امام خمینی کی تالیفات میں دین اسلام کی خاتمیت و جامعیت

حضرت امام خمینی نے تاریخی واقعات کو عقلی احکام کے مانند دو حصوں ” ضروری “ اور ” نظری “ میں تقسیم کیا اور اسلامی قوانین کی جامعیت کو تاریخ اسلام کی ضروریات اور واضح قضیوں کا حصہ جانا ہے.

۵ )۔قوانین اسلام کی جامعیت اور لافانی ہونے کی عقلی دلیل

قوانین اسلام کی وسعت اور اس کے دائمی ہونے کی نشانیاں پر دین کے اندر دیکھنے کے علاوہ دین کے باہر سے بھی نگاہ ڈالنے سے عقل و خرد کی مدد سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہیں کہ قانون اسلام ، سرحدوں اور زمان و مکان کی محدودیتوں سے بالا تر ہے اور پوری بشریت کے لئے قانون شمار ہوتا ہے اور سبوں کو اس کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے ۔ اس موضوع کے عقلی استدلال کے بارے میں اسلامی دانشوروں کے نظریات یکساں نہیں ہیں اس سلسلہ میں امام خمینی کا استدلال بدیہات اور مسلم عقلی اصول کی تاکید پر مبنی ہے اور یہ استدلال عام مخاطبین کے لئے بھی قابل فہم ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :

” یہ ثابت ہونے کے بعد کہ عقل کے واضح حکم کے مطابق انسان کے لئے قانون کی ضرورت ہے اور دنیا نیز دنیا میں رہنے والے قواعد و ضوابط اور قانون کے محتاج ہیں اور دنیا کے ممالک کو قانون کے بغیر ادارہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خالق کائنات انسان کے لئے قانون بنانے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟اگر کہا جائے کہ اسے اس کا حق نہیں ہے تو یہ خلاف عقل بات ہونے کے علاوہ خدا وند متعال کو بے اہمیت سمجھنا ہے ، اس صورت میں ہم سوال کر سکتے ہیں کہ : پس خدا وند متعال نے کیوں قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں انسان کے لئے قانون بھیجا اور اپنی ذمہ داری کے بر خلاف عمل کیا ؟ تو بیشک خدا کو قانون بنانے کا حق ہے ، اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا بہتر قانون بنا سکتا ہے یا بشر؟ بیشک وہی بہتر قانون بنا سکتا ہے اس صورت میں اسلام کا پیش کیا گیا قانون اس زمانہ میں تمام لوگوں کے لئے قابل عمل ہے یا نہیں ؟اگر قابل عمل نہیں ہے تو خدا وند متعال نے کیوں ماضی میں انسان کی ذمہ داریوں کو معین کیا ہے اور موجودہ زمانے میں انھیں آزاد چھوڑا ہے ؟ گزشتہ زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کیوں دوستی رکھتا تھا اور ہمارے ساتھ کیوں دشمنی رکھتا ہے ۔ ان کے لئے عظیم قوانین پر مشتمل قرآن مجید بھیجا اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کی ذمہ داریوں کو معین کر دیا ، لیکن ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تاکہ جو چاہیں کریں اور جس راہ پرچاہیں چلیں ؟ یہ سب عقل و خرد کے قانون کے خلاف ہے ، لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یہ قانون ، جس کے بعد ضرورت کے حکم کے مطابق کوئی قانون نہیں آیا ہے ، آج بھی پوری بشریت کے لئے قانون ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے “ ( امام خمینی صحیفہ نور ، ص/ ۳۱۱ )

حضرت امام خمینی نے اس بیان کے بعد تاریخی واقعات کو عقلی احکام کے مانند دو حصوں ” ضروری “ اور ” نظری “ میں تقسیم کیا اور اسلامی قوانین کی جامعیت و دوام کو تاریخ اسلام کی ضروریات اور واضح قضیوں کا حصہ جانا ہے اس سلسلہ میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہے اور اس کے اعتقاد کے سلسلہ میں اس کے واضح ہونے کے سبب الگ سے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔

