امام حسین علیہ السلام اور شب عاشور

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے۔ آپ کے پاس ’’جون [1]‘‘ابوذر کے غلام بھی موجود تھے جو اپنی تلوار کو آمادہ کررہے تھے اور اس کی دھار کو ٹھیک کر رہے تھے۔اس وقت میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے : یا دھر افّ لک من خلیلکم لک بالِاشراق والاصیل، من صاحب أو طالب قتیل والدھر لا یقنع بالبدیل وانما الامر الیٰ الجلیل وکلّ حي سالک سبیل۔ اے دنیا! اُف اور وائے ہو تیری دوستی پر، کتنی صبح و شام تو نے اپنے دوستوں اور حق طلب انسانوں کو قتل کیا ہے، اور ان کے بغیر زندگی گزاری ہے ،ہاں روز گار بدیل و نظیر پر قناعت نہیں کرتا، حقیقت تو یہ ہے کہ تمام امور خدائے جلیل کے دست قدرت میں ہیں اور ہر زندہ موجود اسی کی طرف گامزن ہے۔ بابا نے ان اشعار کی دو یا تین مرتبہ تکرار فرمائی تو میں آپ کے اشعار کے پیغام اور آپ کے مقصد کو سمجھ گیا لہذا میری آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب جوش مارنے لگے اور میرے آنسو بہنے لگے لیکن میں نے بڑے ضبط کے ساتھ اسے سنبھالا میں یہ سمجھ چکاتھا کہ بلا نازل ہوچکی ہے ۔ ہماری پھوپھی نے بھی وہی سنا جو میں نے سنا تھا لیکن چونکہ وہ خاتون تھیں اور خواتین کے دل نرم و نازک ہوا کرتے ہیں لہٰذا آپ خود پر قابو نہ پاسکیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور سر برہنہ دوڑتی ہوئی اس حال میں بھائی کے خیمہ تک پہنچیں کہ آپ کا لباس زمین پر خط دے رہا تھا،وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا : ’’واثکلاہ ! لیت الموت أعد مني الحیاۃ ! الیوم ماتت فاطمۃ أمّي و علی أبي ، وحسن أخي یا خلیفۃالماضي وثمال الباقي[2]‘‘آہ یہ جانسوز مصیبت ! اے کاش موت نے میری حیات کو عدم میں تبدیل کردیا ہوتا! آج ہی میری ماں فاطمہ ، میرے بابا علی اور میرے بھائی حسن دنیا سے گزر گئے۔ اے گذشتگان کے جانشین اور اے پسماندگان کی پناہ ، یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟

یہ سن کر حسین علیہ السلام نے آپ کو غور سے دیکھا اور فرمایا:’’ یا أخیّۃ لا یذھبن بحلمک الشیطان‘‘ اے میری بہن مبادا تمہارے حلم و بردباری کو شیطان چھین لے۔ یہ سن کر حضرت زینب نے کہا :’’ بأبی أنت و أمی یا أبا عبداللہ! أستقتلت؟ نفسی فداک ‘‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں اے ابو عبداللہ! کیا آپ اپنے قتل و شہادت کے لئے لحظہ شماری کررہے ہیں؟ میری جان آپ پر قربان ہوجائے۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام کو تاب ضبط نہ رہی؛ آنکھوں سے سیل اشک جاری ہوگیا اور آپ نے فرمایا :’’ لو ترک القطا لیلاً لنام !‘‘ اگر پرندہ کو رات میں اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سورہے گا ۔یہ سن کر پھوپھی نے فرمایا :’’ یا ویلتی ! أفتغصب نفسک اغتصاباً ؟ فذالک أقرح لقلبي وأشد علیٰ نفسي‘‘اے وائے کیا آپ آخری لمحہ تک مقابلہ کریں گے اور یہ دشمن آپ کو زبردستی شہید کردیں گے ؟ یہ تو میرے قلب کو اور زیادہ زخمی اور میری روح کے لئے اور زیادہ سخت ہے ،یہ کہہ کر آپ اپنا چہرہ پیٹنے لگیں اور اپنے گریبان چاک کردئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ بے ہوش ہوگئیں ۔امام حسین علیہ السلام اٹھے اورکسی طرح آپ کو ہوش میں لا کر تسکین خاطر کے لئے فرمایا :’’ یا أخیّۃ ! اتقي اللّٰہ و تعزي بعزاء اللّٰہ و اعلمي ان أھل الارض یموتون و أن أھل السماء لایبقون وأن کل شی ھالک الا وجہ الذی خلق الارض بقدرتہ و یبعث الخلق فیعودون وھو فرد وحدہ، أبي خیر مني، و أمي خیر مني ، و أخي خیر مني ولي ولھم ولکل مسلم برسول اللّٰہ أسوۃ .‘‘ اے میری بہن !تقوائے الہٰی پر گامزن رہو اور اس سے اپنی ذات کو سکون پہنچاؤ اور جان لو کہ اہل زمین کو مرنا ہی مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے۔ جس ذات نے اپنی قدرت سے زمین کو خلق کیاہے اس کے علاوہ ہر چیزکوفنا ہوناہے۔اس کی ذات مخلوقات کو مبعوث کرنے والی ہے، وہ دوبارہ پلٹیں گے، بس وہی اکیلا و تنہا زندہ ہے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے ، میری مادر گرامی مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے، میرے لئے اور ان لوگوں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے رسول خدا کی زندگی اور موت نمونۂ عمل ہے۔

