امام حسین (ع) کا پیغام عالمِ انسانیت کے نام

تحریر:آیۃ اللہ العظمیٰ سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی طاب ثراہ

حوزہ نیوز ایجنسی | غور سے سنو! کربلا کے بے گناہ شہید کی آواز فضائے کائنات میں گونج رہی ہے۔
اے میرے خالق کی وسیع زمین کے بسنے والو!
اے وسعت دنیا کے آباد کرنے والو! 
میں تمہیں تمہارے مختلف فرقہ وارانہ اور جماعتی ناموں سے نہیں پکارتا، اس لئے کہ میری وسیع انسانیت اور عظیم مظلومیت کے ساتھ ہمدردی میں تمہارے باہمی اختلافات کی کشمکش اسی طرح مٹ جاتی ہے جیسے بڑے سمندر کی ساکن سطح میں دریائوں کا اضطراب اور آبشاروں کا خروش، میں تم سب کو دعوت دیتا ہوں تم معلوم کرو کہ میں کون تھا؟ کس مقصد کےلئے اٹھا اور میں نے اس کےلئے کیا کیا؟
سنو!  میں کون ہوں؟
میں عرب کے سب سے معزز خاندان بنی ہاشم کا اپنے وقت میں بزرگ ترین فرد اوراس خاندان کی سب سے بڑی ہستی محمد مصطفیؐ کا اپنے زمانہ میں اکیلا یادگار تھا۔ تم نے اسلامی تعلیمات کو غور سے کبھی نہ دیکھا ہو، مگر تم نے مذہب اسلام کا نام ضرور سنا ہوگا۔ یہ خداوندی پیغام میرے نانا محمد مصطفیؐ کے ذریعہ سے دنیا کو پہنچا تھا۔ اس پیغام کے ذریعہ سے کائنات کو ایک خدائےقادر وتوانا کے سامنے سر جھکانے کی تعلیم دی گئی تھی اور اپنے ہاتھ کے تراشے ہوئے بتوں کی پرستش کو مٹایا گیا تھا۔ یاد رکھو! یہ بت سونے چاندی پتھر ہی کے ہونا ضروری نہیں ہیں بلکہ گوشت پوست سے بنا ہوا انسان بھی صنم بن جاتا ہے جب وہ خداوندی پیغام اوراس کے اقتدار کے مقابلہ میں دنیا پر اپنی سطوت وہیبت کا سکہ جمانا چاہتا ہو اور دنیا کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرے۔
میرے ناناؐ نے اس راستہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ تمام ان کا قوم قبیلہ اور عرب کی تمام جماعتیں ان کی مخالف ہوگئیں۔ لوگ انہیں پتھر مارتے تھے، زخمی کرتے تھے، راستوں میں سر پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے اور طرح طرح سے تکلیفیں پہنچاتے تھے مگر میرے دادا ابوطالبؑ نے جو اس مقدس رسولؐ کے چچا تھے اپنے بھتیجے کی ہر طرح حمایت کی اورا ن کو خطرات سے محفوظ رکھا۔ میرے والد علی مرتضیٰ ؑابھی کمسن ہی تھے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی محمد مصطفیؐ کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کرنا شروع کردیا۔ 
میرے جدِبزرگوار محمد مصطفی کو اسلام کی اشاعت کےلئے اپنے وطن مکہ معظمہ کو ترک کرنے پرآمادہ ہونا پڑا۔ اس موقع پر دشمنوں کو یہ معلوم ہوا تو آپ کے قتل پر آمادہ ہوگئے اور اس ارادہ سے آپ کے مکان کو گھیر لیا۔ یہ ایک یادگار واقعہ ہے کہ جب گھر کو خون کے پیاسے دشمن گھیرے ہوئے تھے اور حضرت رسولؐ خدا خاموش طریقہ سے مکہ سے روانہ ہوگئے تھے تو اپنے چچازاد بھائی میرے والد علی بن ابی طالبؑ کو اپنے بستر پر اپنی چادر اُڑھا کر سلا گئے تھے اور وہ دشمنوں کی کھنچی ہوئی تلواروں کے اندر اپنی جان کو حفاظت رسولؐ میں سپر بنائے ہوئے ان کے بستر پر آرام کرتے رہے۔
مدینہ میں پہنچنے کے بعد بھی میرے نانا کو مخالفین نے اطمینان کی زندگی بسر کرنے نہیں دی۔ ان پر متعدد مرتبہ بڑی بڑی فوجوں کے ساتھ چڑھائی کی۔ تم نے اس سلسلہ میں بدر واحد و خندق وخیبر اور حنین کا تذکرہ ضرور سنا ہوگا یہ تمام لڑائیاں وہ تھیں جن میں مخالف طاقتوں نے ایکا کرکے میرے ناناؐ کے مشن کو شکست دینا چاہی تھی مگر وہ سچائی کی طاقت اور میرے باپ علیؑ مرتضیٰ کی تلوار تھی جس نے ان تمام موقعوں پر پیغمبرؐ کو فتح عطا کی۔ جب تک دنیا کی تاریخ میں اسلام کا نام باقی ہے، میرے نانا محمد مصطفیؐ اور میرے باپ علیؑ مرتضیٰ کی یاد قائم رہے گی۔