۶ ۔ کتاب خاتم کی جامعیت کی ضرورت

عرفان کی نظر میں نبوت کی خاتمیت کی دلیل یہ ہے کہ انسان کو جن تمام مراحل و منازل کو طے کرنا چاہئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے وہ سب مراحل ایک ہی وقت میں کشف ہوئے ہیں دوسرے الفاظ میں نبوت کے سلسلہ نے ارتقائی سفر کو عروج تک پہنچا دیا ہے ۔ پہلے نبی سے آخری نبی تک جو بھی نبی آیا انسان کے لئے حقیقت کی ایک منزل واضح ہوئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تشریف آوری سے بشریت کے لئے تمام حقیقت یک جا آشکار ہو گئی ہے ۔ اسی وجہ سے اب کسی دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے ۔

امام خمینی خاتمیت کو انسان کامل کے کشف مطلق کا حاصل سمجھتے ہیں :

”پس انسان کامل کو جامع اسم اعظم کے تحت ثابت اور پائدار حقائق کشف ہوتے ہیں اور ان کے لوازمات ازل سے ابد تک اس پر واضح ہو جاتے ہیں ،اور حالات و مخلوقات کی استعداد اور سلوک کی کیفیت اور ان کو حاصل کرنے کی راہ اس پر واضح ہو جاتی ہے اور نبوت کی خاتمیت کا خلعت اس کے سر و قامت پر زیب دینے لگتا ہے اور دوسرے انبیاء جو اس مظہریت کے اسم سے مناسبت رکھتے ہیں وسعت کے دائرہ کے بقدر اس کے تحت حاصل ہونے والی حقیقت کو کشف کرتے ہیں اور یہاں سے کمال و نقص ، فضیلت و غیرہ کا باب اور دعوت کے دائرہ کی وسعت اور محدودیت آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اسمائے الٰہی کی پیروی کی طرف رجوع کرتے ہیں “ ( امام خمینی ، چہل حدیث ص/ ۵۹۱ )

جب انسان میں خاتمیت مکمل طور پر تجلی کرے اور اپنے اعلیٰ مرتبہ پر ظہور پیدا کرے، تو اس کے آثار و تجلیات بھی ہر حیثیت سے جامع و کامل ہوں گے ۔ امام خمینی کے عرفانی نظریہ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا دوام قوانین اور شریعت کی جامعیت کے ہمراہ ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ، خاتمیت کا لازمہ ایک ایسی کتاب کا وجود ہے جو جامع ہو ، ورنہ خاتمیت محقق نہیں ہوگی ۔ حضرت امام خمینی کتاب خاتم کی جامعیت کی ضرورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

” چوں کہ آنحضرت کی نبوت کی خاتمیت ، قرآن مجید اور آپ کی شریعت ، خدا وند متعال اور اس کے جامع اسم اللہ اعظم کے مظاہر یا تجلیات ہیں ، اس لحاظ سے نبوتوں ، کتابوں اور شریعتوں کا جامع ترین صورت میں احاطہ کرنے والے ہیں اور اس سے کامل اور بہتر کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد عالم غیب سے طبیعت میں اس سے بلند تر یا اس کے مشابہ کوئی علم نازل نہیں ہوگا ، یعنی شریعتوں سے مربوط علمی کمال کا آخری ظہور یہی ہے اور اس سے بالا تر کا نازل ہونا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے ، پس رسول خاتم ، اشرف مخلوقات اور مظہر کامل اسم اعظم ہیں اور آپ کی نبوت بھی ممکنہ نبوتوںکی تکمیل کرنے والی اور حکومت اسم اعظم کی تصویر ہے ۔ جو ازلی و ابدی ہے اور آپ پر نازل ہوئی کتاب بھی غیب کے مقام سے اسم اعظم کی تجلی کی صورت میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لحاظ سے ، خدا وند احدیت کی اس کتاب میں بھی جمع و تفصیل پائی جاتی ہے اور وہ ” جوامع کلم “ میں سے ہے ، جیسا کہ خود آنحضرت کا کلام بھی ” جوامع کلم “ یعنی پر معنی کلمات پر مبنی تھا ، اور ” جوامع الکلم “ سے مراد ، قرآن مجید یا آنحضرت کا کلام اس صورت میں نہیں ہے جس میں آپ نے معاشرے کے کلیات اور قواعد و ضوابط کو بیان فرمایا ہے ، اگر چہ اس معنی میں بھی آنحضرت کی احادیث جامع اور قوانین پر مبنی ہیں ، جیسا کہ علم فقہ میں ظاہر ہے ، بلکہ اس ( قرآن ) کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ تمام ادوار میں تمام طبقات کے انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور اس نوع ( بشر ) کے تمام ضروریات کو پورا کرنے والا ہے ۔ اور اس قسم کی حقیقت چوںکہ ایک جامع حقیقت ہے ۔اور تمام منازل پر مشتمل ہے ، نچلے مقام سے روحانیت ، ملکوت اور جبروت کے عالی مقام تک ۔ اس لحاظ سے اس نوع کے افراد اس عالم اسفل میں مکمل اختلاف رکھتے ہیں ، اور ان میں اس قدر تفاوت اور اختلافات پائے جاتے ہیں کہ مخلوقات میں سے کسی فرد میں نہیں پائے جاتے ۔ اس کے بعض افراد تمام حیوانات سے پست ترہیں اور اس کے بعض افراد ملائکہ مقربین سے افضل ہیں ۔ چوںکہ اس قسم کے افراد مدارک و معارف میں مختلف اور متفاوت ہیں ، اس لئے قرآن مجید اس طرح نازل ہوا ہے کہ ہر شخص اپنے ادراک و معارف میں کمال و ضعف کے درجہ کے مطابق اپنے علم سے استفادہ کرتا ہے“ ( امام خمینی ، آداب الصلوٰة ۱۳۷۰، ص/ ۳۱۰۔ ۳۰۹ )

