انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت

 

وہ دلائل جو نشاندہی کرتے ہیں کہ کائنات کی تمام مخلوق میں، پروردگار عالم کی سب سے اشرف اور افضل مخلوق اور خلقت کا سرسبز وشاداب پھول، انسان ہے، اُن دلائل میں وہ آیات شامل ہیں جو

۱۔ انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت

وہ دلائل جو نشاندہی کرتے ہیں کہ کائنات کی تمام مخلوق میں، پروردگار عالم کی سب سے اشرف اور افضل مخلوق اور خلقت کا سرسبز وشاداب پھول، انسان ہے، اُن دلائل میں وہ آیات شامل ہیں جو انسان کے لئے ملائکہ کے سجدے سے مربوط ہیں کہ جن کے اُوپر قرآن کے چند سوروں میں تاکید ہوئی ہے(۳) یہ آیات پتہ دیتی ہیں کہ سب فرشتوں نے بلا استثناء آدم کے لئے سجدہ اور خضوع کیا اور یہ آدم کی فضیلت پر یہاں تک کہ فرشتوں سے افضل ہونے پر واضح دلیل ہے، بظاہر قرآن مجید کی بار بار اُن تاکیدوں کا مقصد، انسانوں کو اُن کی اپنی معنوی اور الٰہی شخصیتوں کی طرف توجہ دلانا ہے اور یہ بات انسانوں کی تربیت اور ہدایت میں بہت زیادہ اثرا انداز ہوتی ہے ۔

۲۔ آدم کے لئے سجدے کی کیا کیفیت تھی؟

اس سلسلہ میں کہ یہ سجدہ کس قسم کا سجدہ تھا اور کیا غیر خدا کے لئے سجدہ کا امکان ہے، مفسروں کے درمیان گفتگو باقی ہے ۔

بعض مفسرین معتقد ہیں کہ سجدہ تو خدا کے لئے تھا لیکن اس نوعیت کی تعجب خیز مخلوق کی تخلیق کی خاطر، آدم کے سامنے انجام دیا گیا ہے؛ بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں سجدہ، آدم کے لئے تھا لیکن عبادت کا سجدہ نہیں تھا جو خدا سے مخصوص ہے؛ بلکہ سجدہ خضوع یا تحیت اور احترام کے لئے سجدہ تھا ۔

کتاب ”عیوان الاخبار“ میں آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی کتاب سے منقول ہے: ”کانَ سُجودُہم لِلّہِ تعالیٰ عُبُدِیَّتاً وَ لِآدم اکراماً و طاعةً لِکونِناَ فی صُلبِہِ؛فرشتوں کا سجدہ خداوند عالم کے لئے عبادت کے عنوان سے تھا، آدم کے لئے احترام اور اکرام کے لئے اس لئے کہ ہم آدم کے صلب میں تھے ۔“(۱)

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ فرشتوں کا سجدہ دو پہلوؤں کا حامل تھا پروردگار کی عبادت کا پہلو اور آدم کے احترام کا پہلو۔

اسی تفسیر کے مشابہ جو ابھی اوپر بیان ہوئی ہے سورہٴ یوسف آیت ۱۰۰ میں بھی آیا ہے: ”وَ رَفَعَ اٴَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَ خَرّوُا لَہُ سُجَّداً؛اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا یا اور سب اس کی خاطر سجدے میں گر پڑے“۔

اسی آیت کے ذیل میں امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ(علیه السلام) نے ارشاد فرمایا:”اَمَّا سُجُودُ یَعْقُوبَ وَ وُلْدِہِ فَاِنَّہُ لَمْ تَکُنْ لِیُوسُفَ وَ اِنَّمَا کَانَ مِن یَعْقُوبَ وَ وُلْدِہِ طَاعَةً لِلّٰہِ وَ تَحِیَّةً لَیُوسفَ کَمَا کَانَ السُّجُودُ مِنَ الْمَلَائِکَةِ لَآدَمَ؛ یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ یوسف کی پرستش کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کا سجدہ، خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت کے عنوان سے اور یوسف کے احترام اور تحیت کے لئے تھا بالکل ویسے ہی جیسے ۔آدم کے لئے فرشتوں کا سجدہ اسی نوعیت کا تھا“۔

