امت کا علاج قرآن پاک

مسلمانوں کی تنزلی زوال کی بنیادی وجوہات میں جہاں ایک طرف باہمی فسق و فجور نفاق استعماری حکومتوں کی غلامی کرپشن لوٹ مار اقربا پروری ایسے بے ضمیر عناصر شامل ہیں تو وہیں ہماری تباہی و بربادی ناکامی اداسی اور نراسیت جہالت پے درپے شکستوں اور احساس محرومی کی زمہ داری حکمرانوں سے لیکر عام جنتا تک اور بیوروکریسی سے لیکر پالیسی میکرز پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سارے فطرت یذداں کی قرآنی تعلیمات اسوہ حسنہ اور دین اسلام کو فراموش کرچکے ہیں۔

نوجوانوں کی اکثریت روشن خیالی کی اسیر ہوچکی ہے۔یوں ایک جانب ہمیں سماجی تہذیبی معاشرتی اور مالیاتی مصائب و الام نے گھیر رکھا ہے تو دوسری طرف ہمارا روحانی سکون غارت ہوچکا ہے۔دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اصحاب کہف مسائل کی گھمبیرتا کی سلجھن کے لئے یہود و ہنود کو رول ماڈل مان کر انکی پالیسیوں کی پیروری کرتے ہیں مغرب کے آئین و قانون کا دم بھرا جاتا ہے تاہم ہم جس عظیم المرتبت کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں اور روئے ارض کی عظیم و انیق ہستی جسے رب العالمین نے اپنے محبوب کا درجہ نواز رکھا ہے جسے ایک لاکھ24 ہزار نبیوں کے سردار کا درجہ حاصل ہے جسکا نام سنتے ہی ہماری آنکھوں میں ساون کا مینہ شروع ہوجاتا ہے جس پر امت مسلمہ روزانہ کروڑوں درود و سلام بھیجتی ہے وہی امت خدائے لم یزل اور خاتم المرسلین کی بصیرت افروز تعلیمات کی طرف رجوع نہیں کرتے۔اس پر مستزاد یہ کہ اسلامی تاریخ سے شناسائی کے لئے نہ تو ہمیں گائیڈ لائن دی جاتی ہے اور نہ ہی ہماری اکثریت اسلامی ہسٹری کی ورق گردانی کی گرویدہ بن سکی ہے۔ہمارے حکمران جو مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں اسی کا دم بھرتے ہیں ۔

یورپی پالیسیوں کو قابل تقلید سمجھتے ہیں تو ایسے حکومتی مہاراجوں کو راہ راست پر لانے کی زمہ داری فرشتوں کی بجائے عوام پر عائد ہوتی ہے۔سورتہ اسرائیل کی آیت نمبر16 اور17 میں رب خداوندی کا ارشاد ہے۔ جب گمراہی حد سے بڑھ جائے اور کسی بستی پر واجب ہوجائے کہ برباد کردی جائے تو ہم وہاں اصلاح اور صراط مستقیم دکھانے کے لئے پیغمبر بھیجتے ہیں مگر الٹا جب گمراہ لوگ پیغمبر کی تکذیب کرتے ہیں تو پھر وہ بستی جڑ سے اکھاڑ دی جاتی ہے۔ کتنی قومیں ہیں جنہیں ہلاک کیا گیا۔ اللہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہے، جب کوئی بستی بدکاری کا گڑھ بن جائے تو فوری طور پر اسکی اینٹ سے ایبنٹ نہیں بجائی جاتی۔ پیغمروں کو اصلاح اور اللہ کے بندوں پر اللہ جل شان کے پیغام کا سربستہ راز منکشف کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے رسول بندوں کو احکام الہی کا تابع فرمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں حکمران طبقوں کی اصلاح سب سے پہلے کی جاتی ہے تاکہ پوری بستی کی اصلاح ہوجائے مگر وہ نہ صرف اللہ کے پیغامات کا مقابلہ کرنے لگتے ہیں بلکہ وہ اپنی کج فہمی سے رب العالمین کے پیغمبروں کا تمسخر اڑاتے ہیں تب عذاب کی بجلی کوندنے لگتی ہے جو پل بھر میں نرمن حیات کو جلا کر راکھ بنادیتی ہے۔ہر قوم جو خدائی کا قہر برسا کو پیغمبروں کے توسط سے احکامات الہیہ کی روشنی میں حکم خداوندی کی طرف راغب ہونے کی ترغیب دی گئی۔ حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی زات بابرکات کا سلسلہ ختم ہوچکا ۔اب چونکہ تاقیامت اصلاح کی خاطر کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یوں اب قرآن فرقان اور اسوہ حسنہ ہی واحد رشد و ہدایت کا زریعہ ہیں۔اگر کوئی حاکم تشریحات خدا اور قوانین قران کی حکم عدولی کرے اسلامی حدود و قیود سے باہر نکلنے کی حماقت کرے تو تب رعایا پر اسکی اطاعت واجب نہئیں رہتی۔عوام کا فرض ہے کہ وہ احکامات خدا کی تقدیس پر انگلی اٹھانے والے ارباب اختیار کو راہ مستقیم کا راہ دکھائیں۔اگر دور حاظر کے مسلم حکمران اور عوام دونوں نیند کی مدہوشی میں غرق رہے تو یہود و ہنود ہمیں کچا چباجائیں گے۔مسلم حکمرانوں ایک طرف امت کے روشن مستقبل کی خاطر قرآنی تعلیمات سے مستفید ہوں تو دوسری طرف وہ اسلامی تاریخ کے صحراؤں میں غور و فکر کی گھڑ دوڑ میں حصہ لیں تاکہ انکے من کی تاریکی خدائی تعلیمات کے نور سے روشن ہوجائے۔ اسلام کی دیدہ زیب تاریخ ساز ہسٹری کی ایک جھلک پیش ہے۔

