امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري

ولادت اور بچپن كا زمانہ

ہمارے پانچويںپيشوا امام محمد باقر (ع)جمعہ كے دن پہلى رجب 57 ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے_ 1 آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے_ روايت ہے كہ حضرت رسول مقبول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس لقب سے ملقب فرمايا تھا_ امام محمد باقر (ع)_ ماں اور باپ _ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے_ اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين _ امام حسين(ع) كے فرزند تھے_ اور ان كى والدہ گرامى ” ام عبداللہ” امام مجتبى _كى بيٹى تھيں_ آپ نے امام زين العابدين _جيسے باپ كى پر مہر آغوش ميں پرورش پائي اور با فضيلت ماں كى چھاتى سے دودھ پيا_ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ ” ميرى جدّہ ماجدہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى _ميں كوئي عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہونچ سكي_ 2

امام محمد باقر (ع)كى عمر چار سال سے كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا_

آپ(ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے_ واقعہ كربلا كے بعد 34 برس آپ (ع) نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاري، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوى ميں مشہور تھے اور آئندہ چل كر مسلمانوں كے علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھے جانے لگے_ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كى بلندى كا ذكر ہوتا، آپ(ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے_

 

آپ(ع) كى شرافت اور بزرگى كو مندرجہ ذيل حديث ميں پڑھا جاسكتا ہے_ پيغمبر-(ص) نے اپنے ايك نيك صحابي، جابر ابن عبداللہ انصارى سے فرمايا:” اے جابر تم زندہ رہوگے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسين (ع) سے كہ جن كا نام توريت ميں ” باقر” ہے ملاقات كروگے_ ملاقات ہونے پر ميرا سلام پہنچا دينا”_ پيغمبر(ص) رحلت فرماگئے_ جابر نے ايك طويل عمر پائي ، ايك دن امام زين العابدين (ع) كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقر (ع) كو جو چھوٹے سے تھے ديكھا، ان سے جابر نے كہا: ذرا آگے آيئےامام(ع) آگے آگئے_ جابر نے كہا: ذرا مڑجايئے امام مڑگئے، جابر نے جسم اور ران كے چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كہا، كعبہ كے خدا كى قسم، يہ پيغمبر(ص) كا ہو بہو آئينہ ہيں_ پھر امام زين العابدين (ع) سے پوچھا” يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا: ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقر (ع) ہے_ جابر اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كہا: اے فرزند پيغمبر (ص) ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا كا سلام و درود قبول فرمائيں انہوں نے آپ كو سلام كہلو ايا ہے_

امام محمد باقر (ع) كى آنكھيں ڈبڈ باگئيں اور آپ(ع) نے فرمايا: جب تك آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تك ميرا سلام و درود ہو ميرے جد پيغمبر(ص) خدا پر اور تم پر بھى سلام ہو اے جابر تم نے ان كا سلام مجھ تك پہنچايا_ 3
امام (ع) كے اخلاق و اطوار

حضرت امام محمد باقر (ع) ، متواضع، سخي، مہربان اور صابر تھے اور اخلاق و عادات كے اعتبار سے جيسا كہ جابر نے كہا تھا ہو بہو اسلام كے عظيم الشان پيغمبر(ص) كا آئينہ تھے_

شام كا ايك شخص مدينہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور امام (ع) كے پاس بہت آتارہتا تھا اور كہتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نہيں ہے، تمہارے اور تمہارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نہيں ہوں_ اگر تم يہ ديكھتے ہو كہ ميں تمہارے گھر

 

آتاجاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايك سخن ور اور خوش بيان اديب ہو

اس كے باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوااس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر(ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں_

جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں_

امام نے فرمايا: مرا نہيں ہے … جلدى نہ كرو يہاں تك كہ ميں پہونچ جاؤں اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تك سر بسجدہ رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سر ہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا_ اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگواكر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے_ ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:” ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں …”_ 4

اس زمانے كے صوفيوں ميں سے ايك شخص محمد بن مُنكَدر كا بيان ہے كہ ايك دن ميں بہت گرمى ميں مدينہ سے باہر نكلا وہاں ميں نے محمد باقر (ع) كو ديكھا كہ دو غلاموں پر تكيہ كئے ہوئے ہيں_ ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ قريش كے بزرگوں ميں سے ايك بزرگ ايسے وقت ميں دنيا كى ہوس اور لالچ ميں پڑے ہوئے ہيں، ميں ان كو كچھ نصيحت كروں_ ميں ان كے قريب گيااور سلام كيا_ ان كے سر اور داڑھى سے پسينہ بہہ رہا تھا_ امام (ع) نے اسى حالت ميں ميرے سلام كا جواب ديا_ ميں نے عرض كي: خدا آپ كو سلامت ركھے آپ كى جيسى شخصيت والا انسان اس وقت اس حالت ميں دنيا حاصل كرنے ميں لگا ہوا ہے اگر اسى حالت ميں موت آجائے تو آپ(ع) كيا كريں گے؟

