انسانیت کا معراج سید الاوصیاء کی سیرت میں

رسول کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ہمارے سامنے ہے وہ حضرت علی بن ابی طالب کی ہے۔

آپ کی دس سال کی عمر ہے جب پیغمبر مبعوث برسالت ہوتے ہیں اور علی بن ابی طالب ان کی رسالت کے گواہ ہوتے ہیں۔ یہ پہلے ہی سے رسول کی آغوشِ تربیت میں تھے اس اسی آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ہوئی۔ یوں کہنا چاہئے کہ اسلام نے آنکھ کھول کر انہیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پہلے رسول کی رسالت کو دیکھ رہے تھے۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ہے کہ:

کُنتْ اَتبِعہْ اِتَبّاعَ الفَصیل اثرَامُّہ اشّم رِیح النّبوة واری نورالرسالۃ

میں رسول کے پیچھے یوں رہتا تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رہتا ہے۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔

اب ظاہر ہے کہ ان کو رسول سے کتنا انس ہونا چاہئے۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ہونے کے اعتبار سے ہوناچاہئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رہنے کے ہونا چاہئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ہونا چاہئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ہونا چاہئے۔

ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ہے مگر عرب اور بنی ہاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ہندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاہئے اور پھر وہ بھی علی ایسا بچہ۔ پھر اس وقت تو دس ہی برس کی عمر ہے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ہیں، اور یہی انتہائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ہوا دور ہے۔ ہجرت کے وقت علی بن ابی طالب کی عمر ۲۳ برس ہوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ہے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ہوا مکمل شباب کی منزل تک پہنچتا ہے۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ہوتا ہے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رہی ہیں۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ہوتا ہے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ہے انسان ہر دشوار منزل کو سہل اور ہر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ہے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ہے۔ یہاں یہ دور اس عالم میں گزر رہا ہے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رہے ہیں۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ہے۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نہیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یہی سب طعن و تشنیع و شماتت ہر اس شخص کو جو رسول سے وابستہ ہے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ہے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول کے ہم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ہو سکتے ہیں لیکن علی بن ابی طالب کے ہم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ہیں وہ غیرمہذب اور غیرتعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ہر خفیف الحرکاتی پر ہر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ کون سمجھ سکتا ہے کہ وہ علی ب ابی طالب کی جو رسول سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پہنچاتے تھے۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ہر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔

اب ممکن ہے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب کو بالکل نہ سمجھتی ہو کہ وہ کیا ہیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالب کی وہ تصویر بھی موجود ہے جو ہجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ہر معرکہ میں نظر آتی ہے۔

جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جرأت و ہمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴۔۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ یقیناً علی جیسے ہجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے۔ ایسے ہی ہجرت کے وقت اور ہجرت کے دو چار سال پہلے بھی تھے۔ یہی بازو، یہی بازوؤں کی طاقت، یہی دل اور یہی دل کی ہمت، یہی جوش، یہی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رہا ہے۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ہستی نے وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے۔

اور کوئی غلط روایت بھی یہ نہیں بتاتی کہ کسی وقت علی نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ہو جس پر رسول کو کہنا پڑا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ہوا

ہو کہ یہ ایسا کرنے والے ہیں تو بلا کر روکا ہو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پہنچ جائے گا۔

کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نہیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انہوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انہیں جسمانی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالب سے کسی سے تصادم ہو گیا ہو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نہیں کی جا سکتی۔

یہ وہ غیرمعمولی کردار ہے جو عام افراد انسانی کے لحاظ سے یقیناً خارق عادت یہ کسی جذبات انسانی کا کردار نہیں ہو سکتا۔ یہ ۱۳ برس کی طولانی مدت اس عمر میں جو ولولوں کی عمر ہے حوصلوں کی عمر ہے۔ بھلا ممکن ہے اس سکون کے ساتھ گزاری جا سکے۔

