امریکی تھنک ٹینک: کورونا نے انسان کی بےبسی اور خدا کی ضرورت کو آشکار کردیا!

امریکی تھنک ٹینک “ڈیلی سگنل” نے کورونا وائرس کے آگے انسان کی بےبسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ـ مغربی انسان کے سینکڑوں برسوں سے خدا اور معنویت سے انکار کے باوجود اعتراف کیا ہے کہ “خدا کے ارادے کے آگے ہماری بےبسی اس وقت سب پر عیاں ہوچکی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ انسان اللہ کا محتاج ہے”۔

اہل بیت(ع) ایجنسی ـ ابنا ـ  ہیریٹیج فاؤنڈیشن (The Heritage Foundation) سے وابستہ امریکی تھنک ٹینک ڈیلی سگنل (The Daily Signal) نے آرمسٹرانگ ویلیمز (Armstrong Williams) کے قلم سے، موجودہ بحران کو مختلف زاويئے سے دیکھا ہے اور کورونا سے حاصل ہونے والے ایک خاص نتیجے کا جائزہ لیا ہے:

برطانوی ناول نگار چارلس ڈکنز (Charles Dickens) کی ناول “دو شہروں کی کہانی” (A Tale of Two Cities) کے یہ زندہ جاوید الفاظ کہ “یہ بہترین زمانہ اور بدترین دن تھے” (It was the best of times. It was the worst of times) کسی وقت بھی آج کی طرح ـ جبکہ پوری دنیا کو کورونا کے بحران کا سامنا ہے ـ حقیقت کا لباس نہیں پہن سکے تھے۔ ہر روز خوف و امید کی ملی جلی کیفیت ہمیں یاددہانی کروا رہی ہے کہ ہم کس قد عاجز اور بےبس ہیں اور یہ کہ ہمیں “قادر مطلق” پر ایمان لانا چاہئے۔

اس عالمگیر مصیبت نے پوری دنیا کو گھیر لیا ہے اور ہمیں مجبور کیا ہے کہ جسمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے دور ہوجائیں؛ یہ وہ چیز ہے جس کا ہم آج سے چند ماہ قبل تک تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ زندگی کی چند ماہ قبل والی زندگی کا ڈھنگ ہمارے لئے جانا پہچانا تھا جس نے اپنی جگہ زندگی کی ایک نئی روش کو دے دی ہے۔ خود کو قرنطینہ میں رکھنا (Self-quarantine) اور سماجی طور پر آپس میں فاصلہ رکھنا (Social distancing) اس دور کی خصوصیات ہیں۔ جی ہاں! طبی ماہرین ہسپتالوں میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر کورونا میں مبتلا مریضوں کے آمنے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ وہ مریضوں کو شفا دینا چاہتے ہیں اور اس جان لیوا مرض کا سامنا کرنے کے لئے انسانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

اکثر و بیشتر ، ہم اپنی توجہ اپنے اوپر مرکوز کرتے ہیں اور یہ کہ ہم عالمی واقعات کو اپنی خودساختہ حب الوطنی اور خود ساختہ امریکی استثنائیت کی روشنی میں دیکھتے ہیں [اور ہماری نگاہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے]؛ لیکن پوری دنیا میں بنی نوع انسان ان قوتوں کے سامنے ـ جو اس کے قابو سے باہر ہیں ـ مغلوب اور خوار ہوچکا ہے۔ کوئی فرق نہيں پڑتا کہ آپ پر خدا پر یقین رکھتے ہیں یا پھر سائنس کو خداپرستی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس بیماری کے نتائج ہم سب کے لئے ایک جیسے ہیں۔