دنیا میں انسانیت کی جتنی خوبیاں ہیں، سب میرے ناناؐ نے عرب میں اپنی تعلیم کے ذریعہ سے شائع کیں۔ تم کو معلوم ہے کہ دنیا میں ہمیشہ طاقتور لوگ کمزوروں کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور انسانی مشترک حقوق میں بھی تفریق قرار دے دی، مگر میرے ناناؐ نے انتہائی پرزور آواز مساوات کی بلند کی اور عملی طور پر ہر جماعت کے معیار کو اونچا کیا۔ تمہیں معلوم ہوگا کہ میرے ناناؐ کی مسجد کا موذن ایک سیاہ رنگ حبشی بلال تھا جس کی وہ اتنی عزت کرتے تھے جتنی بڑے بڑے ذی عزت خاندانوں کے لوگوں کی بھی نہ کرتے ہوںگے۔
میرے ناناؐ کی ایک اکلوتی بیٹی میری ماں فاطمہ زہراءؐ تھیں جنہیں آپ انتہا درجہ عزیز رکھتے تھے اور جب آپ کے پاس آتی تھیں تو تعظیم کےلئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کی شادی آپ نے اپنے چچازاد بھائی علیؑ مرتضیٰ کے ساتھ کی مگر دنیاوی حیثیت سے میری ماں کی حالت یہ تھی کہ ایک مدت تک آپ کے پاس کوئی عورت گھر کے کاروبار کےلئے نہ تھی۔ خود ہی چکی پیستی تھیں اور خود ہی چرخہ کاتتی تھیں کھانا پکاتی تھیں اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔ 
میرے ناناؐ نے اپنی اس پیاری بیٹی کو ایک کنیز عطا کی تھی جس کا نام فضہ تھا تو یہ ہدایت کردی کہ پورا کام برابر فضہ سے نہ لینا بلکہ ایک دن گھر کا کاروبار تم کرنا اور ایک دن فضہ سے کام لینا یہ وہ مساوات کی تعلیم ہے جسے دنیا کو یاد رکھنا چاہیۓ۔
اپنے ماں باپ کے ہم دونوں بھائی حسن مجتبیٰؑ او رمیں بڑے محبوب فرزند تھے۔ ہمارے ناناؐ ہم سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ہم سے بچوں کی طرح کھیلتے تھے، مسجد میں خطبہ پڑھتے میں ہم کو گود میں اٹھا لیتے تھے اور سب کو پہچنواتے تھے کہ یہ دیکھو یہ دونوں میرے نواسے مجھ کو بہت عزیز ہیں، تم سب بھی ہمیشہ ان کا خیال رکھنا۔ حضرت کبھی ہمارا رونا گوارا نہیں کرتے تھے اور اگر اس بچپنے کے عالم میں کبھی ہم سجدہ کی حالت میں آپ کی پشت پر آکر بیٹھ جاتے تھے تو ہم کو اس وقت تک اتارتے نہ تھے جب تک کہ ہم خود سے نہ اتر جائیں۔ آپ نے ہم دونوں بھائیوں کی نسبت یہ بھی فرمایا کہ یہ ’’حسنؑ اور حسینؑ سردار ہیں جوانان اہل جنت کے‘‘۔ کبھی ہمیں اپنا گلدستہ کہا اور کبھی عرش کا زیور۔ ہمیں اپنے ناناؐ کے زمانہ میں جو مسرت اور اطمینان حاصل تھا وہ پھر کبھی خواب میں بھی نظر نہیں آیا۔
ہماری سب سے پہلی مصیبت
ہم دونوں بھائی مہرومحبت کی ایک بے پایاں فضا میں زندگی بسر کررہے تھے کہ دفعتاً ہمارے جدبزرگوار حضرت محمد مصطفیؐ بیمار ہوگئے۔ میرا سن اگرچہ اس وقت کم تھا لیکن میں بھی اتنا اندازہ ضرور کرسکتا تھا کہ ناناؐ کی بیماری کے زمانہ ہی سے ہمارےلئے فضا ناخوشگوار پیدا ہونے لگی۔ ہمارے نانا برابر زبانی اپنے اہلبیتؑ کےلئے تمام مسلمانوں کو وصیت کرتے رہتے تھے۔ آپ نے اپنی بیماری کے زمانہ میں چاہا کہ اس وصیت کو تحریری صورت سے مکمل کردیں مگر لوگوں نے آپ کو اس مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا اور تحریر لکھنے نہ دی ہم کو اس وقت یہی واقعہ سمجھا دینے کےلئے کافی تھا کہ فضا کیا ہے اورصورت حال کیا ہونے والی ہے؟

میرے ناناؐ کے بعد
جدبزرگوار حضرت محمدؐ مصطفیؐ کی وفات کے بعد میرے باپ علیؑ مرتضیٰ ؑاور مادرگرامی فاطمہ زہراؐ کو بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں انتہا یہ ہے کہ میری ماں یہ شعر پڑھتی تھیں:
