امام محمد تقی(ع) اور مکارم اخلاق

امام محمد تقی ؑ نے مکارم اخلاق اور محاسن صفات پر مشتمل دعا میں فرمایا ہے :”انسان کے بہترین اخلاق کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ کسی کو اذیت نہیں پہنچاتا ،اس کے کرم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے محب کے ساتھ اچھا برتاؤ کر تا ہے ،اس کے صبر کا نمونہ یہ ہے کہ وہ شکایت نہیں کرتا ،اس کی خیر خوا ہی کی پہچان یہ ہے کہ وہ ناپسند باتوں سے روکتا ہے ،نرمی کی پہچان یہ ہے کہ انسان اپنے دینی بھا ئی کی ایسے مجمع میں سر زنش نہ کرے جہاں اُس کو بُرا لگتا ہے ،اس کی سچی صحبت کی پہچان یہ ہے کہ وہ کسی پر بار نہیں بنتا ،اس کی محبوبیت کی پہچان یہ ہے کہ اس کے موافق زیادہ اور مخالف کم ہوتے ہیں ‘‘۔امام محمد تقی ؑ نے ان بہترین کلمات کے ذریعہ حسن اخلاق اور مکارم اخلاق،سچائی قائم کرنے اور حقیقی فکر و محبت کرنے کی بنیاد ڈالی ۔
آداب سلوک
امام محمد تقی ؑ نے لوگوں کے درمیان حسن سلوک اور اس کے آداب کا ایک بہت ہی بہترین نظام معین فرمایا ۔آپ ؑ اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں : ۱۔”تین عادتوں سے دل موہ لئے جاتے ہیں :معاشرے میں انصاف ،مصیبت میں ہمدردی ، پریشا ن حالی میں تسلّی‘‘ ۔
۲۔”جس شخص میں تین باتیں ہو ں گی وہ شرمندہ نہیں ہوگا :جلد بازی سے کام نہ لینا ،مشورہ کرنا ، عزم کے وقت اللہ پر بھروسہ کرنا ،جوشخص اپنے بھا ئی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرے وہ اس کا محسن ہے اور جو علانیہ طور پر اس کو نصیحت کر ے گویا اُس نے اس کے ساتھ برا ئی کی ہے ‘‘۔
۳۔”مو من کے اعمال نامہ کی ابتدا میں اس کا حسن اخلاق تحریر ہو گا ،سعادتمند کے اعمال نامہ کے شروع میں اس کی مدح و ثنا تحریر ہو گی ،روایت کی زینت شکر ،علم کی زینت انکساری ،عقل کی زینت حسن ادب ہے ، خوبصورتی کا پتہ کلام کے ذریعہ چلتا ہے اور کمال کا پتہ عقل کے ذریعہ چلتا ہے ‘‘۔امام کے یہ کلمات حکمت ،قواعد اخلاق اور آداب کے اصول پر مشتمل ہیں ،اگر کسی شخص کے پاس
صرف یہی کلمات ہوں تو آپ ؑ کی امامت پر استدلال کرنے کیلئے کافی ہیں ، ایک کمسن اپنی عمرکے ابتدائی دور میں کیسے ایسی دا ئمی حکمتیں بیان کرنے پر قادر ہو گیا جن کا بڑے بڑے علماء مثل لانے سے عاجز ہیں ؟
آپ ؑ کے مو عظے ہم ذیل میں آپ ؑ کے بعض مو عظے بیان کر رہے ہیں :۱۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فر ماتے ہیں :”توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ ہے ،اور توبہ کرنے میں بہت زیادہ دیرکرنا حیرت و سرگردانی کا سبب ہے ،خدا سے ٹال مٹول کرنا ہلاکت ہے اور بار بار گناہ کرنا تدبیر خدا سے ایمن ہونا ہے ،خداوند عالم کا فرمان ہے :(لا یَأْمَنُ مَکْرَ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ) ‘‘۔”مکر خدا سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی بے خوف ہوتے ہیں ‘‘
۲۔ایک شخص نے آپ ؑ سے عرض کیا :مجھے کچھ نصیحت فرما دیجئے تو آپ ؑ نے اس کو یہ بیش بہا نصیحت فرمائی :”صبر کو تکیہ بناؤ ،غریبی کو گلے لگاؤ ،خواہشات کو چھوڑ دو ،ہویٰ و ہوس کی مخالفت کرو ،یاد رکھو تم خدا کی نگاہ سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا غور کرو کس طرح زند گی بسر کرنا ہے ‘‘۔
۳۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے بعض اولیا کو وعظ و نصیحت پر مشتمل یہ گرانبہا خط تحریر فرمایا : ”ہم اس دنیا سے چلو بھر پانی لیتے ہیں لیکن جس شخص کی خواہش اپنے دوست کی طرح ہو اور وہ اس کی روش کے مطابق چلتا ہو تو وہ ہر جگہ اس کے ساتھ ہوگا جبکہ آخرت چین و سکون کا گھر ہے ‘‘۔آپ ؑ کے یہ وہ مو عظے اور ارشادات ہیں جو انسان کو اس کے رب سے نزدیک کرتے ہیں اور اس کے عذاب و عقاب سے دور کرتے ہیں ،انسان کے نفس میں اُبھرنے والے برے صفات کا اتباع کر نے سے ڈراتے ہیں ،یہ برے صفات انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں ،انسان کو رذائل اور جرائم کے میدانوں میں گامزن کر دیتے ہیں ،امام محمد تقی ؑ نے اپنے وعظ و ارشادات میں اپنے آباء و اجداد کا اتباع فرمایاہے ،یہ وہ تابناک نصائح ہیں جن کا ہم اُن کی سیرت و سوانح حیات میں مطالعہ کرتے ہیں ۔

(ماخوذ از کتاب؛ ائمہ معصومین کی سیرت سے)

 

تبصرے
Loading...