 

آپ نے فرمايا خدا كى قسم اگر موت آگئي تو خداوند عالم كى اطاعت كى حالت ميں موت واقع ہوگي_اس لئے كہ ميں اس وسيلہ سے اپنے آپ كو تم سے اور دوسروں كى محتاجى سے بچاتا ہوں_ ميں اس حالت ميں موت سے ڈرتا ہوں كہ ميں ( خدا نخواستہ ) گناہ كے كام ميں لگا رہوں_ ميں نے كہا آپ پر خدا كى رحمت ہو، ميں نے چاہاتھا كہ ميں آپ كو نصيحت كروں ليكن آپ نے مجھ كونصيحت كى اور آگاہ فرمايا_ 5
علم امام محمد باقر (ع)

آپ كا علم بھى دوسرے تمام ائمہ كى طرح چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بہرہ ور ہو تے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ ” اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ بچپن ہى ميں علم خدا سے مالامال ہيں_ 6

اہل سنت كے علماء ميںسے ايك بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقر(ع) كے سامنے اہل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے ميں نے نہيں ديكھا ہے _حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديك جن كا علمى مقام بہت بلند تھا_ امام محمد باقر(ع) كے سامنے ان كى حالت يہ ہوتى تھى كہ جيسے ايك شاگرد استاد كے سامنے”_ 7

آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كہتے تھے ” وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين _نے ايسا كہا ہے …” 8

ايك شخص نے عبداللہ بن عمر سے ايك مسئلہ پوچھا وہ جواب نہ دے سكے اور سوال كرنے والے كو امام محمد باقر (ع)كا پتہ بتاديا اور كہا كہ اس بچے سے پوچھنے كے بعد جو جواب ملے وہ مجھ كو بھى بتادينا_ اس شخص نے امام(ع) سے پوچھا اور مطمئن كرنے والا جواب سننے كے بعد عبداللہ بن عمر

 

كو جاكر بتاديا_ عبداللہ نے كہا:” يہ وہ خاندان ہے جس كا علم خدا داد ہے”_ 9

حضرت امام محمد باقر (ع)نے علوم و دانش كے اتنے رموز و اسرار واضح كئے ہيں كہ سوائے دل كے اندھے كے اور كوئي انكا، انكار نہيں كرسكتا_ اس وجہ سے آپ نے تمام علوم شكافتہ كرنے والے اور علم و دانش كا پرچم لہرانے والے كا لقب پايا_ 10

انہوں نے مدينہ ميں علم كا ايك بڑا دانشكدہ بتايا تھا جس ميں سينكڑوںدرس لينے والے افراد آپ كى خدمت ميں پہونچ كر درس حاصل كيا كرتے تھے_

رسول خدا (ص) كے اصحاب ميں سے جو لوگ زندہ تھے، جيسے جابر بن عبداللہ انصارى اور تابعين ميں سے كچھ بزرگ افراد جيسے جابر بن جعفي، كيسان سختيانى اور فقہاء ميں سے كچھ لوگ جيسے ابن مبارك زہري، اوزاعى ، ابوحنيفہ ، مالك ، شافعى اور زياد بن منذر اور مصنفين ميں سے كچھ افراد جيسے طبري، بلاذري، سلامى اور خطيب نے اپنى تاريخوں ميں آپ سے روايتيں لكھى ہيں_ 11
امام _اور اموى خلفائ

امام محمد باقر (ع)كى امامت كا زمانہ _ جو تقريباً 19 سال پر محيط تھا _ اموى حكمرانوں جيسے وليد بن عبدالملك، سليمان بن عبدالملك، عمر بن عبدالعزيز، يزيد بن عبدالملك، ہشام بن عبدالملك كا زمانہ تھا_ ان ميں سے سوائے عمر بن عبدالعزيز كے_ جو نسبتاً عدالت پسند تھا _ سب كے سب ستمگري، استبداد اور مطلق العنانى ميں اپنے اسلاف سے كچھ كم نہ تھے اور آگے چل كر انہوں نے امام محمد باقر(ع) كے لئے مشكليں پيدا كيں_

امام محمد باقر (ع)كے زمانہ امامت كے سياسى اور كھٹن حالات سے واقفيت كے لئے ہم يہاں ان ميں سے ہر ايك كے بارے ميں اب اجمالى گفتگو كر رہے ہيں_

وليدنے 86 ھ ق ميں حكومت كى باگ ڈور سنبھالى اور 15، جمادى الآخر 96 ھ ق كو مرگيا_

 

