امام حسین (ع) کی حیات طیبہ پر ایک نظر

سوال یہ ہے کہ اسلام کیا صرف اہل تشیع کا دین ہے اگر نہیں تو کیا امام حسین(ع) نے عاشورا کے دن اسے بچایا نہیں؟ اگر ہاں! تو پھر عزاداری اور سوگواری اور بصیرت کے فروغ کے اس عظیم انقلاب سے اتنے خائف کیوں ہیں؟ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے اتنے بے قرار کیوں ہیں؟ اور ہاں! صہیونیت، امریکی سامراج اور ان حضرات کی فکرمندیوں میں اتنی یکسانیت کیوں ہے؟

    سوال یہ ہے کہ اسلام کیا صرف اہل تشیع کا دین ہے اگر نہیں تو کیا امام حسین(ع) نے عاشورا کے دن اسے بچایا نہیں؟ اگر ہاں! تو پھر عزاداری اور سوگواری اور بصیرت کے فروغ کے اس عظیم انقلاب سے اتنے خائف کیوں ہیں؟ اس انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے اتنے بے قرار کیوں ہیں؟ اور ہاں! صہیونیت، امریکی سامراج اور ان حضرات کی فکرمندیوں میں اتنی یکسانیت کیوں ہے؟

نسب نامہ:عاشورا کی عظیم تحریک کے امام و رہبر ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو نسل در نسل انبیاء اور اولیاء سے عبارت ہے۔ رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: “ہم اہل بیت نور سے خلق ہوئے ہیں اور نبوت ہمارے خاندان میں جاری و ساری رہی ہے، اس کی ٹہنیان اور شاخیں ہمارے خاندان میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا ثمرہ اسی خاندان میں ہی ظہور پذیر ہوا ہے اور خدائے عزّوجلّ کی عنایت سے اس خاندان میں کسی قسم کی پلیدی اور آلودگی کا گذر تک نہیں ہوسکا ہے”۔ نیز اللہ کے نو حجت امام حسین علیہ السلام کی نسل سے ہیں جن میں سے آخری عالم انسانیت کے نجات دہندہ امام مہدی عجَّلَ اللہ فَرَجَہ الشَّریف ہیں جو آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھردیں گے جیسے کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔

امام حسین علیہ السلام کے والد ماجدمؤمن اول و شاہ مردان علی بن ابیطالب علیہما السلام آپ(ع) کے والد ہیں؛ جو بچپن ہے سے رسول اللہ(ص) کی نگرانی میں پروان چڑھے اور اپنے ایمان و تقوی اور جہاد و عبادت کی بنا پر اللہ کی جانب سے رسول اللہ(ص) کے وصی و خلیفہ اور حجت اللہ علی الخلق کے عنوان سے منصوب ہوئے۔ امام حسین(ع) کے والد ماجد بعثت رسول(ص) سے 10 سال قبل اور عامل الفیل کے 30 سال بعد خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رسول اللہ(ص) کے بعد اپنے زمانے کے امام ہوئے اور تیس سال تک خلائق کی امامت فرمائی اور اپنی حیات طیبہ کے آخری چارسال مسلمانوں کے اصرار پر خلیفہ ظاہری کے عنوان سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور علوی حکومت کے عملی نمونے ثبت فرمائے جبکہ اس سے قبل 25 برس تک گوشہ نشینی کی زندگی گذاری۔ مولود کعبہ 19 رمضان سنہ چالیس ہجری کو مسجد کوفہ کی محراب میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی نامی خارجی کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور دو دن بعد 21 رمضان کو 63 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے۔

امام حسین علیہ السلام  کے ناناآپ(ع) کے نانا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جو اللہ کی جانب سے نہایت شریف خطاب کی مالک ہیں “لولاک لما خلقت الافلاک = اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو خلق نہ کرتا”۔ آپ(ص) کا آسمانی دین اور آپ(ص) کی آسمانی کتاب آفاقی، عالمی اور ابدی ہے؛ یعنی آپ(ص) کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور مبعوث نہیں ہونے والا ہے۔ آپ(ص) 40 سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث ہوئے اور 23 برس تک تبلیغ رسالت کے بعد 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وصال فرماگئے اور انسانوں کی ہدایت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے دو گرانبہا چیزیں امانت کے عنوان سے اپنے پیچھے چھوڑ دیں: قرآن اور اہل بیت(ع) (حدیث ثقلین کی سند) اور آخری حج سے واپسی پر غدیر کے مقام پر امیرالمؤمنین(ع) کی ولایت و خلافت کا اعلان کرنے اور مسلمانوں سے اپنے ولی و خلیفہ کے لئے بیعت لینے سے قبل فرمایا: “میں دو بھاری امانتیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں اور یاد رکھو جب تک تم ان دو کا دامن تھامے رہوگے، ہرگز گمراہی سے دوچارنہ ہونگے اور یادرکھو کہ میری یہ دو امانتیں ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آملیں”۔

