امام کی شناخت کا فلسفہ

مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ھے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نھیں ھے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ھیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ھیں وہ مختلف فرقوں ،گروھوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رھیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ھوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نھیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ھیں اور ھر روز آگے بڑھتی نظر آتی ھیں ایسے میں ھر عاقل و ھوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت

مسلمانوں کا اتحاد و یکجھتی ایک ایسی واضح چیز ھے جس کی ضرورت سے کسی بھی عقلمند کو انکار نھیں ھے،کیونکہ جو لوگ ایک کتاب کی پیروی کرتے ھیں اور اساسی و اصولی مسائل پراتفاق رائے رکھتے ھیں وہ مختلف فرقوں ،گروھوں دشمن جماعتوں کی شکل میں کیوں رھیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ھوں؟اگر ماضی میں لوگوں کے اکثر طبقوں کو اس اتحاد کی ضرورت کا احساس نھیں تھا تو آج جب کہ استعماری طاقتیں اسلامی ممالک کے قلب پرحملہ آور ھیں اور ھر روز آگے بڑھتی نظر آتی ھیں ایسے میں ھر عاقل و ھوشیار شخص کو اتحاد کی ضرورت کا بھر پور احساس ھے۔

 

 کون غیرت مند مسلمان ھوگا جو فلسطین،بوسنیا ،کشمیر ،چچنیہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی ناقابل بیان حالت کو دیکھے اور خون کے آنسو نہ روئے اور اس بے حسی اور پراکندگی پر گریہ نہ کرے؟

 مسلمان ، دنیا کی ایک چوتھائی جمعیت کو تشکیل دیتے ھیں اورانسانی طاقت ،زمینی ذخائر اور اصیل اسلامی ثقافت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے زیادہ غنی جمعیت ھیں ۔ ایسی مادی اور معنوی طاقتوں سے سرشار مسلمان سیاست کے میدان میں سب سے زیادہ باوزن ھو سکتے ھیں اور دنیا کی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی قیادت و رھبری اپنے ھاتھ میں لے سکتے ھیں اور استعمار نیز اسلامی اتحاد کے مخالفوں کی بنائی ھوئی بھت سی جغرافیائی حدوں کو نادیدہ قرار دے کر مسلمانوں کی باھمی ضرورتیں پوری کرسکتے ھیں نیز اقتصادی و ثقافتی مبادلات کے ذریعہ اپنے حالات بھتر بنا سکتے ھیں ۔اس طرح اپنی سیادت و سرداری دوبارہ حاصل کر سکتے ھیں لیکن اتحاد کی اس اھمیت کو مد نظر رکھنے کے با وجود امام کی شناخت و معرفت کے موضوع کو اسلامی اتحاد کی راہ کا کانٹا نھیں سمجھنا چاھئے اور اسے اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نھیں سمجھنا چاھئے ،جس کی ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ھیں ۔

 

 اکثر دیکھا گیا ھے کہ بعض سادہ لوح یا فریب خوردہ جوان اسلامی اتحاد کو حضرت عثمان کا کرتھ بنا کر طالبان حقیقت پر سخت تنقید کرتے ھوئے کھتے ھیں:
 ابوبکر و علی(ع)  کی خلافت کی بحث اور یہ کہ صحیح جانشین کون ھے ایک غیر مفید اور بے ثمر بحث ھے۔اس لئے کہ زمانہ کا پہیہ اب پیچھے نھیں گھومے گا اور ھم پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کو زندہ نھیں کر پائیں گے کہ اسے اس کا حق دلائیں اور مسند خلافت پر بٹھائیں اور مخالف کی تنبیہ اور اس کا مواخذہ کریں پس بھتر ھے کہ یہ فائل ھمیشہ کے لئے بند کر دی جائے اور اس کے بجائے کوئی دوسری گفتگو کی جائے!

 اس خیال کے حامل افراد اس بحث کے درخشان نتائج سے غافل ھیں لھٰذا انھوں نے اسے غیر اھم ،بے فائدہ اور اسلامی اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا ھے ، لیکن ھمارے خیال سے یہ فکر امام شناسی کے فلسفہ سے غفلت اور لاعلمی کے علاوہ اور کچہ نھیں ھے کیوں کہ اگر اس بحث کا مقصد جھوٹے دعویداروں کے درمیان صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین کا پھچاننا ھو تو اس صورت میں ممکن ھے کہ اس طرح کی بحثوں کو غیر مفید و بے ثمر کھیں اور افراطیوں کی طرح جو ھر طرح کی علمی ومنطقی بحث کو اسلامی اتحاد کے خلاف سمجھتے ھیں ھم بھی اسے اتحاد کی راہ کا کانٹا سمجھیں ۔اس لئے کہ اب کیا فائدہ ھے کہ چودہ صدیوں کے بعد حق کو ناحق سے تشخیص دینے کی کوشش کی جائے اور غاصب کے خلاف ایک غائبانہ حکم صادر کیا جائے جس کی کوئی عملی ضمانت نھیں ھے۔

