امربالمعروف ونہی ازمنکر :ایک فراموش شدہ فریضہ

*▪️قیام امام حسین کااہم مقصد امر بالمعروف ونہی از منکر▪️*

*امر بالمعروف ونہی از منکر:ایک فراموش شدہ فریضہ*

*استاد محسن قرائتی*
*اہمیت :*
امر بالمعروف انسان کے اپنے مکتب سے عشق کی علامت ہے۔
امر بالمعروف لوگوں سے انسان کے عشق کی پہچان ہے۔
امر بالمعروف معاشرے کی سلامتی سے متعلق انسان کی ہمدردی، وفاداری اور دلچسپی کی نشانی ہے ۔
یٔامر بالمعروف، تولّیٰ و تبرّیٰ کی علامت ہے۔
امر بالمعروف سماج میں آزادی کی نشانی ہے۔
امر بالمعروف لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کی علامت ہے۔
امر بالمعروف بیدار فطرت کی علامت ہے۔
امر بالمعروف معاشرے میں نیک انسانوں کی حوصلہ افزائی ہے۔
ٔ امر بالمعروف جاہل انسانوں کو آگاہ و متوجہ کرنا ہے۔
امر بالمعروف میدان عمل میں حاضری کی نشانی ہے۔
*امر بالمعروف کی برکات:*
*معنوی برکتیں :*
۱۔ امر بالمعروف غضب الٰہی سے محفوظ رکھتا ہے.
امیر المومنین ؑفرماتے ہیں : جو شخص کسی برے کام کو دیکھ کر اس سے قلباً بیزا ر ہوا اس نے بلاشبہ خدا کے غضب سے نجات پائی ہے اور جو کوئی برے کاموں کو زبان سے منع کرے اس نے صلہ پایا ۔
۲۔ امر بالمعروف الطاف الٰہی کا فائدہ دیتا ہے ۔ معصوم کا فرمان ہے : جو شخص کلمۃ اللہ کی عزت کے لیے شمشیر، قوت اور طاقت کے ساتھ اٹھے وہ الطاف الٰہی کی حقیقت کو پہنچا ہوا ہے۔
۳۔ امر بالمعروف بہترین انسان کی نشانی ہے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا : بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نیک کاموں کی طرف دعوت دیں ۔
۴۔ امر بالمعروف خود انسان پر بھی اثر کرتا ہے ۔ حضرت علی ؑنے اپنے بیٹے سے فرمایا: امر بالمعروف کرو تاکہ تمہارا شمار اہل معروف میں ہو۔
۵۔ امر بالمعروف سے دوسروں کے نیک کاموں میں بھی حصہ دار بن جاتا ہے ۔ روایت میں آیا ہے : جو شخص دوسروں کو بدکرداری و گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے ، وہ اس بدکرداری و گمراہی کے گناہ میں شریک ہوتا ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف کرنے والا ان تمام نیک کاموں کے ثواب میں شریک ہوتا ہے جو اس کی دعوت پر لوگ انجام دیتے ہیں۔
*اقتصادی برکتیں:*
امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں : امر بالمعروف اور نہی از منکر سے کسب و کار حلال اور زمینیں آباد ہوتی ہیں۔
*معاشرتی برکتیں:*
امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں : جو شخص ان دو چیزوں (امر بالمعرف اور نہی از منکر ) کی مدد کرے ، خداوند عالم اسے عزت بخشے گا اور جو انہیں ذلیل کرے خدا اسے ذلیل کرے گا ۔
*سیاسی برکتیں:*
روایت میں مذکور ہے : اگر امر بالمعروف و نہی از منکر انجام نہ دیا جائے تو رفتہ رفتہ شرپسند عناصر تم پر مسلط ہوجائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ تمہارے نیک افراد جتنی بھی فریاد بلند کریں گے وہ جواب نہیں سن پائیں گے۔
*مردہ معاشرہ:*
البتہ ایک انسان کا زندہ یا مردہ ہونا سبوں کے لئے واضح ہے ، لیکن ایک معاشرے کی موت و حیا ت کو سمجھنے کے لئے عالی ادراک اور اجتماعی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں ہر شخص جو چاہے غلط کام انجام دے اور کوئی اس کا اعتراض نہ کرے ، وہ معاشرہ مردہ ہے۔حدیث میں آیا ہے : نیک اور برے کاموں کے مقابل لا پروا شخص ایسا مردہ ہے جو زندہ لوگوں کے درمیان سانس لیتا ہے۔
*گناہ کے مقابل خاموشی:*
گناہ کے مقابل خاموشی ، کمزوری، خوف اور ناامیدی نیز دین، معاشرہ اور اصلاحات کے سلسلے میں غیر ذمہ داری کی علامت ہے۔ پیغمبر اسلام ؐ کے ارشاد کے مطابق گناہ کے مقابل چپ رہنا ایک قسم کی بدعت ہے۔
*سکوت ، فساد کا باعث:*
سورہ بقرہ آیت ۲۵۱ میں بیان ہوا ہے: اگر کچھ لوگ دوسرے لوگوں کو فساد اور برائیوں سے نہ روکیں تو پوری زمین پرفتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
*خاموش انسان پر خدا کی لعنت:*
حضرت علی ؑ نے فرمایا : خدا نے گذشتہ امتوں پر اسی وجہ سے لعنت بھیجی کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی از منکر کو ترک کردیا تھا۔
*خاموشی بدکاروں کی حکومت کا مقدمہ:*
متعدد روایات میں آیا ہے : اگر تم لوگ امر بالمعروف اور نہی از منکر کو ترک کردو گے تو برے لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تمہاری آہ و فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔
*علماء کی خاموشی:*
اگر:
ـــــــعلماء کی خاموشی لوگوں کی بدگمانی کا سبب ہو۔
ـــــعلماء کی خاموشی ظالم کی گستاخی کا سبب ہو۔
ـــــعلماء کی خاموشی ظالم کی تائید کی موجب ہو۔
ـــــعلماء کی خاموشی کسی معروف کے منکر اور منکر کے معروف ہونے کا سبب ہو۔
ـــــعلماء کی خاموشی مسلمانوں کے عقائد میں سستی کا سبب ہو۔
ـــــعلماء کی خاموشی فکری گمراہی اور بدعت کو وسعت بخشنے کا سبب ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو خاموشی حرام ہے اسے توڑ دینا چاہئے، چاہے انسان کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔

تبصرے
Loading...