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائِبٌ لَوْ اَنَّھَا
صُبَّتْ عَلَی الْاَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا
(یعنی میرے اوپر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو شبِ تار ہوجاتے)
آخر میری والدہ نے اسی حسرت والم اور غم ویاس کے عالم میں دنیا سے سفر کیا۔
یہ میرےلئے دوسری مصیبت تھی
میرے والد بزرگوار کی طرف عام افراد کی جتنی توجہ دختر رسولؐ کی حیات میں تھی اتنی بھی بعد کو باقی نہیں رہی۔ یقینا اگر میرے والد اس وقت اس مذہب اسلام کے مفاد کوملحوظ نہ رکھتے جس کےلئے آپ رسولؐ کی زندگی میں اپنا خون پسینہ ایک کرچکے تھے تو اس وقت مسلمانوں میں ایک بہت بڑی خانہ جنگی برپا ہوجاتی مگر میرے پدربزرگوار نے دنیاوی سلطنت کی طرف سے بالکل سیرچشمی اور بے توجہی سے کام لیا۔ آپ نے اپنے حقوق کے زبانی اظہار پر اکتفا کرکے عملی مخالفت سے علٰیحدگی اختیار کی اوراس طرح اسلام کوایک بڑی بربادی سے بچا لیا۔
یہ میرےلئے سلطنت دنیا سے بے اعتنائی کا ایک بڑا نمونہ تھا۔ تین دور اسی طرح گذر گئے۔ چوتھی مرتبہ لوگوں نے میرے والد علیؑ مرتضیٰ کومجبور کیا کہ وہ حکومت کی ذمہ داریوں کو اپنے متعلق کریں۔ میں نے دیکھا کہ وہ جناب باوجود اس بات کے کہ اس کے پہلے ہمیشہ اپنے حق کا اعلان کرتے رہے تھے، اس وقت باوجود لوگوں کے اصرار کے انتہائی انکار کررہے تھے اور کسی طرح تیار نہ تھے۔ اس کا باعث یقینا یہ تھا کہ اس وقت مسلمانوں کی عادتیں بگڑ چکی تھیں اور خلافت کے بارے میں زاویۂ نگاہ ہی میں تبدیلی ہوگئی تھی۔ خلافت رسولؐ بالکل حکومت دنیا اور سلطنت کے قالب میں ڈھل گئی تھی اورکسرویت وقیصریت کے آثار اس میںنمودار ہوگئے تھے۔ یہ چیز کسی طرح اس سادگی اور بے تصنعی کے ساتھ سازگار نہ تھی جسے دنیا میں میرے ناناؐ نے پھیلایا تھا اور جس پر میرے باپ قائم تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ میں نے دیکھا جب انتہائی اورحد سے گذرے ہوئے اصرار پر میرے والد تخت سلطنت پر بیٹھے تو دنیا آپ کے احکام کی پابندی اور آپ کے تعلیمات کی پیروی کے قابل ثابت نہیں ہوئی۔ آپ کی مخالفت کا طوفان برپا ہوگیا۔ جمل اور صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں اور آخر مسجد میں حالت نماز میں آپ کے سرپر زہرآلود تلوار لگائی گئی اور آپ دنیا سے رخصت ہوئے۔
یہ بڑا تلخ تجربہ تھا جو مجھ کو عینی مشاہدہ کی صورت میں حکومت وسلطنت سے متنفر بنانے کےلئے کافی تھا۔
شام کی سلطنت پر میرے پورے خاندان بنی ہاشم کے دشمن بنی امیہ کا قبضہ تھا۔ اسی خاندان کا ایک شخص معاویہ بن ابوسفیان دمشق کے تخت پر فرماںروا تھا۔ اسی خاندان کے ہاتھوں میرے ناناؐ کو بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑی تھیں۔ معاویہ کی ماں ہندہ وہ تھی جس نے رسولؐ کے چچا جناب حمزہؑ کی لاش چاک کرائی تھی اور ان کا جگر منھ میں لے کر چبانا چاہا تھا۔ میرے والد سے بھی معاویہ برسرپیکار ہوئے۔ اب والد بزرگوار کی شہادت کے بعد میرے بڑے بھائی حسنؑ مجتبیٰ سردار خلق ہوئے۔ حسنؑ نے دیکھا کہ انتہائی خونریزی کے ساتھ بھی حالات کے اصلاح کی کوئی صورت نہیں ہے، اس لئے آپ نے مخصوص شرائط کے ساتھ امیرشام کے ساتھ مصالحت کرلینا پسند کیا۔
ان شرائط مصالحت میں سب سے اہم شرط یہ تھی کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی دوسرے شخص کو خلافت کےلئے نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا۔ بلکہ خلافت بنی ہاشم کی طرف واپس آئے گی۔
