اهمیت اخلاق در نهج البلاغه

مقاله نگار حجت الاسلام سید حیدر عباس رضوی هندی

طلبه سطح سوم مدرسه عالی فقه و معارف اسلامی

مقدمه 

نھج البلاغه علوم و معارف کا وه سرمایه هے که جس کی عظمت و اهمیت هر دور میں مسلم رهی هے اور هر زمانه کے علماء و ادباء نے اس کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا هے ۔ نھج البلاغه صرف ادبی شاهکار هی نهیں بلکه و اخلاق کا سرچشمه اور ایمان و حقائق کے معارف کا خزینه هے یه وه کتاب هے جس میں وحی الهی کی خوشبو اور کلام نبوی کی شمیم کو محسوس کیا جاسکتا هے یه کتاب وحی الهی کے انقطاع کے بعد یقین و اطمنان کے لحاظ سے علم و حکمت کی جیتی جاگتی تصویر هے جس میں حکمت آمیز و پند و نصیحت کے گوهر شاھوار موجود هیں جو تعلیم و تزکیه میں هم دوش قرآن هے جس پر عمل پیرائی دین و دنیا کی سعادت هے ۔ نھج البلاغه میں مندرجه ذیل خطبات و مکتوبات میں دوچار خطبوں اور ایک آدھه خط کے علاوه تمام تحریریں اس دور کی هیں که جب آپ ظاهری خلافت پر قابض هوئے جبکه اقتدار و حکومت کے لالچی افراد اور شورش پسندوں نے خون عثمان کو ھوا دیکر آپ کو لڑائیوں میں الجھائے رکھنا هی اپنا مقصد سمجھ رکھا تھا مگر شیعوں کی جنھکار اور گھمسان لڑائیوں میں بھی آپ حکمت آمیز اشارے اور ذھنی انتشار کے هجوم میں هدایت و تربیت کے فرائض انجام دیتے رهے ۔ 

نھج البلاغه میں معانی و بیان کی مناسبتیں تشبیه و استعاره کی لطافتیں فلسفه و حکمت کے حقائق اور الهیات کے دقیق مسائل فصاحت و بلاغت کا نقطه ارتقاء طرزادا کی لطافتیں و جامع دستور حکومت مختصر جملے اور ضرب المثلیں اخلاقی شائستگی خود اعتمادی کلام کی قوت و لطافت هر اهل ذوق و فن کو اپنی طرف کھیچتے هوئے کون ادیب فی البلدی ایسے خطبات دے سکتا هے کون عارف مختصر حکمت آمیز کلمات کو بیان کرسکتا هے کون حاکم هے جو سیاست و مدیریت کے عمیق پهلوٶں کو بیان کرسکے علامه سید رضی (رح) کا دنیائے علم و ادب پر بڑا احسان هے که ان جواهر ریزوں کو بڑی کدوکاوش و تحقیق و جستحو سے جمع کیا اور اس کا نام نھج البلاغه رکھا ۔ 

اس کتاب میں ۲۳۹ خطبات اور ۷۹ مکتوبات و ۴۸٠ حکمت آمیز کلمات قصار هیں سید رضی (رح ) نے مندرجات نھج البلاغه کے اسناد و مدارک کو اس لئے ذکر نهیں کیا که اس زمانے میں یه مندرجات اس قدر مشهور و معروف تھے که اس کے مصادر کے ذکر کا احساس هی نه تھا اگر چه چند قرن کے بعد بهت سے منابع متعصب وعناد پرست افراد کے هاتھوں نذر آتش هوگئے لذا بهت سے متجر علم و دانش نے مصادر نھج البلاغه کو جمع کیا ۔ 

انگیزه تالیف 

میں نے عالم جوان میں خصائص الائمه تالیف کی جو آئمه اطهار (ع) کی نورانی زندگی اور قیمتی ارشادات پر مشتمل تھی یه کتاب چند فصلوں پر مشتمل تھی اور آخری فصل میں چند مختصر کلمات کو رقم طراز کیا جسے بهت سے دوستوں نے پسند کیا اور ان کلمات کے بے نظیر نکات سے محو حیرت هوگئے ان لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی که ایسی کتاب تالیف کریں جو مولائے کائنات علی ابن ابی طالب (ع) کے ارشادات و کلمات پر مشتمل هو میں جانتا تھا اس میں بڑی کدو کاوش کی ضرورت هے اور میں نے اس کام کو اس لئے شروع کیا که آنحضرت کے تمام فضائل و مناقب کے علاوه آپ کی فن سخنوری و خطابت کو لوگوں کے سامنے آشکار کروں کیوں که یهی ذات وه نقطه کمال هے جو فصاحت و بلاغت و خطابت کے کے تاجدار هیں (۱) 

