امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں

خدمت خلق کرنے والے انسان ،آپکی یتیم پروری و غریب نوازی سے سبق حاصل کرتے ہیں دنیا کے معروف حکمران و سیاستمدار کو فہ کے گورنر مالک اشتر کے نام آپ کے لکھے ہو ئے خط کو عادلانہ اور منصفانہ سیاسی نظام کا منشور سمجھتے ہیں دنیا ئے قضاوت آج بھی آپکے مخصوص طریقہٴ کا ر کی قضاوت اور مسائل کو حل و فصل کے انداز سے انگشت بدندان ہے انسانی سماج کے کسی بھی طبقہ سے وابستہ جو بھی فرد آپکے

خدمت خلق کرنے والے انسان ،آپکی یتیم پروری و غریب نوازی سے سبق حاصل کرتے ہیں دنیا کے معروف حکمران و سیاستمدار کو فہ کے گورنر مالک اشتر کے نام آپ کے لکھے ہو ئے خط کو عادلانہ اور منصفانہ سیاسی نظام کا منشور سمجھتے ہیں دنیا ئے قضاوت آج بھی آپکے مخصوص طریقہٴ کا ر کی قضاوت اور مسائل کو حل و فصل کے انداز سے انگشت بدندان ہے انسانی سماج کے کسی بھی طبقہ سے وابستہ جو بھی فرد آپکے در پر آیا فضل و کمالا ت کے ایک عمیق دریا سے روبرو ہو ا اور زبان حال سے سب نے یہ شعر پڑھا :
رن میں غازی کھیت میں مزدور منبر پرخطیب اللہ اللہ کتنے رخ ہیں ایک ہی تصویر میں
یہ جارج جر داق ہے ایک مسیحی صاحب قلم اور ادیب، علی کی ذات سے اس قدر متاٴثر ہے کہ زمانے سے ایک اور علی پیدا کرنے کی یو ں فریاد کرتا ہے :
” اے زمانے ! تیرا کیا بگڑتا اگر تو اپنی پوری توانائی کو بروی کار لاتا اور ہر عصر و زمانے میں علی جیسا وہ عظیم انسان عالم بشریت کو عطا کرتا جو علی کے جیسی عقل، علی جیسا دل، علی کے جیسی زبان اور علی کے جیسی شمشیر رکھنے والا ہوتا”[1]
اور یہ شکیب ارسلان ہے عصر حاضر میں دنیائے عرب کا ایک معروف مصنف و صاحب قلم لقب بھی “امیر البیان ” ہے مصر میں ان کے اعزاز میں ایک سمینار بلا یا گیا اسٹیج پر ایک صاحب نے یہ کہا کہ تا ریخ اسلام میں دوشخص اس بات کے لائق ہیں کہ ان کو “امیر سخن “کہا جا ئے ایک علی بن ابیطالب اور دوسرے شکیب ارسلان ،شکیب ارسلان یہ سنکر غصہ ہو تے ہیں اور فوراً کھڑے ہو کر اسٹیج پر آتے ہیں اور اس شخص پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“میں کہاں ! اور علی بن ابیطالب کی ذات والا کہاں! میں تو علی کا بند کفش بھی شمار نہیں ہو سکتا ہوں۔ “[2]

شہید مطہری جو کہ عصر حاضر میں عالم اسلام کے فکری، علمی اور اصلاحی مفاخر میں سے ایک قیمتی سرمایہ شمار ہو تے ہیں آپ نے اپنے تمام آثار و کتب میں ایک منفرد اور نئے انداز میں علی کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے آپ نے تمام مباحث اور مو ضوعات میں چاہے وہ فلسفی ہوں یا عرفانی اخلاقی ہوں یا اجتماعی، سیاسی ہوں یا ثقافتی، تربیت سے متعلق ہوں ہو یا تعلیم سے، کلام ہو یا فقہ، جامعہ شناسی ہو یا علم نفسیات، ہر موضوع کے سلسلے میں علی کی ذات، شخصیت گفتار و کردار کو بطور مثال پیش کیا اور علی کی زندگی کے ان پہلووٴں کو اجاگر کیا ہے کہ جن کے بارے میں کسی نے آج تک نہ کچھ لکھا ہے اور نہ کچھ کہا ہے ۔

