امام رضا علیہ السّلام کی زندگی پر ایک نظر

*◼️امام رضا علیہ السّلام کی زندگی پر ایک نظر◼️*.

*✒️:علی احمد بہشتی 

*امام رضا علیہ السّلام  کے نام اور القابات:*
امام کا اسم مبارک  *علی* اور لقب  *ابوالحسن* ہے اور سب سے مشہور لقب ” *رضا* ” ہے جس کا مطلب ہے ” *خوشی* ۔(1)
نویں امام ، امام محمد تقی (علیہ السلام) نے  اس کی وجہ بیان کیا  کہ :امام کے اچھے مزاج کی وجہ سے اس کے دوست اور رشتہ دار اور اس کے دشمن بھی آپ سے مطمئن تھے۔(2)

*تاریخ ولادت امام رضا علیہ السلام۔۔*
امام رضا علیہ السلام شیعوں کے آٹھویں امام ہیں ، رسول خدا (ص) کی ذریت اور آٹھویں جانشین ہیں۔مؤرخین کے مطابق امام رضاعلیہ السلام  11ذی القعدہ سنہ 148  کو مدینہ منورہ  میں پیدا ہوئے۔ (3)

*امام رضا علیہ السّلام کے والدین*
آپ کے والد امام موسی کاظم علیہ السلام شیعوں کے ساتویں پیشوا  تھے جو 183ھ میں شہید ہوئے۔ انہیں ہارون رشید نے شہید کیا اور آپ کی والدہ کا نام “نجمہ” تھیں۔

*مدت امامت امام رضا علیہ السّلام*
حضرت امام رضا (ع) کی امامت تقریبا 20 سال تک جاری رہیں جس میں سے 17 سال مدینہ میں اور آخری تین سال خراسان میں گزر  گئے ۔(4)
*امام کے بچپن اور جوانی*
حضرت امام رضا (ع) نے اپنا بچپن اور جوانی 201 ہجری تک مدینہ طیبہ میں گزاری ۔ جو کہ انکشاف کا موضوع تھا ۔ اپنے عظیم والد کی خدمت میں۔ اور براہ راست ساتویں امام (ع) نے تعلیم دی۔ اخلاق اور تعلیم جو امام کاظم (ع) کو اپنے باپ دادا سے وراثت میں ملی تھی  اوربغداد میں امام رضا کی موجودگی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جبکہ ان کے نیک والد گرامی کو شہر بغداد میں قید کیا گیا تھا۔(5)

*ازدواج واولاد امام رضا علیہ السّلام*
امام رضا علیہ السّلام  کی زوجہ۔کا نام ام حبیبہ تھی اس کے علاوہ امام کی کئی کنیزیں بھی تھیں۔بعض روایات میں امام کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کا ذکر کیا گیا ہیں جن کے اسمائے گرامی محمد غنی ،حسن،جعفر،ابراہیم اور عائشہ ہیں۔(6 )

*.حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت.*
حضرت رضا (علیہ السلام) کی امامت اور ولایت کا اعلان ان کے عظیم والد اور پاک آباؤ اجداد اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بار بار کیا۔ خاص طور پر ، امام  موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو اکثر لوگوں کی موجودگی میں ان کے سرپرست اور امام کے طور پر متعارف کرایا جاتا تھا ، جس کی ایک مثال ہم ذکر کریں گے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے ایک کہتا ہے: “ہم ساٹھ افراد تھے جب موسیٰ بن جعفر ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور ان کا بیٹا علی الرضا علیہ السّلام انکے بانہوں میں تھا۔ انھوں نےکہا کیا تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ میں نے کہا آپ ہمارے آقا اور بزرگ ہیں۔ انھوں نےکہا: مجھے میرا نام اور لقب بتاؤ۔ میں نے کہا آپ موسیٰ بن جعفر بن محمد ہو۔ انھوں نے پھر کہا یہ میرے ساتھ کون ہے؟ میں نے کہا علی بن موسی الرضا علیہ السّلام ہیں۔ امام موسیٰ کاظم نےکہا: “تو گواہی دو کہ یہ میری زندگی میں میرا وکیل ہے اور میری موت کے بعد یہ میرا جانشین  ہے۔انھوں نے گواہی دے دیا ۔ امام صادق علیہ السلام نے بھی امام کاظم علیہ السّلام سے بار بار کہا کہ “محمدص کی دنیا آپ کی اولاد میں سے ہے اور وہ آپ کے بعد ولی ہیں۔”(7)

*امام رضا کی خدمات۔*
امام رضا (ع) نے اسلامی معارف اور شاگردوں کی تربیت میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنی حیات میں بہت سارے امور اپنے نمائندہ اور وکیل کے عنوان سے آپ کے حوالہ کردیئے تھے۔ امام موسی بن جعفر (ع) کا امام رضا (ع) کی جانب توجہ کی نوعیت دیکھ کر شیعوں نے سمجھ لیا کہ آپ ہی امام کاظم کے تنہا امین معاون اور ان کے ولی ہوں گے ۔
امام موسی کاظم (ع) کی عباسی خلفاء کے قید خانہ کی تمام مدت میں امام رضا (ع) نے تمام امور کی رسیدگی کی اگر چہ ابھی مقام امامت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے اپنے والد کے تمام امور آپ کے نمائندہ کی حیثیت سے انجام دیئے اور شیعہ فقہ و ثقافت کی پاسداری اور شاگردوں کی حفاظت اور شیعوں کی ہدایت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
شیعوں کے فکری اور اعتقادی سوالوں کے جوابات دیتے اور اپنے والد کی عدم موجودگی کے خلا کو پر کرتے تھے اور رجوع کرنے والوں کی تسلی اور تشفی کا سامان تھے، اس کے باوجود آپ نے اپنے والد کے کاموں اور اغراض و مقاصد کو عملاً  سر انجام دیتے ہوئے وقت کی طاغوت اور ظالموں کا راز فاش کیا۔