اس وقت بڑے بڑے علماء و ادباء و خطباء و محدثین اهل سنت موجود تھے اور بغداد هی جم غفیر تھا ۔ 

نھج البلاغه بعض متعصبین کی نگاه میں : 

علامه سید رضی کے بعد تقریبا دو ڈھائی سو برس تک نھج البلاغه کے خلاف کوئی آواز اٹھتے هوئے نظر نهیں آئی هے بلکه متعدد اهل سنت نے اس کی شرحیں لکھی هیں جیسے ابوالحسن علی ابن ابی القاسم بیھقی متوفی ۵۶۵ ھ امام فخرا الدین متوفی ۶٠۶ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۵ و علامه سعد الدین تفتازانی وغیره ۔ ۔ ۔ انھیں شرحوں کے نتیجه میں عوام نھج البلاغه سے آشنا هوئی هے اور یه بات قابل لحاظ هے که نھج البلاغه کے بارے میں تعصبی آواز نھج البلاغه کے مرکز تالیف یعنی بغداد یا عراق کے کسی شھر سے بلند نه هوئی بلکه مغربی مملکت جهاں بنی امیه کی سلطنت تھی وهاں ابن خلکان مغربی کی زبان سے یه آواز بلند هوئی که( قدامت اختلف الناس فی کتاب نھج البلاغه المجموعة من کلام علی ابن ابی طالب ھل ھو جمعه اواخوه سید رضی و قیل انه لیس من کلام علی ابن ابی طالب و انما الذی جمعه و نسبه الیه ھو الذی و ضعه والله اعلم ) 

ابن خلکان متوفی ۶۸۱ ھ سید مرتضی کے حالات میں لکھتا هے لوگوں نے اس سلسلے میں اختلاف کیا هے که نھج البلاغه جو علی ابن ابی طالب (ع) کے کلام کا مجموعه هے اس کا جامع کون هے آیا اسے سید مرتضی نے جمع کیا یا ان کے بھائی سید رضی نے اور قول قیل هے که یه علی ابن ابی طالب (ع) کا کلام نهیں هے بلکه جنھیں اس کا جامع سجمھا جاتا هے وهی اس کے مصنف هیں والله اعلم : 

ڈوبتےکو تنکے کا سهارا کافی هوتا هے لذا ابن خلکان سے بڑھ چڑھ کر دیگر متعصب افراد کو یه همت پیدا هوئی که بغیر کسی قیل و قال کے نھج البلاغه کے کلام امیر المومین (ع) هونے کا انکار کرنے لگے جیسے سید مرتضی کے حالات میں ذھبی متوفی ۷۴۸ ھ لکھا تن طالع کتابه نھج البلاغه جزم با انه مکذوب علی امیرالمومین فقیه السب الصریح بل حط علی السدین ابی بکر و عمر : 

اگر کوئی کتاب نھج البلاغه کا مطالع کرے تو اسے یقین هو جائے گا که یه کلام امیر المومنین (ع) کا نهیں هے کیونکه اس میں کھلم کھلا اظهار بیزاری اور شخین کی تنقیص هے 

اس تعصبی انداز پر تعجب هے که پهلے اسے سید مرتضی کا کارنامه قرار دیتا هے اور پھر یکسره یقینی حالت میں اظهار کرتا هے که امیر المومنین (ع) کی طرف اس کتاب و کلام کی نسبت جھوٹی هے اور ساتھ هی ساتھ دلیل بھی دیتا هے که اسمیں کوئی ایسی عینک مل گئی جو ان سے پهلے کسی کے پاس نه تھی کا علمی دنیا میں دوسرداروں کی تنقیص کی وجه سے یقینی نسبت کو جھوٹ کهنے کی قیمت هے یه تو بالکل ایسے هی هے که جیسے قرآن کے نازل هونے کے بعد مشرکین کا ایک طبقه الهی هونے کا اس لئے انکار کرے که اس میں الله کی مذمت و تنقیص هے ۔ 

