امام علے(ع) اور دنیا

حوزہ نیوز ایجنسی| نہج البلاغہ جو کلام  امیر المؤمنین ؑ پر مشتمل سید رضیؒ کی تالیف کردہ  کتاب ہے جب ہم اس کتاب کے خطبات  پر با دقت نظر ڈالتے ہیں۔

تو تمام خطبات میں ایک ایسا موضوع جو تمام مطالب  میں مشترک نظر آتا ہے  وہ ہے  دنیا ، “دنیا “یعنی موجودہ زندگی،

جب ہم حضرت امیرؑ سے دنیا کی تعریف و توصیف پوچھتے ہیں تو آپؑ دو سطر کی عبارت اور عمدہ تعبیر میں دنیا کے چہرے کو بے نقاب اور اس کی حقیقت یو ں بیان فرماتے ہیں : دنیا کی مثال ایک  سانپ کی سی ہے کہ جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے  مگر اسکےاندر زہر ہلاہل  بھرا  ہوتاہے فریب خوردہ  جاہل  اسکی طرف کھینچتاہےاور ہوشمند و  دانا  اس سے بچ کر رہتا ہے(حکمت ۱۱۹)

دنیا اپنی تمام تر خوبی اور زیبائی کے ساتھ آپکےؑ در دولت  پر آتی رہی جب کہ   غلامان دنیا  طوق غلامی کو اپنی گردن میں ڈالنے کو تیار تھے اور ڈالتے رہےہیں مگر آپؑ نے کبھی بھی اس کے لئے دل کا  دروازہ نہ کھولا اور عنایت خدا و تدبیر عملی کے ذریعہ اپنے لئے اس کے دروازہ کو بند رکھا، آپ ؑ کی خالصتا الہی زندگی کے بارے میں انصار کے ایک شخص ضرار بن حمزہ انصبائی نے  شام میں معاویہ کے بھرے دربار میں  آپ کے فضائل و کمال اس طرح بیان  کیا کہ میں نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ محراب عبادت میں کھڑ ے ہوے،  ریش مبارک پکڑے ہوے  اس طرح تڑپ رہے تھے جیسے سانپ کا کانٹا تڑپتا ہے اور غمزدہ پریشان حال گریہ کرتا ہے ساتھ ہی فرماتے جاتے ہیں اے دنیا اے دنیا مجھ سے دور ہوجا  تو میرے سامنےزبیائی وخوبصورتی کے ساتھ آئی ہے یا میری واقعا مشتاق بن کر آئی ہے؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے ،جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے میں تجھے تین طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی سوال ہی نہیں ، تیری زندگی بہت تھوڑی اور حیثیت بہت معمولی ہے تیری امید بہت حقیر اور زادسفر کس قدرکم ہے، راستہ کس قدر طولانی  اور منزل کس قدر دور ہے اور وارد ہونے کی جگہ کس قدر خطرناک ہے(حکمت ۷۷)

امیرالمؤمنین حضرت  علی بن ابی طالب کا  جہاں رات کی تاریکی میں حضور الہی میں استقلال و ثبات قدمی اور دنیا کے فریب  سے محفوظ رہنے کے لئے ہے وہیں تمام افراد جہان کے لئے ایک درس عمل ہے  کہ انسان کو زندگی کے ہر لمحہ و مرحلہ میں خدا سے  لو لگا کر دنیا کے دام و فریب سےمحفوظ رہنے کے لئے اس کی پناہ مانگنی چاہیے یہ عمل جس طرح  مقام و منزلت  سے پہلے ضروری ہیں اس سے کہیں زیادہ مقام منزلت پر پہونچنے کےبعد ضروری ہے کیونکہ مقام و منزلت  کی رسائی پر لغزش و گمراہی کےاسباب وامکان بڑھ جاتے ہیں  جس کا مشاہدہ ہم اور آپ آج کل کی دنیا میں خوب دیکھ سکتے ہیں کہ جرائم  پیشہ افراد کس طرح اپنی طاقت و اقتدار  سے سوء استفادہ کرتے ہیں۔