۱۔ نور الثقلین ، ج ۱، ص ۵۸․

۳۔ شیطان کی پیدائش کے سلسلہ میں طرح طرح کے سوالات

شیطان کی پیدائش، اس کے گذشتہ حالات، حکم خدا کی تعمیل سے سرپیچی اور پھر معین مدت تک اسے مہلت دینے کے بارے میں بہت سے سوالات ہوتے ہیں کہ ان سب کی شرح کرنے کے لئے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے؛ لیکن یہاں پر گذشتہ گفتگو کی مناسبت سے اس کا خلاصہ بیان کردینا لازم ہے ۔

سوال ۱: کیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر عظیم ترین گناہ کا مرتکب کیوں ہوا جبکہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور اگر جواب نہیں ہے یعنی فرشتوں میں سے نہیں تھا، تو پھر فرشتوں کے زمرے میں اس کا نام کیوں ذکر ہوا ہے؟

جواب : یقینا وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا، چونکہ قرآن صراحت سے بیان کرتا ہے:”کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رِبِّہِ؛ وہ جن تھا، پھر اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی “(۱)؛ لیکن چونکہ اس نے اطاعت اور بندگی کے مرحلہ میں پہلے بہت زیادہ کوشش کی تھی، فرشتوں کی صف میں قرار پایا اور اسی وجہ سے فرشتوں میں شمار ہوتا تھا لہٰذا اگر بعض جملوں میں جیسے خطبہٴ قاصعہ (خطبہ ۱۹۲) میں فرشتہ کے عنوان سے اس کا تذکرہ ہوا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے؛ اس کے علاوہ شیطان خود ہی صراحت سے کہتا ہے: ”خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَار؛تونے مجھے آگ سے پیدا کیا“(۲) اور یہ ہمیں معلوم ہے کہ قومِ جن کی خلقت آگ سے ہوئی ہے فرشتوں کی نہیں، جیسا کہ سورہٴ رحمٰن کی پند رہویں آیت میں آیا ہے: ”وَ خَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍِ مِنْ نَارٍ“اہلبیت علیہم السلام سے منقولہ روایات میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ (۳)اس کے علاوہ قرآن مجید میں شیطان کے لئے آل و اولاد کا تذکرہ ہوا ہے (۴) جب کہ ملائکہ کے یہاں آل و اولاد کا تصور نہیں ہے ۔

۱۔ سورہ کہف آیت ۵۰․

۲۔ سورہ ص، آیت ۷۶․

۳۔ مجمع البیان، ج ۱، ص ۸۲، سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۴ کے ذیل میں․

۴۔ سورہ کہف ، آیت ۵۰․

سوال ۔۲ : یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خداوند عالم انسانوں پر ابلیس کو اس قدر مسلط کردے کہ وہ اپنی دفاعی طاقت کھو بیٹھیں ؟! اس کے علاوہ کیا ضرورت تھی کہ اس طرح کی فریب کار اور گمراہ کن مخلوق پیدا کی جائے؟ یا پیدا کرنے کے بعد اس کو طولانی عمر اور مہلت دی جائے تاکہ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے اور اس کام میں کوئی کسر باقی نہ رکھے؟

جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ شیطان کو ایک پاک مخلوق کی صورت میں پیدا کیا گیا، مدت دراز تک اس نے اپنی قداست و پاکیزگی محفوظ رکھی یہاں تک کہ پروردگار عالم کی اطاعت کے نتیجہ میں، فرشتوں کی صف میں قرار پایا، لیکن آخر کار خود پسندی، تکبر ، غرور اور اپنی آزادی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے گمراہی کے راستے پر چلاگیا اور پستی کے آخری درجہ تک گرگیا ۔ دوسرے اس نکتہ پر توجہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ انسانوں میں شیطانی وسوسوں کا نفوذ ایک نا آگاہ اور اجباری نفوذ نہیں ہے؛ بلکہ انسان اپنی رغبت اور اختیار سے اس کے نافذ ہونے کا راستہ کھولتے اور اپنے نفس کے ملک میں اسے داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں اور اصطلاح میں اپنے اندر داخل ہونے کا پاسپورٹ خود شیطان کے اختیار میں دیتے ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید صراحت کے ساتھ کہتا ہے: ”إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ؛تو میرے بندوں پر مسلط نہیں ہوسکتا مگر ان گمراہوں پر جو تیری پیروی کریں“(۱) اور دوسری جگہ پر فرماتا ہے: ”إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ھُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ ؛اس کا قبضہ فقط ان لوگوں پر ہے جو اس کو اپنا سرپرست منتخب کرتے ہیں اور اُن لوگوں پر جو اس کے حکم کو فرمان الٰہی کے برابر سمجھتے ہیں“(۲) ۔