کاش حقیقت کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے نه که جذبات کے لحاظ سے مگر ان کا طره امتیاز هی یه هے که وه هر قانون شریعت کو جذبات کے تحت دیکھتے هیں ۔ 

مناظره کے میدان کا سب سے آسان هتھیار بن گیا که جب نھج البلاغه کا کوئی کلام بطور دلیل پیش هو تو اس کا یه کهکر انکار کر دیا جائے که یه امیر المومنین کا کلام نهیں هے ۔ 

انھیں کی پیروی کرتے هوئے علامه یا فعی متوفی ۷۶۸ ھ و ابن العمار متوفی ۸٠۸ ابن حجر عقلان متوفی ۸۵۲ ھ نے بغیر کسی تحقیق کے یه کهه ڈالا که یه کتاب سید رضی کی تصنیف هے یا سید مرتضی کی هے ۔ 

علامه سید ذیشان حیدر جوادی نے اپنی مترجمه نھج البلاغه کے مقدمه میں تقریبا اکسٹھ ایسی کتابوں کے حوالے دیئے هیں که جو خطبات وفرامین امیر المومنین (ع) کے حوالے سے سید رضی کی ولادت سے سالها سال پهلے لکھی گئی هیں اس موقع پر وه تحریر کرتے هیں کیا اس کا بھی امکان هے که انسان دنیا میں آنے سے پهلے اپنے کلمات مولفین کے اذهان تک منتقل کردے ایسا هوسکتا هے تو یه سید رضی کے معجزات میں شمار هوگا جس کا اسلامی دنیا میں کوئی امکان نهیں پایا جاتا هے ۔ 

ابن ابی الحدید کهتے هیں که بعض هوس پرستوں کا یه گمان هے که نجھ البلاغه کا عمده حصه بعض شیعوں کا گڑھا هوا کلام هے اور بهت سے لوگ اس کے بعض حصوں کو سید رضی اور بعض دوسرے افراد کی طرف سے گڑھا هوا تصور کرتے هیں لیکن یه لوگ اس قدر متعصب هیں که تعصب کی وجه سے ان کے دل کی آنکھیں اندھی هوگئی هیں اور وه سیدھے راسته سے منحرف هوگئے هیں اور قلت معرفت و میزان کلان سے نه آشنا هونے کی وجه سے بے راه روی کا شکار هوگئے هیں (۲) 

سید رضی نے اپنی کتاب المجازات النبویة کے ان صفحوں ص۳۸۷ ۔ ص ۲۴۷ ۔ ص ۱۹۵ ۔ ص ۳۶ ۔ ص ۳۵ ۔ پر وضاحت کی هے که نھج البلاغه کو میں نے جمع کیا هے اسی طرح اپنی کتاب حقایق التاویل ص ۲۸۷ ۔ پر اور خصائص الائمه کے دیباچه میں بھی اسی مطلب کو تحریر کیا هے ۔ اور اهل سنت کے مصنف مزاج و حقیقت شناس علماء و ادباء و حفاظ نے نھج البلاغه کے مندرجات کو کلام امیرالمومنین مانتے رهے هیں اور اس کا اظهار کرتے رهے هیں اور شرحیں و مصادر نھج البلاغه بھی رقمطراز کی هیں ۔ 

نھج البلاغه علماء اھل سنت کی نگاه میں : 

۱) علامه البو حامد عبد الحمید ابن ھبة الله معروف به ابن الحدید مدائنی بغدادی متوفی ۶۵۵ نے نھج البلاغه کی مبسوط شرح لکھی هے وه حضرت امیرکے فضائل ذاتیه میں فصاحت کے ذیل میں لکھتے هیں ۔ 

(اما الفصاحة فھو امام الفصحاء و سید البلغاء و عن کلامه قیل دون الخالق و فوق کلام المخلوق و عنه تعلم الناس الخطابة و الکتابة ) 

آپ کی فصاحت فحاء کے امام اور بلغاء کے سردار آپ هی کے کلام کے لئے کها گیا هے که خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا هے اور آپ هی دنیائے علم نے خطابت وکتابت سیکھی هے ۔ 