ایک دوسرے مقام پر  آپؑ فرماتے ہیں: خدا کی قسم  تمہاری دنیا میری نگاہ میں سور کی ہڈی سے بدتر ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہو(حکمت۲۳۶)

ایک  تو سور کی ہڈی وہ  بھی کوڑھی کے ہاتھ میں ، طبعیتا دونوں چیزوں سے انسان کراہت کرتا ہے اور اختیاری صورت میں  کبھی بھی اس کے  نزدیک ہونا پسند نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ مجبوری و ضرورت کی بنا پر۔

کبھی دنیا سے بے رغبتی کا اظہار  اور نشان دہی اس طرح فرماتے  ہیں” اے  دنیا میرا پیچھا چھوڑ دے۔ تیری باگ ڈور تیرے کاندھے پر ہے میں  تیرے پنجوں سے نکل  چکا ہوں تیرے پھندوں سے باہر آچکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تیرے پھندوں سے  بچ کر رہے گا  توفیق سے ہمکنار ہوگا( مولا ؑکے ایک صحابی نے پوچھ لیا مولاؑ  آپ ہمیشہ اس دنیا کی برائی کرتے رہتے کیا آپ دنیا سے کوئی چیز پسند بھی کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا مجھے اس دنیا سے چھ چیز یں  بہت پسند ہے، مولا ؑ وہ چھ چیز کون سی ہیں؟  آپ فرماتے ہیں :اس دنیا  میں دو قدم، دو گھونٹ، دو قطرے، بہت پسند ہیں مولاؑ کے اس جواب نے تمام صحابہ کو مزید  حیرت و تعجب میں ڈال دیا۔

ایک صحابی نے پوچھا مولاؑ وہ چھ چیزیں کیا ہیں؟ امیر کائنات ؑنے ایک الگ اور عجیب انداز میں جواب دیا۔

دو قدم وہ ہیں جس میں پہلا  قدم جو کسی عبادت کے لئے اٹھایا جائے اور دوسرا قدم وہ ہے جو کسی  رشتہ دار عزیز دوست کی خیریت معلوم کرنے یا  مزاج پرسی کے لئے ملاقات کی غرض سے اٹھایا جائے۔

دو گھوٹ وہ ہے  جس میں پہلا جو غصہ کو ٹالنے کے لئے پیا جاتا ہے اور دوسرا وہ ہے جوصبر کرتے ہوئے پیا جاتا ہے۔

دوقطرے وہ ہیں جس میں پہلا وہ قطرہ جو کسی شہید کے جسم سے گرتا ہے، دوسرا قطرہ وہ ہے جو کسی  گناہ گار کے توبہ کے وقت شرمندگی وپچھتاوے کے  ساتھ آنکھ سے آنسو کی  صورت میں نکلتا  ہے)۔۔ خدا کی قسم میں اپنے نفس  کو ایسا سدھاروں گا کہ وہ کھانے میں ایک روٹی کے ملنے پر  خوش ہو جائے اور اسکے ساتھ صرف نمک پر قناعت کرے۔

یہ آخری جملہ میں ایک بڑا پیغام ہے جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے کہ  نفس میں تربیت کی صلاحیت ہے اس کی جیسی تربیت کی جائے گی ویسا ہی نتیجہ سامنے آ ئےگا، اگر نفس کو قناعت پسند بنایا تو  وہ قناعت پسند بن  جائے گی اور اگر اس کو ہوا و ہوس کا تابع و بنایا تو نتیجہ میں حرص لالچ لے کےآئیگی ،یہ سجی  سنوری اور نیرنگ و فریب دینے والی دنیا سے اس طرح  برائت  و دوری اختیار کرنا اور تین طلاق دےکر اپنے سے جدا کردینا صرف اور صرف اسی کا کارنامہ ہو سکتا ہے جس نے  راہ خدا  میں آپ نے نفس کو بیچ کر آزادی خرید لی ہو۔

حضرتؑ کی دعا و مناجات بارگاہ الہی میں اظہار عبدیت اور  ہم سب کے لئے درس عمل ہے ورنہ آپؑ کی زندگی میں تو تصور گناہ بھی محال ہے۔

تحریر: جاوید مصطفوی، قم ایران

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...