اھل سنت کے نزدیک توسل(پہلا حصہ)

فریقین کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیائے الہی خصوصا پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنے پر آیات قرآن کریم اور روایات نبوی دلالت کرتی ہیں،توسل کے جائز ہونے کی بحث اس سوال کو ذہنوں میں ایجاد کرتی ہےکہ کن لوگوں نے کن جگہوں پر انبیاءاور اولیاء الھی بالخصوصحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنے کو منع کیا ہے اور ان کی دلیل کیا ہے۔

اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ اس بحث سے متعلق اہم مسایل کو بیان کرتے ہوئے انبیاء الہی سے توسل کو جائز قرار دینے والی دلیلوں اور اہل سنت کے نظریات کو بیان کیا جائے ۔ انبیاء الہی خصوصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہر حال میں( دنیا میں اپ کی خلقت سے قبل، آپ کی حیات اسی طرح آپ کی وفات کے بعد) توسل کرنا جائز ہے ۔ اور توسل کے خلاف جو اعتراضات اور شبہات بیان کئے گئے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں ، کیونکہ انبیاء اور اولیاء الہی کو وسیلہ قرار دینا خدا کے نزدیک نہ شرک ہے اور نہ بدعت ہے۔ یہ انوار مقدس اپنی وفات کے بعد ، اپنی حیات کی طرح خداوند عالم کے اذن سے لوگوں کی حاجت کو پوراکرنے اوران شفاعت کرنے کی توانائي رکھتے ہیں ۔

مقدمہ

خدا کی بارگاہ میں انبیاء اور اولیائے الہی سے توسل کرنا طول تاریخ میں دیندار حضرات کے درمیان جائز تھا ۔ وحی الہی کے حاملین اور ان کے حقیقی ماننے والوں کو مطلق طور پر توسل کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے اور اگر وقت گذرنے کےساتھ ساتھ اس پر خرافات کا غبار بیٹھ گیا ہے تو ادیان کے حقیقی پیرووں نے اس غبار کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔

مسلمانوں کے درمیان صدر اسلام سے ساتویں صدی تک انبیاء خصوصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی ، تمام اسلامی فرقوں اور مذاہب کے پیرو اس پر اعتقاد رکھتے تھے ، ساتویں صدی کے بعد بعض افراد نے اس کے خلاف کچھ اعتراضات بیان کئے اسی وجہ سے آج بھی جب کچھ امور کے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو اس کے مخاطب یہی لوگ ہوتے ہیں جو ان امور کے جائز نہ ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور توسل کو جائز شمار کرنے والوں پرکفر وشرک کا فتوی لگاتے ہیں ۔

اس مضمون میں اختصار سے علمائے اہل سنت کے نظریات کو توسل کے جائز ہونے سے متعلق بیان کیا جائے گا تاکہ معلوم ہوجائے کہ منکران توسل کا حملہ صرف شیعوں ہی پر نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کی اکثریت پرہوتا ہے اور اگر وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ توسل کو جائز سمجھنے والے کافر یا مشرک ہیں تو پھر ان کی یہ بات اسلام کےتمام فرقوں کو شامل ہے ۔

توسل کے معنی :

الف : لغت میں توسل

”و یقال : توسل فلان الی فلان بوسیلة، ای تسبب الیہ بسبب و تقرب الیہ بحرمة آصرة تَعطفہ (تُعطفہ) علیہ”۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کسی وسیلہ کے ذریعہ فلان سے نزدیک ہوگیا ہے یعنی کسی شخص یاکسی چیز کو کسی قریب ہونے کا سبب قرار دیاہے ۔ اس وسیلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ متوسل الیہ کے نزدیک اس کا احترام بہت زیادہ ہے ، لہذا توسل کرنے والے کی طرف محبت اور توجہ کاباعث ہوتا ہے (ازھری، ١٤٢٢ھ ق ، ج٤، ص ٣٨٩٢) ۔

کسی چیز سے میل و رغبت کے ساتھ توسل کرنے کو وسیلہ کہتے ہیں (راغب اصفہانی، بی تا، ص ٥٢٣۔ ٥٢٤) ۔ جو چیز کسی سے نزدیک ہونے کا سبب بنتی ہے اس کو وسیلہ کہتے ہیں ( عمید، ١٣٦٠ ھ ق ، ج ١، ص ١٩٥٠) ۔

