیں جو ہماری اعانت وحمایت کرے۔ پھر آپ کمال مایوسی کی حالت میں فرماتی ہیں:۔ ایسے خبیث الاصل سے رقت قلب اور رحم کی کیا اُمید ہو سکتی ہے جو ابتداء سے ہی ازکیاء کے جگر چبانے کے عادی ہیں اور جن کا گوشت خونِ شہداء بہانے کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور ہماری طرف بغض وکینہ کی نگاہ سے دیکھنے والا ہماری عداوت میں کیوں کر کوتاہی کر سکتا ہے پھر تُو اے خبیث ربیع بدری کے اشعار پڑھ کر یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ اگر میرے گذشتہ آباؤ اجداد موجود ہوتے تو میرے اس فعل پر مرحبا کے نعرے بلند کرتے ہوئے دعا دیتے کہ اے یزید تیرے دونوں ہاتھ کبھی شل نہ ہوں حالانکہ اے خبیث تُو اس مقام پر چھڑی مار رہا ہے جہاں رسول بوسے دیتے ہوئے تھکتے نہ تھے۔ 

اے ملعون تُو کس طرح یہ نہ کہے حالانکہ تُو ایسا ظالم ہے کہ جس نے درد رسیدہ زخموں کو دوبارہ تراش دیا ہے اور آلِ محمد جو نجوم ارض تھے اُن کے خون بہانے کے باعث تُو نے قبر میں لے جانے والے زخم ڈال دئیے ہیں۔ اے ملعون تپو نے اپنے آباؤ اجداد کو خوشی کے باعث پکارا ہے، یقینا تُو بھی اُن کی طرح جہنم میں جاگزیں ہو گا۔ اس وقت تُو یہ خواہش کرے گا کہ دُنیا میں میرے ہاتھ پاؤں شل ہوتے کہ کسی پر ظلم نہ کر سکتا اور گونگا ہی ہوتا کہ کسی کو لسانی تکلیف نہ دیتا اور جو کچھ دنیا میں کِیا ہے نہ کِیا ہوتا۔ پھر فرماتی ہیں: اللّٰھُم خذبحقنا وانتقم من ظالمنا خدایا ہمارے شہداء کا انتقام اور ہمارے حق کا بدلہ تیرے ذمّہ ہے۔ …… (پھر فرماتی ہیں) اے ملعون! یاد رکھ یہ تُو نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے چمڑے اور گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ کیونکہ عنقریب تجھے اس کے بدلہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اور تُو لازمی طور پر رسول اللہ کے سامنے ان جرموں کا حامل ہو کر پیش ہو گا۔ اور ہمارے جن اشخاص کو تُو نے قتل کرایا ہے انہیں مردہ مت گمان کر کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اور تجھ سے اس دن انتقام لیا جائے گا جس دن خدا کے سوا کسی کی حکومت نہ ہو گی اور رسول اللہ تیرے خصم اور مدمقابل ہوں گے۔ اور جبریل ان کے مددگار اور ناصر ہوں گے۔ اور تیرے مددگاروں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ظالمین کی عافیت کیسی ہوتی ہے اور کون سی جماعت نے فتح پائی۔ اور کس جماعت کو شکست نصیب ہوئی اور اے ملعون تیرے ساتھ ہمکلامی کے سبب چاہے جتنے مصائب نازل کر دئیے جائیں۔ میں تیری ذلت طبع اور گمراہی کے اظہار سے باز نہ آؤں گی اور تیرے سامنے حق ضرور بیان کروں گی۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ کثرت غم کے باعث آنسوؤں سے آنکھیں ڈبڈبا رہی ہیں اور جگر پاش پاش ہوتا جا رہا ہے۔ فالعجب القتل حزب اللہ النجباء بحزب الشیطان الطلقاء عجیب بات ہے کہ گروہ خداوندی کو گروہ شیطان نے بظاہر قتل کر دیا ہے (لیکن حقیقتاً ان کی موت) زندگی کا پیغام ہے… اب عالم یہ ہے کہ ان خبیثوں کے ہاتھوں سے خون کے قطرات ٹپک رہے ہیں۔ اور شہداء کی نعشیں بے گوروکفن تپتے ہوئے ریگستانوں میں وحشی جانوروں کے سامنے پڑی ہیں۔ اے ملعون! آج تُو نے ہمارے مردوں کو قتل کرنا اور ہمارے اموال کو لوٹنا اگرچہ غنیمت سمجھ رکھا ہے لیکن عنقریب تجھے اس کے عوض عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے۔ ہمارا ذکر، ذکرِ خیر آخر تک رہے گا۔ اور تیرے عمل قبیح کی وجہ سے تجھ پر ہمیشہ لعنت ہوتی رہے گی۔ تیرا یہ لشکر اور تیری حکومت عنقریب ختم ہو جائے گی۔ 

الخ حضرت زینب(ع) تقریر فرما رہی تھیں لیکن آپ کے دل پر بے پردگی کا غم بادل چھایا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا آسمان دُور زمین سخت کِدھر جاؤں میں بیبیو(ع) مِل کے دعا مانگو کہ مَر جاؤں میں حضرت زینب(ع) کا خطبہ جاری ہی تھا کہ ایک مرتبہ یزید کی پشت کی جانب سے ایک در کا پردہ اُٹھا اور ہندہ زوجہ یزید سروپا برہنہ باہر نکل پڑی۔ یزید نے فوراً تخت سے اُتر کر اُس کے سر پر عبا ڈالی اور کہا کہ تُو نے میری بڑی توہین کی کہ بے پردہ نکل آئی۔ 

اُس نے کہا اے یزید وائے ہو تجھ پر کہ تجھے اپنی عزّت کا اتنا خیال اور آلِ رسول کی عزّت کا مطلق خیال نہیں ہے۔ (کشف الغمہ) دربار کی تمام مصیبتوں کو جھیلنے کے بعد مخدرات عصمت وطہارت داخل قید خانہ شام ہو گئیں قید خانہ ایسا جس پر کوئی چھت نہ تھی۔ جو ان عورات خاندانِ رسول کو گرمی وسردی کے شدائد سے محفوظ رکھ سکتی۔ علّامہ ابن طاؤس لکھتے ہیں کہ ان کے چہرے متغیر ہو گئے تھے (لہوف )ایک سال قید کی سختیاں جھیلنے کے بعد ان حضرات کی رہائی کا فیصلہ ہندہ کے ایک خواب کی وجہ سے ہوا سیّد سجاد(ع) نے حضرت زینب(ع) کے فرمانے کی بنا پر یزید سے ایک مکان خالی میں گریہ وماتم کے لیے کہا۔ مکان خالی کرا دیا گیا، آلِ رسول سات شبانہ روز اپنے اعزاء اقرباء کا ماتم کرتے رہے۔ یہ پہلی مجلس ماتم ہے جس کی بنیاد سر زمینِ دمشق میں ہوئی۔ پھر نعمان بن بشیر بن جرلم کے ہمراہ ان کی روانگی براہِ کربلا مدینہ کے لیے عمل میں آئی امام حسین(ع) کا یہ لُٹا ہوا قافلہ ۲۰ صفر ۶۲ ھء (یومِ چہلم) واردِ کربلا ہوا۔ جابر بن عبداللہ انصاری جو امام حسین(ع) کے پہلے زائر ہیں۔ کربلا پہنچ چکے تھے، وہاں پہنچ کر مخدرات عصمت وطہارت نے تین شبانہ روز نوحہ و ماتم کیا پھر وہاں سے مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب(ع) قبرِ امام حسین(ع) چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں لیکن امام زمانہ حضرت امام زین العابدین (ع) کے حکم سے آپ کو ہمراہ جانا پڑا۔ کربلا سے روانگی کے بعد مدینہ سے پہلے ایک مقام پر حضرت زین العابدین (ع) نے قافلہ رکوایا او نعمان بن بشیر سے فرمایا کہ اندرون مدینہ ہمارے یہاں پہنچنے کی اطلاع دے دے، مدینہ میں اطلاع کا پہنچنا تھا کہ تمام اہل مدینہ سروپا برہنہ حضرت زینب(ع) کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اس مقام پر ایسا کہرام بپا ہوا جس نے زمین و آسمان کو رُلایا۔ موٴرخین کا بیان ہے کہ حضرت اُم المومنین ام سلمہ اس عالم میں حضرت زینب کے قریب پہنچیں۔ کہ اُن کے ایک ہاتھ میں جناب فاطمہ صغری(ع)ٰ کا ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں وہ شیشی تھی۔ جس میں رسول کی دی ہوئی خاکِ کربلا خون ہو گئی تھی۔ امام ابواسحاق اسفرائنی لکھتے ہیں کہ جناب ام سلمہ نے مخدرات عصمت وطہارت سے ملنے کے بعد اس خون کو اپنے مُنہ پر مَل لیا اور فلک شگاف نالوں سے دل ارض وسما ہلانے لگیں۔ حضرت محمد حنفیہ(ع) ۱ کو جب اطلاع ملی دوڑ کر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سیّد سجاد(ع) کو گلے لگا کر کہا “یابن اخی، این اخی، بن اخی” اے میرے بھتیجے میرے بھائی کہاں ہیں میرے بھائی کہاں ہیں؟ محمد حنفیہ(ع) نے جب حضرت امام زین العابدین کے پس گردن پر ہاتھ رکھا تو آپ نے فرمایا چچا جان ہاتھ ہٹا لیجئے ۔پوچھابیٹا کیوں؟ فرمایا چچا جان طوق گراں بار نے گردن زخمی کر دی ہے۔ پھر امام زین العابدین(ع) نے واقعات کربلا پر مختصر سی روشنی ڈالی۔ حضرت محمد حنفیہ(ع) نے جب یہ سُنا کہ میرا بھائی تمام اعزاء اقرباء کی شہادت کے بعد میدان میں یک وتنہا مددگاروں کو پکار رہا تھا اور کوئی مددگار تِیر وتلوار کے سوا نہ پہنچا تھا تو آپ بدحواس ہو کر زمین پر گِر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ “فلما افاق من غثوتہ”جب آپ کو غش سے افاقہ ہوا آپ انتہائی رنج وغم کی حالت میں اُٹھ کھڑے ہوئے آپ نے زرّہ راست کی، تلوار لگائی اور اپنے بال بچوں میں جانے کے بجائے ایک طرف کو جا کر اس وقت تک روپوش ہو گئے جب تک حضرت مختار علیہ الرحمہ نے خروج نہیں کیا، 

روایت کے عیون الفاظ یہ ہیں۔ وما طھرالا فی وقت ظھر المختار جب تک حضرت مختار نے خروج وظہور نہیں کیا آپ ظاہر نہیں ہوئے۔ (مآئتیں جلد ۱ ص ۷۸۲۔ ۸۰۲ رو ضۃ الشہداء۔ ابولفدا نورالعین ص ۱۰۸۔ ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۷۴۔ ریاض القدس جلد ۱ ص ۱۵۸) ذکر العباس ص ۲۹۶ میں ہے کہ مدینہ منورہ میں مخدرات عصمت کی رسیدگی کے بعد مجلس غم کا سلسلہ شروع ہوا سب سے پہلی مجلس جناب ام البنین (ع)اور حضرت عباس(ع) کے گھر منعقد کی گئی پھر دوسری مجلس امام حسن(ع) کے گھر منعقد کی گئی۔ پھر حضرت محمد حنفیہ(ع) کے گھر مجلس منعقد ہوئی۔ پھر روضہٴ رسول پر منعقد کی گئی جو نوحہ پڑھا گیا اس کا پہلا شعر یہ ہے اَلا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ خَیْرَ مُرْسَلِ حُسَیْنُکَ مَقْتُولْ وَنَسْلَکَ ضَائِعْ (ترجمہ) اے پیغمبر اسلام، اے اللہ کے رسول اے بہترین مرسل۔ آپ کے فرزند حسین(ع) کربلا میں قتل کر دئیے گئے اور آپ کی نسل ضائع وبرباد کی گئی۔ پیغمبر اسلام کے روضہ پر نوحہ وماتم کرنے کے بعد سارا مجمع حضرت فاطمہ(ع) اور امام حسن(ع) کے روضہٴ انوار پر آیا۔ اور تادیر نوحہ وماتم کرتا رہا۔ ابن متوج کہتے ہیں کہ اس وقت جو نوحہ پڑھا گیا اس کے پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو! نوحہ کرو اور رووٴ اس قتیل عطش پر جو کربلا میں تین دن کا بھوکا پیاسا (مع اعزا وقربا) شہید کر دیا گیا۔ (ریاض القدس جلد ۱ ص ۲۴۶) علّامہ محمد مہدی بہاری لکھتے ہیں کہ راوی کہتا ہے کہ محمد بن حنفیہ(ع) اپنے گھر میں بیمار پڑے ہوئے تھے۔ ان کو اس سانحہ کی کوئی خبر نہ تھی۔ جب یہ رونے پیٹنے کی آواز سُنی بہت گھبرائے کہنے لگے۔ یہ کیا ماجرا ہے ایسا تلاطم تو جب ہی ہوا تھا جس روز رسول خدا نے انتقال کیا تھا کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس خیال سے کہ بیماری کی وجہ سے نہایت لاغر وضیعف و کمزور و نحیف ہو گئے ہیں ایسی خبر جان گذا سُن کر کہیں انتقال نہ کر جائیں۔ 

جب انہوں نے اصرار کیا تو ان کے غلام نے بڑھ کر کہا کہ فِدا ہوں آپ پر یابن امیرالمومنین (ع)واقعہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی حسین(ع) کو اہل کوفہ نے بُلایا تھا۔ مگر ان لوگوں نے بے وفائی کی اور مکر سے ان کے بھائی مسلم بن عقیل کو قتل کر دیا۔ ناچار وہ حضرت اپنے اہل وعیال اصحاب وانصار کے ساتھ یہاں صحیح وسالم واپس آئے ہوئے ہیں۔ محمد بن حنفیہ(ع) نے غلام سے فرمایا پھر بھائی حسین(ع) ہم کو دیکھنے کیوں نہیں آئے؟ اس نے کہا ان کو آپ کا انتظار ہے کہ آپ ہی وہاں جائیے یہ سُنتے ہی اُٹھ کھڑے ہوئے چلے بھائی کی ملاقات کو۔ ضعف سے کبھی کھڑے ہوتے تھے کبھی گِر پڑتے تھے۔ جب باہر آئے سامان دگرگوں دیکھا، دل دھڑکنے لگا۔ فرمایا: این اخی این اخی ثمرة فوادی این الحسین لوگو! برائے خدا جلد بتاؤ، میرے بھائی میرے میوہٴ دل میرے حسین کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا، اے آقا! بھائی آپ کے فلاں مقام پر ہیں، آخر لوگون نے ان کو گھوڑے پر بٹھا دیا۔ لباس درست کر دئیے سب غلام اُن کے ساتھ ساتھ تھے یہاں تک کہ مدینہ کے باہر پہنچے تو کچھ سیاہ عَلَم دکھائی دئیے کہنے لگے کہ میرے بھائی کا عَلم تو سبز تھا یہ سیاہ عَلم کیسے ہیں واللّٰہ قتل الحسین بنوامیہ خدا کی قسم بنی اُمیہ نے حسین قتل کر ڈالا۔