یہاں تک کہ فراوانیوں کی سرزمین امریکہ میں، طبی نگہداشت کے جدید ترین وسائل کی دستیابی کے باوجود، ۔ اس بیماری کی لہروں سے اپنی جان بچانے کے لئے دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں۔ آپ خود تصور تو کریں کہ جن علاقوں میں غربت و افلاس کی وجہ سے درکار وسائل دستیاب نہیں ہیں، وہاں صورت حال کتنی نازک ہے اور یہ صورت حال مزید خرابی کی طرف جارہی ہے۔ اموات کی تعداد میں شدید اضافہ ہوگا اور کورونا وائرس [معاشرے پر] مزید گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ حالت یہ ہے کہ میرے پڑوس میں یہاں سے چند ہی میل کے فاصلے پر میرے دوست اور رشتہ داروں کو کووِڈ-19 میں مبتلا ہونے کے باعث سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔ جب آپ کسی کو پہچانتے ہیں کہ بستر مرگ پر پڑا ہے، یہ مصیبت مزید حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے اثرات ذاتی پہلو بھی اختیار کرلیتے ہیں۔

اس بیماری کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے جسمانی لحاظ سے ان لوگوں سے دوری اختیار کرنا پڑتی ہے جنہیں کسی بھی گھڑی سے زیادہ اسی وقت ہماری معیت کی ضرورت ہے؛ اور اس سے اس المناک وائرس کی سنگ دلی اور ظلم کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس کے لوگوں کو براہ راست دوبدو رابطوں اور محبت کی اشد ضرورت ہے، لیکن اس کے بجائے ہمیں ان سے علیحدگی اختیار کرنا پڑ رہی ہے اور محبت بھرے معانقوں کے بجائے ویڈیو چیٹ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔  اس وائرس کے بے قابو ہونے سے قبل کے دنوں میں، ہم خود کو اپنی [ذات کی] اہمیت کی جھوٹی داستانوں کے ذریعے دھوکہ دینا پسند کرتے تھے لیکن اللہ کے ارادے کے آگے ہماری بےبسی اب سب سے عیاں ہوچکی ہے۔

بدقسمتی سے جن لوگوں کا غم و ہمّ “کورونا” ہوچکا ہے اور پورا وقت ٹیلی ویژن پر اموات کے اعداد و شمار اور دہشت کے لامتناہی سلسلوں کو دیکھ رہے ہیں اور پورا دن سوشل میڈیا پر اس قتل عام کا تماشا دیکھ رہے ہیں؛ وہ درحقیقت اپنے آپ کو مزید خوف و ہراس میں مبتلا کرکے اپنے آپ کو مزید بیماری میں مبتلا کررہے ہیں۔ یہ لوگ کورونا کے آگے ہتھیار پھینک چکے ہیں اور کورونا میں مبتلا ہونے اور مرنے کے منتظر ہیں۔ یہ وائرس حتی اس کا نام رکھنے سے بھی پہلے ہمارے درمیان موجود تھا اور اس کے بعد بھی ہمارے درمیان رہے گا حتی اس وقت بھی جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہونگے۔ میرا بھائی کورونا میں مبتلا ہوا لیکن اس نے اپنا ایمان ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور بیماری سے مکمل طور پر صحتیاب ہوا۔ کئی دوسرے لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ بیماری کی ہمہ گیری کا خوف وائرس ہی جتنا تباہ کن ہے۔

بیماری کی ان گھڑیوں میں ہمیں تفکر اور غور و تامل کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ہمیں اپنا وقت اور اپنی توانائی کہاں اور کیسے صرف کرنا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہماری خوداعتمادی متزلزل ہوجائے گی، لیکن یہی صورت حال ہمیں یاددہانی کرواتی ہے کہ “ہم انسان سب بلا ارادہ مخلوقات ہیں اور قدرت کی قوتوں اور خدائے قادر کے آگے عاجز اور بےبس ہیں۔ ہم جس قدر سوچتے ہیں اُس قدر امور و معاملات پر مسلط نہیں ہیں۔ ہم اپنی طاقت سے کہیں زیادہ بڑی طاقتوں کے مرہون منت ہیں اور ہم برتر قوت کے سامنے “ہیچ” ہیں۔ کورونا وائرس نے بہت واضح طریقے سے ہمیں بتا دیا از کہ انسانوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور کہ انسان ـ بحیثیت انسان ـ خدا کا محتاج ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
/110


تبصرے
Loading...