اولاد کي تربيت ميں محبت کا کردار

انسان محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے- محبت اور توجہ دلوں کو حيات بخشتي ہے- جو انسان خود کو پسند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھي اسے پسند کريں- محبت و چاہت انسان کو شادمان اور خوشحال کرتي ہے- محبت ايک ايسا جزبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوي طور پر اثر انداز ہوتا ہے- اگر انسان کسي کو چاہتا نہيں ہوگا، پسند نہيں کرتا ہوگا تو اس کي تربيت کيسے کر سکتا ہے- تربيت اولاد ميں محبت کا کردار بنيادي حيثيت کا حامل ہے- محبت، استاد و شاگرد کے درميان ارتباط برقرار کرنے ميں نہايت اہم اور کليدي کردار ادا کرتي ہے- بہترين رابطہ وہ ہے جس کي اساس اور بنياد محبت پر ہو اس ليے کہ يہ ايک فطري اور طبيعي راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کي بنياد زور زبردستي اور بناوٹ وغيرہ پر ہوتي ہے، وہ سب غير طبيعي اور غير مفيد رابطے ہيں-

بچوں کي مہمترين رواني و فطري ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدين بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربي ہيں لہذا ان کے ليے ضروري ہے کہ وہ بچوں کي اس فطري ضرورت ہر خاص توجہ مبذول کريں اور انہيں جاننا چاہيے کہ يہي وہ ضرورت ہے جو ان کي تربيت کي اساس اور بنياد کو تشکيل ديتي ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے ليے رواني و فطري سلامتي، اعتماد بہ نفس اور والدين پر اعتبار کا سبب اور ذريعہ ہونے کي ساتھ ساتھ ان کي جسماني سلامتي کا بھي باعث ہے-

پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں: اکثروا من قبلۃ اولادکم، فان لکم بکل قبلۃ درجۃ في الجنۃ- اپنے بچوں کو بوسے دو اس ليے کہ تمہارا ہر بوسہ تمہارے ليے بہشت کے ايک درجہ کو بڑھا دے گا- لہذا والدين تربيت کي بنياد مہر و محبت پر رکھيں- اس ليے کہ اگر ايسا نہيں ہوگا تو وہ ارتباط جو بچوں کے رشد و کمال کا سبب بن سکتا ہے، بر قرار نہيں ہو سکے گا اور صحيح طرح سے تربيت نہيں ہو سکي گي جب کہ اگر والدين کا سلوک تندي و سختي ليے ہوءے ہوگا تو وہ بچے کي روحي و رواني ريخت و شکست کا سبب ہو جاءے گا اور وہ بے راہ روي کا شکار ہو جاءے گا-( جاري ہے )

 

تبصرے
Loading...