تیسرے یہ کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مذکورہ فوق جملوں میں ظریف اور لطیف صورت میں اس سوال کا جواب بیان کردیا ہے، فرماتے ہیں: ”خداوند عالم نے اُسے مہلت دی چونکہ وہ غضب الٰہی کا مستحق تھا اور پروردگار اپنے بندوں پر امتحاان کو مکمل کرنا چاہتا تھا اور جو وعدہ اسے دیا گیا تھا اسے پورا کرنا چاہتا تھا“۔

یعنی ایک طرف تو اسے مہلت دیگر خداوند عالم نے اس کی سزا کو سخت کیاچونکہ جیسا کہ قرآن کی آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو شخص گناہ اور گمراہی کے راستے پر قدم رکھتا ہے خداوندعالم بار بار اُسے خبردار اور متنبّہ کرتا ہے اگر یہ تنبیہ موٴثر واقع ہوئی اور واپس پلٹ آیا تو بہت اچھا ورنہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور کافی حدتک مہلت دیتا ہے تاکہ ان کے گناہوں کا بوجھ بھاری ہوجائے ۔(۳)

۱۔ سورہ حجر، آیت ۴۲․

۲۔ سورہ حجر، آیت ۱۰۰․

۳۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸،اور سوروں روم، آیت ۴۱․

دوسری طرف شیطان کا وجود انسانوں کے لئے بڑے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہے، دوسرے لفظوں میں مومن لوگوں کے کمال تک پہنچنے کا سبب ہے، اس لئے کہ آگاہ مومن اور ان لوگوں کے لئے جو راہ حق پر چلنا چاہتے ہیں، اس طاقتور دشمن کا وجود نہ یہ کہ مُضر نہیں ہے بلکہ ترقی کرنے اور کمال تک پہونچنے کا ذریعہ ہے؛ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ کمالات کے زینوں کاطے کرنا اور ترقیاں، عام طور پر متضاد چیزوں کے درمیان ہی حاصل ہوتی ہیں اور جس وقت انسان طاقتور دشمن کے مد مقابل قرار پاتا ہے، اپنی تمام توانائیاں، طاقت، صلاحتیوں اور نبوغ کو بروئے کار لاتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طاقتور دشمن کا وجود اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جنبش اور جوش و خروش کا سبب بنتا ہے، نتیجہ میں کمالات اور ترقیاں حاصل ہوجاتی ہے ۔

لیکن وہ لوگ جو گنہگار ہوتے ہیں جن کا دل بیمار اور سرکش ہوتا ہے، ان کی گمراہی اور بدبختیوں میں اضاہ ہوتا ہے اور یہ لوگ حقیقت میں اسی انجام کے مستحق ہوتے ہیں! ”لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِیَ الشَّیْطَانُ فِتْنَةٌ لِلَّذِیْنَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَ الْقَاسَیَةِ قُلُوبُہُمْ؛مقصد یہ تھا کہ پروردگار عالم شیطانی اِلقائات کو ان لوگوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ قرار دے جن کے دل بیمار اور جو سنگدل اور شقی ہیں“۔

”وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوا بِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوبُھُمْ؛ مقصد یہ بھی تھا کہ آگاہ حضرات جان لیں کہ یہ حق ہے آپ کے پروگار کی جانب سے اور نتیجہ میں اس پر ایمان لے آئیں اور ان کا دل اس کے سامنے خاضع ہوجائے“۔(۱)

سوال۔ ۳ : شیطان خود کو کیسے آدم سے افضل سمجھتا ہے اور خداوند عالم کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے؟!

جواب میں کہنا چاہیے کہ خود خواہی اورغرور وہ ضخیم پردہ ہے جو شخص کو حقیقت کے دیکھنے سے باز رکھتا ہے،جیسا کہ ابلیس کو باز رکھا، اس نے فقط عصیان، گناہ اور نافرمانی ہی نہیں کی بلکہ خداوند عالم کی حکمت پر اعتراض کیا کہ کیوں مجھ جیسی اشرف مخلوق کو جسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے، پست مخلوق کے سامنے جسے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، سجدہ کرنے کا حکم دیا !