اس صلح کے ساتھ مجھے بھی پورا اتفاق تھا۔ ہمارے جد بزرگوار اور ہمارے ناناؐ کی تعلیم یہی تھی کہ جب تک حمایت باطل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہ آتی ہو اس وقت تک صلح کوجنگ پر ترجیح حاصل ہے اور رواداری سے کام لینا مناسب ہے۔
ہمارے ناناؐ نے ’’حدیبیہ‘‘ میں کفار قریش کے ساتھ اسی اصول پر صلح کی اور ہمارے والد بزرگوار نے صفین میں اہل شام کے ساتھ مصالحت اختیار کی۔ یہی اصول بھائی حسنؑ کے پیش نظر تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ اس کے بعد بھی میرے بھائی امام حسنؑ کو اطمینانی زندگی بسر کرنے نہیں دی گئی اور آخر ایک مخفی سازش کے ساتھ زہردلواکر ان کی زندگی کو ختم کردیا گیا۔ مگر اس کے بعد بھی جب تک کوئی واضح سبب نہ ہوتا، مجھے کسی اقدام کا موقع نہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد دس برس تک میں بالکل خاموش رہا۔
تم سمجھ سکتے ہو کہ جوانی کا دور جو عام انسانی حیثیت سے جوش اور ولولہ کا عہد ہوتا ہے، جس میں انسانی افعال زیادہ تر ہنگامی جذبات کے ماتحت ظاہر ہوتے ہیں، یہ پورا دور میرا اس خاموشی اور متحمل فضا میں گزرا جو میرے والد علی ابن ابی طالبؑ کو ان کی گوشہ نشینی کے دور میں حاصل تھی
میری طبیعت میں صبروتحمل اور ناگوار مشکلات کا برداشت کرنا بالکل راسخ ہوگیا تھا۔ اگر امام حسنؑ کی صلح میرے مذاق طبیعت کے خلاف ہوتی یا ان کے دبائو سے میں نے اس صورت کو گوارا کرلیا ہوتا تو ان کی وفات کے بعد کافی موقع تھا کہ میں حالات میں انقلاب پید اکرتا۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا اور دس برس کی طویل مدت اس کے بعد بھی گزار دی۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ میری عمر ساٹھ برس کے قریب ہوچکی تھی اور یہ دور کسی جوش وخروش اور امنگ وولولہ کا نہیں ہوتا۔ نہ تم کو یہ سمجھنے کا حق حاصل ہے کہ مجھے حکومت وسلطنت کی کوئی ہوس تھی، جب کہ میری سابقہ زندگی کے خود حالات اور میری نفسی ساخت کے مشاہدات اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔
پھر کیا تھا؟
امیرشام معاویہ نے ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کی جو اس صلح نامے میں طے پائےتھے۔ میرے باپ کے شیعوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ یہ صورت حال خود ہی ناقابل برداشت تھی۔ اس لئے کہ میرے والد بزرگوار بھی یہ فرما چکے تھے کہ میں زیادتیوں کو اس وقت تک برداشت کرسکتا ہوں جب تک وہ صر ف میری ذات سے متعلق ہوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہو، لیکن اب یہ حالت تھی کہ ہمارا نام لینے والے دوسرے مسلمان تکلیفوں میں مبتلا کئے جارہے تھے۔ حجر بن عدی اور ان کے ساتھی دمشق میں سولی پر چڑھائے گئے عمروبن الحمق الخزاعی کا سر تن سے جدا کرکے نیزہ پر چڑھایا گیا۔ یقینا یہ حالات میرےلئے انتہائی تحمل شکن تھے، مگر اتنے سنگین واقعات کے باوجود میں نے احتجاج پر اکتفا کی اور معاویہ کو خط لکھا کہ شاید اتنے ہی سے صورت حال کی اصلاح ہوجائے۔ یہ اس لئے کہ تم کبھی میرے اوپر جلد بازی اور انتہا پسندی کا الزام عائد نہ کرو۔