ب : اصطلاح میں توسل

وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ مقصدتک پہنچا جائے (ابن کثیرج 2، ص 563) ۔ قرطبی نے وسیلہ کو ایسی قربت کے معنی میں بیان کیا ہے جس کے ذریعہ کسی بات کی درخواست کی جائے (قرطبی ج6 ص159) ۔

زمخشری کہتے ہیں : جو چیز بھی نزدیک اور قریب ہونے کا سبب بنے اس کو توسل کہتے ہیں چاہے وہ رشتہ داری میں ہو یا کوئی اور چیز ہو۔اسی طرح جس امر کے ذریعہ خدا وند عالم سے توسل کیا جاسکے، جیسے اطاعت کرنا اور معصیت کو ترک کرنا(زمخشری، ج1ص662) ۔ اس امور کی بناء پر وسیلہ کے معنی عام ہیں جو بہت سے امور کو شامل ہے ۔

توسل کے جائزہونے پر مشہور دلیلیں

صدر اسلام سے خاص شرایط کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان توسل جائز تھا اور لوگ توسل کیا کرتے تھے۔

سمہودی لکھتے ہیں : خداوند عالم کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل، استغاثہ اور شفاعت جائز اور نیک کام ہے ، ہر دیندار انسان اس کے جائز ہونے کو مسلم جانتا ہے ، گذشتہ انبیاء ، بندگان صالح اور علمائے اسلام کی سیرت واضح طور سے اس پر دلالت کرتی ہے ، ساتویں صدی تک کسی بھی دیندار شخص نے توسل کے جائز ہونے کا انکار نہیں کیا ہے ، یا کم سے کم ہمیں اس طرح کی بات دیکھنے کو نہیں ملی ہے (سمہودی، ج3۔ ص4) ۔

١۔ عقلی دلیل

توسل کا جائز ہونا ایک امر عقلانی ہے ، جب کوئی انسان اپنے مولا کی نافرمانی کرتا ہےاوراسکی کم توجہی کا شکار ہوجاتاہے تو وہ کسی ایسے شخص کو واسطہ قرار دیتا ہے جو اس کے مولا کے نزدیک عزیز اور گرامی ہوتا ہے ،اس کام میں کوئی بھی عقل کی روسے کوئي مشکل نہیں ہے ، بلکہ مولا کی حکمت اس بات کا اقتضا کرتی ہے کہ مولا کسی واسطہ کے ذریعہ اپنے زیردست کام کرنے والے انسان کی غلطی سے درگذر کرے ، چونکہ خداوند عالم اپنی حکمت، قدرت رافت سے اپنے محتاج بندہ کے توسل کوقبول کرتاہے جس نے انبیاء اور اولیاء الہی کواسکی کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا ہے اور اس کی حاجات کو پورا کرتا ہے اوراس کی غلطیوں کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ہماری بات اس صورت میں صحیح ہے جب توسل عبودیت اور اخلاص کے منافی نہ ہو ۔

٢۔ قرآن کریم کی آیات

قرآن کریم کی مختلف آیات سے توسل کا جوازسمجھا جا جاسکتا ہے ، فریقین کی کتابوں کے مطابق علماء اور دانشوروں نے بے شمار آیات کے ذریعہ توسل کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے، یہاں پر ہم ان میں سے اہل سنت کے کلمات کے چند نمونوں کو مندرجہ ذیل آیات کے ذیل میں بیان کریں گے:

١۔ ”یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسیلَةَ وَ جاہِدُوا فی سَبیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون”(سورہ مائدہ، آیت ٣٥) ۔ ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ۔

اس آیت میں خداوند عالم نے کامیابی کے تین راستہ بیان کئے ہیں:

الف : تقوای الہی ۔

ب : خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے وسیلہ کا انتخاب کرنا

ج : راہ خدا میں جہاد کرنا ۔

اس بناء پر ہراس چیز کو وسیلہ کہا گیا ہے جس کے ذریعہ انسان خدا تک پہنچ سکے جیسے اعمال صالح اور دعا (فرناطی، ١٤١٦، ھ ق ، ج١، ص ٢٤١) ۔