اس قسم کے جملوں سے آپ نے بہن کے دل میں امنڈتے ہوئے سیلاب کو روکا اور انھیں تسلی دی اور پھرفرمایا: ’’یاأخیۃ ! انی أقسم علیک فأبّری قسمی : لا تشقی علي جیباً ولا تخمشی عليّ وجھا ولا تدعي عليّ بالویل والثبور اذا أنا ھلکت‘‘ اے میری بہن !میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت کے بعد تم اپنے گریبان چاک نہ کرنا، نہ ہی اپنے چہرے کو پیٹنا اورنہ اس پر خراش لگانا اور نہ ہی واے کہنا اور نہ موت کی خواہش کرنا۔

پھربابا نے پھوپھی زینب کو میرے پاس لاکر اور بٹھایا اور ان کے دل کو آرام و سکون بخشنے کے بعد اپنے اصحاب کی طرف چلے گئے۔ وہاں پہنچ کرانھیں حکم دیا کہ وہ ا پنے خیموں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرلیں، اس کی طناب کو ایک دوسرے سے جوڑ لیں اور اپنے خیموں کے درمیان اس طرح رہیں کہ دشمنوں کو آتے دیکھ سکیں [3]۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام بانس اور لکڑیاں لے کر ان لوگوں کے خیموں کے پیچھے آئے جہاں پتلی سی خندق نما بنائی گئی پھر وہ بانس اورلکڑیاں اسی خندق میں ڈال دی گئیں۔ اسکے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: جب وہ لوگ صبح میں ہم لوگوں پر حملہ کریں گے تو ہم اس میں آگ لگادیں گے تا کہ ہمارے پیچھے سے وہ لوگ حملہ آور نہ ہوسکیں اور ہم لوگ اس قوم سے ایک ہی طرف سے مقابلہ کریں[4]۔
شب عاشورامام حسین ؑ اور آپ کے اصحاب مشغول عبادت

