امام کی اللہ سے مناجات

ان آخری لمحوں میں امام نے خدا وند عالم سے لو لگا ئی ،اس سے مناجات کی ، خدا کی طرف متوجہ قلب سے تضرع کیا اور تمام مصائب و آلام کی پروردگار عالم سے یوں شکایت فر ما ئی :

”صبراًعلیٰ قضائکَ لاالٰہ سواکَ،یاغیاث المستغیثین،مال ربُّ سواکَ ولامعبودُغیرُکَ ،صبراًعلیٰ حُکمِکَ،یاغیاثَ مَنْ لاغیاثَ لَہُ، یادائما لانفادلہ، یامحیَ الموتیٰ،یاقائماعلیٰ کلِّ نفسٍ،احکُم بین وبینھم ْ وانتَ خیر ُالحاکمِیْنَ ”۔(٣)

”پروردگارا !میںتیرے فیصلہ پر صبر کرتا ہوں تیرے سوا کو ئی خدا نہیں ہے ،اے فریادیوں کے فریاد رس،تیرے علاوہ میرا کو ئی پر وردگار نہیں اور تیرے سوا میرا کو ئی معبود نہیں ،میں تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں، اے فریادرس! تیرے علاوہ کو ئی فریاد رس نہیں ہے ،اے ہمیشہ رہنے والے تجھے فنا نہیں ہے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے ہر نفس کو باقی رکھنے والے ،میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کراور تو سب سے اچھا فیصلہ کر نے والا ہے ”۔

 

١۔ انساب الاشراف، جلد ١، صفحہ ٢٤٠۔

٢۔انساب الاشراف ،جلد ٣،صفحہ ٢٠٣۔

٣۔ مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ٣٤٥۔

یہ دعا اس ایمان کا نتیجہ ہے جو امام کے تمام ذاتیات کے ساتھ گھل مل گا تھا یہ ایمان آپ کی ذات کا اہم عنصرتھا ۔۔۔آپ اللہ سے لو لگائے ر ہے ،اس کی قضا و قدر (فیصلے )پر راضی رہے ،تمام مشکلات کو خدا کی خاطر برداشت کیا،اس گہرے ایمان کی بناپرآپ تمام مشکلات کو بھول گئے ۔

ڈاکٹر شیخ احمد وا ئلی اس سلسلہ میں یوں کہتے ہیں :

یا ابا الطف وازدھیٰ بالضحایا

 

مِن ادیم الطفوف روض

نُخبَة مِن صحابةٍ

 

ورضیعُ مُطوَّ قُ وَ شَبُوْلُ

وَالشَّبَابُ الفَیْنَانُ جَفَّ فَغَاضَتْ

 

نَبْعَةُ حُلْوَةُ وَوَجْہُ جَمِیْلُ

وتَاَمَّلْتُ فِْ وُجُوْ ہِ

 

وَزَوَاکِْ الدِّمَائِ مِنْھَا تَسِیْلُ

وَمَشَتْ فِْ شِفَاھِکَ الْغُرِّنَجْویٰ

 

نَمَّ عَنْھَاالتَّسْبِیْحُ والتَّھْلِیْلُ

لَکَ عُتْبِیْ یَا رَبِّ اِنْ کَانَ َ

 

فَھٰذَا اِلیٰ رِضَاکَ قَلِیْلُ(١)

”اے کربلا کے سورما اے وہ ذات جس کی قربانیوں کی بنا پر سر زمین کربلا سر سبز و شاداب ہو گئی ۔