اب جب کہ انسان کامل کا ذکر ہوا تو مناسب ہے کہ انسان کامل کے بارے میں ( جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں متجلی ہے ) امام خمینی کا نظریہ پیش کیا جائے اور پھر حقیقت محمدیہ کو ، جو حقائق عالم کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ، بیان کیا جائے ۔

پیغمبر خاتم ، انسان کامل

جامعیت اور خاتمیت انسان کامل میں جلوہ گر ہوتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی اس مقام کے لائق نہیں ہوگا ۔ اس وضاحت کے پیش نظر اسلامی عرفان کے مطابق ، جس بلند ترین مقام تک انسان پہنچ سکتا ہے ، وہ انسان کامل یا فنا فی اللہ کا مقام ہے ۔ دوسرے الفاظ میں انسان کامل سے مراد وہ ہے جو جمیع مراتب الٰہیہ و کونیہ سے لے کر کلی عقول و نفوس ، طبیعی مراتب اور تنزلات وجود کی انتہا تک محیط ہوتا ہے ( قیصری ، ص /۱۰ ) عرفا بالاتفاق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حقیقی انسان کامل جانتے ہیں کہ آپ تمام مخلوقات اور عالمین کی رحمت کا خلاصہ اور قافلہ ہستی کے سپہ سالار ہیں اور دوسرے آپ کے مکتب کے پیرو اور شاگرد ہیں ۔

حضرت امام خمینی انسان کامل کو صفات و اسمائے الٰہی کا مظہر سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں :

” چوں کہ جو کچھ عالم وجود میں ہے وہ عالم غیب کے وجود کی علامت اور نشانی ہے اس لئے لازمی طور پر انسان کی عین ثابت حقیقت کے لئے یعنی عین ثابت محمدی اور حضرت اسم اعظم کے لئے عالم عین وجود میں بھی ایک مظہر کا ہونا ضروری ہے تاکہ خدا وند متعال کے احکام کو ظاہر کرے اور خارجی چیزوں پر حکمرانی کرے ، وہی حکومت جو اسم اعظم کی تمام اسماء اور خود انسان کامل کی تمام ظواہر پر ہے ۔ پس جو بھی مخلوق میں سے اس صفت کا حامل ہو ،یعنی اس میں ذاتی صفت الٰہیہ پائی جاتی ہو، وہ اس عالم میں خلیفہ ہوگا ،جیسا کہ اصل بھی ایسا ہی رہا ہے “ ( امام خمینی مصباح الھدایة الی الخلافہ و الولایة ، ص /۸۲ )