۲) علامه سعد الدین تفتازانی متوفی سنه ۷۹۱ ھ شرح مقاصد میں لکھتے هیں و اذا فصھھم لسانا علی ما یشھد به کتاب نھج البلاغه : امیرالمومنین (ع) سب سے زیاده فصیح اللسان تھے جس کی گواھی کتاب نھج البلاغه کی صورت میں موجود هے ۔ 

۳) علامه علاء الدین قوشجی متوفی ۸۷۵ ھ شرح التجرید میں قول محقق طوسی افصحھم لسان کی شرح میں لکھتے هیں علی مایشھد به کتاب نھج البلاغه وقال البلغاء ان کلامه دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق افصح اللسان پر کتاب نھج البلاغه گواه هے اور بلغاء کا کهنا هے که آنحضرت کا کلام خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا هے ۔ 

۴) محمد بن علی طباطبا معروف به ابن طقطقی اپنی کتاب تاریخ الفخری فی الادب السلطانیه والدول الاسلامیه مطبوعه مصر ص ۹ پر لکھتے هیں عدل ناس الی نھج البلاغه من کلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب فانه الکتاب الذی یتعلم منه و الموعظ و الخطب و التوحید و الشجاعة و الفرھد و علوالھمة و ادنی فوائد الفصاحة و البلاغة : ) 

بهت سے لوگوں نے نھج البلاغه کی طرف توجه کی جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے کلام پر مشتمل هے اسی کتاب سے حکم و مواعظ توحید و شجاعت و زھد بلند همتی کا درس حاصل کیا جاسکتا هے اور اس کتاب کا سب سے مختصر فائده فصاحة و بلاغت هے : 

۵) ابن ابی الحدید کهتا هے که اگر عرب کے تمام فصحاء کو جمع کیا جائے اور کلمات امام کو باالخصوص خطبه نمبر ۲۲۱ کی تلاوت کی جائے تو بهتر یه هے که سب اس کلام کے سامنے سجده ریز هو جس طرح آیات سجده قرآنی کے سامنے سجده ریز هوتے هیں (۳) 

۶) عبد الحمید یحیی جو فن خطابت و کتابت میں عربوں کے درمیان ضرب المثل تھا اس سے پوچھا گیا که فصاحت و بلاغت کے اس مرتبه تک کے پهونچنے تو اس نے جواب دیا حفظ کلام الاصطع ) اصلع یعنی جس کے سر کے اگلے حصے کا بال چھڑ گیا هو ۔ 

اس ضمیر فروش نے مولا کا نام اس لئے نهیں لیا که مروان بن محمد آخری اموی خلیفه کے دربار کا کاتب تھا ۔ 

۷) حافظ متوفی ۲۵۵ ھ کهتا هے علی کرم الله وجھه رسول خدا (ص) کے بعد سب سے زیاده فصیح و دانشمند و زاھد تھے امور شریعت و حق میں سختگیر اور پیامبر (ص) کے بعد بطور مطلق خطبائے عرب کے امام جانے جاتے تھے ۔ (۴) 

۸) علامه احمد بن منصور کا زردنی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں امیر المومنین (ع) کے حالات میں لکھتے هیں ( ومن تامل فی کلامه و کتبه و خطبه و رسالاته علم لا یوازی علم احمد و فضائل لا تشاکل فضائل احد بعد رسول الله و من جملتھا کتاب نھج البلاغه ) جو بھی امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب کے کلام و خطوط و خطبوں و رسالوں پر غور و فکر کرے تو اسے معلوم هو جائے گا که رسول اسلام (ص) کے بعد کوئی بھی علم و فضائل علی ابن ابی طالب (ع) کے برابر نهیں هے ۔ اور انھیں میں سے کتاب نھج البلاغه هے ۔ 

۹) مفتی دیار مصر یه علامه شیخ محمد عبده متوفی ۱۳۳۲ ھ اپنی شرح کے مقدمه میں کهتے هیں که نھج البلاغه کے اثناء مطالعه مجھے ایسا تصور هورها تھا که جیسے لڑائیاں چھڑی هوئی هیں نبرد آزمائیاں هورهی هیں بلاغت کا زور هے اور فصاحت پوری طاقت سے حمله ور هے تو ھمات شکست کھارهے شکوک و شبھات پیچھے هٹ رهے هیں خطابت کے لشکر صف بسته هیں طاقت لسان کی فوجیں شمشیر زن اور نیزه بازی میں مصروف هیں وسوسوں کا خون بهایا جارها هے تو ھمات کی لاشیں گررهی هیں اور یکدفه ایسا محسوس هوتا هے که بس حق غالب آگیا اور باطل هار گیا تصورات باطل کا زور ختم هوگیا اور اس فتح و نصرت کا سهرا اسد الله غالب علی ابن ابی طالب (ع) کے سر هے ۔ (نقل از مقدمه نھج البلاغه مفتی جعفر صاحب اردو ) 