جب رات ہوگئی تو حسین علیہ السلام اور اصحاب حسین علیہم السلام تمام رات نماز پڑھتے رہے اور استغفار کرتے رہے۔ وہ کبھی دعا کرتے اور کبھی تضرع و زاری میں مشغول ہوجاتے تھے ۔ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی اصحاب حسین علیہ السلام میں سے تھے جو دشمنوں کے چنگل سے نجات پاگئے تھے، وہ کہتے ہیں : سواروں کا لشکر جو ہماری نگرانی کر رہا تھا اور ہم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا وہ ہمارے پاس سے گزرا؛ اس وقت امام حسین علیہ السلام قرآن مجید کی ان آتیوں کی تلاوت فرما رہے تھے : ’’وَلاَےَحْسَبَنَّ اَلذِّینَ کَفَرُوْ اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَیراً لانفسھم اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھْمْ لَےَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَھُمْ عَذَاب مُھِین. مَا کَاْنَ اللّہُ لِیذَرَ الْمُؤمِنِینَ عَلَی مَا أنْتُمْ عَلَیہِ حَتَی یمِیزَ الْخَبِیث مِنَ الطَّیِّب[5]‘‘ِ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے جو انھیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم نے تو انھیں اس لئے مہلت دی ہے تا کہ وہ اور زیادہ گناہ کریں اور ان کے لئے رسوا کنندہ عذاب ہے۔ خدا وندعالم ایسانہیں ہے کہ مومنین کو اسی حالت پر رکھے جس پر تم لوگ ہو بلکہ ی اس لئے ہے کہ وہ پلید کو پاک سے جداکر ے ۔اس وقت لشکر عمر بن سعد کے کچھ سوار ہمارے اردگرد چکّر لگا رہے تھے ۔ان میں سے ایک سوار یہ آیتیں سن کرکہنے لگا رب کعبہ کی قسم !ہم لوگ پاک ہیں، ہم لوگوں کو تم لوگوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ میں نے اس شخص کو پہچان لیا اور بریر بن حضیر ہمدانی[6] سے کہا کہ آپ اسے پہچانتے ہیں یہ کون ہے ؟ بریر نے جواب دیا: نہیں ! اس پر میں نے کہا :یہ ابو حرب سبیعي ہمدانی عبداللہ بن شہر ہے، یہ مسخرہ کرنے والااور بیہودہ ہے،بڑا بے باک اور دھوکہ سے قتل کرنے والا ہے۔ سعید بن قیس[7]نے بارہا اس کی بد اعمالیوں اور جنایت کاریوں کی بنیاد پر اسے قید کیا ہے ۔

یہ سن کر بریر بن حضیر نے اسے آواز دی اور کہا: اے فاسق ! تجھے اللہ نے پاک لوگوں میں قرار دیا ہے ؟! تو ابو حرب نے بریر سے پوچھا : تو کون ہے ؟ بریرنے جواب دیا : میں بریر بن حضیر ہوں ۔ابو حرب نے یہ سن کر کہا : انّاللّہ ! یہ میرے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے کہ تم بریر ہو، خدا کی قسم! تم ہلاک ہوگئے، خدا کی قسم تم ہلاک ہوگئے اے بریر !بریرنے کہا : اے بو حرب ! کیا تو اپنے اتنے بڑے گناہ سے توبہ کرسکتا ہے ؟ خدا کی قسم! ہم لوگ پاک ہیں اور تم خبیثوں میں ہو۔

اس پر ابو حرب نے بریر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: اور میں اس پر گواہ ہوں!میں ( ضحاک بن عبداللہ مشرقی) نے اس سے کہا : تیری معرفت تیرے لئے نفع بخش کیوں نہیں ہورہی ہے ؟ ابو حرب نے جواب دیا : میں تم پر قربان ہوجاؤں ! تو پھر یزید بن عذرہ عنزیّ کا ندیم کون ہوگا جو ہمارے ساتھ ہے ۔یہ سن کربریر نے کہا : خدا تیرا برا کرے! تو ہر حال میں نادان کا نادان ہی رہے گا ۔یہ سن کر وہ ہم سے دور ہوگیا[8]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] طبری نے حوَيلکھا ہے۔ ارشاد، ص ۲۳۲ میں ’’جوین ‘‘ اور مقاتل الطالبیین، ص ۷۵ ، مناقب بن شہر آشوب، ج۲، ص ۲۱۸، تذکرۃ الخواص، ص ۲۱۹ ، اور خوارزمی، ج۱ ،ص ۲۳۷ پر ’’جون ‘‘ مرقوم ہے ۔ تاریخ طبری میں آپ کا تذکرہ اس سے قبل اور اس کے بعد بالکل موجود نہیں ہے نہ ہی امام علیہ السلام کے ہمراہ آپ کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے۔

[2] ارشاد میں یہ جملہ اس طرح ہے’’ یا خلیفۃ الماضین و ثمال الباقین‘‘(ص۲۳۲ ) تذکرہ میں اس جملہ کا اضافہ ہے’’ ثم لطمت وجھھا‘‘(ص۲۵۰ ،طبع نجف)

[3] حارث بن کعب اور ابو ضحاک نے مجھ سے علی بن الحسین کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے( طبری ،ج۵، ص۴۲۰ ؛ ابو الفرج ، ص ۷۵ ،ط نجف ،یعقوبی، ج۲،ص ۲۳۰ ؛ ارشاد ،ص ۲۳۲ ، طبع نجف )آپ نے تمام روایتیں امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہیں۔