مجھے خبریں پہنچتی تھیں کہ میرے باپ کو منبروں پر گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس کےلئے ہم نے اور ہمارے بھائی نے اتنے ہی پر اکتفا کی کہ ہمارے سامنے ایسا نہیں ہوتا، اس سے بڑھ کر صلح پسندی اور رواداری کیا ہوسکتی تھی۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ احکام شرعی میں تراش وخراش شروع ہوگئی ہے اور مذہب کے مقرر کردہ رسوم کو توڑا جارہا ہے مثلاً اسلامی ملک میں شراب کی درآمد آزادی سے ہونے لگی اوراس پر کوئی ٹوکتا ہے تو اعتنا نہیں کی جاتی۔
ممکن تھا کہ یہ صورتیں بھی انفرادی معصیت قرار دے کرسکوت اختیار کیا جاتا، دین اسلام کے بڑے بڑے احکام کی پابندی کو غنیمت سمجھ کر جو ظاہری طور پر ضروری سمجھی جاتی تھی، لیکن معاویہ نے سب سے آخر میں اپنے فرزند یزید کو جانشین بنانا ضروری سمجھا اور تمام مسلمانوں سے بہ جبر وقہر اس شخص کی بیعت لی گئی۔
یزید  کون تھا؟
یزید معاویہ کا بیٹا تھا، جو ایک صحرائی عرب عورت سے پیدا ہوا تھا۔ یہ انتہائی فاسق وفاجر اور بدکار تھا۔ وہ نماز کو ترک کرتا تھا اور شراب علانیہ پیتا تھا۔ زناکاری اورلہوولعب میں منہمک رہتا تھا اور انتہا ہے کہ نفسانی خواہشوںکے حاصل کرنے کےلئے ماں اور بہن کی تمیز سے بھی اسے سروکار نہ تھا۔
وہ خلیفۂ رسولؐ کی حیثیت سے برسراقتدار ہوجاتا تو مسلمانوں میں شریعت اسلام کا کوئی وقار اور اعزاز باقی نہ رہ سکتا تھا۔ ایسے شخص کو برسراقتدار لایا جانا ہی ناقابل برداشت تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ مجھ سے اس کی بیعت کی خواہش کی جارہی تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی جانب سے خود بھی اس کو جانشین رسول ؐ تسلیم کرلوں اور اس طرح اس کی تمام سیاہ کاریوں کے جائز ہونے کی ذمہ داری لے لوں۔
میں نے اس کو گوارہ نہیں کیا۔ تم، ممکن ہے، پہلے کے واقعات سے میری حیثیت کا اس بارے میں اندازہ کرسکتے ہو۔ میں رسولؐ کے خاندان کا نمائندہ تھا۔ میں منصبی طور پر شریعت اسلام کا ترجمان تھا  اور چونکہ میرا اور اسلام کا گہوراۂ تربیت بالکل ایک تھا یعنی وہی رسولؐ کا سینہ جو وحی کے اترنے کی جگہ تھی۔ میرے نشست وخواب کی منزل تھی۔ میری نگاہ میں احکام اسلام کی جو اہمیت ہوسکتی تھی کسی دوسرے کی نگاہ میں نہیں ہوسکتی تھی۔
میں نے دیکھا کہ وہی بت پرستی جسے میرے ناناؐ نے جزیرہ نمائے عرب سے مٹانے کی کوشش کی تھی آج وہ انسانی اقتدار کے لباس میں شریعت خداوندی اورمذہب توحید کو فنا کررہی تھی۔ میں نے صاف انکار کردیا تھا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروںگا مجھے معلوم تھا کہ اس صورت میںمیرےلئے کیا ہوگا مگر میں اس کےلئے بالکل تیار تھا۔
یزید کی خلافت
معاویہ نے میرے معاملے میں سکوت سے کام لیا۔ مگر معاویہ کا انتقال ہوا اوریزید تخت سلطنت پر متمکن ہوگیا۔ اس کی نخوت اور جباریت کےلئے میرا وجود نہایت ناگوار تھا اس لئے کہ میں نے اس کی بیعت نہیں کی تھی اس نے اپنے گورنر کو جو مدینہ میں تھا خط لکھا :
 ’’حسین سے بیعت ضرور لو، ورنہ ان کا سرقلم کرکے میرے پاس بھیجو۔‘‘ 
مجھے اس پیغام سے بالکل تعجب نہیں ہوا۔ اس لئے کہ میں اسے پہلے سے سمجھے ہوئے تھا۔ بیعت میرےلئے ایک بالکل غیرممکن چیز تھی۔ سر کا قلم ہونا بیشک آسان تھا مگر اس حفاظت خوداختیاری کے فرض کو انجام دینے کے بعد، جو میرے نانا کی شریعت کا ایک بنیادی حکم ہے۔
میں نے اس فرض کے انجام دینے کےلئے اپنے وطن کو خیرباد کہنے کا تہیہ کرلیا۔

وطن سے جدائی
میں براہ راست کسی سے لڑنے نہیں جارہا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے تمام گھر بھر کو (جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے) اپنے ساتھ لیا میرے خاص الخاص عزیز، بھائی بھتیجے، بیٹے میرے ساتھ تھے میں نے مدینہ سے ان کے علاوہ کچھ بھی اعوان وانصار کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت نہیں دی اسی سے تم میرا مقصد سمجھ سکتے ہو۔