اگر چہ اہل سنت کے اکثر مفسرین نے وسیلہ کو فعل طاعات اور ترک محرمات پر حمل کیا ہے یا اس کو بطور مطلق (کل ما یتوسل بہ..) ذکر کیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کو آیت کے مصداق کے عنوان سے نہ نفی کی ہے اور نہ اس کے جائز ہونے کی تصریح کی ہے ، لیکن آیت میں وسیلہ عام اور مطلق ہے اور جس طرح وہ اعمال صالح کو شامل ہوتا ہے اسی طرح دعا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اولیاء الہی کو واسطہ قرار دینا، مقامات مقدسہ اور ہر وہ چیز جو انسان کو خدا سے نزدیک (یعنی اصطلاحی توسل) کرتی ہے ، شامل ہوتا ہے ۔ زمخشری کی گذشتہ عبارت اور فخر رازی کی تعبیر اس طرح ہے : ” فالوسیلة ھی التی یتوسل بھا الی المقصود”۔ وسیلہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اپنے مقصود سے قریب اور نزدیک ہوا جاتا ہے، اور یہ عبارت عام ہے اور تمام موارد کو شامل ہوتی ہے (رازی، بی تا، ج١١، ص ١٨٩) ۔

اگر خدا کے نزدیک وسیلہ کو واسطہ قرار دینا شرک کا باعث ہوتا تو خداوند عالم کبھی بھی اس کو ھدایت کا سبب قرار نہ دیتا اور اس کا حکم نہ کرتا ۔

یہ حکم (خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے وسیلہ کا انتخاب) کسی خاص گروہ یا کسی خاص قوم کے لئے مخصوص نہیں ہے ، بعض لوگ گناہوں کی بخشش، بعض لوگ معنوی اور مادی حاجات کی برآوری ، بعض سعادت کا راستہ اختیار کرنے اور کمال تک پہنچنے کے لئے وسیلہ کے محتاج ہیں ۔

اس نکتہ سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ وسیلہ، قرب الہی کے حصول کے لئے ہے اور یہ اس وقت صادق آئے گا جب وہ یعنی جس کو وسیلہ قراردیا جارہاہے خدا کا مقرب بندہ ہوگا ، اگر وہ وسیلہ خداوند عالم کی بارگاہ میں مقرب نہیں ہے یاخداوند عالم اس سے نفرت کرتا ہے تو یہاں پر توسل کا کوئي معنی نہ ہوگا۔

٢۔ ”وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ اِلاَّ لِیُطاعَ بِِاذْنِ اللَّہِ وَ لَوْ أَنَّہُمْ اِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ جاؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّاباً رَحیما ”(سورہ نساء، آیت ٦٤) ۔ اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ۔

ابن کثیر نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے : خداوند عالم ان گناہگاروں کی ہدایت کرتا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدا کے نزدیک وسیلہ قرار دیتے ہیں وہ خود بھی استغفار کرتے ہیں اور آنحضرت سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ خدا وند عالم کے نزدیک ان کے لئے طلب مغفرت کریں ۔ اس طرح خداوند عالم کی وسیع رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے اور ان کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد نمونہ کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر سے ایک اعرابی کے توسل اور اس کی بخشش کا واقعہ نقل کرتے ہیں (ابن کثیر ، گذشتہ حوالہ، ص ٣٢٨ ۔ ٣٢٩) ۔