اس کے بعد ہجرت ہوتی ہے۔ ہجرت کے وقت وہ فداکاری۔ پیغمبر کا فرمانا کہ آج رات کو میرے بستر پر لیٹو۔ میں مکہ سے روانہ ہو جاؤں گا۔ پوچھا حضور کی زندگی تو اس صورت میں محفوظ ہو جائے گا۔ فرمایا ہاں مجھ سے وعدہ ہوا ہے میری حفاظت ہو گی یہ سن کر حضرت علی بن ابی طالب نے سر سجدہ میں رکھ دیا کہا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے رسول کا فدیہ قرار دیا۔

چنانچہ رسول تشریف لے گئے اور آپ پیغمبر کے بستر پر آرام کرتے رہے اس کے بعد چند روز مکہ معظمہ میں مقیم رہے مکہ میں مشرکین کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں اور پیغمبر کی امانتیں ساتھ لیں یعنی محذراتِ کاشانہٴ رسالت جن میں فواطم یعنی فاطمہ بنت محمد۔ فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب تھیں ان کو لے کر روانہ ہوئے۔ خود مہارِ شتر ہاتھ میں لی۔ اور حفاظت کرتے ہوئے پا پیادہ مدینہ پہنچے یہاں آنے کے ایک سال بعد اب جہاد کی منزل آئی اور پہلی ہی جنگ یعنی بدر میں علی ایسے نظر آئے جیسے برسوں کے نبرآزما، معرکے سر کئے ہوئے اور کڑیاں میدان کی جھیلے ہوئے۔

ادھر کے سب سے بڑے سورما عتبہ شیبہ اور ولید دونوں کا حضرت علی بن ابی طالب کی تلوار سے خاتمہ ہوا۔ یہ کارنامہ خود جنگ کی فتح کا ضامن تھا۔ وہ تو صرف نفسیاتی طور پر عامہٴ مسلمین میں قوت دل پیدا کرنے کے لئے اس جہاد میں فرشتوں کی فوج بھی آ گئی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ گھبرانا نہیں وقت پڑے گا تو فرشتے آ جائیں گے۔ حالانکہ اس کے بعد پھر کسی غزوہ میں ان کا آنا ثابت نہیں۔ اس کے باوجود احد میں علی بن ابی طالب نے تن تنہا بگڑی ہوئی لڑائی کو بنا کر اور فتح حاصل کرکے دکھلا دیا کہ بدر میں بھی اگر فوج ملائکہ نہ آتی تو یہ دست و بازو اس جنگ کو بھی سر کر ہی لیتے۔ اس کے بعد خندق ہے خیبر ہے۔ حنین ہے یہاں تک کہ ان تمام کارناموں سے علی کا نام دشمنوں کے لئے مرادفِ موت بن گیا۔

خیبر و خندق۔ ذوالفقار اور علی میں دلالت التزامی کا رشتہ قائم ہو گیا کہ ایک کے تصور سے ممکن ہی نہیں دوسرے کا تصور نہ ہو۔ یہ وہی ۱۳ برس تک خاموش رہنے والے علی ہیں۔ ان دس برس کے اندر جن کا عالم یہ ہے مگر اسی دوران میں حدیبیہ کی منزل آتی ہے اور وہی ہاتھ جس میں جنگ کا علم ہوتا تھا یہاں اسی میں صلح کا قلم ہے جو صاحب سیف تھا وہی صاحب قلم نظر آتا ہے اور ان شرائط صلح کو جن فر فوج اسلام کے اکثر افراد میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور اسے کمزوری سمجھا جا رہا ہے بلا کسی بے چینی اور بغیر کسی تردد و تذبذب کے حضرت علی بن ابی طالب تحریر فرما رہے ہیں جس طرح میدان جنگ میں قدم میں تزلزل اور ہاتھ میں ارتعاش نظر نہیں آیا اسی طرح آج عہدنامہٴ صلح کی تحریر میں ان کے قلم میں کوئی تزلزل اور انگلیوں میں کوئی ارتعاش نہیں ہے۔ ان کا جہاد تو وہی ہے جس میں مرضیٴ پروردگار ہو۔ جس کی راہ میں تلوار چلتی تھی اسی کی راہ میں آج قلم چل رہا ہے اور صلح نامہ کی کتابت ہو رہی ہے۔

