انصار سے خطاب

انصار سے خطاب

ثمّ رمت بطرفھا نحو الانصار فقالت :یا معشر (النقیبة)واعضاد الملة وحضنة الاسلام ،ما ھذہ الغمیزة فی حقی،والسنّة عن ظلامتی ؟

اماکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ ابی یقول: “المرء یحفظ فی ولدہ”سرعان ما احدثتم و عجلان ذا اھالة ، ولکم طاقة بما احاول وقوّة علی ما اطلب واٴزاول ۔

اٴتقولون : مات محمد (ص)، فخطب جلیل، استوسع وہنہ،واستنھر فتقہ، و انفتق رتقہ ،واظلمت الارض لغیبتہ وکسفت الشمس والقمر، وانتثرت النجوم لمصیبتہ، واکدت الآمال، وخشعت الجبال ،واُضیع الحریم ،وازیلت الحرمة عند مماتہ ۔

فتلک واللّٰہ النازلة الکبریٰ والمصیبة العظمیٰ ، لامثلھا نازلة، ولا بائقة عاجلة، اعلن بھا کتاب اللّٰہ جلّ ثنا وٴہ فی افنیتکم وفی ممساکم ومصبحکم یھتف فی افیتکم ھتافا وصراخا وتلاوة والحانا،ولقبلہ ما حلّ بانبیاء اللّٰہ ورسلہ حکم فصل وقضاء حتم ۔

اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ هوئیںاورفرمایا:

اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے هو اور مجھ پر جو ظلم وستم هورھاھے اس سے کیوںغفلت سے کام لے رھے هو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی هوتا ھے؟)

تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ھے اور کتنی جلدی هوا وهوس کے شکار هوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے هو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

یہ کیا کہہ رھے هو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام هوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ھے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جارھاھے اورخلاء واقع هو رھا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک هوگئی اور شمس وقمر بے رونق هوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش هوگئے ھیں ،حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔

اٴیْھاً بنی قیلہ ! اٴ اٴہضم تراث ابی؟ و انتم بمرای منّی ومسمع، ومنتدی ومجمع تلبسکم الدعوة وتشملکم الخُبرة وانتم ذوو العدد والعدة والاداة والقوة،وعندکم السلاح والجُنة تو ا فیکم الدعوة فلا تجیبون ، وتاتیکم الصرخة فلا تغیثون وانتم موصوفون بالکفاح ،معروفون بالخیر والصلاح ،والنخبة التي انتخبت والخیرة التی اختیرت لنا اھل البیت ۔

قاتلتم العرب ،وتحملتم الکدّ والتعب،وناطحتم الامم وکافحتم البُھم،لا نبرح ولا تبرحون ،نامرکم فتاتمرون ، حتی اذا دارت بنا رحی الاسلام ودرّ حلب الایام ،وخضعت نعرة الشرک، وسکنت فورة الافک وخمدت نیران الکفر،وھداٴت دعوة الھرج،و استوسق نظام الدین ۔

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔

یہ اللہ کی کتاب ھے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند هورھی ھے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ھے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں(جیسا کہ ارشاد هوتا ھے) :

“اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پهونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے” ۔

اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رهوں جبکہ تم یہ دیکھ رھے هواور سن رھے هو اوریھاں حاضربھی هو اور میری آوازتم تک پهونچ بھی رھی ھے اور تم واقعہ سے با خبر بھی هو، تمھاری تعداد زیادہ ھے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ھے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی هوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن رھے هو مگر فریاد رسی نھیں کرتے هو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ هو ، تم ھی ھم اھلبیت (ع) کے لئے منتخب هوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوٴں سے زورآزمائی کی ، جب ھم

فانّٰی حُرتم بعد البیان واسررتم بعد الاعلان ونکصتم بعد الاقدام واشرکتم بعدالایمان بوساً لقوم نکثوا؟

[2]

اٴلا و قد اری ان قد اخلدتم الی الخفض ،وابعدتم من ھو احقّ بالبسط والقبض، ورکنتم الی الدعة، ونجوتم من الضیق بالسعة فمججتم ما وعیتم ،ودسعتم الذی تسوغتم۔

[3]

قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ھم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ هوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم هوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش هوگئے ، شورش اور شوروغل ختم هوگیا اور دین کا نظام مستحکم هوگیا۔

اے گروہ انصار: متحیرهوکر کھاںجارھے هو ؟ ! حقائق کے معلوم هونے کے بعد انھیں کیوںچھپاتے هو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رھے هو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں هو رھے هو ؟

” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ھے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے هو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار هو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔”

میں دیکھ رھی هوں کہ تم پستی کی طرف جارھے هو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول هو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے هو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، “لیکن آگاہ رهو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرهوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیںھے ۔”

اٴلا و قد قلتُ ما قلت علی معرفة منی بالخذلة التی خامرتکم والغدرة التی استشعرتھا قلوبکم ، و لکنھا فیضة النفس ، ونفثة الغیض (الغیظ)و خور القنا وبثّة الصدرِوتقدمة الحجة ۔

فدونکموھا فاحتقبوھا دبرة الظھرنقبة الخف ،باقیة العار، موسومة بغضب اللّٰہ وشنار الابد ،موصولة بناراللّٰہ الموقدة التی تطّلع علی الافئدة ۔فبعین اللّٰہ ماتفعلون [4]

وانا ابنة نذیر لکم بین یدی عذاب شدید ، فاعلموا [5][6]

اے لوگو! جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میںجانتی هوںکہ تم میری مددنھیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے هو مجھ سے پوشیدہ نھیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام هوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیںھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔

خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم هوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ھے بھت جلد ستمگاراپنے کئے هوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے”

اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی هوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے هو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر هو ، ھم بھی منتظرھیں۔ [7]

[1] سورہ آل عمران آیت۱۴۴۔

[2] سورہ توبہ، آیت ۱۲

[3] سورہ ابراھیم ،آیت ۸

[4] سورہ شعراء آیت ۲۲۷

[5] سورہ ہود، آیت ۱۲۱و۱۲۲

[6] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

[7] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

 

تبصرے
Loading...