خانۂ خدا میں پناہ
میں نے رسولؐ کے حرم کی جدائی کے بعد خد اکے حرم سے بہتر کوئی جگہ نہیں پائی۔ اس لئے میں نے مکہ معظمہ میں جاکر قیام کیا۔ میں نے یہاں بھی فوج ولشکر کی جمع آوری کی فکر نہیں کی۔ ممکن تھا کہ مجھے یہاں خاموشی کی زندگی بسر کرنے دی جاتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں اگر حج کو ترک کرکے مکہ سے باہر نہ چلا جاتا تو خانۂ کعبہ کے پاس میرے خون کی بارش ہوتی۔ مگر مجھے یہ کسی طرح گوارا نہ تھا کہ خانۂ خدا کی حرمت میرے قیام کی وجہ سے برباد ہو۔
عراق کی طرف روانگی
میں مکہ سے نکل کھڑا ہوا۔ اب میں کدھر جاتا؟ عراق کے لوگ مجھے بلا رہے تھے اور میں اپنے چچازاد بھائی مسلمؑ کو وہاں کے حالات کے مشاہدے کےلئے بھیج بھی چکا تھا۔ انہوں نے مجھے یہ اطلاع بھی بھیجی تھی کہ یہاں کے لوگ آپ کے مذہبی ہدایات کی اطاعت کےلئے تیار ہیں۔ بیشک مجھے وہیں جانا  چاہیۓتھا۔ میں روانہ ہوا مگر اس دوران میں کوفہ میں میرے دشمنوں کا اقتدار قائم ہوگیا تھا اور وہاں کی فضا بالکل میرے خلاف ہوگئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ کوفہ میں میرے سچے ماننے والوں نے جو میرے بلانے کے اصلی محرک تھے کوئی غداری نہیں کی، انہیں خود ایسے خلاف امید سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا کہ وہ مجبور ہوگئے مگر پھر بھی انہوں نے میرے ساتھ وفاداری کی حد کردی کہ باوجود انتہائی سخت حراست اور ناکوں کی حفاظت کے یہ لوگ کوفہ سے نکل کر مجھ تک پہنچ گئے اورمیری خاطر اپنی جان نثار کی۔
میرا عزیز قاصد میرا بھائی مسلمؑ بن عقیل کوفہ میں قتل کرڈالا گیا، اس نے اکیلے وہ کارنمایاں انجام دیا جس کا لازوال نقش میرے دل پر قائم ہے۔ مجھے اب کوفہ میں کوئی امید باقی نہیں رہی تھی۔ مگر مجھے مکہ اورمدینے جانا بھی ممکن نہ تھا۔ میں نے جنگ کا اپنی جانب سے نہ ارادہ کیا تھا۔ نہ کوئی سامان، میرے ساتھ میرے ہی خاص لوگ تھے۔ اس صورت میں کوئی وجہ نہ تھی کہ میرے خلاف جنگجویانہ طرزعمل اختیار کیا جائے۔ میں نے وہ خط جو اہل کوفہ کو لکھا تھا اس میں بھی صاف لکھ دیا تھا کہ امام کے معنی ہیں بس وہ جو حق پر عمل کرے اور احکام خدا پر قائم رہے اور سنت رسولؐ کی پابندی کرے۔ 
میں سلطنت وحکومت کےلئے دنیا کے امن وامان کو خاک میں نہیں ملانا چاہتا تھا۔ اس کا میں نے اپنے طرزعمل سے پورا اظہار کردیا تھا۔ لیکن کوفہ سے میرے گرفتار کرنے کو فوجیں بھیجی گئیں۔ میں نے اس مخالف لشکر کے آنے کے وقت اپنی طرف سے یہ خوش گوار طرزعمل اختیار کیا کہ اس فوج کو جو اس وقت بہت پیاسی تھی کوشش کے ساتھ سیراب کرادیا۔ مجھے انسانی ہمدردی اس وقت تمام دوسرے خیالات پر غالب تھی۔ میں تمام دنیا سے اسی کا طالب بھی ہوں کہ وہ اپنے درمیان ہزاروں خیالی اختلافات کے باوجود انسانی ہمدردی کو کبھی نظرانداز نہ کرے، اور اس میں کسی تنگ نظری سے کام نہ لے
مجھے اس کا صلہ کوئی مدنظر نہ تھا  اور نہ میں اس کا معاوضہ چاہتا تھا لیکن انسانیت کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اسی فوج کی جانب سے عاشور کے دن اور اس کے دو دن پہلے سے مجھ پر اور میرے عزیزوں بلکہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر بھی پانی بند کردیا جائے۔
بہرحال میں اس فوج کی حراست میں جو کوفہ سے آئی تھی، کربلا کی سرزمین پر پہنچ گیا۔
کربلا پہنچنے کے بعد