 
تلخ اعتراف :

آپ نے اپنے آثار و کتب میں جا بجا اس بات کا افسوس کیا ہے کہ وہ قوم جو کہ علی کی پیروی کا دم بھرتی ہے نہ وہ خود علی کی شخصیت سے آشنا ہے اور نہ وہ دوسروں کو علی سے آشنا کرا سکی آپ فر ما تے ہیں “ہم شیعوں کو اعتراف کر نا چاہیئے کہ ہم جس شخصیت کی پیروی پر افتخار کرتے ہیں اس کے بارے میں ہم نے دوسروں سے زیادہ ظلم یا لا اقل کو تا ہی کی ہے حقیقت یہ ہے کہ ہماری کو تا ہی بھی ایک ظلم ہے ہم نے علی کی معرفت اور پہچان یا نہیں کرنا چاہی یا ہم پہچان نہیں کر سکے، ہمارا سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ ان احادیث و نصوص کو دہراتے ہیں جو پیغمبر نے آپ کے بارے میں ارشاد فرما ئے ہیں اور ان لو گوں کو سب و شتم کرتے ہیں جو ان احادیث کا انکار کرتے ہیں ہم نے علی کی حقیقی شخصیت پہچاننے کے بارے میں کو ئی کوشش نہیں کی[3]
اس مضمون میں ہم علی کی زندگی کے بعض اہمترین پہلووٴں اور گو شوں کا ذکر کریں گے جن پر شہید مطہری نے ایک خا ص اور جدید انداز میں بحث کی ہے، کہا جا سکتا ہے کہ ان گو شوں پر بحث کرنا آپ کی فکر کا ابتکار ہے۔

 
علی انسان کامل :

دنیاکے تقریباً تمام مکاتب فکر میں انسان کامل کا تصور پا یا جا تا ہے اور سب نے زمانہ قدیم سے لیکر آج تک اس موضوع کے بارے میں بحث کی ہے فلسفی مکاتب ہو ں یا عرفانی، اجتماعی ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا دوسرے دیگر مکاتب سب نے انسان کا مل کا اپنا اپنا ایک خاص تصور پیش کیا ہے انسان کامل یعنی مثالی انسان، نمونہ اور آئیڈیل انسان۔ اس بحث کی ضرورت اس لئے ہے کہ انسان ایک آئیڈیل کا محتاج ہے اور انسان کا مل اس کے لئے ایک بہترین نمونہ اور مثال ہے جس کو سامنے رکھکر زندگی گذاری جا سکتی ہے ۔یہ انسان کا مل کو ن ہے ؟ اس کی خصوصیا ت اور صفات کیا ہیں ؟ اس کی تعریف کیا ہے ؟ان سوالا ت کا جواب مختلف مکاتب فکر نے دیا :
فلاسفہ کہتے ہیں انسان کامل یعنی وہ انسان ہے جسکی عقل کمال تک پہونچی ہو ۔
مکتب عرفان کہتا ہے انسان کا مل وہ انسان ہے جو عاشق محض ہو (عاشق ذات حق )
سو فسطائی کہتے ہیں کہ جسکے پاس زیادہ طاقت ہو وہی انسان کامل ہے ۔
سوشلیزم میں اس انسان کو انسان کا مل کہا گیا ہے جو کسی طبقہ سے وابستہ نہ ہو خاص کر اونچے طبقہ سے وابستہ نہ ہو
ایک اور مکتب بنام مکتب ضعف یہ لوگ کہتے ہیں انسان کامل یعنی وہ انسان جسکے پاس قدرت و طاقت نہ ہو، اس لئے کہ قدرت تجاوز گری کا موجب بنتی ہے ۔
شہید مطہری فرماتے ہیں ان مکاتب میں انسان کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے اور اسی پہلو میں کمال اور رشد حاصل کرنے کو انسا ن نام اور کا کمال سمجھا گیا جبکہ انسان مختلف ابعاد و پہلو کا نا م ہے۔ انسان میں بہت سی خصوصیات پائی جا تی ہیں جن تمام پہلووٴں اور خصوصیات کا نام انسان ہے لہذا صرف ایک پہلو کو نظر میں رکھنا ان سب مکاتب کا مشترکہ عیب اور نقص ہے ۔