مسعودى كا بيان ہے كہ وليد ايك ہٹ دھرم، جابر اور ظالم بادشاہ تھا _ 12 اس كے باپ نے اس كو وصيت كى تھى كہ حجاج بن يوسف كا اكرام كرے اور چيتے كى كھال پہنے _ 13 تلوار آمادہ ركھے اور جو اس كى مخالفت كرے اس كو قتل كردے _ 14

اس نے بھى باپ كى وصيت كو پورا كيا اور حجاج كے ہاتھوں كو اپنے باپ كى طرح مسلمانوں كو ستانے اور ان كو قتل كرنے كے لئے آزاد چھوڑ ديا_

عمر بن عبدالعزيز، وليد كى طرف سے مدينہ كا حاكم تھا، حجاج كے ظلم سے تنگ آكر جو بھى بھاگتا تھا اس كے پاس پناہ ليتا تھا_ عمر نے وليد كو ايك خط لكھااور لوگوں كے ساتھ حجاج كے ظلم كى شكايت كى _ وليد نے حاكم مدينہ كى شكايت سننے كى بجائے، حجاج كى خوشنودى كے لئے عمر بن عبدالعزيز كو مدينہ كى گورنرى سے معزول كرديا اور حجاج كو لكھا” تم جس كو بھى چاہو حجاز كا حاكم بنادو_ حجاج نے بھى خالد بن عبداللہ قسرى كے لئے سفارش كى جو خود اسى جيسا ايك خونخوار شخص تھا وليد نے يہ سفارش قبول كر لي_ 15

وليد كا حجاج پر اعتماد كرنا اور اپنے باپ عبدالملك كى تائيد، وليد كے طغيان اور اس كى تباہ كارى پر بہترين دليل ہے_

اپنے بھائي كے بعد سليمان بن عبدالملك نے زمام حكومت اپنے ہاتھوں ميں لى اور جمعہ كے دن 10 ماہ صفر 99 ھ كو مرگيا_ وہ بڑا پرخور اور عورتوں كا دلدادہ تھا_ اس كے دور خلافت ميں عياشى اور دربار ميں عيش و نشاط كى محفل اپنے اوج پر تھي_ متعدد خواجہ سراؤں كو اس نے اپنے دربار ميں ركھ چھوڑا تھا اور اور اپنا زيادہ وقت حرم سراء كى عورتوں كے ساتھ گذارتا تھا_ آہستہ آہستہ برى باتيں ملك كے كارندوں ميں بھى سرايت كر گئيں اور يہ باتيں ملك گير پيمانہ پر پھيل گئيں _ 16

اس نے دو سال چند مہينے حكومت كى _ شروع ميں اس نے نرمى كا مظاہرہ كيا_ عراق كے قيد خانوں كے دروازے كھول ديئے اور بے گناہوں كو آزاد كرديا جبكہ اس كى زندگى كے لمحات ظلم و ستم سے خالى نہ تھے_ اس نے خالد بن عبداللہ قسرى كو جو ظلم اور جرائم ميں حجاج كا ثانى تھا، اس كے

 

مقام پر باقى ركھا_

اس كے بعد عمر بن عبدالعزيز مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اس كا انتقال 25 رجب 101 ھ ق كو ہوا_ يہ كسى حد تك پريشانيوں اور دشواريوں پر قابو پانے ، برائيوں اور تفريق كے ساتھ جنگ كرنے، اس ننگ و عار كے دھبہ كو جو اس وقت كى حكومت كے دامن پر لگا ہوا تھا _ يعنى على _پر سب و شتم كرنا _ دھونے، فدك كو اولاد فاطمہ عليہا السلام كو واپس دے دينے اور امام محمد باقر(ع) كے حوالے كرنے ميں كامياب ہوئے_

اس كے بعد يزيد بن عبدالملك ان كى جگہ مسند حكومت پر متمكن ہوا_ اور اپنے حكام كو مندرجہ ذيل خط لكھ كر اپنى حكومت كا آغاز كيا:

” عمر بن عبدالعزيز نے دھو كہ كھايا، تم اور تمہارے اطراف كے لوگوں نے اس كو دھو كہ ديا … خط ملتے ہى سابق معاونين اور اپنے دوستوں كو جمع كرو اور لوگوں كو ان كى سابقہ حالت پر پلٹا دو، چاہے وہ ماليات كو ادا كرنے كى طاقت ركھتے ہوں يا نہ ركھتے ہوں، زندہ رہيں يا مرجائيں، لازم ہے كہ وہ ٹيكس ادا كريں”_ 17

