امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ امام علی النقی الہادی

امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ کے محلے صریا میں پیدا ہوئے (1) آپ (ع) کا نام “علی” رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2) اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب “النقی اور الہادی” ہیں۔ (3) اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔ آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام “سیدہ سمانہ” ہے۔ (5) آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7) امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔(8) آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9) آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10) امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوكل عباسی، منتصر عباسی، مستعين عباسی اور معتز عباسی۔ (11) معاشرے کے ہادی و راہنما چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہيں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہيں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔ جبر و تفویض علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد “جبر و تفویض” کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہيں۔ شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (12) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں “مرو” میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ “خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کيا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہيں اور ہم مجبور ہيں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا”، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟ فرمایا: یابن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! “امرٌ بین الامرین” سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔ میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضي اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔  جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلامشہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔ امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔ امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (13) شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ “اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟”؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہيں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (14)شايد امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔ امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف “لا جَبْرَ وَلا تَفْويضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن”؛ (15) کا حوالہ دیتے ہيں اور فرماتے ہیں: “اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هَلْ اَجْبَرَ اللّه‌ُ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى؟ فَقالَ الصّادِقُ عليه‌السلام هُوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقيلَ لَهُ: فَهَلْ فَوَّضَ اِلَيْهِمْ؟ فَقالَ عليه‌السلام : هُوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهُمْ مِنْ ذلِكَ”۔ (16) امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زيادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (17)پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟فرمایا: خداوند اس سے کہیں زيادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “النّاسُ فِى القَدَرِ عَلى ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهَنَ اللّه‌َ فى سُلْطانِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‌َ جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وَكَلَّفَهُمْ ما لا يُطيقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‌َ فى حُكْمِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‌َ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطيقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطيقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‌َ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه‌َ؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ”۔ (18) لوگ “قَدَر” پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں (فرقۂ قَدَریہ کے تین گروہ ہیں):٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہيں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اپنے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچارہوگیا ہے۔٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور ٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہيں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔ اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہيں اور ا



source : abna

تبصرے
Loading...