 
شہید مطہری کی نظر میں انسان کامل :

آپ انسان کامل کی تعریف یو ں کرتے ہیں کہ “انسان کامل یعنی وہ انسان جسمیں تمام انسانی کمالات اور خصوصیات نے بحد اعلی اور تناسب و توازن کے ساتھ رشد پایا ہو ۔”[4]
“انسان کامل یعنی وہ انسان جو تمام انسانی قدروں کا ہیرو ہو ،وہ انسان جو انسانیت کے تمام میدانوں میں مر د میداں اور ہیرو ہو۔”[5]
“انسان کامل یعنی وہ انسان جس پر حالات و واقعات اثر انداز نہ ہوں “[6]

 
علی کیوں انسان کامل ہیں ؟

شہید مطری اس بات کی تاکید کر تے ہیں کہ علی بن ابیطالب پیغمبر اکرم کے بعد انسان کامل ہیں آپ بیان کرتے ہیں کہ:
“علی انسان کامل ہیں اس لئے کہ آپ میں انسانی کمالات و خصوصیات نے بحد اعلی اور تناسب و توازن کے ساتھ رشد پا یا ہے “[7]
دوسری جگہ آپ نے فرمایا :
“علی قبل اس کے کہ دوسرے کے لئے امام عادل ہوں اور دوسروں کے ساتھ عدل سے کام لیں خودآپ شخصاً ایک متعادل و متوازن انسان تھے آپ نے تمام انسانی کمالات کو ایک ساتھ جمع کیا تھا آپ کے اند ر عمیق اور گہرا فکر و اندیشہ بھی تھا اور لطیف و نرم انسانی جذبات بھی تھے کمال روح و کمال جسم دونوں آپ کے اندر پا ئے جا تے تھے رات کو عبادت پروردگار میں یو ں مشغول ہو جا تے تھے کہ ماسوا اللہ سب سے کٹ جاتے تھے اور پھر دن میں سماج کے اندر رہ کر محنت و مشقت کیا کیا کرتے تھے دن میں لو گوں کی نگاہیں آپ کی خدمت خلق، ایثار و فداکاری دیکھتی تھیں اور ان کے کان آپ کے موعظہ، نصیحت اور حکیمانہ کلام کو سنتے تھے رات کو ستارے آپ کے عابدانہ آنسووٴں کا مشاہدہ کرتے تھے اور آسمان کے کان آپ کے عاشقانہ انداز کے مناجات سنا کرتے تھے ۔آپ مفتی بھی تھے اور حکیم بھی ،عارف بھی تھے اور سماج کے رہبر بھی، زاہد بھی تھے اور ایک بہترین سیاستمدار بھی، قاضی بھی تھے اور مزدور بھی، خطیب بھی تھے اور مصنف بھی خلاصہ آپ ہر ایک جہت سے ایک انسان کامل تھے اپنی تمام خوبصورتی اور حسن کے ساتھ۔”[8]
آپ نے علی کے انسان کامل ہو نے پر بہت سی جگہوں پر بحث کی اور متعدد دلیلیں پیش کیں ہیں آپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “ہم لوگ علی کو انسان کامل کیوں سمجھتے ہیں ؟ اس لئے کہ آپ کی “میں “”ہم “میں بدل گئی تھی اس لئے کہ آپ اپنی ذات میں تمام انسانوں کو جذب کرتے تھے آپ ایک ایسی فردانسان نہ تھے جو دوسرے انسانوں سے جداہو ؛نہیں !بلکہ آپ اپنے کو ایک بدن کا ایک جزء، ایک انگلی، ایک عضو کی طرح محسوس کرتے تھے کہ جب بدن کے کسی عضو میں درد یا کو ئی مشکل آتی ہے تو یہ عضو بھی درد کا احساس کرتا ہے ۔[9]
“جب آپ کو خبر دی گئی کہ آپ کے ایک گورنر نے ایک دعوت اور مہمانی میں شرکت کی تو آپ نے ایک تیز خط اس کے نام لکھا یہ گورنر کس قسم کی دعوت میں گیا تھا ؟کیا ایسی مہمانی میں گیا تھا جہاں شراب تھی ؟یا جھاں ناچ گانا تھا ؟یا وہاں کوئی حرام کام ہو رہا تھا ؟نہیں، تو پھر آپ نے اس گورنر کو خط میں کیوں اتنی ملامت کی، آپ لکھتے ہیں :۔
گورنر کا گناہ یہ تھا کہ اس نے ایسی دعوت میں شرکت کی تھی جسمیں صرف امیر اور مالدار لو گوں کو بلایا گیا تھا اور فقر اء و غربا ء کو محروم رکھا گیا تھا [10]
شہید مطہری مختلف انحرافی اور گمراہ فرقوں کے خلاف جنگ کو بھی آپ کے انسان کامل ہو نے کا ایک نمونہ سمجھتے ہیں آپ فرماتے ہیں :
“علی کی جامعیت اور انسان کامل ہو نے کے نمونوں میں سے ایک آپ کا علمی میدان میں مختلف فرقوں اور انحرافات کے مقابلہ میں کھڑا ہو نا اور ان کے خلاف بر سر پیکار ہو نا بھی ہے ہم کبھی آپ کو مال پر ست ،دنیا پرست اور عیاش انسانوں کے خلاف میدان میں دیکھتے ہیں اور کبھی ان سیاستمدار وں کے خلاف نبرد آزما جنکے دسیوں بلکہ سیکڑوں چہرے تھے اور کبھی آپ جاہل ،منحرف اور مقدس مآب لو گوں سے جنگ کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔”[11]