حضرت جعفر بن طیار حضرت  کے چچا زاد بھائی اور حضرت علی شیر خدا کے بھائی تھے۔ مہمان نوازی اور زی احتیاج و تنگدست لوگوں کی مدد کرنا انکے پسندیدہ امور تھے انہیں جب پتہ چلتا کہ شہر میں فلاں شخص کے گھر مفلوک الحالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو وہ فوری طور پر سامان لیکر وہاں پہنچ جاتے ہجرت حبشہ کے موقع پر کفار نے نجاشی کو ورغلانے اور بھڑکانے کی سازش تیار کی تھی تب یہ حضرت جعفر طیار تھے جنہوں نے اسلام کی روشنی میں امت مسلم امہ کے عقیدے اور نظرئیے کی تشریح کی تھی۔آپ عظیم مجاہد تھے غزوہ موتہ میں شہادت پائی۔ حضرت محمد  نے آپکے بچوں حضرت عبداللہ بن جعفر عون بن جعفر اور محمد بن جعفر کو بلایا پیار کیا اور انکے لئے خصوصی دعا کی۔یہ آپ ﷺ کی دعا اور بچوں سے دلی لگاؤ کا اثر تھا کہ جب و جوان تھے انکی ساری عادتیں جعفر بن طیار سے مشابہہ تھیں۔

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک تاجر عبداللہ بن طیار کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ اجنبی ہے دربار خلافت میں رسائی نہیں رکھتا اسی لئے میری سفارش کی جائے آپ نے تفصیلی طور پر تاجر کے مسئلے پر غور کیا کہ کیا اس سفارش سے کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں ہوگی۔یقین آنے پر تاجر کو دربار بھجوادیا۔تاجر کی الجھن سلجھن میں بدل گئی۔تاجر آپکا شکریہ ادا کرنے آیا تو نذرانے کی مد میں عبداللہ بن ج طیارچالیس ہزار درہم دینے کی کوشش کی آپ نے فوری طور پر منہ دوسری طرف موڑ لیا اور وہ الفاظ کہے جو تاریخ اسلام کے ماتھے پر کندن ہوگئے۔عبداللہ بن جعفر نے فرمایا ہم ال ہاشم اپنی نیکی فروخت نہیں کرتے۔کیا پاکستان میں ایسا کوئی کردار ہے جو عبداللہ بن جعفر کی طرح سفارش کرکے عیدی لینے سے انکار کردے؟ مسلمانوں اور انکے شاہی مہاراجوں بادشاہوں اور حکمرانوں کا اسلامی فرض ہے کہ وہ مغربی تہذیب و ثقافت اور وائٹ ہاوس سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے قران پاک میں خدائی ہدایات کی روشنی میں امور سلطنت کے لئے قرآن پاک سے رجوع کریں ۔کیا اسلامی مملکت پاکستان میں اسلامی نظام بندوبست لازم نہیں؟ کیا یہاں قرآن پاک کو بطور آئین پاکستان کا درجہ دے دینا چاہیے؟

تبصرے
Loading...