سیاسی صورتحال*

آٹھویں امام کی امامت کا عرصہ تقریبا بیس سال کا تھا جسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ امام کی امامت کے پہلے دس سال جو کہ ہارون کی حکومت کے دور میں۔
2- امین عباسی خلافت کے۔ساتھ پانچ سال بعد۔
3- امام کی امامت کے آخری پانچ سال جو کہ مامون عباسی کی خلافت کے دور میں۔۔(8)
*ہارون,امین اور مامون کےدور۔*
امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا کچھ حصہ ہارون  کی خلافت کے ساتھ گزرا۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ  کے والد کی شہادت کی دردناک  مشکلات  اور علویوں (سادات اور مومنوں کے کمانڈروں کی اولاد) کے لیے دیگر دکھی آفتیں رونما ہوئیں۔
ہارون کے بعد اس کا بیٹا  امین خلیفہ بنا۔ اس وقت ہارون کی موت کی وجہ سے ، کمزوری اور ہچکچاہٹ نے حکومت پر سایہ ڈال دیا ، اور اس ہچکچاہٹ اور امین کی کرپشن اور تباہی میں ڈوب جانے کی وجہ سے وہ اور حکومت  امام کی طرف توجہ نہ۔دے سکے۔ لہذا ، ہم امام کی زندگی میں اس دور کو امن کا دور کہہ سکتے ہیں۔
آخر میں مامون عباسی اپنے بھائی امین کو شکست دینے ، اسے قتل کرنے اور اقتدار کی وردی پہننے میں کامیاب رہا ، اور باغیوں کو دبانے اورحکومت  کے گرد اپنی کمان پھیلانے میں کامیاب رہا۔ اس نے عراق کی حکومت اپنے ایک ایجنٹ کے حوالے کر دی اور خود مرو میں آباد ہو گیا ، ایک بہت ہی سیاسی آدمی فضل ابن سہل کو اپنا وزیر اور مشیر مقرر کیا۔ لیکن جو خطرہ اس کی حکومت کو لاحق تھا وہ علوی تھے جو صدیوں کے تشدد ، قتل اور لوٹ مار کے بعد اب خلافت میں تقسیم کا موقع استعمال کرتے ہوئے ہر ایک نے خفیہ طور پر اور مامون کے خلاف اپنی مخالفت کھڑی کی اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔اسے یہ بھی شبہ تھا کہ دوسری طرف شیعہ اور امام کے پیروکار خلافت کو قبول نہ کرنے پر اسے سوال اور تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔
اس نے  امام کو خلافت دینے کی کوشش کی امام کے انکار پر اسے مجبورکرنے لگے تو امام نے فرمایا میں نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے ، میں تم سے پہلے اس دنیا۔سے۔جاوں گا اور میں زہر سے شہید ہوجاؤں گا،آسمان اور زمین کے فرشتے مجھ پر روئیں گے اور مجھے جلاوطنی کی حالت میں دفن کیا جائے گا۔
امام کے انکار کے بعد بھی امام کو ولی عہدی پر اجباری طور پر فائز کیا گیا ۔(9)

*امام کےچند حکیمانہ جملوں کا خلاصہ۔*
“ہر ایک کا دوست اس کی عقل ہے اور ہر ایک کا دشمن جہالت اور حماقت ہے۔
امام نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ مہربانی اور دوستی نصف عقل ہے۔

“تمہاری آنکھوں کو دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے جب تک کہ اس میں مشورہ نہ ہو۔
“صفائی انبیاء کا اخلاق ہے۔”(10)

*امام رضا علیہ السّلام کی شہادت۔۔*
امام کی شہادت اس انداز میں روایت ہے کہ مامون نے اپنے ایک خادم کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ہاتھ کے ناخن اونچا رکھیں اور پھر اسے حکم دیا کہ اپنے ہاتھ کو ایک خاص زہر سے آلودہ کریں اور اس کے ناخنوں کے درمیان زہر ڈالیں اور اس نے اپنے زہریلےناخنوں سے ایک انار کو زہر آلود کیا۔ مامون نے زہر آلود انار کو امام کی خدمت میں پیش کیا اور اصرار کیا کہ امام وہ انار کھائیں۔ امام نے مجبوراً ایک لقمہ کھالیا چند گھنٹوں کے بعد زہر نے اثر کرنا شروع کیا اور امام کی حالت بدل گئی اور اگلی صبح 29 صفر 203 ھ کو طلوع فجر کے وقت امام رضا علیہ السلام شہید ہوئے۔(11)
*تدفین امام رضاعلیہ السّلام*
امام رضاعلیہ السّلام کو امام جوادعلیہ السّلام نے باادب طریقے سے غسل کفن دیا اور اس دور کے کئی شیعوں کے تعاون سے مشہدالمقدس میں دفن کیا۔ اس عظیم امام کی قبر صدیوں سے پیروان اہل بیت  کے لیے نعمت اور فخر کا باعث ہے۔۔
—————————–                                                  حوالہ جات:

1۔ تاریخ چہارہ معصوم۔ص۔248
2۔ کتاب حضرت امام رضا۔ ص ۔13
3۔ نقوش عصمت ۔ص۔263
4۔تاریخ زندگانی معصومین۔ص321
5۔6۔تاریخ اسلام جلد ٢۔ص287۔288
7۔8۔9۔تاریخ  اسلام ۔ص۔364۔ 365-366
10۔ اقوال معصومین۔ص۔87
11۔کتاب امام رضا ۔ص۔188-189.

تبصرے
Loading...