امامت قرآن اورسنت کی رو سے

اللہ تعالی فرماتا ہے :
” وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِي “
جب ابراہیم کو ان کے رب نے کچھ  باتوں سے جانچا اور
ابراہیم  نے ان کو پورا کردیا تو اللہ نے کہا: میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہاہوں ۔ابراہیم  نے کہا : اور میری اولاد میں سے ؟ اللہ تعالی نے کہا : میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 124)
یہ آیت کریمہ ہمیں بتلاتی ہے کہ امامت ایک خدائی منصب ہے اور خدا یہ منصب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے کیونکہ وہ خود کہتا ہے : “إنّي جاعلك للنّاس إماما”میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امامت اللہ کی طرف سے ایک عہد ہے جو صرف اللہ کے ان نیک بندوں تک پہنچتا ہے جنھیں وہ خاص طور پر اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کیونکہ یہ صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ظالم اللہ کے اس عہد کے مستحق نہیں ۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے :” وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ “
ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے  تھے اور ہم نے ان کو وحی بھیجی کہ نیک کام کریں ، نماز قائم کریں اور زکات دیں ۔ اور وہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔(سورہ انبیاء ۔آیت 73)
ایک اور  آیت ہے :
” وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ “
ہم نے ان امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے کیونکہ وہ صابر  تھے اور ہماری نشانیوں پر یقین
رکھتے تھے ۔ (سورہ سجدہ ۔آیت 24)
ایک اور آیت ہے :” وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ “
ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جنھیں دنیا میں کمزور سمجھ لیاگیا ہے ، ان کو امام بنائیں  اور انھیں (زمین کا )وارث بنائیں ۔(سورہ قصص ۔آیت 5)
ممکن  ہے کسی کویہ خیال پیدا ہو کر مذکورہ بالا آیات قرآن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہاں امامت سے مراد نبوت ہے  لیکن یہ صحیح نہیں  کیونکہ امامت کا مفہوم زیادہ عام ہے ،ہر رسول اور نبی امام ہوتا ہے لیکن ہر امام رسول یا نبی نہیں ہوتا۔
اسی وجہ  سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے کہ اس کے نیک  بندے اس منصب کے لیے اس سے دعا کرسکتے ہیں تاکہ وہ لوگوں  کی ہدایت کا شرف حاصل کرسکیں اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق ہوسکیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
” وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً   وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً   وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً “
وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، جب انھیں بیہودہ چیزوں  کے پاس   سے گذرنے کا اتفاق  ہوتا ہے  تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں ۔ اور جب انھیں ان کے پروردگار کی باتین  سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے  ،اندھے  ہو کر نہیں گر تے (بلکہ غور سے سنتے ہیں ) اور وہ لوگ جو ہم سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا ۔(سورہ فرقان ۔آیات 72-74)
اسی طرح قرآن کریم میں ائمہ کالفظ  ان ظالم سرداروں  اور حکمرانوں  کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو اپنے پیروکاروں  اور اپنی قوموں  کو گمراہ کرتے ، فساد پھیلاتے میں ان کی رہنمائی کرتے اور دنیا وآخرت کے عذاب  کی انھیں دعوت دیتے ہیں ۔ فرعون اور اس کے لشکر یوں کے متعلق قرآن کریم میں ہے :
” فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِي وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ   وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ”
ہم نے اسے اور اس کے لشکر یوں کو پکز کردریا میں پھینک دیا ۔ پھر دیکھو  ! طالموں کا کیا انجام ہوا ۔ ہم نے انھیں ایسے امام بنایا جو جہنم کی دعوت دیتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم نے اس  دنیا میں ان پر لعنت بیھجی  اور قیامت میں وہ ان میں سے ہونگے  جن کا ہولناک انجام ہوگا ۔(سورہ قصص ۔آیت 40-42)
اس بنیاد پر شیعہ جو کچھ کہتے ہیں وہی صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضح کردیا  ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش  نہیں کہ امامت  ایک من جانب اللہ منصب ہے جو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے ،وہ اللہ کا عہد ہے جس کا اطلاق ظالموں پر نہیں ہوتا ۔چونکہ ابو بکر ، عمر، اور عثمان  کی عمروں  کا بڑا حصّہ  شرک  کی حالت میں گزرا  کیونکہ وہ بتوں  کوپوجتے رہے تھے اس لیے وہ اس کے مستحق  نہیں ۔اسی طرح شیعوں کا یہ قول درست ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امام علی بن ابی طالب  ہی امامت کے مستحق  ہیں اور امامت کے متعلق اللہ کے دعوے کا اطلاق صرف انھی پر ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی بتوں  کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام لانے کے بعد اس سے پہلے کے سب گناہ محو ہوجاتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ واقعی صحیح ہے ، لیکن پھر بھی بڑا فرق ہے اس شخص   جو پہلے  مشرک تھا  بعد میں  اس  
نے توبہ کرلی اور اس شخص میں جس کا دامن شروع سے شرک کی آلائش سے پاک صاف رہا اور جس نے بجز اللہ کے کبھی کسی کے سامنے جبیں نیاز خم نہیں کی ۔

