امام زمان (عج) میں شہود غیبت کی تجلی

دنیا کے تمام تر کلمات یا دائرہ شہود یا دائرہ غیب میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد بار شہود و غیب کے عنوان کا ذکر آیا ہے اور اللہ تعالی کو عالم الغیب والشھادۃ کے عنوان سے پکارا گیا ہے ۔ شہود سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جنہیں حوا

دنیا کے تمام تر کلمات یا دائرہ شہود یا دائرہ غیب میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد بار شہود و غیب کے عنوان کا ذکر آیا ہے اور اللہ تعالی کو عالم الغیب والشھادۃ کے عنوان سے پکارا گیا ہے ۔
شہود سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جنہیں حواس ظاھریہ سے درک کیا جاسکتا ہو جبکہ غیب سے مراد وہ اشیا کہ جو انسانی آنکھ سے دور ہیں گویا حواس ظاھریہ اسے درک کرنے سے عاجز ہیں ۔

عالم شہود میں غیب کی کثرت

پروردگار عالم کے مظاھر قدرت میں سے بہت سی غیب چیزیں بھی ہیں کہ جو اس عالم شہود کے ظاھر و باطن میں موجود ہیں یہ بات ان لوگوں کے نظریہ کی رد میں ہے کہ جو کائنات کو محض مادی اور چند عناصر کا مجموعہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو انہیں محسوس اور نظر آنے والی چیزوں میں سے بہت سی غیب اشیاء بھی پوشیدہ ہیں مثلا بدن انسان کو ہی لیجئے جو کہ عالم مادہ و شہود سے تشکیل پایا ہے لیکن اس میں پائی جانے والی روح یقینا عالم غیب میں سے ہے، اس طرح انسان درد محسوس کرتا ہے لیکن مرکز اور میزان درد عالم غیب میں سے ہے انسان جتنا بھی درد محسوس کرے کبھی بھی کسی کو اپنا درد نہیں دکھا سکتا، علم طب جس قدر بھی ترقی کرجائے درد کی صورت جو کہ عالم غیب میں سے ہے اسے کبھی بھی عالم شہود میں نہیں لاسکتے۔

سلسلہ امامت میں غیب و شہود کے مظاھر:

امامت کے مقدس سلسلہ میں بھی ہم انہیں دو چیزوں کو دیکھتے ہیں ،امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے لیکر امام حسن عسکری علیہ السلام تک سب کے سب عالم شہود کے مظاھر تھے ،یعنی لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھے اور لوگ ان کے نورانی چہروں کی زیارت کرتے تھے اور ان کے با برکت وجود سے خوب فیض یاب ہوتے تھے ۔
جبکہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ، ولی عصر امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف عالم غیب کے مظہر ہیں کہ لوگ ان کے دیدار اور فیض سے محروم ہیں، اگرچہ بعض خاص لوگوں کے لئے خاص حالات میں آپ کا وجود بھی عالم شہود میں سے ہے لیکن عام طور پر ہم جیسے لوگوں کے لئے آپ عالم غیب میں سے ہیں۔
جیسا کہ اس آیۃ مبارکہ ذلک الکتاب لاریب فیه ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب (سورہ بقرہ آیت ۱،۲)
ترجمہ: (قرآن) وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لئے (یہ) ہدایت ہے (اور متقین) وہ لوگ ہیں کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
اس آیہ میں وہ غیب کہ جسے اللہ تعالی نے متقین کی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے اس کی حضرت ولی عصر امام زمان کے وجود مبارک کے ساتھ بھی تفسیر ہوئی ہے یا یہ کہ آپ کو اس غیب کا اہم مصداق اور فرد شمار کیا گیا ہے ،جیسا کہ عظیم مفسر قرآن مرحوم علامہ طبرسی اسی آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: وہ جو ہمارے علماء کرام امام زمانہ کی غیبت اور ان کے ظہور کے بارے میں روایت کرتے ہیں وہ غیب شمار ہوگا (طبرسی تفسیر مجمع البیان ج۱ ص ۳۸)
اور داوود رقی روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی اس کلام: الذین یومنون بالغیب کے بارے میں فرماتے ہیں من اقر بقیام القائم انه حق (کمال الدین ص ۳۴۰)
یعنی وہ غیب پر ایمان رکھتا ہے کہ جو حضرت قائم کے قیام اور ظہور کا اقرار کرے اور اسے حق سمجھے، اسی لئے تو امام زمانہ کو تمام آئمہ معصومین میں سے غائب کا لقب ملا، البتہ یہ تو توجہ رہے کہ امام زمانہ کا غائب ہونا فقط ہماری نگاہوں کے اعتبار سے ہے وگرنہ آپ اذن الھی سے ذرہ ذرہ کائنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لوگوں کے احوال سے خوب واقف ہیں، بعض اوقات لوگوں کی محفلوں اور مجالس میں بھی شریک ہوتے ہیں، ان سے بات بھی کرتے ہیں اگرچہ لوگ متوجہ نہیں ہوتے ،جیسا کہ ہم دعائے ندبہ کے ایک جملہ میں پڑھتے ہیں: بنفسی انت من مغیب لم یخل منا ،اس پس پردہ پر میری جان فدا ہو جو ہم سے دور نہیں ہیں ۔