آپ کے ساتھی برگزیدہ تھے ،ان میں شیر خوار تک تھا آپ کے ساتھی قابل رشک جوان تھے۔

میں نے آپ کی قربانی پر غور کیاحالانکہ اس سے خون بہہ رہا تھا۔

آپ زیر لب بھی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے۔

اے پروردگاریہ میری ناچیز کو شش ہے گر قبول افتد زہے عزّ و شرف” ۔

امام پر حملہ

مجرموں کے اس پلید و نجس وخبیث گروہ نے فرزند رسول ۖ پرحملہ شروع کردیاانھوں نے امام پر ہر طرف سے تیروں اور تلواروں سے حملہ کیازرعہ بن شریک تمیمی نے پہلے آپ کے با ئیں ہاتھ پر تلوار لگا ئی اس کے بعد آپ کے کاندھے پر ضرب لگا ئی ،اور سب سے کینہ رکھنے والا دشمن سنان بن انس خبیث تھا، اس

١۔دیوانِ وائلی ،صفحہ ٤٢۔

نے ایک مرتبہ امام پر تلوار چلا ئی اور اس کے بعد اس نے نیزہ سے وار کیا اور اس بات پر بڑا فخر کر رہاتھا، اس نے حجّاج کے سامنے اس بات کو بڑے فخر سے یوںبیان کیا :میں نے ان کو ایک تیر مارا اور دو سری مرتبہ تلوار سے وار کیا ،حجّاج نے اس کی قساوت قلبی دیکھ کر چیخ کر کہا :أَما انکما لن تجتمعاف دار ۔(١)

اللہ کے دشمنوں نے ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا اور ان کی تلواروں نے آپ کاپا ک خون بہادیا،بعض مو رخین کا کہنا ہے :اسلام میں امام حسین جیسی مثال کو ئی نہیں ہے ،امام حسین کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ایک سو بیس زخم تھے ۔(٢)

امام حسین کچھ دیر زمین پر ٹھہرے رہے آپ کے دشمن بکواس کرتے رہے اور آپ کے پاس آنے کے متعلق تیاری کرتے رہے ۔اس سلسلہ میں سید حیدر کہتے ہیں:

فمااجلتِ الحربُ عنْ مِثْلِہِ

 

صریعایُجَبِّنُ شُجْعانُھَا

”حالانکہ آپ زمین پر بے ہوش پڑے تھے پھر بھی کو ئی آپ کے نزدیک آنے کی ہمت نہیں کررہا تھا ”۔

سب کے دلوں آپ کی ہیبت طاری تھی یہاں تک کہ بعض دشمن آپ کے سلسلہ میں یوں کہنے لگے : ہم ان کے نورا نی چہرے اور نورا نی پیشانی کی وجہ سے ان کے قتل کی فکر سے غافل ہوگئے ۔

جو شخص بھی امام کے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے جاتا وہ منصرف ہو جاتا ۔(٣)

چادر میںلپٹی ہوئی رسول اللہ ۖ کی نواسی زینب خیمہ سے باہر آئیں وہ اپنے حقیقی بھائی اور بقیہ اہل بیت کو پکار رہی تھیںاور کہہ رہی تھیں :کاش آسمان زمین پر گر پڑتا ۔

ابن سعد سے مخاطب ہو کر کہا :(اے عمر !کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ ابو عبد اللہ قتل کردئے جائیں اور تو کھڑا ہوا دیکھتا رہے ؟)اس خبیث نے اپنا چہرہ جھکا لیا ،حالانکہ اس کی خبیث ڈاڑھی پر آنسو بہہ رہے تھے، (٤) عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا اس انداز میں واپس آرہی تھیںکہ آپ کی نظریں

 

١۔مجمع الزوائد،جلد ٩،صفحہ ١٩٤۔

٢۔الحدائق الوردیہ ،جلد ١،صفحہ ١٢٦۔

٣۔انساب الاشراف ،جلد ٣،صفحہ ٢٠٣۔

٤۔جواہر المطالب فی مناقب امام علی بن ابی طالب، صفحہ ١٣٩۔

بھا ئی پر تھیںلیکن اس عالم میں بھی صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،آپ واپس خیمہ میں عورتوں اور بچوںکی نگہبانی کے لئے اُن کے پاس پلٹ آئیں ۔