میسّر نگردد به كَس این سعادتبه كعبه ولادت، به مسجد شهادت

امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہامام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ رسول اللہ(ص) کی نور نظر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔ رسول اللہ(ص) آپ(س) کے بارے میں فرماتے ہیں: “فاطمہ سیدة نساء العالمین اور خاتون کاملہ کا نمونہ اتم اور میری امت کے لئے اسوہ اور عملی نمونہ ہیں”۔ سیدہ عالم روز جمعہ 20 جمادی الاول بعثت کے پانچ سال بعد مکہ معظمہ میں متولد ہوئیں اور سنہ دو ہجری کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور ایسے وقت شہادت پاگئیں جب آپ(س) کے والد ماجد سرور دو عالم رسول اللہ(ص) کے وصال کا تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا چنانچہ آپ(س) کی شہادت سنہ 11 ہجری کو ہوئی۔ سیدہ عالم کمالات کے اس درجے پر فائز ہوئی تھیں کہ خداوند متعال نے آپ(س) کو نبوت اور امامت کے درمیان پیوند و اتصال قرار دیا اور آپ(س) کو 11 معصوم اماموں کی والدہ ہونے کا شرف عطا فرمایا۔ آپ(س) کے وجود کی مختلف جہتوں کے پیش نظر آپ(س) کے متعدد اسماء و القاب ہیں جن میں سے صدیقہ، طاہرہ، بتول، محدثہ، مبارکہ، زہراء اور مرضیہ بہت مشہور ہیں۔ امام حسین(ص) کے والد علی(ع) رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور خاندانی حوالے سے رسول اللہ(ص) ہی کے خاندان سے ہیں جن کے والد حضرت عبدمناف ابوطالب(ع) حامی الرسول اور مؤمن قریش ہیں جو اپنی وفات کے دن تک رسول اللہ(ص) کے حامی و ناصر تھے اور رسول اللہ(ص) نے آپ(ع) کی آغوش میں پرورش پائی تھی اور والدہ(س) رسول اللہ(ص) کی بیٹی ہیں اور رسول اللہ(ص) کے والد عبداللہ(ع)، ابوطالب(ع) کے سگے بھائی ہیں چنانچہ امام حسین(ع) والد اور والدہ کی جانب سے ہاشمی ہیں۔ جیسا کہ آپ کے والد بھی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے ہاشمی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت امام حسین علیہ السلام جمعرات تین شعبان سنہ چار ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے اور نبوت و امامت کی درسگاہ میں برسوں تک تعلیم تربیت پاکر سنہ 61 ہجری کو کربلا کے چٹیل میدان میں انقلاب عاشور کی بنیاد رکھی۔ اسماء بنت عمیس کہتی ہیں: حضرت فاطمہ(س) کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت کے بعد ایک روز رسول اللہ(ص) علی(ع) کے گھر تشریف فرما ہوئے اور مجھے مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: میرا بیٹا میرے پاس لاؤ؛ میں بچے کو پیغمیر خدا(ص) کے حضور لے آئی۔ رسول اللہ(ص) نے بچے کو آغوش میں لیا اور اس کے دائیں کان میں اذان پڑھی اور بائیں کان میں اقامت، اور ان سے پیار کرنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ(ص) کی آنکھیں اچانک پرنم ہوئیں، میں نے بکاء کا سبب پوچھا تو فرمایا: ان مصائب کو یاد کرکے رورہا ہوں جو “میرے بعد” میرے اس فرزند پر وارد ہونگے؛ ایک ظالم و جائر گروہ انہیں اسلام کا نام لے کر اور اسلام کے تحفظ کا نعرہ لگا کر شہید کرے گا”۔امام حسین علیہ السلام کا ناماسلامی تعلیمات میں بچے کے نام کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ نام کے کثیر معنوی اثرات ہیں اور انسان کی شخصیت کی تشکیل میں بہت زیادہ مؤثر ہے۔ ہماری معصوم اماموں کا ایک اعزاز و افتخار یہ ہے کہ ان کے اسماء و القاب اللہ اور رسول اللہ(ص) نے منتخب کئے ہیں۔ روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے ابتدائی دنوں میں ہے جبرئیل امین(ع) نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص) سے مخاطب ہوکر عرض کیا: اللہ تبارک و تعالی آپ پر سلام و درود بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ چونکہ آپ سے علی(ع) کی نسبت موسی سے ہارون کی نسبت جیسی ہے اور علی(ع) آپ کے لئے ویسے ہی ہیں جس طرح ہارون(ع) موسی(ع) کے لئے تھے لہذا اپنے اس بیٹے کا نام ہارون کے چھوٹے فرزند “شُبَیر” ـ جو عربی میں “حسین” کہلاتا ہے ـ کے نام سے موسوم کریں۔ رسول اللہ(ص) نے اللہ تعالی کا پیغام وصول کرتے ہی حضرت فاطمہ(س) کے گھر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: “کیا آپ (علی و فاطمہ(علیہماالسلام) نے اپنے نومولود کے لئے کوئی نام منتخب کیا ہے؟ علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ(ص)! ہم اس امر میں آپ پر سبقت نہیں لیا کرتے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: اس مبارک مولود کا نام “حسین” رکھیں۔ امام حسین علیہ السلام کے القابامام حسین علیہ السلام کی شخصیت بھی ذوالابعاد اور چند جہت (Multi Dimensional) ہے چنانچہ آپ(ع) کے لئے متعدد القاب نقل ہوئے ہیں جن میں رشيد، طَيب، وفي، زَکي، سعيد اور سید بہت مشہور ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ(ع) کو “سَيدُ شَبابِ اَہلِ الجَنَّہ” (نوجوانان جنت کے سردار) جبکہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے “سَيدُالشُہداء” کا لقب عطا فرمایا۔ سیرت و تاریخ کی کتابوں میں امام حسین علیہ السلام کے لئے مجموعی طور پر 313 اسماء و القاب ذکر ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک امام حسین(ع) کے کسی ایک کمال پر دلالت کرتا ہے۔ امام حسین(ع) کے لئے السبط الثانی، الامام الثالث، فرحةالرسول(ص)، التابع لمرضات اللہ اور مبارک جیسے القاب اور ابوعبداللہ اور ابوالائمة جیسی کنیات بھی منقول ہیں۔امام حسین علیہ السلام کی امامتامام حسن علیہ السلام معاویہ کے بھیجے ہوئے زہر کے ذریعے اپنے بڑے بھائی السبط الاول، ریحانةالرسول امام حسن مجتبی(ع) کی شہادت کے بعد امت اسلامی کی امامت کے عہدیدار ہوئے۔ پیغمبر(ص) نے اپنی حیات طیبہ کے دوران ہی امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی امامت پر تصریح فرمائی تھی؛ منجملہ: ایک دفعہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ اصحاب کا ایک گروہ موجود تھا کہ امام حسین(ع) تشریف فرما ہوئے اور رسول اکرم(ص) نے امام(ع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “[آگاہ رہو کہ] میرا یہ فرزند امام، امام کا بیٹا، امام کا بھائی اور ائمہ کا باپ ہے جن میں سے اس کا نواں فرزند ان کا امامِ قائم ہے جو میرا ہمنام ہے اور ان کی کنیت بھی میری کنیت ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی”۔ جب امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے لمحات آن پہنچے تو آپ(ع) نے اہل بیت(ع) کی موجودگی میں فرمایا: “بھائی حسین! میں نے آپ کو اپنا وصی مقرر کیا اور یہ عہد ہے جو ہمیں ہمارے والد سے ملا ہے اور ہمارے والد نے اسے رسول اللہ(ع) کی جانب سے اور رسول اللہ(ص) نے اللہ تعالی کی جانب سے بیان فرمایا ہے”۔ امام حسین علیہ السلام رسول اللہ(س) کے مکتب میںامام حسین علیہ السلام اپنی عمر کے چھ سال، چھ مہینے اور 24 دن کا عرصہ رسول اللہ(ص) کے وجود کی برکت سے مستفیض ہوئے اور اس عرصے کے دوران ہر وقت اور ہر لمحہ رسول اللہ(ص) کی عنایات خاصہ اور بے دریغ محبتوں سے بہرہ مند رہے اور آپ(ع) نے زندگی کے ابتدائی اسباق اور اخلاقی فضیلتوں کے ابتدائی دروس رسول اللہ(ص) ہے سے سیکھ لئے۔ امام حسین بھائی امام حسن(ع) کی مانند محبوب رسول اورنور چشم رسول تھے اور آپ(ع) سے رسول اللہ(ص) کے نہایت قریبی تعلق کے اثبات کا ایک نمونہ رسول اللہ(ص) کی یہ حدیث شریف ہے کہ “حسینٌ مِنّی و انا من حسین = حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں”۔ امام حسین علیہ السلام امیرالمؤمنین(ع) کی خلافت میںرسول اللہ (ص) کی وصال کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے والد کے دور امامت میں اپنے فرائض پر عمل پیرا رہے اور لوگوں نے امام علی علیہ السلام کو ـ 25 برس گوشہ نشینی کے بعد ـ خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر مجبور کیا تو آپ(ع) نے خلافت کا عہدہ سنبھالا جبکہ اشرافیہ کا بڑا طبقہ عالم اسلام کے قلب میں معرض وجود میں آچکا تھا جو حکومت عدل کو برداشت کرنے سے قاصر تھا چنانچہ امیرالمؤمنین (ع) کا چار سال آٹھ مہینے پر محیط دور حکومت جنگوں اور فتنوں میں ہے گذرا۔ بیعت توڑ کر بصرہ میں لشکر

تبصرے
Loading...