۱٠) حجتة الاسلام آقای مروی نے حجة الاسلام والمسلمین خطیب توانا آقای فلسفی کی سالگرد و رحلت په ایک واقعه بیان کیا جسے آیة الله جواد مغنیه نے اپنی کسی کتاب میں ذکر کیا هے که هر سال شب غدیر ملک لبنان میں شیعه و سنی مل کر ایک محفل منعقد کرتے تھے اور مشهور و معروف خطیبوں میں ایک خطیب کو دعوت دیتے تھے ایک سال مصر کے بهت مشهور خطیب امیر شکیب کو دعوت دی ناظم محفل نے جب برنامه کا اعلان کرنا شروع کیا تو خطیب کا اعلان اس طرح کیا ( ألاتسمعون کلمته من الامیر شکیب انھی سمی الامیر لأنه شبیه بالامیر بیانا ) اے لوگوں ابھی امیر شکیب رونق افروز منبر هونگے اور سنوار انھیں امیر اس لئے کها جاتا هے که یه امیر المومنین کے بیان سے شباھت رکھتے هیں اس اعلان کو سنتے هی غضب شکیب ( من ھذا التشبیه ) اس تشبیه کو سنتے هی امیر شکیب کی پیشانی پر بل پڑگئے اور جب منبر پر پهونچے تو بغیر بسم الله کهے یه جملے کهے جب سے میں پیدا هوا هوں مجھے کسی نے اتنا شرمنده نه کیا جتنا آج اور یه که والله ان کل ما فی الارض عد الله و الرسول لا یشبه غبار الذی علی حافر فرس علی ابن ابی طالب خدا کی قسم اس کائنات هست و بود کی تمام اشیاء کو امیر المومنین کے سوار کی ٹاپوں تلے ذات سے بھی تشبیه نهیں دے سکتے ۔

المختصر یه هے که نھج البلاغه پر انگلی اٹھانے والے انگشت بے شمار هیں اور عظمت نھج البلاغه کے معترفین کی تعداد بهت زیاده هیں ۔ 

نھج البلاغه کی عظمت غیر مسلموں کی نگاه میں : 

۱) علامه مرحوم سید ھبة الدین شھرستانی اپنی کتاب موھو نھج البلاغه میں لکھتے هیں که ایک شخص نے مسیحی دانشور امین نحلة سے درخواست کی که حضرت علی کے کلمات میں چند کلمات کو چنیں اور انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو اس میں مسیحی دانشمند نے اس طرح جواب دیا که مجھے مجھ سے درخواست کی هے که عرب کی بلیغ ترین شخصیت کے کلمات میں چند کلمات کو منتخب کروں تا که تم اسے چاپ کرو فضلا مجھے ایسی کتابوں کا علم نهیں هے جو اس تقاضے کو پورا کرسکیں ۔ سوائے چند گنی چنی کتابوں کے که ان میں سے ایک نھج البلاغه هے مین خوشی کے مارے پھولا نه سمایا اور اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو میں سمجھ هی نهیں پارهاتھا که کس طرح ان کلمات میں سے سو کلمات کا انتخاب کروں اور یه کلام بلا تشبیه گویا یوں هے که ایک یاقوت کے دانے کو دوسرے دانے کے ساتھ مقایسه کرتا هوا چن لو آخر اس کام کو میں نے انجام دیا اور تمهیں یقین نه آئے گا که کس مشقت و سختی کے ساتھ بلاغت کی اس کان سے ایک ایک کلمه نکالنے میں کامیاب هوا هوں تو مجھ سے یه سو کلمات لے اور یه یاد رکھ که یه سو کلمات نور بلاغت کا مرکز اور شگوفه فصاحت کے غنچے هیں ۔ 