 
علی میں قوت کشش بھی اور قوت دفع بھی :

شہید مطہری  انسانوں کو دوسرے انسانوں کو جذب یا دور کرنے کے اعتبار سے چارقسموں میں تقسیم کرتے ہیں :

۱)وہ انسان جن میں نہ قوت کشش ہے اور نہ قوت دفع، نہ ہی کسی کو اپنا دوست بنا سکتے ہیں اور نہ ہی دشمن، نہ لو گوں کے عشق و محبت کو ابھارتے ہیں اور نہ ہی کینہ و نفرت کو یہ لوگ انسانی سماج میں پتھر کی طرح ہیں کسی سے کو ئی مطلب نہیں ہے!

۲)وہ انسان جن میں قوت کشش ہے لیکن قوت دفع نہیں ہے تمام لو گوں کو اپنا دوست و مرید بنا تے ہیں ظا لم کو بھی مظلوم کو بھی نیک انسان کو بھی اور بد انسان کو بھی اور کو ئی انکا دشمن نہیں ہے آپ فرماتے : ایسے لو گ منافق ہو تے ہیں جو ہر ایک سے اس کے میل کے مطابق پیش ا ٓتے ہیں اورسبکو راضی کرتے ہیں لیکن ایک مذہبی انسان ایسا نہیں بن سکتا ہے وہ نیک و بد، ظالم و مظلوم دونوں کو راضی نہیں رکھ سکتا ہے ۔

۳)کچھ لو گ وہ ہیں جنمیں لوگوں کو اپنے سے دفع اور دور کرنے کی صلاحیت ہے لیکن جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے یہ لوگ ،لوگوں کو صرف اپنا مخالف اور دشمن بنانا جانتے ہیں اور بس شہید مطہری ۻ فرماتے ہیں یہ گروہ بھی ناقص ہے اس قسم کے لوگ انسانی اور اخلاقی کمالات سے خالی ہو تے ہیں اس لئے کہ اگر ان میں انسانی فضیلت ہو تی تو کو ئی نہ کو ئی ولو کتنے ہی کم تعداد میں ان کا حامی اور دوست ہو تا اس لئے کہ سماج کتنا ہی برا کیوں نہ ہو بہر حال ہمیشہ اس میں کچھ اچھے لو گ ہو تے ہیں ۔

