امام مہدی حیات کا سرچشمہ

 

امام مہدی حیات کا سرچشمہ

ایک نوجوان جو کہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا جدہ سے مکہ جاتے ہوئے اس نے راستے میں مجھ سے امام زمانہ حضرت مہدی صلوات اللہ علیہ کے حوالے سے گفتگو شروع کی اور ان کے بارے میں مختلف سوال سامنے لایا وہ کہہ رہا تھا : کہ آیا ہماری زندگی و حیات امام زمانہ کی نظر سے تعلق رکھتی ہے ؟ میں خود اس قسم کی بحث کا مشتاق رہتا ہوں اور چاہتا تھا کہ یہ سفر بہترین ذکر یعنی اپنے امام زمان (عج) کی یاد میں طے کروں، میں نے اس کے جواب میں عرض کیا : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس مقدس سفر میں مجھے آپ کی مصاحبت ملی اور یہ کہ آپ عمر کے اس دور میں کس قدر امام زمان (عج) کے حوالے سے بیدار ہیں اور ان کے بارے میںگفتگو کررہے ہیں دوسری بات یہ کہ آپ کے سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ جی ہاں ہماری مادی اور معنوی زندگی کا وقت کے امام مہدی علیہ السلام کی نظر مبارک سے بہت گہرا تعلق ہے۔

 