اسی زمانہ میں ایک ملک بھی فتح کرنے بھیجے گئے تھے اور وہ یمن ہے مگر وہ شمشیرزن اور صاحب ذوالفقار ہوتے ہوئے یہاں تلوار سے کام نہیں لیتے۔ انہوں نے اسلامی فتح کا مثالیہ پیش کر دیا۔ پورے یمن کو صرف زبانی تبلیغ سے ایک دن میں مسلمان بنا لیا۔ ایک قطرہٴ خون نہیں بہا۔ دکھا دیا کہ فتح ممالک اس طرح کرو۔ ملک پر قبضہ کے معنی یہ ہیں کہ اہل ملک کو اپنابنا لو۔ بس ملک تمہارا ہو گیا۔

بہرحال ان دو مثالوں کو چھوڑ کر حضرت علی بن ابی طالب کی زندگی کے اس دور میں بہت سے مواقع پر تلوار نمایاں نظر آئے گی اور لافتی الاعلی لا سیف الا ذوالفقار میں آپ کی شان مضمر معلوم ہو گی مگر اب پیغمبر خد اکی وفات ہو جاتی ہے اس وقت حضرت علی بن ابی طالب کی عمر ۳۳ برس کی ہے اسے اواخرِ شباب بلکہ بھرپور جوانی کا زمانہ سمجھنا چاہئے مگر اس کے بعد پچیس سال کی طولانی مدت حضرت علی بن ابی طالب یوں گزارتے ہیں کہ تلوار نیام میں ہے اور آپ کا مشغلہ عبادتِ الٰہی اور آزوقہ کی فراہمی کے لئے محنت و مزدوری کے سوا بظاہر اور کچھ نہیں۔