امام خمینی کے نظریہ کے مطابق مرتبہ جامعیت کے ظہور میں انسان کامل خدا کا خلیفہ ہے اور یہ خلیفہ جامع و خاتم شریعت کا سزاوار ہوگا ۔ انسان کامل ولی مطلق ہے اور مشیت مطلقہ کا منصب دار ہے ، مخلوقات جس کے ذریعہ ظہور میں آئے ہیں اور حقائق اور ذوات اسی کے ذریعہ محقق ہوئے ہیں ، پس وہ جڑ کے مانند ہے اور دوسری مخلوقات اس کی شاخوں کے مانند ہیں اور وہ وجود کے تمام مراتب اور غیب و شہود کی تمام منزلتوں پر احاطہ رکھتا ہے ۔

” انسان کامل خدا کی عالی مثال اور اس کی آیت کبریٰ ہے ، حق کو بیان کرنے والی کتاب اور عظیم بنیاد ہے جو حق کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اور وہ خدا کی قدرت کے ہاتھوں سے وجود میں آیا ہے وہی خدا کی مخلوقات پر اس کا خلیفہ ہے اور معرفت حق کے دروازے کی کنجی ہے ، جو بھی اسے پہچانے اس نے خدا کو پہچانا ہے ۔ وہ خدا کے صفات کی ایک صفت ، اس کی تجلیات میں سے ایک تجلی اس کی آیات میں ایک آیت ہے اور اپنے خالق کو مکمل طور پر پہچنوانے کے لئے ایک بلند مرتبہ اور گراں قدر نمونہ ہے “ ( امام خمینی ، شرح دعائے سحر ، ۱۳۷۰ ، ص/۵۶ )

اس لحاظ سے انسان کامل کی طرف رجوع کرنا ، ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنا ہے ، کیوں کہ انسان کامل فانی مطلق اور اللہ کی بقاء سے باقی ہے اور اپنی طرف سے کسی قسم کا تعین اور انانیت نہیں رکھتا ہے بلکہ خود اسمائے حسنیٰ اور اسم اعظم سے ہے ۔ انسان کامل تمام مخلوقات عالم پر علمی احاطہ رکھتا ہے ۔ انسان کامل کا مکمل مصداق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا پاکیزہ وجود ہے اس سلسلہ میں امام خمینی کی تعبیر یوں ہے:

”عینی حقیقت کی بنا پر اسم اعظم ، ہی انسان کامل ہے جو دنیامیں خدا کا خلیفہ ہے اور وہ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے “ ( امام خمینی شرح دعائے سحر ، ص / ۷۷ )

حقیقت محمدی میں ختم نبوت کا ظہور

عرفاکی اصطلاح میں ” حقیقت محمدی “ کا ایک خاص معنی ہے جس کی تفصیل بیان کرنا یہاں پر ممکن نہیں ہے ۔ بعض افراد ( مثلا لاہیجی) حقیقت محمدی کو عقل اول ، یعنی روح اعظم جانتے ہیں اور انھوں نے احادیث : ” اول ما خلق اللہ عقل “ اور ” اول ما خلق اللہ نوری “ و ” اول ما خلق اللہ روحی “ کی بنیاد پر اب نتیجہ نکالا ہے اور محمدی صورت کو ایک ایسی صورت جانا ہے جس میں روح اعظم اپنے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے ، پس وہ اول میں حقیقت اور آخر میں آنحضرت کی صورت تھی اور باقی انبیاء آنحضرت کے بعض کمالات کے مظہر ہیں ( ملاحظہ ہو لاہیجی ، ص / ۲۰ )

امام خمینی نے حقیقت محمدی کی یوں تعریف کی ہے :

” میری نظر میں حقیقت محمدی وہی تمام اسماء کی احدیت کے لئے اللہ کے اسم اعظم کی صورت ہے ، جس طرح وہ جمیع اعیان و ظواہر کی احدیت کے لئے جامع ہے “ ( مصباح الانس پر تعلیقہ ، ص / ۳۰۸۔۳۰۹)

کیوں کہ اس سے قبل کہا گیا ہے کہ عین ثابت انسان کامل ، حقیقت محمدی ہے ۔ ( گزشتہ حوالہ ۱۰۸ )