دوسری جگه استاد امین نحله کهتے هیں که جو بھی اپنے نفس کی بیماری کا علاج کرنا چاهتا هے اسے چاهیئے که نھج البلاغه میں امیر المومنین (ع) کے کلمات سے علاج کرے اور اسی کتاب کے سایه میں زندگی گذارے ۔ (۵) 

۲) اسی طرح مرحوم شهرستانی کتاب تنزیه التنزیه میں رقمطراز هیں که علی گڑھ یونیورسٹی کے انگریزی استاد مستعد گرینکوی ایک دن دیگر دانشمند افراد کے ساتھ هم مجلس تھے ان سے اعجاز قرآن کے متعلق سوال کیا گیا تو اس طرح جواب ده هوئے که قرآن ایک چھوٹا بھائی جس کا نام نھج البلاغه هے آیا ممکن هے که کوئی اس کی مثال لے آئے پھر جاکر اس کے بڑے بھائی قرآنی کے متعلق سوال اور اس کی مثال لائے جانے کے امکان پر بحث کی ضرورت محسوس هونا چاهیئے اسی وجه نھج البلاغه کے بارے میں مشهور هے که یه مخلوق کے کلام سے بلند و بالا اور خالق کے کلام سے نیچے ۔ ( الفضل ما شھدت به الاعداء ) در حقیقت فضیلت تو وه هے که جس کی گواهی دشمن دے مگر افسوس صد افسوس که مسلمانوں نے نھج البلاغه کی قدرنه کی صرف شرحیں لکھی گئی جس طرح قرآن کی تفسیر با لرای سے اپنے ضمیر کو سکون دیتے رهے هیں اسی طرح نھج البلاغه بھی شرحوں سے اپنے خوابیده ضمیر کو مزید خواب خرگوش میں مبتلا کرتے رهے هیں چونکه یه کتاب صرف ادبی شاھکار هی نهیں بلکه اسلامی دائره المعارف هے جس میں راه سعادت په گامزن هونے کے لئے تمام دستورات بنحو احسن موجود هیں : 

نھج البلاغه کی خصوصتیں : 

۱) مولائے کائنات حضرت علی السلام کی عظیم و بلند شخصیت نھج البلاغه کے لئے سبب جاودانگی هے آنحضرت نے اپنے کلام ان تمام صفات کو پر دیا جو لوگوں کو جذب کرسکتی تھی هر عدالت و آزاد خواه آپ کے کلام اور آپ کا عاشق نظر آتا هے اور خاتم المرسلین کے بعد میدان فضیلت کے شهوارکا نام علی اسی وجه سے ان کا بیان بھی بے بدیل و بے نظیر هے ۔ 

۲)فصاحت و بلاغت : خطابت پیام الهی کی تبلیغ کا ایک مٶثر و روشن طریقه هے که جس سے پیامبران الهی نے استعفاده کیا هے اور خود قرآن مجید بھی احسن شیوه بیانی سے مزین هے مولائے کائنات نے بھی اپنے بیان کو شیوه ادبی و زیور فصاحت و بلاغت سے مزین جس کی وجه سے مخاطبین و سامعین کو تھکاوٹ محسوس نهیں هوسکتی نھج البلاغه سھل ممتنع کی مالک هے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نھج البلاغه ج ۶ ص ۱۴۵ پر رقمطراز هیں که فصاحت کو دیکھو کیسے اس نے اپنی بھار علی کے حوالے کردی هے اور خود زیان علی کی تابع بن گئی هے اور الفاظ کے نظم کو دیکھو که کس طرح یکه بعد دیگرے علی کرم الله وجھه کے اختیار میں هیں جیسے یه احساس هی نهیں هوتا که آیا کتاب سیاست هے یا کتاب ھدایت آیا یه کتاب فلسفی هے یا تاریخی بلکه مطالعه کرنے کے بعد یه بات واضح هوجاتی هے که نھج البلاغه رشد وھدایت و سعادت اخروی و دنیوی کے تمام رموز کو رکھتی هے شاعر و خطیب فصیح و بلیغ افراد کے علاوه فقھاء و متکلمین و مفسرین و فلاسفه و جامعه شناس و اعلاء اخلاق و دیگر دانشمند حضرات نھج البلاغه سے فیض یاب هوتے رهے هیں ۔ 

زمان تالیف سے دور حاضر تک اس کی ضیاپاشیاں : 

