امامت، خدا کا عہد

امامت، خدا کا عہد

امامت کا مطلب یہ هے کہ انسان اس منزل پر فائز هو کہ اصطلاحی زبان میں اُسے انسان کامل کہا جائے کہ یہ انسان کامل اپنے پورے وجود کے ساتھ دوسروں کی رہبری و ہدایت کا فریضہ انجام دے سکے۔  جناب ابرهیم علیہ السلام کو فوراً اپنی ذرّیت اور اولاد یاد آتی هے خدا یا! کیا میری ذریت اور میری نسل کو بھی یہ منصب نصیب هوگا؟ جواب دیا جاتا هے :“لَایَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ “ میرا عہد ظالموں تک نهیں پہنچے گا۔ یہاں امامت کو خدا کا عہد کہا گیا هے۔ یهی وجہ هے کہ شیعہ کہتے هیں کہ ہم جس امامت کی بات کرتے هیں وہ خدا کی جانب سے هے۔ چنانچہ قرآن بھی یهی فرماتا هے “عَھۡدِیۡ” یعنی میرا عہد، نہ کہ عوام کاعہد۔ جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ امامت کا مسئلہ حکومت کے مسئلہ سے جدا هے۔ تو اس پر تعجب نہ هوگا که یہ عہد یعنی امامت خدا سے متعلق کیوں هے؟ سوال یہ اٹھتا هے کہ حکومت و حاکمیت خدا سے متعلق هے یا انسانوں سے؟ جواب یہ هے کہ یہ حکومت جسے ہم حکومت کہتے هیں امامت سے الگ ایک چیز هے۔ امامت میرا عہد هے اور میرا عہد تمہاری ظالم اور ستم گر اولاد تک نهیں پہنچے گا۔ ابراهیم علیہ السلام کے سوال کا نہ کلی طور سے انکار کیا اور نہ کلی طور سے اقرار فرمایا۔ جب قرآن نے ابراهیم (علیه السلام) کی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ظالم اور ستم گر افراد کو الگ کردیا تو ان میں وہ افراد رہ جاتے هیں جو ظالم و ستم گر نهیں هیں۔ اور اس آیت سے ظاہر هوتا هے کہ نسل ابراهیم علیہ السلام میں اجمالی طور سے امامت پائی جاتی هے۔

دوسری آیت

اس سلسلہ میں قرآن کی ایک اور آیت : وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہِ [1] بھی جناب ابراهیم علیہ السلام سے متعلق هے۔ ارشاد هوتا هے کہ؛خداوند عالم نے اسے (یعنی امامت کو)ایک باقی اور قائم رہنے والی حقیقت کی صورت میں ابراهیم علیہ السلام کی نسل میں باقی رکھا۔

ظالم سے کیا مراد هے ؟

یہاں “ظالمین” کا مسئلہ پیش آتا هے۔ ائمہ علیہم السلام نے ہمیشہ ظالمین سے متعلق اس آیت سے استدلال کیا هے۔ ظالم سے مراد کیا هے ؟ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خود اپنی ذات پر یا دوسروں پر ظلم کرے، ظالم هے۔ عرفِ عام میں ہمیشہ ہم ظالم اسے کہتے هیں جو دوسروں پر ظلم کرے یعنی جو لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے ہم اسے ظالم کہتے هیں، لیکن قرآن کی نظر میں ظالم عمومیت رکھتا هے چاهے وہ دوسرے کے ساتھ ظلم کرے یا خود پر کرے جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا هے وہ بھی اپنے آپ پر ظلم کرتا هے۔ قرآن میں اپنی ذات یا اپنے نفس پر ظلم کو بیان کرنے والی بہت سی آیتیں موجود هیں۔