يزيد بن عبدالملك كا اپنے ہم نام يزيد بن معاويہ كى طرح سوائے عياشي، جرائم، مستى اور عورتوں كے ساتھ عشق بازى كے اور كوئي دوسرا كام نہ تھا_ وہ اخلاقى اور دينى اصول كا ہرگز پابند نہ تھا_ اس كى خلافت كا زمانہ بنى اميہ كى حكومت كا ايك سياہ ترين اور تاريك ترين دور شمار كيا جاتا ہے اس كے زمانہ ميں قصائد اوراشعار كى جگہ ساز اور آواز نے لے لى تھى اور اس شعبہ كو اتنى وسعت دے دى تھى كہ مختلف شہروں سے گانے بجانے والے دمشق بلائے جاتے تھے اور اس طرح عياشي، ہوس راني، شطرنج اور تاش نے عربى معاشرہ ميں رواج پايا_ 18

اس كے بعد ہشام بن عبدالملك نے حكومت كى باگ ڈور سنبھالي_ وہ بخيل، بداخلاق، ستمگر اور بے رحم تھا_ نہ صرف يہ كہ اس نے برائيوں كى اصلاح كيلئے كوئي قدم نہيں اٹھايا بلكہ اس نے بنى اميہ كى خطاؤں كو تقويت بخشي_ اپنے گورنروں كو اس نے لكھا كہ شيعوں كے ساتھ سختى كركے ان پر

 

عرصہ حيات تنگ كردو _ اس نے حكم ديا كہ ان كے آثار كو مٹا كر ان كا خون بہايا جائے اور ان كو عام حق سے محروم كردو_

اس نے حكم ديا كہ شاعر اہل بيت ” كُمَيت” كا گھر اجاڑ ديا جائے_ كوفہ كے حاكم كو لكھا كہ ”اولاد پيغمبر (ص) كى مدح كرنے كے جرم ميں كُمَيت كى زبان كاٹ دى جائے”_

يہى تھا جس نے زيد بن على بن الحسين كے انقلاب كو كچل ديا تھا اور ان كے جسم مقدس كو مثلہ كرنے كے بعد كوفہ كے كليسا كے پاس نہايت دردناك حالت ميں دار پر لٹكا ديا_

امام محمد باقر (ع)كا اپنى خلافت كے زمانہ ميں ايسے ايسے مدعيان خلافت سے مقابلہ تھا_
خلافت كے بالمقابل امام (ع) كا موقف

ہشام، امام محمد باقر اور ان كے فرزند عزيز حضرت امام جعفر صادق _كى عزت و وقار سے بہت خوف زدہ تھا اس لئے اپنى حاكميت كا رعب جمانے اور خلافت كى مشينرى كے مقابلہ ميں امام_ كى اجتماعى حيثيت و وقار كو مجروح كرنے كے لئے اس نے حاكم مدينہ كو حكم ديا كہ ان دونوں بزرگوں كو شام بھيجدے_

امام(ع) كے وارد ہونے سے پہلے اس نے اپنے درباريوں اور حاشيہ نشينوں كو امام (ع) كا سامنا كرنے كے لئے ضرورى احكامات ديئے_ يہ طے پايا كہ پہلے خليفہ اور پھر اس كے بعد حاضرين دربار جو سب كے سب مشہور اور نماياں افراد تھے، امام محمد باقر(ع) پر تہمت اور شماتت كا سيلاب انڈيل ديں_

اس عمل سے ہشام كے دو مقصد تھے، پہلا مقصد يہ تھا كہ اس سختى اور تہمت سے امام (ع) كے حوصلہ كو كمزور كركے ہر اُس كام كے لئے جس كى وہ خواہش كرے گا امام كو آمادہ كرلے گا_ دوسرا مقصد يہ تھا كہ اس ملاقات ميں كہ ، جس ميں بڑے بڑے رہبر شريك تھے، آپ كو ذليل كرديا جائے_

 

امام محمد باقر (ع)وارد ہوئے اور معمول كے مطابق جو طريقہ تھا كہ ہر آنيوالا ” امير المؤمنين” كے مخصوص لقب كے ساتھ خليفہ كو سلام كرتا تھا_ اس كے برخلاف آپ(ع) نے تمام حاضرين كى طرف رخ كركے” سلامٌ عليكم” كہا، پھر اجازت كا انتظار كئے بغير بيٹھ گئے_ اس روش كى بنا پر ہشام كے دل ميں كينہ اور حسد كى آگ بھڑك اٹھى اور اس نے اپنا پروگرام شروع كرديا_ اس نے كہا” تم اولاد على ہميشہ مسلمانوں كے اتحاد كو توڑتے ہو اور اپنى طرف دعوت ديكر ان كے درميان رخنہ اور نفاق ڈالتے ہو، نادانى كى بنا پر ( معاذاللہ) اپنے كو پيشوا اور امام سمجھتے ہو” ہشام تھوڑى دير تك ايسى ياوہ گوئي كر تا رہا پھر چپ ہوگيا_