مجھے دوسرے ہی دن سے ہزاروں سواروں کے دستے پے درپے آتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ فوجوں سے وہ تمام میدان چھلکنے لگا۔ میرے ساتھ میرے سترہ اٹھارہ عزیز تھے اور بس وہ میرے دوست تھے جو کوفہ یا بعض دوسرے مقامات سے میرے پہنچنے کی خبر سن کر کسی طرح مجھ تک پہنچ گئے تھے۔ ان کی تعداد سو سے کچھ زیادہ نہیں تھی۔ مجھے حفاظت خود اختیاری کا اصول بہرحال پیش نظر تھا مگر اس شرط سے کہ میرا اہم ترین مذہبی مسلک قربان نہ ہو۔ میں نے ایسی صورتیں اختیار کیں کہ معاملات رو بہ اصلاح ہوجائیں اور جنگ کی صورت نمودار نہ ہو۔ 
میرا طریقۂ کار اتنا سلجھا ہوا تھا کہ خود یزیدی فوج کا افسر عمرسعد بھی اس بات کا قائل ہوگیا کہ میں صلح کے راستہ پر گامزن ہوں۔ اس نے حاکم کوفہ ابن زیاد کو اس مضمون کا خط بھی بھیجا مگر ابن زیاد کو حکومت کا غرور اور سلطنت کا نشہ تھا۔ اس نے مجھے پہچانا بھی نہ تھا کہ میں مشکلات کو کہاں تک برداشت کرسکتا ہوں۔ 
اس نے میری صلح پسندی کو کمزوری کانتیجہ خیال کیا تھا۔ اس لئے اس نے کہا تھا کہ حسینؑ کو یزید کی بیعت کرلیناچاہیۓ۔ یہی صورت صلح کی ہے میرے سامنے یہ وہی سب سے پہلا سوال تھا جو اب آخر میں بھی پیش تھا اور یہ طے شدہ بات تھی کہ مجھے یزید کی بیعت ہرگز نہیں کرناچاہیۓ۔ صلح کا تجربہ میرے بھائی حسن مجتبیٰؑ اور میرے ابتدائی دور سے اس وقت تک ہوچکا تھا، اب اس طرح کی صلح کا کوئی امکان نہ تھا، جس کا نتیجہ میری نہیں بلکہ میرے اصول، مسلک اور دیانت وامانت کی فنا ہو۔ میرے سامنے فوجوں کا سمندر لہریں مار رہا تھا، میرے گردوپیش ویرانی اور بربادی کے سوا کچھ اور نظر نہ آتا تھا۔ 
میرے عزیز بھائی بھتیجے اور اولاد کے خوبصورت چہرے موجود تھے اور میرے ساتھ پردہ دار عورتیں تھیں اور چھوٹے بچے بھی موجود تھے دریا پر فوج کا پہرہ بیٹھ گیا تھا اور ایک قطرہ پانی ہم تک پہنچنا ممکن نہ تھا  اور میں چھوٹے بچوں کو پیاس کی شدت سے بیتاب اورمضطرب دیکھ رہا تھا۔ یہ تمام وہ اسباب تھے جو مجھے یزید کی بیعت کی دعوت دے رہے تھے۔ مگر ان سب کے مقابل میں اس تعلیم کا خیال تھا جو میرے ناناؐ کی پھیلائی ہوئی تھی۔ 
میرے بیعت کرلینے سے وہ تعلیم یقینا فنا ہوجاتی، میرا ارادہ پہلے ہی سے مضبوط تھا مگر عملی طور پر جتنے مشکلات بڑھتے جاتے تھے، میری ہمت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
نویں محرم کی شام تھی۔ جب اس عظیم لشکر نے ہم پر حملہ بھی کردیا۔ مگر میں نے ایک شب کی مہلت لے لی۔ یہ میںنے کسی دنیوی مقصد سے مہلت نہیں حاصل کی تھی، بلکہ ایک طرف تو مجھے ایک آخری مرتبہ اپنے خدا کی عبادت میں پوری رات بسر کرلینا تھی اور دوسری طرف میں یہ چاہتا تھا کہ اپنے ساتھیوں میں سے جو لوگ میرا ساتھ چھوڑ کے جانا چاہیں انہیں جانے کا موقع دے دوں، کیونکہ میں کسی کو ہنگامی طور پر بے سوچے سمجھے اپنے ساتھ جان دینے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے ان کو صاف طور سے یہ اجازت دے دی کہ وہ میرا ساتھ چھوڑکر چلے جائیں۔ مگر کیا کہنا ان جانبازوں کی وفاداری اور فرض شناسی کا جنہوں نے میری پیش کردہ رعایت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا  اور یک زبان ہوکر کہا کہ ہم آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیںگے، مجھے دنیا کے سامنے مثال میں اپنے ان اصحابؑ کو پیش کرنا تھا۔ مجھے دنیا کے رہنمائوں کو نمونہ دکھلانا تھا۔ یہ بالکل غلط اصول ہے کہ انسان کسی سخت اقدام کےلئے ترغیب وتحریص کرکے دوسروں کو آمادہ کرے، اور اس سے مقصود یہ ہو کہ یہ لوگ ایک حد تک ہماری سپر قرار پائیں۔ ان لوگوں نے جو کچھ کہا تھا وہی کردکھایا۔ 