۴)وہ انسان جن میں قوت کشش بھی ہے اور قوت دفع بھی کچھ لوگوں کو اپنا دوست و حامی، محبوب و عاشق بناتے ہیں اور کچھ لو گوں کو اپنا مخالف اور دشمن بھی، مثلاًوہ لو گ جو مذہب اور عقیدہ کی راہ میں جد و جہد کرتے ہیں وہ بعض لو گوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض کو اپنے سے دور کرتے ہیں۔ [12]

آپ فرماتے ہیں کہ ان کی بھی چند قسمیں ہیں کبھی قوت کشش و دفع دونوں قوی ہے اور کبھی دونوں ضعیف، کبھی مثبت عناصر کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور کبھی منفی و باطل عناصر کو اپنے سے دور کرتے ہیں اور کبھی اس کے بر عکس اچھے لو گوں کو دور کرتے ہیں اور باطل لو گوں کو جذب کرتے ہیں۔ پھر آپ حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ علی بن ابیطالب کس قسم کے انسان تھے آیا وہ پہلے گروہ کی طرح تھے یا دوسرے گروہ کی طرح، آپ میں صرف قوت دفع تھی یا قوت کشش و دفع دونوں آپکے اندر موجود تھیں “علی وہ انسان کامل ہیں جس میں قوت کشش بھی ہے اور قوت دفع بھی ،اور آپکی دونوں قوتیں بہت قوی ہیں شاید کسی بھی صدی میں علی جیسی قوت کشش و دفع رکھنے والی شخصیت موجود نہ رہی ہوں [13]
اس لئے کہ آپ نے حق پر ست اور عدالت و انسانیت کے دوستداروں کو اپنا گرویدہ بنایا اور باطل پرستوں، عدالت کے دشمنوں اور مکار سیاست کے پجاریوں اور مقدس مآب جیسے لوگوں کے مقابلہ کھڑے ہو کر ان کو اپنا دشمن بھی بنا یا ۔

 
حضرت علی کی قوت کشش:

آپ حضرت علی کی قوت کشش کے ضمن میں فرماتے ہیں “علی کے دوست و حامی بڑے عجیب، فداکار، تاریخی، قربانی دینے والے، آپ کے عشق میں گو یا آگ کے شعلے کی طرح سوزان و پر فروغ، آپ کی راہ میں جان دینے کو افتخار سمجھتے ہیں اور آپ کی حمایت میں ہر چیز کو فراموش کرتے ہیں آپ کی شہادت سے آج تک آپ کی قوت کشش کام کر رہی ہے اور لو گوں کو حیرت میں ڈال رہی ہے [14]
“آپ کے گر د شریف، نجیب، خدا پرست و فداکار، عادل و خدمت گذار، مہربان و ایثار گر عناصر، پروانے کی طرح چکر لگا تے ہیں ایسے انسان جن میں ہر ایک کی اپنی مخصوص تاریخ ہے معاویہ اور امویوں کے زمانے میں آپ کے عاشقوں اور حامیوں کو سخت شکنجوں کا سامنا رہا ہے لیکن ان لو گوں نے ذرہ برابربھی آپ کی حمایت و دوستی میں کو تا ہی نہیں کی اور مرتے دم تک آپ کی دوستی پر قائم رہے ۔”[15]

 
حضرت علی کی قوت کشش کا ایک نمونہ :