 

 لیکن یہ اعتراض اس وقت بیجا ھے جب ھم علمائے اھل سنت کی طرح اسلامی امامت و خلافت کو ایک طرح کا عرفی منصب جانیں جس کا فریضہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنا،دفاعی طاقتوں کو مظبوط کرنا، عدل و انصاف کو رواج دنیا، حدود الٰھی کو قائم کرنا اور مظلوموں کو ان کا حق دلانا وغیرہ ھو ،کیونکہ اس صورت میں  اس قسم کی بحثوں کی نوعیت یہ ھو گی کہ ھم بیٹہ کر یہ بحث کریں کہ پندرھویں صدی عیسوی میں برطانیہ پر کس شخص کی حکومت تھی یا لوئی پنجم کے بعد تخت حکومت پر بیٹھنے کا حق کس کو تھا؟!

 

 لیکن شیعی نقطہ نظر سے جو امامت کو رسالت کا سلسلہ اورنبوت کے فیض معنوی کا تتمہ سمجھتے ھیں، اس طرح کی بحث لازمی وضروری ھے کیونکہ اس صورت میں امام کے فرائض صرف مذکورہ بالا امور میں ھی خلاصہ نھیں ھوتے ھیں۔بلکہ ان تمام امور کے علاوہ امام ،حضرت رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد احکام الٰھی کو بیان کرنے والا،قرآن کی مشکل آیات کا مفسر اور حرام و حلال کو بتانے والا بھی ھے ۔اس صور ت میں یہ سوال پیش آتا ھے کہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کو احکام الٰھی کی تعلیم دینے اور حرام و حلال بتانے والا کو ن ھے تاکہ پیش آنے والے نئے مسائل میں قرآن کی نص اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی کوئی معتبر حدیث موجود نہ ھونے کی صورت میں مسلمان اس کی طرف رجوع کریں اور اس کا قول ان موارد میں حجت قرار پائے۔

 اصولا اسلامی امت قرآن کے مشکلات اور اختلافی مسائل میں کہ جن کی تعداد محدود بھی نھیں ھے آخر کس صاحب منصب کی طرف رجوع کریں اور کس کے قول و عمل کو اپنی زندگی کے لئے حجت اور چراغ راہ قرار دیں؟

 یھی وہ منزل ھے جھاں ھم رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے علمی جانشین کے بارے میں بحث کی ضرورت محسوس کرتے ھیں اور یھاں یہ مسئلہ مکمل طور سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ھے کیونکہ اس نظریہ کی روشنی میں امام ،الٰھی معارف اور اصول و احکام میں امت کا رھنما ھوتا ھے اور جب تک یہ منصب قطعی دلائل کے ذریعہ پھچانا نہ جائے صحیح نتیجہ تک نھیں پھنچا جا سکتا ۔

 

 اگر مسلمان تمام اصول و فروع میں اتفاق و اتحاد رکھتے تو امامت کے سلسلہ میں بحث اس قدر ضروری نہ ھوتی ،لیکن افسوس کہ ان کے یھاں کم ھی مسائل میں اتحاد پایا جاتا ھے ۔ اب ھم جو پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے چودہ سو سال بعد وجود میں آئے ھیں،ھمارا وظیفہ کیا ھے ؟آیا اس زمانہ میں پیدا ھونے والے مسائل ، مشکلاتِ قرآن اور اختلافی مسائل میں کسی نہ کسی صحابی کی رائے منجملہ (ابوحنیفہ یا شافعی) کی طرف رجوع کریں یا حضرت علی اوران کی گرانقدراولاد کی طرف رجوع کریں جن کے لئے شیعوں کا دعویٰ ھے کہ ان کی فضیلت ،عصمت،طھارت، وسیع و عمیق علم اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی جانب سے ان کے منصب امامت پر فائز کئے جانے کے سلسلہ میں عقلی و نقلی دلیلیں موجود ھیں؟

 

 اس سوال کا جواب اسی ”امام شناسی“ کے موضوع اور ولایت کی بحث میں ملے گا جس میں تحقیق ،انسان کو مذکورہ بالا مشکلات میں حیرت و سرگردانی سے نجات دے دیگی۔ حتی اگر ھم مسئلہ خلافت کو بھی چھوڑ دیں اور پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کی سرپرستی و حاکمیت جو حقیقت میں ایک معصوم کا حصہ ھے، سے چشم پوشی کرلیں تو صرف اسی مسئلہ کی تحقیق کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کا دینی و علمی مرجع و راھنما کون ھے،بھت سی جھات سے بڑی اھمیت رکھتا ھے اور مسلمانوں کی مکمل سعادت و خوشبختی بھی اس سے وابستہ ھے اس لئے ضروری ھے کہ جو باتیں ھم بعد میں وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے یھاں بھت اختصار کے ساتھ ذکر کردیں:

 

 اگر ھم اس وقت خلافت و حاکمیت کے مسئلہ سے صرف نظر کردیں تو پورے اطمینان کے ساتھ کھہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مکرر تصریحات و تاکیدات کی روشنی میں آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے پاس قرآن کے علاوہ صرف ایک دینی و علمی مرجع و ملجاھے اور وہ پیغمبر اکر م  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت علیھم السلام ھیں،کیونکہ آنحضرت نے مختلف موقعوں پر کتاب و عترت کے اٹوٹ رشتہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ھے :

”یا اٴیھا الناس انی یوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اھل بیتی و ان اللطیف اخبرنی انھما لن یفترقا“

”اے لوگو!میں عنقریب خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ھوں ۔میں تمھارے درمیان دو گرانقدر اور سنگین امانتیں چھوڑے جا رھا ھوں ۔ ایک اللہ کی کتا ب اور دوسری میری عترت ھے ۔اللہ کی کتاب وحی الٰھی اور ریسمان نجات ھے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ھوئی ھے اور میری عترت اور اھل بیت(ۡع)۔ خدائے لطیف نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ھرگز جدا نھیں ھوں گے “

 پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کی باھم ملاذمت کو دینے آخری حج کے روز عرفہ یا غدیر کے دن منبر سے یا اپنی بیماری کے دوران بستر پر لیٹے ھوئے جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ھوا تھا صراحت سے بیان کیا اور آخر میں فرمایا ھے کھ:

”ھذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان“

یہ علی(ۡع)ھمیشہ قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی(ۡع) کے ھمراہ ھے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے۔

 حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے ایک دو نھیں ھیں جن کو یھاں ذکر کردیا جائے ۔اس حدیث کے مدارک علامہ میر حامد حسین ھندی نے اپنی گرانقدر کتاب ”عبقات الانوار“ کی بارھویں جلد میں بیان کئے ھیں اور یہ کتا ب ھندوستان میں چھپ چکی ھے اور چند سال پھلے چھ جلدوں میں اصفھان میں بھی دوبارہ چھپی ھے،اور دار التقریب مصر سے بھی اس سلسلہ میں ایک کتاب چھپ چکی ھے جس کی بنیاد پر جامعہ الازھر کے سربراہ شیخ شلتوت نے چار مذاھب کی پیروی کے انحصار کو توڑا اور فتوا دیا کہ فقہ امامیہ کی پیروی بھی صحیح اور مجزی ھے۔ شیخ شلتوت سے پوچھا گیا کہ بعض لوگوں کا اعتقاد ھے کہ ھر مسلمان پر لازم ھے کہ اپنی عبادات اور معاملات صحیح کرنے کے لئے چار مشھور مذاھب (حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی) کی تقلید کرے کہ شیعہ اثنا عشری اور زیدی مذھب ان میں سے نھیں ھیں،کیا جناب عالی بھی اس کلی نظریہ سے اتفاق رکھتے ھیں اور اثنا عشری مذھب کی تقلید و پیروی کو منع فرماتے ھیں ؟ تو انھوں نے جواب میں کھا:

 1۔ اسلام نے اپنے کسی پیروکار پر یہ واجب نھیں کیا ھے کہ (فرعی احکام میں) کسی معین مذھب کی پیروی کرے۔ھم کھتے ھیں کہ ھر مسلمان کو یہ حق ھے کہ ھر اس مذھب کی پیروی کرے جو صحیح مدارک کے مطابق ھم تک نقل ھوا ھے اور اس کے احکام کو مخصوص کتابوں میں تدوین کیا گیا ھے ۔ اسی طرح جن لوگوں نے کسی  ایک مذھب کی پیروی کی ھے   — چاھے وہ جوبھی  مذھب ھو — وہ دوسرے  مذھب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں اور اس میں کوئی حرج نھیں ھے۔

 2۔ جعفری مذھب ،مشھور اثنا عشری امامیہ مذھب ھے اور ان مذھبوں میں سے ھے کہ اھل سنت کے تمام مذھبوں کی طرح اس کی بھی تقلید کی جا سکتی ھے ۔

 لھذا بھتر ھے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ھوں اور کسی خاص مذھب سے تعصب کرنے سے پرھیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذھب کے تابع اور کسی معین و مخصوص مذھب میں منحصر نھیںھے۔(اسلامی مذاھب کے پیشوا) سب مجتھدین اور خداوند عالم کے نزدیک مقبول ھیں اور جو لوگ اھل نظر اور صاحب اجتھاد نھیں ھیں ان کے لئے جائز ھے کہ ان حضرات کی تقلید کریں اور جو کچہ انھوں نے فقہ میں مقرر کیا ھے اس پر عمل کریں۔اس سلسلہ میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نھیں ھے ۔ 

تبصرے
Loading...