[4] عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی سے روایت کی ہے۔ طبری ، ج۵ ،ص ۴۲۱، ارشاد ، ص ۲۳۳ ، پر فقط ضحا ک بن عبداللہ لکھا ہے۔

[5] آل عمران، آیت ۱۷۸و ۱۷۹

[6] ارشاد ،ص ۲۳۳، اور دیگر کتب میں خضیر مرقوم ہے اور یہی مشہور ہے ۔ آپ کوفہ کے قاریوں میں ان کے سید و سر دار شمار ہوتے تھے۔ ( طبری ، ج۵، ص۴۳۱ )آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا ذکر ہے۔ آپ امام علیہ السلام تک کس طرح پہنچے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ آپ وہ ہیں جو جنگ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے مقابلہ اور مبارزہ کے لئے اٹھے تو امام علیہ السلام نے آپ کو بٹھا دیا۔( طبری ،ج۵ ،ص ۴۲۹ ) آپ وہی ہیں جنہوں نے عبدالرحمن بن عبد ربہ انصاری سے کہا تھا : خدا کی قسم! میری قوم جانتی ہے کہ مجھے نہ تو جوانی میں ،نہ ہی بوڑھاپے میں باطل ہنسی مذاق سے کبھی محبت رہی ہے لیکن خداکی قسم جو میں دیکھ رہا ہوں اس سے میں بہت خوش ہوں۔ خدا کی قسم! ہمارے اور حور العین کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ ہم پر تلوار سے حملہ کریں۔میں تو یہی چاہتا ہوں کہ یہ لوگ حملہ آور ہوں۔( ج۵ ،ص ۴۲۳ ) آپ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ عثمان نے اپنی جان کو برباد کردیا۔ معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور گمراہ کرنے والا تھا . امام و پیشوای ہدایت اور حق تو بس علی بن ابیطالب علیہ السلام تھے۔ اس کے بعد آپ نے عمر بن سعد کے ایک فوجی سے جس کا نام یزید بن معقل تھا اس بات پر مباہلہ کیا کہ یہ مفاہیم و معانی حق ہیں اور یہ کہا کہ ہم میں سے جو حق پر ہے وہ باطل کو قتل کردے گا یہ کہہ کر آپ نے اس سے مبارزہ و مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (طبری ،ج۵ ،ص ۴۳۱)

[7] سعید بن قیس ہمدانی ،ہمدان کا والی تھاجسے والی کوفہ سعید بن عاص اشرق نے معزول کر کے ۳۳ ھ ؁میں ’’ری‘‘ کا والی بنا دیا تھا۔( طبری، ج۵ ، ص ۳۳۰) امیر المومنین علیہ السلام نے مذکورہ شخص کو شبث بن ربیعی اور بشیر بن عمرو کے ہمراہ معاویہ کے پاس جنگ سے پہلے بھیجا تاکہ وہ سر تسلیم خم کر لے اور جما عت کے ہمراہ ہو جائے۔ (طبری، ج۵ ، ص ۵۷۳) صفین میں یہ شخص علیؑ کے ہمراہ جنگ میں مشغول تھا۔( طبری، ج۴، ص ۵۷۴)یہ وہ سب سے پہلی ذات ہے جس نے امیر المومنین کے مقاصد کا مثبت جواب دیا تھا۔ (ج۵، ص ۹)امیر المومنین ؑ نے آپ کو انبار اور ہیت کی طرف سفیان بن عوف کے قتل و غارت گری کے سلسلے میں روانہ کیا تو آپ ان لوگوں کے سراغ میں نکلے یہاں تک کہ’’ ہیت ‘‘پہنچے مگر ان لوگوں سے ملحق نہ ہوسکے ۔(طبری، ج۵، ص ۱۳۴)ا س کے بعد تاریخ میں ہمیں ان کا کوئی ذکر اور اثر دکھائی نہیں دیتا ،شائد جب آپ عثمان کے زمانے میں’’ ری‘‘ اور’’ ہمدان ‘‘کے والی تھے تو اسی زمانے میں ابو حرب کو قید کیا ہو۔

[8] طبری، ج۵ ،ص ۴۲۱ ،ابو مخنف کا بیان ہے : عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔

ماخوذ از کتاب مقتل ابی مخنف

تبصرے
Loading...