نھج البلاغه اخلاقی تعلیمات کا سر چشمه هے اس کے ایک ایک فقرے میں قرآن کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم مضمر هے جب تک معلم اسلام کے حکمت آمیز کلمات کے آئینه میں اسلام کے خدو خال کو پهچاننے کی کوشش نه کی جائے گی اس وقت تک اسلام کے بلند معیار اخلاق سے بیگانه رهیں گے لذا اس مکرو فریب کی دنیا میں ضروری هے که ماقاله المرتضی المرتضی کی روشنی میں اسلام کے خدو خال کو پهچنوایا جائے یه کلام علوی وه معجزه قولی که جس سے هر زمانے میں مختلف مکتب خیال کے افراد استعفاده کرتے رهے هیں جس طرح قرآن پیامبر اسلام معجزه قولی هے اسی طرح نھج البلاغه وصی پیامبر کا معجزه قولی هے اس معجزه کے سدامنے سبھی عاجز و ناتواں نظر آتے رهے هیں آنحضرت (ع) کے کلام کی نورانیت اتنی هی زیاده که هر مکتب خیال کے علماء و فضلاء نے زمان تالیف سے لیکر آج تک اس کے مطالب و حقائق کو بقدر امکان واضح کرنے کے لئے شرحیں لکھی هیں علامه بزرگ تهرانی نے اپنی کتاب الذریعه ج ۱۴ ۔ ص ۱۱۳ ۔ پر حدودا نھج البلاغه کی سو شرحوں کا تذکره کیا هے ۔ 

علامه امینی نے اپنی عظیم کتاب الغدیر ج ۴ ص ۱۸۶ پر نھج البلاغه کی ۸۱ شرحوں کا تذکره کیا هے سید عبد الزهراء خطیب نے مصادر نھج البلاغه ج ۱ ص ۲۴۷ پر نھج البلاغه کی ۱۴۳ شرحوں کا تذکره فرمایا آیة الله رضا استادی نے کتابنامه نھج البلاغه میں ۳۷٠ شرحوں و ترجموں کو لکھا هے اتنی شرحیں و ترجمے و تعلیقات و مستدرکات اسی کتاب نھج البلاغه سے هی قلمبند هوئے هیں تبیین معارف میں شیوه نھج البلاغه مثل قرآن هے ۔ نھج البلاغه خود اپنی ضیا پاشی هی کی وجه سے هر دانشمند کے لئے ایک ارزشمن کتاب هے اور تحریف و اسرائیات بھی محفوظ هیں چونکه نھج البلاغه کی علمی و ادبی اهمیت اور اس کے حقایق آگیں مضامین و اخلاق مواعظ کا وزن نا قابل انکار هے اور فقها و علماء اسلام کی مسلسل نظارت و تفسیر سے یه کتاب محفوظ هے کسی بھی کتاب کے باقی رهنے کے اسباب و علل پائے جاتے هیں اور جس قدر اسباب و علل قوی هونگے کتاب کی ارزش و قیمت بھی زیاده هوگی اور نسبت و نابودی سے بھی محفوظ رهے گی : 

چند اسباب حسب ذیل هیں : 

۱) راویاں نھج البلاغه کی کثرت 

۲) حفاظ کی کثرت 

۳) نھج البلاغه کی کثرت نسخه برداری 

۴) راویوں کا تسلسل 

۵) سید رضی سے پهلے دانشمندان شیعوں کی جمع آوری 

۶) آثار علوی کے تحفظ میں علماء شیعه کی ایثار گری 

: انھیں اسباب و علل کی وجه سے یه اثر علوی محفوظ و مصون هے انشاء الله تا ظهور یوسف زھراء (س) یه کتاب چمکتی و دمکتی رهے گی ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) حالات سید رضی : مٶلف سید محمد مھدی جعفری ص ۶۲ و ۶۳ ۔ 

(۲) ابن ابی الحدید ج ۱ ۔ ص ۵۴۳ ۔ 

(۳) بھج الصباغة ج ۱ ۔ ص ۳۲ ۔ 

(۴) البیان و التبیین ج ۱ ۔ 

(۵) عبد الزھراء ۔ مصادر نھج البلاغه ج ۱ ص ۹۱ و ۹۲ ۔ 

تبصرے
Loading...