 

 
امامت سنّت نبوی کی رو سے

امامت کے بارے میں رسول اللہ ص کے متعدد اقوال  ہیں جن کو شیعوں اورسنیوں  دونوں نے اپنی احادیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ رسول اللہ نے کہیں اسے امامت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور کہیں خلافت کے لفظ سے ، کہیں ولایت کے لفظ سے اور کہیں امارت کے لفظ سے ۔
امامت کے بارے میں ایک حدیث نبوی ہے :
“خيارأئمتكم الّذين  تحبّونهم ويحبّونكم وتصلّون عليهم و يصلّون عليكم .وشرارأئمتكم الّذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعبونكم .قالوا يارسول الله أفلا ننا بذهم بالسّيف فقال لا ما أقاموا فيكم الصلاة.”
تمھارے اماموں میں سب سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبّت کریں ، تم ان کے لیے دعا کرو ، وہ تمھارے لیے دعاکریں ۔اور بد ترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں ، جن پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت  بھیجیں ۔صحابہ نے پوچھا : تو کیا ہم تلوار سے ان کا مقابلہ نہ کریں رسول اللہ نے فرمایا : نہیں ، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں (1)۔
رسول اللہ ص نے یہ بھی فرمایا ہے :
“يكون بعدي أئمة لّا يهتدون بهداى ولا يستنّون بسنّتي وسيقوم فيهم رجالٌ قلوبُ الشياطين في جثمان إنس”.
میرے بعد کچھ ایسے امام ہوں گے جو نہ میری روش پرچلیں گے اور نہ میری سنت کا اتباع کریں گے ۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم تو انسان کے سے ہونگے مگر دل شیطانوں کے سے (2)
خلافت کے بارے میں حدیث نبوی ہے :
“لا يزال الدّين قآئماً حتىّ تقوم السّاعة أويكون عليكم اثناعشرخليفةً كلّهم من قريشٍ.
دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جو سب قریش میں سے ہوں گے ۔(3)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو سنا کہ آپ فرماتے تھے :
“لايزال الإسلام عزيزًا إلى إثبى عشر خليفةٍ ثمّ قال كلمةً لم أفهمها فقلت لابي: ما قال؟ فقال : كلّهم من قريشٍ.”
بارہ خلفاء تک اسلام کی عزت باقی رہے گی ۔ پھر کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا ۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے (4)
امارت کےبارے میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
“ستكون اُمراءَ فتعرفون وتنكرون فمن عرف بر‎‎ئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا أفلانقاتلهم قال :لا ما صلّوا.
جلد ہی کچھ امراء ہوں گے جن کو تم میں سے کچھ پہچانیں گے ، کچھ نہیں ۔جس نے پہچانا بچ گیا ، جن نے نہیں پہچانا محفوظ رہا مگر جس نے خوشی ان کا اتباع کیا ۔۔۔۔۔ لوگوں  نے پوچھا  کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ نے فرمایا ” جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں اس وقت تک نہیں (5)۔
امارت سے متعلق ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :”يكون اثناعشر أميراً كلّّهم من قريشٍ.”
میرے بعد بارہ امیر ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے (6)۔
آپ نے اپنے اصحاب کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :
“ستحرصون على الإمارة وستكون ندامةً يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة”.
تمھیں جلد امارت حاصل کرنے کا لالچ ہوگا لیکن یہ امارت قیامت کے دن باعث ندامت ہوگی ۔ امارت دودھ پلانے والی تو اچھی ہے مگر دودھ چھڑانے والی اچھی نہیں (7)۔
ولایت کا لفظ  لفظ بھی حدیث میں آیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“ما من وّالٍ يّلي رعيّةً مّن المسلمين فيموت وهو غاشٌ لّهم إلّا حرّم الله عليه الجنّة.
جس مسلمان  والی نے مسلمان رعایا پر حکومت کی لیکن وہ انھیں دھوکا دیتا رہا  تو مرنے کے بعد اس پر جنت حرام ہے (8)۔
ایک اور حدیث میں آپ نے فرماتے ہیں :
“لايزال أمرالنّاس ماضياً ما وليهم اثناعشررجلاً كلّهم مّن قريشٍ.”
لوگوں  کا کام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان کے والی بارہ اشخاص ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے (9)۔
امامت  اور خلافت کے مفہوم کا یہ مختصر ساجائزہ میں نے قرآن وسنّت سے بغیر کسی تشریح اور توضیح کے پیش کیا ہے بلکہ میں نے سب احادیث اہل سنت  کی صحاح  پر اعتماد کیا ہے اور شیعہ کتابوں سے کوئی روایت نہیں لی ، کیونکہ شیعوں کے نزدیک تو یہ بات یعنی بارہ خلفاء کی خلافت جو سب قریش میں سے ہوں گے مسلّمات  میں سے ہے جس سے کسی کو اختلاف  نہیں  اور جس کے متعلق دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ بعض اہل سنت والجماعت علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ
” يكون بعدي اثناعشرخليفةً كلّهم من بني هاشمٍ.”
میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب بنی ہاشم میں سے ہوںگے ۔(ینابیع المودّۃ جلد 3 صفحہ 104)۔
شعبی سے روایت ہے کہ مسروق نے کہا : ایک دن  ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے انھیں اپنے مصاحف دکھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان نے ان سے پوچھا : کیا آپ کے نبی نے آپ کو کچھ بتلایا ہے کہ ان کے بعد کتنے خلیفہ ہوں گے ابن مسعود نے اس شخص سے کہا :تم ہو تو نو عمر ،لیکن تم نے بات ایسی پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی ۔ہاں  ! ہمارے نبی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ بنی اسرائیل  کے نقیبوں  کی تعداد کے برابر ان کے بھی خلفاء ہوں گے (10)۔
اب ہم اس مسئلے سے متعلق فریقین کے اقوال پر غور کریں گے اور یہ دیکھیں گے  کہ جن صریح نصوص کو دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں ، وہ کس طرح ان کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں ، کیونکہ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جو اس دن سے جس دن رسول اللہ ص نے وفات پائی آجتک مسلمانوں میں نزاع کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اسی مسئلے سے مسلمانوں میں وہ اختلاف  پیدا ہوئے جن کی وجہ سے وہ مختلف فرقوں اور اعتقادی وفکری دبستانوں میں تقسیم ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک امّت تھے ۔ ہر اختلاف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا خواہ وہ فقہ کےبارے میں ہو ، قرآن کی تفسیر کے بارے  ہو یا سنّت نبوی کو سمجھنے کے بارے میں ہو ، اس  کا منشا اور اس کیا سبب مسئلہ خلافت ہی ہے ۔

