ام المصائب اور صبر

تحریر: مولانا زین العابدین جونپوری،زین علوی

حوزہ نیوز ایجنسی | انسان کی خلقت کا مقصد مکارم اخلاق کی بلندیوں تک پہنچنا ہے خدا وند عالم نے انسان کو اخلاقی اقدار کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے اس عالم مادی میں مختلف طرح کے نمونۂ عمل پیش کئے ہیں تا کہ انسان ان کی اتباع کر کے اپنے مقصد حیات کو حاصل کر سکے ۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ” ولکم فی ر سول اللہ اسوة حسنة ”(سورۂ احزاب/٢١)

” ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فنتہوا”زندگانی پیغمبر اسلام  ﷺ تمہارے لئے اسوہ ٔ حسنہ ہے انکی اتباع کرو اورکبھی ارشاد ہوتا ہے جو رسول تم کو دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔

بعد از رسول اکرم ﷺیہ اہل بیت اطہاعلیہم السلامہیں جو نمونۂ عمل ہیں جن میں سے کوئی عبادت کے اس مرتبہ پر فائز ہے کہ اسکو سیدا لساجدین کہہ دیا گیا ،کوئی تقوی میں تقی ہے تو کوئی نقی ، تو کوئی رضائے الہی کا شاہکا ر ہے اور کوئی سخاوت کی اس بلند ی پر پہنچ گیا ہے کہ اس کو جواد کہا گیا … غرض کہ کو ئی صفت ایسی نہیں ہے جو اہل بیت اطہار علیہم السلام میں پائی نہ جاتی ہو۔

یہ تو معصومین علیہم السلام کا مرتبہ تھا، لیکن خاندان عصمت و طہارت میں غیر معصومین بھی اس بلندی پر ہیں کہ جہاں بشر کا طائر فکر بھی پر واز نہیں کر سکتا ہے ، جناب عباس وفا کے اس مرتبہ پر ہیں کہ وفا آپ پر ناز کرتی ہوئی نظر آتی ہے تو جناب زینب صبر و ایثار کا پیکر نظر آتی ہیں اور واقعاً ’’ثانی زہرا‘‘کا مصداقِ کل ہیں ۔

ہم اس تحریر میں جناب زینب کے صبر کے مختلف پہلوؤں پر اجمالی روشنی ڈالیں گے۔

متون دینی میں صبر کو تین عنوان سے پیش کیا گیا ہے :

١۔ مصیبت  میں صبر

٢۔ اطاعت  میں صبر

٣۔ معصیت میں صبر

عالم مادہ رنج و غم کا حسین امتزاج ہے، جس انسان میں جتنی بھی طاقت پائی جاتی ہے اسکی زندگی اسی حساب سے رنج و غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے : ”لقد خلقنا الانسان فی کبد”(سورۂ بلد/ ٤)

اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسکی زند گی میں مشکلات نہ ہوں کیو نکہ یہ دنیا ہے ہی رنج و غم کا مرکز ، لیکن اس کے مقابلہ میں خدا وند عالم نے انسان کو صبر عطا کیا ہے ،صبر وہ پارس ہے جو انسان کو سونے میں تبدل کردیتا ہے ، یہ صبر ہی ہے جو انسان کو مصیبتوں میں بھی ڈھارس بندھائے رکھتا ہے ۔ اس کے با و جود اگر جناب زینب سلام اللہ علیہانے کربلا کے میدان میں صبر کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش نہ کیا ہوتا تو یہ انسان مشکلات میں اپنے ہوش و حواس کھو دیتا اورہلاک ہوجاتا۔

صبر کیا ہے ؟

صبر ایک ایسی صفت کا نام ہے جسکے ذریعہ انسان مصیبت کے وقت اپنا ذہنی توازن بر قرار رکھتاہے اور موقع کی نزاکت کے حساب سے عکس العمل انجام دیتاہے ۔

اگر ہم اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو ہم کو د وطرح کے انسان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ، جو خوشی اور مسرت میں پاگل ہو جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ، جو رنج و غم میں ڈپریشن کے شکار ہو جاتے ہیں ، یہ صبر ہی کی طاقت ہے کہ دونوں حالات میں انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔اور جناب زینب نے اس طاقت کا بخوبی استعمال کیا ہے ، اس کے اثبات کے لئے ہم تا ریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

کربلا ،زینبؑ کی نظر سے 

جناب زینبؑ نے کربلا کو دو نگاہ سے دیکھا ہے ایک وہ کربلا جو خاک و خون میں لت پت اعزاء و اقارب کی لاشوں سے پٹی ہوئی اور مصیبت و آلام سے بھری ہوئی ’’اتدرون ای کبد لمحمد فریتم و ای دم لہ سفکتم ، و ای۔۔۔۔‘‘( الآمالی شیخ صدوق   ص٣٢٣)

کیا تم کو خبر ہے تم نے کس جگر گوشہ رسول کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیاہے اور کس کا خو ن بہایا ہے ؟

مصیبت اتنی بڑی ہے کہ زمین و آسمان جو کہ اپنے و جود کو ان کے وجود کا صدقہ’’لو لاک لما خلقت الفلاک‘‘ جانتے ہیں عجب نہیں کہ درہم برہم ہو جائیں ۔

کیونکہ لولاک کا مصداق خود اپنی زبان سے کہہ رہا ہے کہ ’’حسین منی و انا من الحسین‘‘ یعنی حسین کا وجود پیغمبر کا وجود ہے اور اگر پیغمبر کا وجود نہ رہ جائے تو زمین و آسمان کے وجود کا سبب ختم ہو جاتاہے۔