دسویں محرم کی صبح سے دوپہر کے بعد تک یہ میرے جانثار برابر اپنی جانیں اس اصول کی حمایت میں جس پر میں قائم تھا، فدا کرتے رہے۔ یہ ایک حیرت انگیز وفاداری کی مثال سمجھی جانا  چاہیۓکہ جب تک ان میں ایک بھی باقی رہا۔ میرے کسی عزیز کسی جوان یا کم سن بچے تک کو کوئی گزند نہ پہنچا۔ جب یہ میرے مجاہد دنیا سے رخصت ہوگئے اب میں تھا اور میرے عزیز۔
میرےلئے یہ بہت آسان تھا کہ میں خود آگے بڑھ کر اپنا سر تن سے جدا کرادوں، مگر مجھے تو اپنی قوت برداشت کا پورا امتحان دینا تھا۔ چنانچہ میرے عزیز مجھ سے جدا ہونے لگے۔ میں ان میں سے کس کو پہلے موت کے منہ میں جانے کی اجازت دیتا؟ ان میں میرے بھائی امام حسنؑ کی نشانی تھی۔ میرے باپ کی یادگاریں تھیں۔ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ سب سے پہلے اپنے انتہائی عزیز فرزند علی اکبرؑ کو جو شبیہہ رسولؐ بھی تھا مرنے کےلئے بھیج دوں۔ یقینا یہ مرحلہ میرےلئے سخت تھا۔ مگر جب میں نے اس مشکل کو طے کرلیا تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ مجھے کتنی کامیابی کا احساس ہورہا تھا۔ اب میرے دوسرے عزیزوں کی باری تھی۔ 
میرا بھتیجا قاسم بن الحسنؑ رخصت ہوا اور دوسرے عزیز بھی یوں ہی ایک ایک کرکے موت کی نیند سوگئے۔ سب سے آخر میں میرا جاںباز بھائی ابوالفضل العباسؑ مجھ سے رخصت ہوا۔ میں اس کی جدائی کو کسی طرح گوارا نہ کررہا تھا۔اس لئے کہ میرا علم اسی کے ہاتھ میں تھا  اور میری فوج کا نشان اس کے دم سے قائم تھا۔ مگر جب کوئی اور نہ رہا تو آخر عباسؑ بھی جنگ کرکے دنیا سے سدھارے۔ میری کمر اس غم سے شکستہ ضرور ہوگئی۔ مگر میری طاقتِ عمل میں کمی پیدا نہیں ہوئی۔ اب میری خود باری تھی۔
میں نے تلوار کھینچی، اس حد تک مجھے مقابلہ ضرور کرنا تھا جتنی کہ مجھ میں انسانی طاقت موجود تھی۔ تمہیں معلوم ہے کہ ان تمام صدموں کے باوجود، ان سب مصائب اٹھانے کے بعد بھی میں نے میدان جنگ میں اپنے بزرگوں کی یاد فراموش نہیں ہونے دی۔ بہرحال ہزاروں آدمیوں سے میں نے تنہا مقابلہ کیا۔ اس میں مجھے جتنا زخمی ہونا چاہیۓتھا اس کا اندازہ تم خود کرسکتے ہو۔ آخر وہ انتہائی مرحلہ جو میرےلئے پہلے ہی آسان تھا وہ بھی آسان ہوگیا میں گھوڑے سے زمین پر گرا اور شمر کے خنجر سے راز ونیاز کے بعد میرے سر وگردن کا باہمی اتصال جدا ہوا۔ میرا سر قلم ہوگیا  اور نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ابن زیاد کی فوج نے وہ سب کچھ کیا جو ایک ظالم کے ظلم کی آخری حد ہوسکتی ہے۔ مگر اس سب کے بعد فتح کس کو ہوئی؟ اور شکست کس کو؟
میں پشیمان نہیں ہوں اور نہ اپنے عمل سے منفعل۔ مگر دنیا کو معلوم ہے کہ یزید پشیمان ہوا اور انتہائی شرمندہ، اس کی زندگی موت بن گئی  اور میری موت حیات لازوال۔ مجھے تم کو پیغام بھی یہی دینا ہے کہ کسی شریف اور مقدس مقصد کےلئے دنیاوی مشکلات کی کبھی پروا نہ کرنا۔ تمہاری انسانیت کا جوہر یہی ہے۔
تم جو میری یادگاریں قائم کرتے ہو اور یاد تازہ کرتے ہو، ان کا حاصل یہی ہونا  چاہیۓکہ تم میرے مقصد کی بلندی سے بھی روشناس ہو، اور عملاً اس کی پیروی کی کوشش کرو۔ میں، یاد رکھو، کسی خاص جماعت سے مخصوص تعلق نہیں رکھتا ہوں۔ جو میرے اصول اور میرے مسلک پر غور کرے اور اس سے سبق حاصل کرے وہی مجھ سے بہترین فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

تبصرے
Loading...