آپ کے با ایمان و با فضیلت اصحاب میں سے ایک نے ایک دن کو ئی خطاء کی جس کی بنا پر اس پر حد جاری ہو نی تھی آپ نے اس ساتھی کا داہناہاتھ کا ٹا، اس نے بائیں ہاتھ میں اپنے اس کٹے ہو ئے ہاتھ کو اٹھا یا اس حالت میں کہ اس کے ہاتھ سے خون جا ری تھا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا راستہ میں ایک خارجی (دشمن حضرت علی) ملا جس کا نام ابن الکواء تھا اس نے چا ہا کہ اس واقعہ سے اپنے گروہ کے فائدے اور علی کی مخالفت میں استفادہ کرے وہ بڑی نرمی کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا ارے کیا ہوا؟تمہارا ہاتھ کس نے کا ٹا ؟! عاشق علی نے اس نامراد شخص کا یوں جواب دیا :
قطع یمینی سید الوصیین و قائد الغرّالمحجلین و اولی الناس بالموٴمنین یعنی میرے ہاتھ کو اس شخص نے کاٹا جو پیغمبروں کا جانشین ہے، قیامت میں سفید رو انسانوں کا پیشوا اور مومنین کے لئے سب سے حقدار ہے یعنی علی بن ابیطالب نے، جو ہدایت کا امام، جنت کی نعمتوں کی طرف سب سے پیش قدم اور جاہلوں سے انتقام لینے والا ہے…… (بحار الانوار ج۴۰ ص ۲۸۱و ۲۸۲)
ابن الکواء نے جب یہ سنا تو کہا واے ہو تم پر اس نے تمہارے ہاتھ کو بھی کاٹا اور پھر اس کی تعریف بھی کر رہے ہو ! امام کے اس عاشق نے جواب دیا “میں کیوں اس کی تعریف نہ کروں اس کی دوستی و محبت تو میرے گو شت و خون میں جاملی ہے خدا کی قسم انھوں نے میرا ہاتھ نہیں کا ٹا مگر اس حق کی وجہ سے جو کہ خدا نے معین کیا ہے ۔تاریخ میں علی کی قوت کشش کے بارے میں اس طرح کے بہت سے واقعات مو جود ہیں آپ کی زندگی میں بھی اور شہادت کے بعد بھی ۔

 
حضرت علی کی قوت دفع :

علی جس طرح لو گو ں کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اسی طرح باطل، منافق، عدل و انصاف کے دشمنوں کو اپنے سے دور اور ناراض بھی کرتے ہیں ۔شہید مطہری فرماتے ہیں:
“علی وہ انسان ہے جو دشمن ساز بھی ہے اور ناراض ساز بھی اور آپ کے عظیم افتخارات میں سے ایک ہے ۔”[16]
اس لئے کہ جن لو گوں کے مفادات نا انصاف و غیر عادلانہ نظام کے ذریعہ حاصل ہو تے تھے وہ کبھی بھی آ پ کی عدالت و انصاف پسندی سے خوش نہیں ہو ئے۔
“لہذا آپ کے دشمن آپکی زندگی میں اگر دوستوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھے ۔”[17]
آپ اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ:
”نہ آپ کے جیسے غیرت مند دوست کسی کے تھے اور نہ آپ کے جیسے دشمن کسی کے تھے آپ نے لو گو ں کو اسقدر دشمن بنایا کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے جنازے پر حملہ ہو نے کا احتمال تھا آپ نے خود بھی اس حملہ کا احتمال دیا تھا لہذا آپ نے وصیت کی تھی کہ آپکی قبر مخفی رکھی جا ئے اور آپکے فرزندوں کے علاوہ کو ئی اس سے با خبر نہ ہو ایک صدی گذرنے کے بعد امام صادق علیہ السلام نے آپ کی قبر کا پتہ بتا یا”[18]

[1]صدائے عدالت انسانی جلد ۳ ص ۲۴۷
[2]سیری در نہج البلاغہ صفحہ ۱۹ و ۲۰
[3]سیری در نہج البلاغہ صفحہ۳۸ و ۳۹
[4]انسان کامل ص۱۵
[5]انسان کامل ص۵۹
[6]وہی صفحہ ۷۵۴
[7]وہی صفحہ ۴۳
[8]جاذبہ و دافعہ علی ص۱۰
[9]گفتار ہای معنوی ص ۲۲۸
[10]گفتار ہای معنوی ص ۲۲۸
[11]جاذبہ و دافعہ علی ص ۱۱۳
[12]جاذبہ و دافعہ علی ۲۱ تا ۲۸
[13]وہی مدرک ص ۳۱
[14]وہی مدرک ص ۳۱
[15]وہی مدرک ص ۳۱
[16]جاذبہ و دافعہ علی ص ۱۰۸
[17]جاذبہ و دافعہ علی ص ۱۰۸
[18]جاذبہ و دافعہ علی ص

تبصرے
Loading...