یہ وہ وقت مصیبت ہے جب جناب زینب ؑکے دل میں جذبات کا طوفان امڈ رہا ہے آپ کا دل بے قرار ہے اور عبد اللہ ملعون سے آپکا یہ کلام اس بات کا ثبوت ہے ’’لقد قتلت کھلی و قطعت فرعی و اجتثثت اصلی فان یشفک ہذا فقد اشتفیت یابن مرجان‘‘(منہاج الدموع،ص٣٧٠)

تو نے میرے بزرگوں کو قتل کیا ہے، میری شاخ کو منقطع کردیا اور جڑکو اکھاڑ دیا ہے ۔اگر یہ تجھ کو سکون دے سکتے ہیں تو سکون لے لے اے ابن مرجانہ۔

ایسے موقع پرجناب زینبؑ کو صبر کی ضرورت ہے ، آپ صبر کرتی ہیں اور علم ومعرفت میں ڈوبی گفتگو کرتی ہیں اور بہترین سکوت ، بہترین گریہ اور بہترین مرثیہ پڑھا۔

لیکن جناب زینبؑ کے دلِ بے قرار کو قرار کیسے آئے ؟ کس طرح زینبؑ اپنے دل کو عقل و خرد کا تابع کریں ؟ کس طرح صبر کریں ؟ 

ایسا کیوں ہے کہ ہمارے دل اور آنکھیں چھوٹی سی مصیبت پر بے قابو ہوکر آنسوؤں کا سیلاب بہا دیتے ہیں لیکن جناب زینب ؑ نے اس عظیم موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور زمانہ کو یہ درس دیا کہ وقت کیسا بھی کیو ں نہ ہو، صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے’’من عشق شیئا ً اعشی بصرہ و اعمیٰ قلبہ فھو ینظر بعین غیر صحیحہ و یسمع باذن غیر سمیعہ قد خرقت الشہوات و عقلہ …..‘‘(نہج البلاغہ ، خطبہ ١٠٩)

اس صبر کا راز کیا ہے ؟

جناب زینبؑ کی دوسری نگاہ میں کربلا ایک دوسرا مخاطب رکھتی ہے ، شہزادی کونین  کی لخت جگر جب عمر سعد سے مخاطب ہوتی ہے تو اس غم کو اس کی عقل سے بالا تر سمجھتی ہیں اور جب گریہ کرتی ہیں تو ایسا گریہ ہو تا ہے کہ گھوڑے بھی تاب نہ لا سکیں’’حتی رأ ینا دموع الخیل ینحدر علی حوافرھا‘‘(مقتل خوارزمی ، ج٢،ص٣٩)

لیکن جب خدا کے خضور میں آتی ہیں ، جب صرف وہ ہیں اور خدا اور جگر گوشۂ رسول کا خاک و خون میں غلطاں لاشہ ہے تو آپکا پورا وجود محبت اور معرفت الہی میں غرق ہو جاتاہے اور آپ آواز دیتی ہیں ’’ربنا تقبل منا ھذا القربان‘‘(پیشوای شہیدان ،ص٢٢٥)

سوال یہ ہے کہ یہ عظیم جملہ جناب زینبؑ کی زبان سے ایسے نا مساعد حالات میں کیسے جاری ہوا ؟اس کی وجہ کیا تھی؟

وجہ صرف یہ تھی کہ زینب کوئی عام خاتون کا نام نہیں ہے، زینب ہمشیرہ ٔ امام حسین اور دختر امام علی و فاطمہ زہراعلیہم السلام ہیں جس نے بارہا اپنے شفیق والد کی زبان سے یہ جملہ سنا تھا ’’عظم الخالق فی انفسھم فصغر ما دونہ فی اعینھم ‘‘(نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،خطبہ ١٨٥)

اور جب زینب کی نگاہ میں خدا سب سے بڑا ہو گیا تو سب کچھ چھوٹا نظر آنے لگا اب کوئی غم کوئی مصیبت معنی نہیں رکھتی ہے اور یہی وہ موقع تھا جب زینب کے دلِ بے قرار کو قرار آ گیا۔

صبر بر معصیت :اس بارے میں کچھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زینب اس شخصیت کا نام ہےجو صاحب ولایت ہے اور ایسی شخصیت کے لئے صبر بر معصیت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے ’’لا ینال عہد ی الظالمین ‘‘(بقرہ آیت ١٣٤)

صبر بر طاعت: اس کے لئے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مصیبت عظمی جس نے کمر کو خمیدہ کر دیا ، بالوں کو سفید کر دیا ، جس نے کربلاسے کوفہ ، کوفہ سے شام تک کا سفر کیا ، کبھی لعینوں کے تازیانے کھائے تو کبھی سکینہ کا بابا کے لئے بلکنا دیکھا، لیکن ان سب کے باوجود جب زندان شام آئیں تو عبادت الہی میں مشغول ہو گئیں ۔امام سجاد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہی ہیں ۔آپ  نے پوچھا :

پھوپھی اماں آپ بیٹھ کر کیوں نماز پڑھ رہی ہیں ؟

آپ نے جواب دیا : بھوک اور پیاس کی شدت نے پیروں کی جان نکال لی ہے۔ (الخصائص الزینبیہ،ص١٣٠)

ہمارا قلم عاجز ہے کہ جناب زینب کی مصیبت اور ان کے صبر کی توصیف بیان کر سکے آخر میں محقق اصفہانی کے اس شعر سے کلام کو ختم کرتاہوں۔

ملیکة الدنیا عقیلة النساء عدیلة الخامس من اھل الکسائ

شریکة الشھید فی مصائبہ کفیلة السجاد فی نوئبہ

بل ھی ناموس رواق العظمہ سیدة العقایل المعظمہ

الانوار القدسیہ ،ص١١٧۔١١٨

والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...