اس كے بعد اس كے نوكروں ميں سے ہر ايك نے ايك بات كہى اور آپ كو مورد تہمت قرار ديا_

امام محمد باقر (ع)اس تمام مدت ميں خاموشى اور اطمينان سے بيٹھے رہے_ جب سب چپ ہوگئے تو آپ(ع) اٹھے اور حاضرين كى طرف مخاطب ہوئے، حمد و ثنائے خدا اور پيغمبر (ص) پر درود كے بعد ان كى گمراہى اور بے راہ روى كو واضح اور اپنى حيثيت نيز اپنے خاندان كے سابقہ افتخار كو بيان كرتے ہوئے فرمايا:

” اے لوگو تم كہاں جا رہے ہو اور ان لوگوں نے تمہارا كيا انجام سوچ ركھا ہے؟ ہمارا ہى وسيلہ تھا جس كے ذريعہ خدا نے تمہارے اسلاف كى ہدايت كى اور ہمارے ہى ہاتھوں سے تمہارے كام كے اختتام پر مہر لگائي جائے گى اگر تمہارے پاس آج يہ تھوڑے دنوں كى حكومت ہے تو ہمارے پاس دير پا حكومت ہوگي_ ہمارى حكومت كے بعد كسى كى حكومت نہيں ہوگى ہم ہى وہ اہل عاقبت ہيں جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا ہے كہ عاقبت صاحبان تقوى كے لئے ہے”_19

امام _كى مختصر اور ہلا دينے والى تقرير سے ہشام كو ايسا غصہ آيا كہ سختى كے سوا اور كچھ اس كى سمجھ ميں نہ آيا اس نے امام (ع) كو قيد كر دينے كا حكم ديا_

 

امام (ع) نے زندان ميں بھى حقيقتوں كو آشكار اور واضح كيا_ زندان كى نگرانى كرنے والوں نے ہشام كو خبر دى ، يہ بات اس مشينرى كے لئے قابل تحمل نہ تھى جو دسيوں سال سے شام كو علوى تبليغات كى دست رسى سے دور ركھے ہوئے تھي_ اس نے حكم ديا كہ امام اور ان كے ساتھيوں كو زندان سے نكال كر پہرہ اور سختيوں ميں مدينہ پہنچا يا جائے اور پہلے سے بھى ضرورى احكام بھيجے جاچكے تھے كہ راستہ ميں كسى كو يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اس معتوب قافلہ كے ساتھ كوئي معاملہ كرے_ اور ان كے ہاتھوں كسى كو روٹى اور پانى بيچنے كا حق نہيں ہے … 20
اسلامى ثقافت كا احيائ

امام محمد باقر (ع) ان حالات ميں حاكم كى سخت گيرى اور ضرورت تقيہ كے باوجود _ اس بات ميں كامياب ہوگئے كہ تعليم و تربيت كے ذريعہ بہت ہى گہرى بنيادوں پر مبنى علمى تحريك بنائيں _ انہوں نے آغاز ہى سے تشيع كى بنيادى اور با مقصد دعوت كى اشاعت كيلئے ، وسيع پيمانہ پر كوشش شروع كي_ اس دعوت كى وسعت اتنى تھى كہ شيعوں كے علاقہ جيسے مدينہ اور كوفہ كے علاوہ شيعى فكر كے نفوذ كى قلمرو ميں دوسرے نئے علاقوں كا بھى اضافہ ہوا_ اس سلسلہ ميں تمام جگہوں سے زيادہ خراسان كا نام ليا جاسكتا ہے_

حج كے زمانہ ميں عراق، خراسان اور دوسرے شہروں سے ہزاروں مسلمان آپ سے فتوى معلوم كرتے تھے_ اور معارف اسلام كے ہر باب كے بارے ميں آپ سے سوال كرتے تھے_ ان بزرگ فقہاء كى طرف سے جو علمى اور فكرى مكاتب سے وابستہ تھے، آپ كے سامنے دشوار گذار مسائل ركھے جاتے تھے تا كہ آپ الجھ جائيں اور لوگوں كے سامنے خاموش رہنے پر مجبور ہوجائيں_

امام _نے ان تمام مقامات پر تشيع كے اركان كى تفصيلى توضيح كے ساتھ اس كے اعلى صفات

 

كو محدود سطح اورگنے چنے افراد سے نكالا اور اسے آفاقى نكال كرمكتب كے مفاہيم كى نشر و اشاعت كے ذريعہ افراد كى پرورش كى اور حقيقى اسلام كو مجسم بنايا_ چنانچہ بہت سے شہروں ميں اس كا رد عمل ظاہر ہوگيا تھا_