قرطبی نے حضرت علی علیہ السلام سے اس روایت کے مشابہ ایک روایت نقل کی ہے : ”روی ابوصادق (الازدی الکوفی) عن علی(علیہ السلام) قال : قدم علینا اعرابی بعد ما دفنا رسول اللہ بثلاثة ایام، فرمی بنفسہ علی قبر رسول اللہ و حث علی راسہ من ترابہ، فقال : یا رسول اللہ فسمعنا قولک، و وعیت عن اللہ فوعینا عنک و کان فیما انزل اللہ ”ولو انھم اذ ظلموا انفسھم” و قد ظلمت نفسی و جئتک تستغفرلی ، فنودی من القبر انہ قد غفر لک ”۔ ابوصادق ازدی نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دفن کرنے کے تین دنوں بعد ایک اعرابی نے اپنے آپ کو آنحضرت کی قبر پر گرادیا اور آپ کی قبر کی مٹی کو اپنے سر پر ڈالتا تھا اور کہتا تھا : یا رسول اللہ ! میں نے آپ کے کلام کو سنا ہے ، آپ اپنے خداوند عالم سے طلب کریں اور ہم آپ سے طلب کریں گے اور یہ آیت بھی خدانے آپ پرنازل کی ہے : اگر میرے بندے اپنے نفس پر ظلم کریں اور تمہارے پاس آئیں تم ان کے لئے طلب مغفرت کرنا اور خداوند عالم بھی ان کی توبہ کو قبول کرلے گا، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور اب آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ میرے لئے خداوند عالم سے طلب مغفرت کریں، اس کے بعد قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آواز آئی کہ تمہاری توبہ قبول کرلی گئی ہے ۔ (قرطبی، گذشتہ حوالہ، ج ٥، ص ٢٦٥) ۔

اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اعرابی نے قرآن کریم کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کیا اور خداوند عالم سے طب مغفرت کی اور اس توسل کے ذریعہ اس کی توبہ قبول ہوکئی ۔

فخر رازی لکھتے ہیں : ” و انھم اذا جائوہ فقد جائوا من خصہ اللہ برسالتہ و اکرمہ بوحیہ و جعلہ سفیرا بینہ و بین خلقہ ومن کان کذلک فان اللہ لایرد شفاعتہ”۔ جب کوئی حاجت مند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس کو خداوند عالم نے رسالت کے لئے منتخب کیا اور اپنی وحی کے ذریعہ اس کا اکرام کیا اور ان کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان سفیر بنایا ہے ، خداوند عالم ایسے شخص کی شفاعت کو رد نہیں کرتا ۔

٣۔ ” فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِماتٍ فَتابَ عَلَیْہِ ِانَّہُ هوَ التَّوَّابُ الرَّحیمُ ” (سورہ بقرة، آیت ٣٧) ۔ پھر آدم علیہ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔

جب حضرت آدم خداوند عالم کے امرارشادی کی مخالفت سے پشیمان ہوئے اور ارادہ کیا کہ اولیاء الہی سے رجوع کریں تو آپ ایسے وسایل کی تلاش میں تھے جن کے ذریعہ خدا وند عالم کو واسطہ قرار دیں، خداوند عالم نے کچھ کلمات ان کو سکھائے تاکہ ان کے ذریعہ خداوند عالم سے تقرب حاصل کریں( رجو ع کریں، المعجم العقایدی، ج١، ص ٨٧) ۔

”کلمات” کی مختلف تفاسیر بیان ہوئی ہیں،ان میں سے ایک رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے ۔ ” وقالت طائفة : اری مکتوبا با علی ساق العرش (محمد رسول اللہ)فتشفع بذلک ”۔ حضرت آدم جس وقت وسیلہ کو تلاش کررہے تھے تو عرش پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم مبارک دیکھا اوراس کو خداوندعالم کے نزدیک شفیع قرار دیا (قرطبی، گذشتہ حوالہ،ج١، ص ٣٢٤) ۔

آلوسی نے تفاسیر کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ” و اذا اطلقت الکلمة علی عیسی فلتطلق الکلمات علی الروح الاعظم و الحبیب الاکرم فما عیسی بل و ما موسی (وما …) الا بعض من ظھور انوارہ و زھرة من ریاض انوارہ …۔ جب حضرت عیسی کے لئے کلمہ کا لفظ استعمال ہوا تو بطریق اولی روح اعظم اور حبیب اکرم (رسول خاتم) پر کلمات کا اطلاق ہوگا، کیونکہ دوسرے انبیاء رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار مقدس کے ظہور کا ایک جزء ہیں (آلوسی ، بی تا، ج٢١، ص ٢٣٧) ۔

مذکورہ آیات اوران کی تفاسیر سے(اور دوسری بہت سی آیات جن کو ہم نے یہاں پر اختصار کی وجہ سے بیان نہیں کیا ہے) معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسمانی وجود سے قبل، آپ کی حیات میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی توسل کرنا جائز ہے

تبصرے
Loading...