 

 

 
آپ مسئلہ خلافت کو کیا سمجھتے ہیں ؟

سقیفہ (12)کے بعد خلافت ایک “امر واقعہ” بن گئی اور اس کی وجہ سے بہت سی صحیح احادیث اور صریح آیات ردّ  کی جانے لگیں اور ایسی احادیث گھڑی جانے لگیں ، جن کی صحیح سنت نبوی میں کوئی بنیاد نہیں تھی ۔
اس پر مجھے اسرائیل اور “امر وقعہ” کا قصہ یاد آگیا ۔عرب بادشاہوں اور سربراہوں کا اجلاس ہوا اور اس میں اتفاق رائۓ سے طے پایا اسرائیل  کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،
——————–
(1):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 24 باب خیار الائمۃ وشرارھم۔
(2):-صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 20 باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن
(3):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 4 باب النّاس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش
(4):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 105 ۔اور صفحہ 128۔صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 3۔
(5):- صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 23 باب وجوب الانکار علی الامراء۔
(6):-صحیح بخاری جلد 4 کتاب الاحکام ۔
(7):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 باب الاستخلاف۔
(8):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 106 باب ما يکرہ من الحرص علی الامارۃ ۔
(9):- صحیح مسلم جلد 2 صفحہ باب الخلافۃ فی قریش ۔
(10):- امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
“إنّ الأئمّة من قريشٍ غرسوا في هذاالبطن من هاشمٍ لا تصلح على سواهم ولا تصلح الولاة من غيرهم”
بلاشبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے نہ امامت کسی  اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے ۔(ناشر)
(11):- ینابیع المودہ جلد 3 ص 105
(12):- سقیفہ بنی ساعدہ: یہ سعد بن عبادہ انصاری کی بیٹھک تھی جس میں اہل مدینہ اکثر اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے ۔ (ناشر)
اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیسے جائیں گے ، صلح نہیں ہوگی کیونکہ جس چیز پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا گیا ہے وہ طاقت استعمال کیے بغیر واپس نہیں مل سکتی ۔چند سال بعد ایک اور اجلاس ہوا ، اس میں فیصلہ ہوا کہ مصر سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں کیونکہ اس نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ چند سال اور گزر گئے ۔ عرب سربراہان مملکت پھر جمع ہوئے ۔ اس بار انھوں نے مصر سے پھر تعلقات قائم کرلیے  اور سب نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم  کرلیا ۔ حالانکہ اسرائیل نے فلسطینی قوم کے حق کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کی تھی بلکہ اس کی ہٹ دھرمی بڑھ گئی تھی اور فلسطینی قوم  کو کچلنے  کی  کاروائیوں میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ اس طرح ترایخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ امر واقعہ کو تسلیم کرلینا عربوں کی عادت ہے

تبصرے
Loading...