ان كاموں كى وجہ سے لوگ ان كے گرويدہ ہوگئے تھے اور آپ(ع) نے قوم ميں بہت زيادہ نفوذ پيدا كر ليا تھا_ جبكہ خلافت بنى اميہ كے زمانہ ميں قبيلہ مضر اور حمير كے درميان نسلى قتل كى آگ بھڑك رہى تھي_ مگر ہم ديكھتے ہيں كہ دونوں قبيلوں كے درميان امام (ع) كے چاہنے والے تھے جيسا كہ باقاعدہ شيعہ كہے جانے والے شعراء جيسے فرزدق تميمى مضرى اور كميت اسدى حميرى دونوں ہى امام _اور اہل بيت (ع) كى دوستى ميں متفق تھے_
اسلامى نظام كى تشكيل

امام محمد باقر (ع)نے ضرورت كى وجہ سے معاشرہ پر مسلط حكومت سے لڑنے اور آمنے سامنے كى جنگ سے اجتناب كيا اور آپ نے زيادہ تر فكرى اور ثقافتى كام كيا_ جو نظرياتى تخم ريزى بھى تھى اور سياسى تقيہ بھى _ ليكن يہ حكيمانہ انداز اس بات كا سبب نہيں بنا كہ امام _ تحريك امامت كى كلى سمت كو قريبى دوستوں اور سچے شيعوں كے لئے جو اُن كے گرويدہ تھے، واضح نہ كريں_ اور عظيم شيعى مقصد كو _ يعنى اسلامى نظام كو ناقابل اجتناب مبارزہ كے ذريعہ _ ان كے دلوں ميں زندہ نہ كريں_ امام محمد باقر(ع) كے اميد افزا طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہ بھى تھا كہ آپ آئندہ كے لئے دل پسند نويد ديتے تھے جو چنداں دور بھى نہيں ہوتى تھي_

راوى كہتا ہے: ہم ابوجعفر _كى خدمت ميں بيٹھے ہوئے تھے ايك بوڑھا آدمى آيا، سلام كيا اور كہا كہ اے فرزند رسول خدا كى قسم ميں آپ كا اور آپ كے چاہنے والوں كا دوست ہوں يہ دوستى دنيا كى لالچ ميں نہيں ہے … ميں نے آپ كے امر و نہى كو قبول كر ليا ہے اور ميں اس انتظار

 

ميں ہوں كہ آپ كى كاميابى كا زمانہ قريب آئے، كيا اب ہمارے لئے كوئي اميد ہے؟ امام (ع) نے اس بوڑھے آدمى كو اپنے پہلو ميں بٹھايا اور فرمايا اے پيرمرد كسى نے ميرے والد على ابن الحسين (ع) سے يہى پوچھا تھا، ميرے والد نے اس سے كہا تھا كہ ” اگر اسى انتظار ميں مرجاؤگے تو پيغمبراكرم(ص) ، على (ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) اور على بن الحسين كى بارگاہ ميں پہنچو گے … اور اگر زندہ رہ جاؤگے تو اسى دنيا ميں وہ دن ديكھو گے كہ تمہارى آنكھيں روشن ہوجائيں گى اور اس دنيا ميں ہمارے ساتھ ہمارے پہلو ميں بلند ترين جگہ پاؤگے … 21

اس طرح كے بيانات اس كھٹن ماحول ميں دل انگيز خواب كى طرح نظام اسلامى اور حكومت علوى كى تشكيل كے لئے شيعوں كے ستم رسيدہ دلوں ميں اميد كى كرن اور متحرك كرنے والى لہر پيدا كرتے اور آئندہ كے لئے اس بات كو يقينى اور نہ ٹلنے والى صورت ميں پيش كرتے تھے_

امام (ع) كى يہ روش اس بات كا نمونہ ہے كہ حضرت كا تعلق اپنے نزديكى اصحاب سے كيسا تھا، اور يہ روش ايك دوسرے سے منظم اور مرتب رابطہ كى نشاندہى بھى كرتى ہے_ يہى وہ حقيقت تھى جو خلافت كى مشينرى كو ردّ عمل ظاہر كرنے پر ابھارتى تھي_

ہشام كى خلافت كى مشينرى جس كو بلاذرى اموى خلفاء ميں مقتدر ترين خليفہ جانتا ہے _ اگر امام محمد باقر (ع)كے ساتھ سختى سے پيش آتى تھى تو اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ كى روش اورعمل ميں ہشام اپنے لئے ايك قسم كى تہديد ديكھ رہا تھا اور آپ كا وجو اس كے لئے ناقابل تحمل تھا_