امام خمینی نے قوس نزول کو لیلة القدر محمدی اور قوس صعود کو یوم قیامت احمدی کا نام دیا ہے اور اس امر کی دلیل یہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں قوس فیض منسبط کے نور کی کرنیں ہیں جو حقیقت محمدی ہے ۔( ملاحظہ ہو ، امام خمینی ، آداب الصلوٰة، ص / ۳۲۸ )

امام خمینی ، اپنے استاد ، مرحوم شاہ آبادی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ آیہٴ میں ضمیر ”ہ “ کو حقیقت غیبی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود اقدس پر نازل ہوئی ہے اور فرمایا کہ لیلة القدر کی حقیقت وہی حقیقت محمدی ہے ۔ (ملاحظہ ہو ، امام خمینی مصباح الھدایة الیٰ الخلافة و الولایة ، ص /۵۳ ) آخر میں حضرت امام خمینی نے حقیقت محمدی کے بارے میں یوں اظہار نظر فرمایا ہے:

” پس یہ حقیقت محمدی تھی جس نے تمام عوالم یعنی ،عالم عقل سے لے کر عالم ہیویٰ تک تجلی کی اور پوری کائنات اس حقیقت کا ظہور اور تجلی ہے اور وجود کے مراتب کا ہر ذرہ اس صورت کی تفصیل ہے اور یہ وہی اسم اعظم ہے جو اپنی خارجی حقیقت میں ظہور مشیت ہے جو خود بلا تعین ہے لیکن ہر حقیقت مند کی حقیقت اس کے توسط سے ہے اور یہ ایک ایسا تعین ہے جو ہر متعین چیز کے ساتھ ہے ، چنانچہ روایت میں آیا ہے ” خدا وند متعال نے تمام چیزوں کو اپنی مشیت سے پیدا کیا ہے اور مشیت کو خود مشیت سے پیدا کیا ہے “ اور یہ وجود مقدس ، جس کا نام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے اور جو علم الٰہی کے عالم سے عالم طبیعت کے قیدیوں کو نجات دینے کے لئے عالم ملک میں نازل ہوا ہے ، اس حقیقت کلی کا مجمل ہے اور تمام مراتب اسی طرح اس میں موجود ہیں جس طرح عقل تفصیلی ، عقل بسیط اجمالی میں ہوتی ہے “ ( امام خمینی ، شرح دعائے سحر ، ص/ ۱۱۴ )

لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ آپ کی نبوت کے بعد کوئی اور نبوت آئے اور آپ کی شریعت کے بعد کوئی دوسری شریعت ظاہر ہو جائے ۔ آپ کی نبوت ، نبوتوں کی خاتم اور آپ کی شریعت تمام شریعتوں کی جامع ہوگی ، کیوں کہ : ” عین ثابت انسان کامل ، ظہور کے مرحلہ اور جامعیت اور اسماء کی صورتوں کے اظہار کے مرتبہ میں علمی مقام پر اللہ کا خلیفہ اعظم ہے ۔ کیوں کہ اسم اعظم ، جامع جلال و جمال اور ظہور و بطون کے مانند ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی جامعیت کے مقام پر اعیان میں سے کوئی عین تجلی کرے ، کیوں کہ ( وہ بڑا ہے اور چھوٹے آئینہ میں سما نہیں سکتا ہے )وہ صاف ہے اور آئینہ نا صاف ، پس ضروری ہے کہ ایسا آئینہ موجود ہو جو اس میں منعکس ہونے والی تصویر کے متناسب ہو اور اس کے نور کو منعکس کرنا اس آئینہ میں ممکن ہو تاکہ فضائے الٰہی کا عالم ظہور پیدا کرے اور اگر عین ثابت انسان نہ ہو تو اعیان ثابتہ ظہور نہیں کرتے اور اگر عین انسان کا ظہور نہ ہوتا تو خارجی اعیان میں سے کچھ بھی ظہور نہیں کرتا اور رحمت الٰہی کے دروازے نہیں کھلتے “ ( تعلیقات علی شرح فصوص الحکم و مصباح الانس ، ص/ ۷۰۔ ۶۹ )