معنوی زندگی
آپ کا وجود مطھر پانی کی مانند سرچشمہ حیات ہے و جعلنا من الماء کل شی حی (انبیاء آیت۳۰
(
۱)پانی پاک کرتا ہے(ب)پانی حیات بخش ہے اور اھل معنویت کو تو پاک کرنے اور حیات بخش ہونے کے درمیانرابطہ معلوم ہے۔ قرآن مجید فرما رہا ہے و انزلنا من السماء ما طھورا لنحی بہ بلدۃ میتا، (فرقان آیت۴۸)جب تک حضرت مہدی صلواۃ اللہ علیہ کے تربیتی سکول یعنی مکتب تشیع میں دل کی پاکیزگی اور تزکیہ کا مرحلہ انجام نہیں پاتا تو کمال کے طالب کے لئے پاکیزہ حیات میسر نہ ہوگی، امام زمانہ پاکیزگی کی لیاقت رکھنے والے دلوں کو پاک کرتے ہیں اور پاکیزہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں، یاایھا الذین آمنوا استجیبوا اللہ والرسول اذا دعاکم لما یحیکم (انفال، آیت۲۴)یعنی اے لوگوں کہ جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف دعوت کریں کہ جو تمہیں زندہ کرنے کا باعث ہو۔ 
ہمارے جد بزرگوار مرحوم سید احمد علوی (صھر میرداماد) کتاب لطائف غیبۃ کے صفحہ ۴۲۰ میں فرماتے ہیں کہ ابن مردویہ کتاب مناقب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت کرتا ہے کہ دعاکم لمایحییکم سے مرادعلی ابن ابی طالب کی امامت و ولایت ہے معلوم ہوا ہے کہ وقت کے امام کی امامت و ولایت حیات بخش اور نور افشاں کا مقام رکھتی ہے چونکہ زمانہ مولائے کائنات امیر المومنین کی ولایت کا ہی سلسلہ ہیں تو آج ان کی ولایت قبول کرنے میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک ہے پس دل کی پاکیزگی اور اس کی زندگی امام زمان (عج) کے پرچم تلے ہی نصیب ہوگی۔ 
سورہ حج آیت۴۵ میں امام زمان کو کنویں کے ساتھ تشبیہ دی گئی یعنی وہ پانی کہ کوئی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا اور نہ ہی پیاسا اس سے سیراب ہونے کے لئے پانی لیتا ہے اور یہ چیز اسلام اور صاحب اسلام کی غربت کو بیان کررہی ہے جبکہ سورہ ملک (آیت۳۰) میں آپ کے جاری پانی (ماء معین) سے تشبیہ دی گئی، البتہ یہ کہنا کہ امام دریا ہے تشبیہ اس سے بھی بلند ہے ،آپ کمالات ، فضائل اور علوم و عظمتوں کا دریا ہیں کہ جو معرفت کے پیاسوں اور فضیلت کے غوطہ خوروں کو فائدہ پہنچانا ہے البتہ ایک مقام پر آپ کو کنویں کے پانی سے تشبیہ دینا اور دوسرے مقام پر دریا کے پانی سے تشبیہ دینے کے ایک وجہ مکتب اھل بیت کے محبین اور شاگردوں کی فکری و معنوی استعداد میں فرق ہے ،امام زمانہ کا وجود مبارک اس دریائے کمالات کے حقیقی با معرفت و استعداد غوطہ خوروں کے لئے ایک دریا کی مانند ہیں جبکہ محض معرفت کے پیاسوں کےلئے (کہ جن کا درجہ ان سے نیچے ہے) کنویں کے پانی کی مانند ہیں کہ جہاں سے وہ جرعہ جرعہ آب معرفت لے کر سیراب ہوتے رہتے ہیں نوجوان نسل اچھی طرح اس آیت کے مطلب کو سمجھ لے کہ اللہ تعالی فرما رہا ہے، انما انت منذر و لکل قوم ھاد (سورہ رعد آیت۷
اے رسول تو فقط ڈرانے والا ہے اور ھر قوم کا ھادی و رہنما ہے تو اس زمانہ میں حقیقی رہنما امام زمانہ حضرت مہدی (عج) ہیں ہمیں چاہئے ان کی پیروی اور ان کے وجود مبارک سے توسل کرتے ہوئے اپنا راستہ اپنائیں اور نورانی سفر کا آغاز کریں۔ 
جاپانی محقق کا ھدایت پانا
یہ کہ امام مہدی(عج) تمسک و توسل کا اثر ھدایت پانے اور نورانیت کی صورت میں جاننا چاہیں تو اس خبر کا مطالعہ کریں کہ جسے امام زمانہ پی ایچ ڈی لائبریری والوں نے خورشید کا استقبال کی صورت میں کیھان اخبار(ایرانی اخبار) میں چھپوایا اس سے واقعا نوجوان نسل کے عقائد پختہ ہوئے ہیں اس واقعہ کو نقل کرتا ہوں : 
تاریخ ۲۴۔۸۔۷۴(ایرانی تاریخ کہ جو ۱۹۹۵کے سال کی تاریخ ہے) بدھ والے دن سہ پہر تین بجے ایک جاپانی محقق بنام سومیا کہ so.miyake 
کے امام زمانہ پی ایچ ڈی لائبریری اصفہان میں آیا چونکہ بدھ کا دن تھا اور امام زمانہ کے متعلق وہاں پروگرام ہورہا تھا ،تو میں نے اس جاپانی محقق کے پروگرام میں آتے ہی اپنی بحث کا موضوع ماتریالیسم اسلام، بدھ مت، قرار دیا اور عرض کیا کہ الحاد اور ماتریالیسم کی روش یہ ہے کہ وہ ماورا طبعیت کی نفی کرتی ہے یعنی پروردگار کا انکار ہے اسی لئے اس نظرئے کے پیروکار مادی غرائز اور شہوات میں غرق ہیں جبکہ بدھ مت کا نظریہ روحانیت اور غرائز جسمی کو ختم کرنے کا پرچار کرتا ہے یعنی بالکل ماتریالیسم کے مدمقابل ہے وہ اگر مادیت اور شہوات میں غرق ہونے کی تعلیم دیتا ہے یہ خواہشات اور شہوات کو نابود کرنے کی تعلیم دیتا ہے ،لیکن اسلام نہ غرائز و مادیت میں غرق ہونے کا حکم دیتا ہے اور نہ کامل طور پر جسمانی خواہشات اور مادیت کو چھوڑنے کا حکم دیتا ہے بلکہ وہ اس غرائز اور شہوات سے بہتر فائدہ اٹھانے اور انہیں کنٹرول کرنے کا حکم دیتا ہے، یہ بحث بڑھتی رہی اور مترجم حضرات جناب سومیا کے لئے ترجمہ کرتے رہے، تو اس محقق نے یہ سوال کیا کہ آپ کے مذہب میں اللہ کی معرفت کیسے ہے؟ میں نے جواب دیا ہمارا مذھب مکمل طور پر دلیل و برھان سے بات کرتا ہےچاہے اصول دین ہوں یا فروع دین، دلیل حکم فرما ہے لھذا اللہ تعالی کی معرفت کے حوالے سے بھی ہمارے پاس دلائل اور براھین ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر کہ ہم حضور و شہود کی بات کرتے ہیں، پھر میں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا سے چند جملے تفصیل و تشریح کے ساتھ سنائے، کیف یستدل علیک بما ھو فی وجودہ مفتقرا الیک۔ ۔ ۔ ۔ کیسے وہ تجھ پر دلیل قائم کرے کہ وہ خود اپنےوجود میں تیرا محتاج ہے ۔ ۔ ۔ متی غبت حتی تحتاج الی دلیل یدل علیک۔ ۔ ۔تو غائب کب ہے کہ تجھے ڈھونڈنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہو۔ ۔ ۔بندہ حقیر کی گفتگو کے بعد (جو کہ پورا ہفتہ جاری رہی) مداح اھل بیت حضرات امام زمانہ (عج) کی مدح اور ان کے فراق میں جانسوز اشعار پڑھتے تھے ،چاپانی محقق جو کہ اس محفل میں ہوتا تھا وہ شیعہ کی منطق و استدلال بھی سنتا تھا اور ان کا اپنے امام کے فراق میں آنسو بہانا بھی دیکھتا تھا وہ مشاھدہ کرتا کہ شیعہ کس طرح عالم معنویت سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا امام موجود ہے اور یوں وہ اپنے امام کو یابن الحسن کہہ کر پکارتے ہیں یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں گویا وہ ان کے سامنے ہے ۔ 
محفل ہمیشہ اشک و اشتیاق سے بھرپور ہوتی تھی جاپانی محقق اگرچہ فارسی زبان کہ نہیں سمجھتا تھا، لیکن یاابن الحسن کی فریادیں گویا اس کے دل پر خاص اثر چھوڑ رہی تھیں اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ دل سے ابھام کی سیاہی کے بادل چھٹ رہے ہیں اور دل کے افق پر علم و آگاہی کا ایک نیا سورج طلوع ہورہا ہے بعد والے دن یعنی جمعرات کو اس نے ایک جملہ لکھا : 

مولف:سید محمود بحر العلوم،مترجم:علی اصغر سیفی

تبصرے
Loading...