وہ گمان کرتا تھا کہ آگ ، مٹی سے افضل ہے حالانکہ مٹی طرح طرح کی برکتوں کا سرچشمہ، تمام حیاتی چیزوں کا منبع، زندگی کی بقا کا اہم وسیلہ اور انواع و اقسام کے معدن اور جواہر کو اپنے دامن میں جگہ دینے والی چیز ہے جبکہ آگ اس قسم کی نہیں ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ آگ اور حرارت بھی زندگی کا ایک ذریعہ ہوتی ہے لیکن اصل کردار ان ہی چیزوں کا ہوتا ہے جو مٹی میں موجود ہیں جبکہ آگ ان چیزوں کے مکمل ہونے کا فقط ایک ذریعہ ہوتی ہے ۔

بعض رو ایتوں میں آیا ہے (۲) کہ ابلیس کا ایک جھوٹ یہ تھا کہ وہ آگ کو مٹی سے برتر سمجھتا تھا ، حالانکہ آگ عام طور پر درختوں یا چکنی چیزوں سے حاصل ہو تی ہے اور یہ ہمیں معلوم ہے کہ درخت مٹی سے ہوتے ہیں اور گھی چربی، جانور کی ہو یا پودوں سے حاصل ہوئی ہو، بہرحال ہر قسم کی چربی اور چکنائی (بالواسطہ)زمین سے ہی حاصل کی جاتی ہے ۔

۱۔ سورہ حج، آیت ۵۳ و ۵۴․

۲۔ تفسیر نورالثقلین، ج ۴، ص ۴۷۲، حدیث ۹۳، ملاحظہ فرمائیں․

اس کے علاوہ، آدم کا امتیاز فقط آگ پر خاک کی برتری کی وجہ سے ہی نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل امتیاز وہی عظیم روح تھی جسے خداوند عالم نے ”وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوْحِیْ“سے تعبیر کرکے انہیں عطا کیا تھا ۔ برفرض کہ شیطان کی خلقت کاپہلا مادّہ، آدم کے تخلیقی مادّے سے افضل ہو تب بھی یہ اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ کہ آدم کی الٰہی روح کے ساتھ تخلیق کے مقابل، پروردگار کی خلافت کے سامنے سجدہ اور خضوع نہ کرے اور شاید شیطان ان سب باتوں کو جانتا تھا لیکن تکبر، غرور اور خود پسندی نے اُسے حقیقت کا اعتراف کرنے کی اجازت نہیں دی ۔

۴۔ نادان لوگوں کی بے بنیاد توجیہیں

بعض فلسفی لوگ (جیسا کہ ابن میثم بحرانی (رحمة الله علیہ) اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں بیان کرتے ہیں) اُن تمام چیزوں کی تاویل اور توجیہہ کرتے ہوئے جو تخلیق آدم، ملائکہ کا سجدہ، ابلیس کی سرکشی اور نافرمانی کے قصّہ میں وارد ہوا ہے، ایسے مطالب پر محمول کردیتے ہیں جو آیات کے ظاہر سے استفادہ نہیں ہوتے ۔

منجملہ کہتے ہیں: ”اُن فرشتوں سے مراد، جو آدم کے لئے سجدہ کرنے پر مامور ہوئے تھے، جسمانی قوتیں ہیں جو نفس عاقلہ (روح انسانی) کے سامنے خضوع کرنے پر مامور ہیں! جبکہ ابلیس سے مراد وہمی قوت ہے اور ابلیس کا لشکر وہی طاقتیں ہیں جو وہم (اور خواہشات نفسانی) سے وجود میں آتی ہیں جو عقلی طاقتوں سے ٹکراتی ہیں نیز اس جنت سے مراد جس سے آدم کو نکالا گیا ہے معارف حقّہ اور خدا کی کبریائی کے مطالع انوار ہیں! اور اسی طرح کی دیگر غلط اور بے دلیل توجیہیں“۔(۱)

یہ تفسیر بالرائے کا واضح ترین نمونہ ہے جس سے بہت سی حدیثوں میں منع کیا گیا ہے اور خدا سے دوری نیز اعمال کے برباد ہونے کا سبب شمار کیا گیا ہے ۔