یہ کہہ کر ایک چیخ ماری اور گھوڑے سے زمین پر گِر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔ خادم دوڑتا ہوا امام زین العابدین(ع) کے پاس گیا اور کہا “یا مولای ادرک عمک قبل ان یقارت روحہ الدنیا” اے آقاجلد اپنے چچا کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ ان کی روح دنیا سے انتقال کر جائے۔ یہ سُنتے ہی بیمارِ کربلا چلے، روتے جاتے تھے۔ دست مبارک میں سیاہ رومال تھا۔ اس سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ جب پہنچے اپنے چچا کے سر کو گود میں رکھ لیا۔ جب ہوش میں آئے بھتیجے کو دیکھ کر پوچھا، بیٹا یہ تو بتاؤ کہ میرے بھائی میرے نوربصر ، تمہارے باپ ، میرے والد کے جانشین کہاں ہیں؟ فرمایا چچا کیا پوچھتے ہو حال اپنے بھائی کا ظالموں نے اُن کو قتل کیا۔ سب کے سب مارے گئے ہمارے ساتھ فقط عورتیں بے والی و وارث، بے حامی ومددگار روتی پیٹتی آئی ہیں، اے چچا! کیا حال ہوتا آپ کا اگر دیکھتے کہ وہ جناب ایک ایک سے پناہ مانگتے تھے مگر کوئی پناہ نہ دیتا تھا ایک ایک سے پانی مانگتے تھے۔ مگر کوئی پانی نہ دیتا تھا۔ حالانکہ جانور تک پیتے تھے۔ مگر حسین(ع) کو بھوکا پیاسا قتل کیا سُنتے ہی محمد حنفیہ(ع) نے چیخ ماری اور پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش میں آئے کہا بیٹا، کچھ اور بیان کرو کہ کیا کیا مصیبتیں تم لوگوں پر گزریں۔ سیّد سجاد بیان کرتے جاتے تھے اور دونون آنکھوں سے مثل پرنالے کے آنسو جاری تھے۔ دست مبارک میں رومال تھا اس سے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ کہاں تک مصیبتوں کو بیان کرتے۔ کہتے کہتے تھک گئے اتنے میں مدینہ کی عورتیں بھی پہنچ گئیں۔ جب زنانِ اہل بیت(ع) سے ملیں تو کہرام مچا ہوا تھا ۔ماتم کرتی تھیں۔ مُنہ پر طمانچے مارتی تھیں کہ اگر پتھر ہوتا تو وہ بھی غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ (الواعج الاحوال جلد ۲ ص ۳۶۲ طبع دہلی) علامہ کنتوری لکھتے ہیں کہ مدینہ میں نوحہ وماتم کا سلسلہ پندرہ شبانہ روز تک مسلسل جاری رہا۔ (مائتین ص ۷۹۹۔ مقتل ابی مخنف ص ۴۸۰) ایک روایت میں ہے کہ اس دوران میں کسی کے گھر میں آگ نہیں سلگائی گئی۔ علماء کا اتفاق ہے کہ رسول کریم کی مخدرات عصمت وطہارت نے غم کے لباس اس وقت تک تبدیل نہیں کیے جب تک حضرت مختار کے ہاتھوں قتل ہو کر ابن زیاد اور عمر سعد کا سر حضرت امام زین العابدین کی خدمت میں نہیں پہنچ گیا۔ یعنی عورات بنی ہاشم نے ۶۲ھء سے ۶۷ھء تک لباس غم نہیں اُتارا۔ اور اپنے سروں میں تیل نہیں ڈالا… اپنی آنکھوں میں سُرمہ نہیں لگایا۔ جب ۹ ربیع الاوّل ۶۷ھء کو یہ سر مدینہ پہنچے ہیں۔ تو بحکم امام (ع) مخدرات عصمت وطہارت نے غم کے لباس اُتارے۔ اور فی الجملہ خوشی منائی۔ (مجالس المومنین ص۳۵۶۔ اصدق الاخبار ص۹۔ ذوب النضار ابن نما ۴۱۵۔ اخذالثار ابومخنف ص ۴۹۶۔ رجال کشی ص ۸۵)۔ 

تبصرے
Loading...