عالم غیب میں امام زمانہ کے رفقاء:

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام زمان( عج )عالم غیب میں ہیں اور ہم لوگوں کی ظاھری نگاہوں سے اوجھل ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہوگا کہ اس عالم غیب میں آپ کے اصحاب اور رفقاء بھی ہیں یا آپ تنہا ہیں؟ آپ کی زیارت کے بعض جملات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اس عالم غیب میں کچھ اصحاب اور خدام ہیں کہ جو آپ کے وجود مقدس کے جوار میں رہتے ہیں (اللهم صلی علیه و علی خدامه و اعوانه علی غیبته و نایه، مفاتیح الجنان تیسری زیارت)اور بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کہ جو خود بھی عالم غیب میں سے ہیں یعنی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں لیکن زندہ ہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ مربوط ہیں حضرت خضر علیہ السلام اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے درمیان تعلق ، انس اور دوستی ثابت شدہ چیز ہے۔
احمد بن اسحاق قمی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ آپ سے آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین کے بارے میں آگاہ ہو تو امام قبل اس کے کہ وہ اپنا سوال پیش کرے خود ہی بات شروع فرماتے ہیں کہ: اس کی مثال خضر کی سی مثال ہے وہی خضر کہ جس نے آب حیات نوش کیا اور اسی لئے وہ زندہ ہے ان پر موت نہیں آئے گی جب تک صور نہ پھونکا جائے و انہ لیحضر الموسم کل سنۃ و یقف بعرفۃ فیومن علی دعاء المومنین و سیونس اللہ بہ وحشتہ قائمنا فی غیبتہ و یصل بہ وحدتہ (قطب راوندی خرائج و خرائج ج۳ ص ۱۱۷۴)بے شک خضر ہر سال حج کے دنوں میں آتے ہیں مقام عرفات پر ٹھہرتے ہیں اور مومنین کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں اور عنقریب اللہ تعالی اس کی ہمارے قائم کےساتھ انسیت برقرار کرنے سے ان کے زمانہ غیبت میں ان کی تنہائی دور کرے گا قائم کو خضر کے ساتھ ہمنشینی کی وجہ سے تنہائی نہیں رہے گی۔

امام زمانہ کی زندگی میں غیب کا واضح ترین نقطہ:

امام زمانہ (عج) کے حوالے سے ایک اہم گفتگو ان کے وقت ظہور و قیام کے بارے میں ہے یہ بھی عالم غیب کا مصداق ہے کیونکہ کوئی بھی اس وقت کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا، بعض روایات میں تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے یہ چیز مصلحت پروردگار کی بنا پر خود حضرت بقیۃ اللہ علیہ السلام سے بھی پنھاں ہے اور جب زمانہ ظہور آپہنچے گا تو اس وقت فورا اس حجت الھی کو آگاہ کیا جائے گا اور آپ کے قیام کا اعلان ہوگا ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت ہوئی ہے آپ نے امام زمانہ (عج) کے بارے میں یہ فرمایا:
له علم اذا حان وقت خروجه انتشر ذلک العلم بنفسه فناداه العلم اخرج یا ولی الله واقتل اعداء الله وله سیف اذا حان وقت خروجه اقتلح من غمده فناده السیف اخرج یا ولی الله فلا یحل لک ان تقعد عن اعداء الله۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں کہ: حضرت مہدی کے پاس ا یک پرچم ہوگا کہ آپ کے ظہور کا زمانہ آپہنچے گا تو وہ پرچم کھل جائے گا اور آپ کو آواز دے گا اور کہے گا اے اللہ کے ولی خروج کریں اور اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کریں اور ان کی ایک تلوار ہوگی جب زمانہ ظہور آپہنچے گا تو وہ غلاف سے خودبخود باہر آجائے گی اور آواز دے گی اے اللہ کے ولی (پردہ غیبت سے) باہر آئیں کیونکہ اب آپ کے لئے صحیح نہیں ہے کہ آپ اللہ کے دشمنوں کو چھوڑ دیں۔ ۔ ۔ ۔
جی ہاں حضرت حجۃ ابن الحسن علیہ السلام کے زمانہ ظہور کا اعلان اللہ کے اذن سے پرچم کے کھلنے سے اور اس کا انسانی آواز میں کلام کرنے سے ہوگا اور یہ آپ کی فتح اور دشمنوں پر غلبہ کا پرچم ہے اسی طرح الھی تلوار کے غلاف سے باہر آنے اور کلام کرنے کی صورت میں آپ کے زمانہ ظہور کا اعلان ہوگا اور یہ دونوں چیزیں بذات خود آپ کی معجزانہ زندگی کے معجزات میں سے شمار ہوتی ہے۔(مترجم:شاید یہ چیز آپکے معجزات کے حوالے سے کنایہ ہو ورنہ بعید ہے کہ امام جو خود واسطہ فیض الہی ہیں انہیں ان چیزوں سے اپنے ظہور کا علم ہو،واللہ عالم)

غیب و شہود دونوں کے رنگ:

اگرچہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ (عج) کائنات کی بدستور غیب اشیا میں سے ہیں لیکن مخلص مومنین کا آپ پر عمیق عقیدہ اور راسخ ایمان اس قدر زیادہ ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے آپ غیب نہیں ہیں بلکہ عالم شہود و حضور میں سے ہیں دوسرے لفظوں میں مومنین کے ایمان و یقین کی قدرت عالم غیب کے اس عظیم فرد کو عالم شہود و حضور میں کھینچ لائی ہے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا :کانی بالقائم علیه السلام یوم عاشورا یوم السبت قائما بین الرکن والمقام ید جبرائیل علی یده ینادی بالبیعة الله فیملا ها عدلا (علامہ مجلسی بحار الانوار ج۵۲ ص ۲۹۰)
میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ قائم علیہ السلام عاشورہ کے دن جو کہ ہفتہ کا دن بھی ہے رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہیں جبرائیل کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے اور جبرائیل اللہ کی بیعت کے لئے آواز دے رہا ہے پس حضرت ولی عصر جہان کو عدل سے پر کردیں گے۔
اب ہمیں چاہیئے کہ اس آیت کریمہ الذین بالغیب کے تقاضا پر عمل کریں اور اپنی تمام تر کوششوں اور وسائل کے ساتھ غیب پر ایمان یعنی اللہ تعالی پر ، آخرت پر، انبیاء پر، معصوم ائمہ پر اور حضرت بقیۃ اللہ کے وجود مبارک پر ایمان کو اپنی سرزمین قلب پر مسلط کریں اور اس عظیم ہستی کو شاھد اور اپنے اعمال پر ناظر سمجھیں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑیں ۔

آخر میں حضرت بقیۃ اللہ فی الارضین کے حضور مبارک میں عرض کرتا ہوں :
اے آنکھوں سے پنہاں اور اے عاشقوں اور عارفوں کےدلوں میں خانہ نشیں، ہم بے بس ہوچکے ہیں ، تجھے تیری جدہ زھرا طاھرہ سلام اللہ علیھا کی قسم اپنا دروازہ الطاف کھول دے ہماری مدد فرما اور ہمیں جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال دے ، اپنے نورانی الھی چہرہ کے ابدی فیض سے اس جہان ظلمت کو نور سے بھردے، اے محبوب عالم اے ہمارے دلوں کی دھڑکن کا مرکز، کب ان پیاسے عاشقوں کے وجود کو اپنی زیارت کے مقدس چشمہ سے سیراب کرے گا کہ جو سیکنڑوں سالوں سے مشتاقانہ تیرے منتظر ہیں اے امام زمان۔ ۔ ۔

تبصرے
Loading...