امام بہت دیر تک اسی عالم میں رہے حالانکہ آپ کے زخموں سے خون جا ری تھا ، آپ قتل کر نے والے مجرموں سے یوں مخاطب ہوئے :”کیا تم میرے قتل پر جمع ہو گئے ہو ؟،آگاہ ہوجائو خدا کی قسم! تم میرے قتل کے بعد اللہ کے کسی بندے کو قتل نہ کرپائوگے ،خدا کی قسم !مجھے امید ہے کہ خدا تمہاری رسوا ئی کے عوض مجھے عزت دے گا اور پھر تم سے اس طرح میرا انتقام لے گاکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔”۔

شقی اظلم سنان بن انس تلوار چلانے میں مشہور تھا اس نے کسی کو امام کے قریب نہیں ہو نے دیا چونکہ اس کو یہ خوف تھا کہ کہیں کو ئی اور امام کاسر قلم نہ کر دے اور وہ ابن مرجانہ کے انعام و اکرام سے محروم رہ جائے ۔

اس نے امام کا سر تن سے جدا کیا حالانکہ امام کے لب ہائے مبارک پر سکون و اطمینان ،فتح و نصرت اور رضائے الٰہی کی مسکراہٹ تھی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی ۔

امام نے قرآن کریم کو بیش قیمت روح عطا کی ،اور ہر وہ شرف و عزت عطا کی جس سے انسانیت کا سر بلند ہوتا ہے ۔۔اور سب سے عظیم اور بیش قیمت جو امام خرچ کی وہ اپنی اولاد ،اہل بیت اور اصحاب مصیبتیں دیکھنے کے بعد مظلوم ،مغموم اور غریب کی حالت میں قتل ہو جانا ہے اور اپنے اہل و عیال کے سامنے پیاسا ذبح ہو جانا ہے ،اس سے بیش قیمت اور کیا چیز ہو سکتی ہے جس کو امام نے مخلصانہ طور پر خدا کی راہ میں پیش کر دی ؟

امام نے خدا کی راہ میں قربانی دے کر تجارت کی ،یہ تجارت بہت ہی نفع آور ہے جیساکہ خداوند عالم فرماتا ہے 🙁 ِنَّ اﷲَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ َنفُسَہُمْ وََمْوَالَہُمْ بَِنَّ لَہُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اﷲِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالِْنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ َوْفَی بِعَہْدِہِ مِنْ اﷲِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)۔ (١)

 

١۔سورئہ توبہ ،آیت ١١١۔

”بیشک اللہ نے صاحب ایمان سے اُن کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہو جاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ، انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا کون پورا کرنے والا ہوگا، تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خو شیاں منائو جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کا میابی ہے ”۔

بیشک امام حسین نے اپنی تجارت سے بہت فائدہ اٹھایا اور فخر کے ساتھ آپ کے ساتھ کامیاب ہوئے جس میں آپ کے علاوہ اور کو ئی کامیاب نہیں ہوا ،شہداء ِ حق کے خاندان میں کسی کو بھی کو ئی شرف و عزت و بزرگی اور دوام نہیں ملا جو آپ کو ملا ہے ،اس دنیا میں بلندی کے ساتھ آپ کا تذکرہ (آج بھی ) ہورہا ہے اور آپ کا حرم مطہرزمین پر بہت ہی با عزت اورشان و شوکت کے ساتھ موجود ہے ۔

اس امام عظیم کے ذریعہ اسلام کا وہ پرچم بلندی کے ساتھ لہر ارہا ہے جو آپ کے اہل بیت اور اصحاب میں سے شہید ہونے والوں کے خون سے رنگین ہے، یہی پرچم کا ئنات میں،دنیا کے گوشہ گوشہ میں آپ کے انقلاب اور کرامت و بزرگی کو روشن و منور کر رہا ہے ۔

 

تبصرے
Loading...