يہ بات ناقابل ترديد ہے كہ اگر امام محمد باقر (ع)فقط علمى زندگى ميں سرگرم عمل رہتے اور تنظيم سازى كى فكر نہ كرتے تو خليفہ اپنے لئے اس بات ميں صلاح نہيں سمجھتا كہ وہ سخت گيرى اور شدّت كے ساتھ آپ كو سخت مقابلہ كے لئے بھڑ كائے اور نتيجتاً آپ كے دوستوں اور معتقدين كو _ جن كى تعداد كم بھى نہ تھى _ اپنے اوپر ناراض اور اپنى مشينرى سے ناخوش كر لے_

 

امام محمد باقر(ع) كے مكتب فكر كے پروردہ افراد

امام محمد باقر (ع)كے مكتب فكر ميں مثالى اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائي تھى ان ميں سے كچھ افراد كى طرف اشارہ كيا جارہا ہے_

1_ابان ابن تَغلب: ابان ابن تغلب نے تين اماموں كى خدمت ميں حاضرى دى تھے_ چوتھے امام(ع) ، پانچويں امام(ع) اور چھٹے امام (ع) ابان اپنے زمانہ كى علمى شخصيتوں ميں سے ايك تھے، تغيرحديث، فقہ، قرائت اور لغت پر آپ كو تسلط حاصل تھا_ ابان كى فقہى منزلت كى وجہ ہى سے امام محمد باقر(ع) نے ان سے فرمايا كہ مدينہ كى مسجد ميں بيٹھو اور لوگوں كے لئے فتوى دو تا كہ لوگ ہمارے شيعوں ميں تمہارى طرح كے ميرے پيروكار كو ديكھيں_ 22

جب امام جعفر صادق _نے ابان كے مرنے كى خبر سنى تو آپ نے فرمايا كہ خدا كى قسم ابان كى موت نے ميرے دل كومغموم كرديا ہے_ 23

2_زرارہ ابن اَعيُن: شيعہ علمائ، امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق _كے شاگردوں ميں سے چھ افراد كو برتر شمار كرتے ہيں اور زرارہ ان ميں سے ايك ہيں_ امام جعفر صادق _فرماتے ہيں كہ اگر برير ابن معاويہ، ابوبصير، محمد ابن مسلم اور زرارہ نہ ہوتے تو آثار نبوت مٹ جاتے، يہ لوگ حلال و حرام خدا كے امين ہيں_ 24 اور پھر فرماتے ہيں: برير، زرارہ ، محمد ابن مسلم اور احول، زندگى اور موت ميں ميرے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہيں_

3_كُمَيت اسدى : ايك انقلابى اور با مقصد شاعر تھے ان كى زبان گويا آپ كى شاعرى دفاع اہل بيت(ع) كے سلسلہ ميں لوگوں كو جھنجوڑنے والى اور ( دشمنوں كو) اس طرح ذليل كرنے والى تھى كہ دربار خلافت كى طرف سے مستقل موت كى دھمكى دى جاتي_ كُمَيت امام محمد باقر (ع)كے شيدائي تھے اور محبت كے اس راستہ ميں انہوں نے اپنے كو فراموش كرديا تھا ايك دن امام (ع) كے سامنے امام كى مدح ميں كہے جانے والے مناسب اشعار پڑھ رہے تھے كہ امام(ع) نے كعبہ كى طرف

 

رخ كيا اور تين بار فرمايا: خدايا كُمَيت پر رحمت نازل فرما_ پھر كُمَيت سے فرمايا اپنے خاندان سے ميں نے ايك لاكھ درہم تمہارے لئے فراہم كئے ہيں_

كُمَيت نے كہا” ميں سيم و زر كا طالب نہيں ہوں فقط اپنا ايك پيراہن مجھے عطا فرمائيں_ امام(ع) نے پيراہن ان كو ديديا _ 25

4_محمد بن مسلم فقيہ اہل بيت: امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام كے سچے دوستوں ميں سے تھے آپ كوفہ كے رہنے والے تھے ليكن امام كے علم بيكراں سے استفادہ كرنے كے لئے مدينہ تشريف لائے_

عبداللہ ابن ابى يعفور بيان كرتے ہيں:” ميں نے امام جعفر صادق _سے عرض كيا كہ كبھى مجھ سے سوالات ہوتے ہيں جن كا جواب ميں نہيں جانتا اور آپ تك بھى نہيں پہنچ سكتا_ آخر ميں كيا كروں؟ امام(ع) نے محمد ابن مسلم كا نام بتايا اور فرمايا كہ :” ان سے كيوں نہيں پوچھتے؟” 26

كوفہ ميں رات كے وقت ايك عورت محمد ابن مسلم كے گھر آئي اور اس نے كہا، ميرى بہو مرگئي ہے اور اس كے پيٹ ميں زندہ بچہ موجود ہے ہم كيا كريں؟

محمد ابن مسلم نے كہا:” امام محمد باقر (ع)نے جو فرمايا ہے اس كے مطابق تو پيٹ چاك كركے بچہ كو نكال لينا چاہئے اور پھر مردہ كو دفن كردينا چاہئے_