۱۔ نہج البلاغہ( ابن میثم کی شرح کے ساتھ)، ج۱، ص۱۹۰ کے بعد․

ہمیں معلوم ہے کہ تفسیر بالرائے، اپنی ذہنی اُپج اور پہلے سے کئے گئے فیصلوں کو آیات اور روایات پر محمول کرنا، ہمیشہ گمراہوں، نیا دین بنانے والوں اور جعلسازوں کے ہاتھوں میں سب سے اہم وسیلہ رہا ہے تاکہ قرآنی آیات اور اسلامی حدیثوں کو ان چیزوں پر تطبیق دیں جو وہ خود چاہتے ہیں، جسے خدا اور اولیائے الٰہی نے بیان نہیں کیا ہے) اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ اگر آیات اور روایات کے سلسلہ میں تفسیر بالرائے کا دروازہ کھول دیا جائے تو کوئی مسلّم اصل، قاعدہ، ثابت بنیاد، حکم اور قانون باقی نہیں رہے گا اور سب چیزیں ہر کس وناکس کے افکار اور ہوا وہوس کا شکار اور اُن کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں گی اور قرآن وسنّت ایک موم کے ٹکڑے کی طرح ہوجائیں گی کہ جسے اپنی خواہش اور رغبت سے کوئی شکل بھی دی جاسکتی ہے ۔

اسی وجہ سے عالم اسلام کے عظیم محققین کا اصرار ہے کہ قرآن اور سنّت کو سمجھنے کے لئے باب الفاظ کے مسلم قواعد و قانون استعمال کئے جائیں اور الفاظ اپنے حقیقی معنی پر محمول کئے جائیں؛ مگر یہ کہ ان کے مجازی معنی پر واضح قرینے موجود ہوں، وہ قرینے جو عرف عقلاء میں قابل قبول ہوں اور عرف وعقلاء اپنے استدلالوں میں ان قرینوں پر اعتماد کرتے ہوں“۔(۱)

بہرحال مولا علی علیہ السلام کے کلام کے اس حصّہ میں ابلیس کا قصّہ اور اس کے انجام کا تذکرہ، تمام انسانوں کے لئے عبرت آموز سبق ہے تاکہ تکبّر، غرور، خود خواہی اور تعصّب کے نتائج پر غور وفکر کریں اور ابلیس کے انجام کو جس کا خاتمہ ابدی لعنت کا طوق اور ہمیشگی شقاوت پر ہوا ہے، ملاحظہ کریں اور اس نہایت خطرناک راستہ پر ہرگز قدم نہ رکھیں ۔

ہم اس گفتگو کو شرح نہج البلاغہ میں بیان ہونے والے، عظیم الشان عالم مرحوم مغنیہ کے کلام پر ختم کرتے ہیں:

آپ کہتے ہیں کہ آدم(علیه السلام) اور ابلیس کے قصّہ سے درج ذیل عبرت آموز سبق لئے جاسکتے ہیں:

۱۔ جو شخص بھی کسی صاحب فضیلت سے حسد کرے یا کسی انسان سے ریاست یا کسی کام میں شریک ہونے کی غرض سے، دشمنی کرے، ایسا شخص ابلیس کے دین پر ہے اور قیامت میں اس کے اصحاب میں شمار ہوگا ۔

۲۔ دین کی معرفت اور اخلاق کریمہ کا فقط ایک ہی راستہ ہے ایک سے زیادہ نہیں اور وہ حق پر ثابت قدم اور اس کے سامنے تسلیم رہنا ہے، نتیجہ کچھ بھی ہو۔

۳۔ بہت سے لوگ باطل پر ڈٹے رہتے ہیں البتہ اس لئے نہیں کہ وہ باطل کو نہیں پہچانتے بلکہ اپنے مخالفوں سے بغض وعناد اور دشمنی کی وجہ سے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ غلط اصرار اُنھیں بدترین نتائج سے دوچار کرے گا ۔

اگر ابلیس توبہ کرلیتااور غلط راستے سے باز آجاتا، خداوندعالم یقیناً اس کی توبہ کو قبول کرلیتا، ابلیس کے اندر اس طرح کی استعداد، صلاحیت اور آمادگی تھی لیکن وہ معتقد تھا کہ اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ خداوندعالم اُسے دوبارہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دے، حالانکہ خداوندعالم نے اس کی توبہ کو قبول کرنے کی شرط یہی رکھی تھی ۔(۲)

۱۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب ”تفسیر بالرائے“ تالیف آیة الله مکارم شیرازی ، ملاحظہ فرمائیں ۔

۲۔ فی ضلال نہج البلاغہ، ج۱، ص۵۱․

 

تبصرے
Loading...