یہ ایسی وادیٴ پرخار ہے جس میں ذرا بھی کھل کر کچھ کہنا تحریر کو مناظرانہ آویزشوں کا آماجگاہ بنا دینا ہے۔ پھر بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات لازماً ہے کہ باوجودیکہ یہ مسلمانوں کی جنگ آزمائیوں کا زمانہ اور فتوحاتِ عظیمہ کا دور ہے جس میں اسلام قبول کرنے کے بعد گمنام ہو جانے والے افراد سیف اللہ اور فاتح ممالک اور غازی بن رہے ہیں پھر بھی جو تلوار ہر مقام پر عہد رسول میں کارنمایاں کرتی نظر آتی تھی وہ اس دور میں کلیتہً نیام کے اندر ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ وہ جوہر میدان کا مرد تھا اب گوشہ عافیت میں گھر کے اندر ہے۔ اگر اس کو بلایا نہیں جاتا تو کیوں؟ اور اگر بلایا جاتا ہے اور وہ نہیں آتا تو کیوں؟ دونوں باتیں تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے عجیب ہی ہیں ایسا بھی نہیں کہ وہ بالکل غیرمتعلق ہے۔ نہیں اگر کبھی کوئی مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ مشورہ دے دیتا ہے کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور اس کے حل کرنے کی خواہش کی جاتی ہے تو وہ حل کر دیتا ہے مگر ان لڑائیوں میں جو جہاد کے نام سے ہو رہی ہیں اسے شریک نہیں کیا جاتا۔ نہ وہ شریک ہوتا ہے۔ ۲۵ سال کی طولانی مدت گزری اور اب حضرت علی بن ابی طالب کی عمر ۵۸ سال کی ہو گئی یہ پیری کی عمر ہے جس طرح مکہ کی ۱۳ برس کی خاموشی کے درمیان بچپنا گیا تھا اور جوانی آئی تھی اسی طرح اس پچیس برس کی خاموشی کے دوران میں جوانی گئی اور بڑھاپا آیا۔ گویا ان کی عمر کا ہر دوراہہ صبر و تحمل اورضبط و سکون کے عالم میں آتا رہا۔ بھلا اب کسے تصور ہو سکتا ہے کہ جس کو جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا اور اس نے تلوار سے نیام نہ نکالی وہ اب کبھی تلوار کھینچے گا اور میدان جنگ میں حرب و ضرب کرتا نظر آئے گا۔ عالم اسباب کے عام تقاضوں کے لحاظ سے تو اس پچیس برس کے عرصہ میں ولولہ و امنگ کی چنگاریاں تک سینہ میں باقی نہیں رہیں۔ ہمت کے سوتے خشک ہو گئے اور اب دل میں ان کی نمی تک نہیں رہ گئی۔ اب نہ دل میں وہ جوش ہو سکتا ہے نہ بازوؤں میں وہ طاقت۔ نہ ہاتھوں میں وہ صفائی اور نہ تلوار میں وہ کاٹ مگر ۵۸ سال کی عمر میں وہ وقت آ گیا کہ مسلمانوں نے باصرار زمام خلافت آپ کے ہاتھ میں دے دی۔ آپ نے بہت انکار کیا مگر مسلمانوں نے تضرع و زاری کی حد کر دی اور حجت ہر طرح تمام ہو گئی۔ لیکن جب آپ سریز خلافت پر متمکن ہوئے اور اس ذمہ داری کو قبول کر چکے تو کئی جماعتوں نے بغاوت کر دی۔ آپ نے ہر ایک کو پہلے تو فہمائش کی کوشش کی اور جب حجت ہر طرح تمام ہو گئی تو دنیا نے دیکھا کہ وہی تلوار جو بدر و احد اور خندق و خیبر میں چمک چکی تھی اب جمل، صفین اور نہروان میں چمک رہی ہے۔ اور پھر یہ نہیں کہ فوجیں بھیج رہے ہوں اور خود گھر میں بیٹھیں بلکہ خود میدان جنگ میں موجود اور بنفس نفیس جہاد میں مصروف۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کوئی نوجوان طبیعت جو مقابل سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بے چین ہو۔ چونکہ حضرت کی ہیبت فوج دشمن کے ہر سپاہی کے دل پر تھی اس لئے صین میں جب آپ میدان میں نکل آتے تھے تو پھر مقابل جماعت کا پرا بند ہو جاتا تھا اور کوئی مقابلہ کو باہر نہ آتا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ نے یہ صورت اختیار فرمائی تھی کہ دوسرے اپنے ہمراہیوں کا لباس پہن کر تشریف لے جاتے تھے۔ چونکہ جنگ کا لباس خود و مغضر اور زرہ و بکتر وغیرہ پہننے کے بعد چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس لئے لباس بدلنے کے بعد پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ کون ہے اور آپ کبھی عباس بن ربیعہ اور کبھی فضل بن عباس اور کبھی کسی اور کا لباس پہن کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طرح بہت سے نذرِ تیغ ہو جاتے تھے۔

لیلة الہریر میں طے کر لیا کہ فتح کے بغیر جنگ نہ رکے گی۔ پورے دن لڑائی ہو چکی تھی سورج ڈوب گیا تب بھی لڑائی نہ رکی۔ پوری رات جنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ نقشہٴ جنگ بدل گیا اور صبح ہوتے ہوتے فوج شام سے قرآن نیزوں پر بلند ہوگئے جن سے التوائے جنگ کی درخواست مطلوب تھی اور یہ جنگ میں شکست کا کھلا ہوا اعلان تھا۔

یہ ۶۰ برس کی عمر میں جہاد ہے اور یہی وہ ہیں جو ۳۳ برس کی عمر سے ۵۷ برس تک کی مدت یوں گزار چکے ہیں جیسے کہ سینہ میں دل ہی نہیں اور دل میں ولولہ اور جنگ کا حوصلہ ہی نہیں۔

اب ایسے انسان کو کیا کہا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہیں یہ تو فرائض کے پابند ہیں جب فرض ہو گا خاموشی کا تو خاموش رہیں گے۔ چاہے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ہو۔

اس وقت کتنے ہی صبرآزما مشکلات پیش آتے رہیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نہیں۔

اور جب فرض محسوس ہو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاہے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ہوا کرتا ہے کچھ بھی تقاضا رکھتا ہو۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے۔ یہی وہ “معراج انسانیت” ہے، جہاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پہنچا نہیں کرتے۔

 

تبصرے
Loading...