پھر محمد ابن مسلم نے اس عورت سے پوچھا كہ ميرا گھر تم كو كيسے ملا؟ عورت بولي: ” ميں يہ مسئلہ ابو حنيفہ كے پاس لے گئي انہوں نے كہا كہ ميں اس بارے ميں كچھ نہيں جانتا، ليكن تم محمد ابن مسلم كے پاس جاؤ اور اگر وہ فتوى ديديں تو مجھے بھى بتادينا … 2

7شہادت كے بعد مبارزہ

امام محمد باقر (ع)كى رہبرى كا 19 سالہ زمانہ نہايت دشوار حالات اور ناہموار راہوں ميں گذرا_ آخر ميں آپ كى كم مگر پر بركت عمر كے اختتام كا وقت آيا تو اس شعلہ ور مركز كے گرم خاكستر سے

آپ نے اپنى آخرى برق اموى سلطنت كى بنياد پر گرداي_

امام نے اپنے بيٹے امام جعفر صادق _كو حكم ديا كہ ان كے پيسوں ميں سے ايك حصہ ( 800 درہم) دس سال كى مدت تك عزادارى اور ان پر گريہ كرنے ميں صرف كريں_ عزادارى كى جگہ ميدان منى اور عزادارى كا زمانہ حج كا زمانہ ہے_ 28

حج كا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا دوستوں كى وعدہ گاہ ہے_ اگر كوئي پيغام ايسا ہو كہ جسے تمام عالم اسلام تك پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور كوئي نہيں ہے_ حج كے اعمال مسلسل چند دنوں تك متعدد مقامات پر انجام پاتے ہيں اور يہ ظاہر ہے كہ سب سے زيادہ مناسب جگہ منى ہے چونكہ عرفات سے واپسى پر حاجى تين راتوں تك وہاں ٹھہرتے ہيں، اس لئے آشنائي اور ہمدردى كے لئے سب جگہوں سے زيادہ موقع وہيں ملتا ہے_ اور يہ طبيعى بات ہے كہ اگر ان تين دنوں ميں اس بيابان ميں ہر سال مجلس عزا برپا ہو تو ہر آدمى كى نظر اس پر پڑے گى اور آہستہ آہستہ لوگ اس سے آشنا ہوجائيں گے اور خود ہى سوال كرنا شروع كرديں گے كہ ” كئي برسوں سے مدينہ كے كچھ لوگ _ وہ مدينہ جو مركز اسلام اور مركز صحابہ ہے _ حج كے زمانہ ميں منى ميں مجلس عزا برپا كرتے ہيں وہ بھى عالم اسلام كى بلند شخصيت محمد ابن على ابن الحسين كے لئے تو كيا ان كى موت طبيعى نہ تھي؟ ان كو كس نے قتل كيا يا زہر ديا ہے؟ اور كيوں؟ آخر انہوں نے كيا كہا اور كيا كيا؟ كيا اس كا كوئي سبب تھا اور ان كى كوئي دعوت تھي؟ كيا ان كا وجود خليفہ كے لئے خطرہ كا باعث تھا؟ دسيوں ابہام اس كے پيچھے دسيوں سوالات اور جستجو والى باتيں اور پھر صاحبان عزا يا اطلاع ركھنے والے ان لوگوں كى طرف سے، جو اس پراگندہ جمعيت ميں شريك تھے، جوابات كا ايك سيلاب_

يہ تھا امام محمد باقر (ع)كا كامياب نقشہ، شہادت كے بعد جہاد كا نقشہ اور يہ ہے اس پُر بركت زندگى كا وجود جن كى موت اور زندگى خدا كے لئے ہے_

امام _كى شہادت

7 ذى الحجہ 114 ھ ق كو 57 برس كى عمر ميں ظالم اموى بادشاہ ہشام بن عبدالملك كے ہاتھوں سے حضرت امام محمد باقر (ع)مسموم اورشہيد ہوئے_ 29

شہادت كى رات آپ نے اپنے فرزند حضرت جعفر ابن محمد _سے فرمايا كہ ” ميں آج كى رات اس دنيا كو چھوڑ دونگا_ ميں نے ابھى اپنے پدر بزرگوار كو ديكھا ہے كہ وہ خوشگوار شربت كا جام ميرے پاس لائے ہيں اور ميں نے اس كو پيا اور انہوں نے مجھے سرائے جاويد اور ديدار حق كى بشارت دي_

امام جعفر صادق _نے اس خدا داد علم كے دريائے بيكراں كے تن پاك كو امام حسن مجتبى (ع) اور امام زين العابدين كے پہلو ميں قبرستان بقيع ميں سپرد خاك كيا_

 

تبصرے
Loading...