خدا وند متعال نے اپنی رحمت کو حقیقت محمدیہ کی روشنی میں پھیلا یا اور آپ کے ظہور سے نبوت ختم ہوئی اور آپ کی شریعت کی جامعیت نے دوام پایا اور عالم وجود میں دین کاکمال آخر تک پہنچا اور خلافت مطلق الٰہی نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود میں تجلی پائی۔

جو کچھ بیان ہوا ، وہ حضرت امام خمینی کے نظریات کا ایک حصہ تھا اس کی تفصیل بیان کرنے کے لئے مزید فرصت کی ضرورت ہے ۔

منابع و مآخذ :

۱)۔ قرآن مجید

۲)۔ ” شرح مقدمہ قیصری بر فصوص الحکم “تالیف : جلال الدین آشتیانی ۔ مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی ، حوزہ علمیہ قم ۱۳۷۰ ( ۱۹۹۱ء)

۳)۔ معجم مقالیس اللغہ ، ج ۲، احمد ابن فارس ، تحقیق عبد السلام محمد ہارون ۔دار الکتب العلمیہ، قم ، بی تا

۴)۔ ” لسان العرب “ ج/۴ ، ابن منظور ، تحقیق : علی شیری ، داراحیاء التراث العربی ، طبع اول بیروت ۱۴۰۸ئھ۔

۵)۔ ” آداب الصلوٰة “ ، امام خمینی روح اللہ ، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی طبع اول ۱۳۷۰ ( ۱۹۹۱ء)

۶)۔ تعلیقات علی شرح فصوص الحکم و مصباح الانس ، موسسہ پاسدار اسلام دفتر تبلیغات اسلامی ، قم ۱۴۱۰ھ

۷)۔ ” شرح چہل حدیث “ موٴسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی ، طبع اول ، تہران ۱۳۷۱ ( ۱۹۹۲ء)

۸)۔ ” شرح دعائے سحر “ ترجمہ سید احمد حمزی ، نشر اطلاعات ، تہران ، طبع اول۱۳۷۰ ( ۱۹۹۱ء )

۹)۔ ” صحیفہ نور “ ( مجموعہ ۲۲جلدی ) وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی ، طبع اول ج/۱۱، تہران بے تاریخ

۱۰)۔ ” کشف الاسرار “ انتشارات مصطفوی ، قم، بے تاریخ

۱۱)۔ مصباح الھدایة الی الخلافة و الولایة ، با مقدمہ جلال الدین آشتیانی ، موٴسسہ تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینی تہران ، طبع سوم۱۳۷۶ ( ۱۹۹۷ ء )

۱۲)۔ ” مصباح الھدایة الی الخلافة و الولایة “ ترجمہ سید احمد حمزی، انتشارات پیام آزادی ، تہران ۱۳۶۸ (۱۹۸۹ ء )

۱۳)۔ ” مختار الصحاح “ ، جوہری ، المکتبة العصریة للطباعة و النشر بیروت ، ۱۴۲۲ھء

۱۴)۔ ” امام خمینی اور عرفان اسلامی “ رحیمی ، پژوہشکدہ امام خمینی و انقلاب اسلامی ، تہران ، طبع اول ، ۱۳۸۵ (۲۰۰۶ )

۱۵)۔ ” خاتمیت “ روحی روشنی ، بے نام و بے تاریخ

۱۶)۔ ” خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل “ جعفر سبحانی ، ترجمہ : رضا استادی ، انتشارات توحید ، قم ، بے تاریخ

۱۷)۔ ” مفاہیم القرآن “ انتشارات توحید ، قم بے تاریخ

۱۸)۔ قاموس اللغة ج/۴، فیروز آبادی ، دار الکتب الاسلامیہ ، قم بے تاریخ

۱۹)۔ ” شرح گلشن راز “ شمس الدین محمد لاہیجی ، تصحیح : محمد رضا برزگرخالقی و عفت کرباسی ، انتشارات زوار ، تہران طبع اول۱۳۷۱ ( ۱۹۹۲ء )

۲۰)۔ ”بحار الانوار “ محمد باقر مجلسی ۔ دار احیاء التراث العربی طبع دوم ، بیروت ۱۴۰۳ھء

تبصرے
Loading...