علّامہ طباطبائی (رح) اپنے ایک استاد سے نقل کرتے هیں کہ حضرت ابراهیم علیہ السلام نے اپنی اولاد سے متعلق خدا وند عالم سے جو سوال کیا هے، اس سلسلہ میں نسل و ذریت ابراهیم علیہ السلام کے نیک و بد هونے کی تفسیر کچھ اس طرح هوتی هے۔ ایک یہ کہ ہم فرض کریں کہ حضرت کی اولاد میں کچھ ایسے افراد تھے جو ابتدا سے آخر عمر تک ہمیشہ ظالم تھے۔ دوسرے یہ کہ بعض ایسے افراد تھے جو ابتدائے عمر میں ظالم تھے لیکن آخر عمر میں نیک اور صالح هوگئے۔ تیسرے کچھ افراد وہ تھے جو ابتدائے عمر میں نیک تھے اور بعد میں ظالم هوگئے۔ اور چوتھے یہ کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو کبھی ظالم نہ تھے۔ وہ فرماتے هیں کہ جناب ابراهیم علیہ السلام منصب امامت کی عظمت و جلالت کو سمجھتے هوئے اور یہ جانتے هوئے کہ یہ منصب اتنا اہم هے جو نبوت و رسالت کے بعد آپ کو عطا کیا گیا هے، لہٰذا محال هے کہ ایسے منصب کی درخواست خداوند عالم سے آپ نے اپنی ان اولاد کے لئے کی هو۔جو ابتدا سے آخر عمر تک ظالم اور بدکار تھے۔ یوں ہی یہ بھی محال ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا یہ تقاضا اپنے ان فرزندوں کے لئے ہو جو ابتدائے عمر میں تو نیک تھے لیکن جب انھیں منصب دیا جانے والا ہو تو ظالم ہوں۔ لہٰذا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ تقاضا اپنی صالح اور نیک اولاد کے لئے کیا ہے۔ اب ان نیک اور صالح افراد کی بھی دوقسمیں هیں۔ ایک وہ جو ابتدا سے زندگی کے آخری لمحہ تک ہمیشہ نیک رهے اور ایک وہ جو پہلے ظالم اور بُرے تھے اب نیک اور صالح هوگئے۔ جب یہ طے هوگیا کہ حضرت ابراهیم علیہ السلام کا تقاضا ان دو طرح کے افراد کے علاوہ کسی اور کے لئے نهیں هوسکتا، تو اب ممکن هے کہ یہ منصب ان افراد کو نصیب هو جو اگرچہ اس وقت ظالم و ستمگر نهیں هیں لیکن ان کی گزشتہ زندگی آلودہ اور ظالمانہ تھی۔ یعنی ان کی زندگی کا پچھلا ریکارڈ اچھا نهیں هے۔ (لیکن ہم دیکھتے هیں کہ) قرآن صاف طور سے فرماتا هے، “لَایَنَالُ عَھۡدِی الظّا لمِینَ “ جو لوگ ظلم سے سابقہ رکھتے هیں اس منصب کے اہل نهیں هوسکتے۔ ہمارا عھد ظالموں تک نهیں پہنچے گا۔ لہٰذا مسلّم طور پر جو اس وقت ظالم هے یا ہمیشہ ظالم رہا هے یا پہلے ظالم نهیں تھا لیکن اس وقت ظالم هے، ان میں سے کوئی ایک حضرت ابراهیم علیہ السلام کی درخواست کا مصداق نهیں هے۔ اس بنا پر قرآن صاف طور پر اس کی نفی کرتا هے کہ امامت اس شخص  تک پہنچے جس کی پچھلی زندگی ظالمانہ رهی هو۔

یهی وہ چیز هے جس کی بنیاد پر شیعہ استدلال کرتے هیں کہ یہ ممکن هی نهیں هے کہ امامت ان لوگوں تک پہنچے جو اپنی زندگی کے کسی دور میں مشرک رهے هوں۔

سوال و جواب

سوال: معصوم کا کیا مطلب هے ؟ یہ ہماری شیعہ منطق کا ساختہ و پرداختہ کوئی کوئی مفهوم هے یا اس کی کچھ بنیادیں هیں اور ہم نے انهیں پروان چڑھا کر بہتر بنایا هے ؟ اصولی طور ہر کیا معصوم اس شخص کو کہتے هیں جو گناہ نہ کرے، یا اسے کہتے هیں جو گناہ کے علاوہ کوئی اشتباہ یا غلطی بھی نہ کرتا هو ؟

ہم بیس سال پہلے میرزا ابوالحسن خان فروغی مرحوم کے درس میں شریک هوا کرتے تھے یہ بزرگوار خاص طور سے عصمت کے مسئلہ میں خصوصی اور وسیع مطالعہ اور خاص عقیدہ رکھتے ھتے، اور اس موضوع پر بہترین انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے اگر چہ ہم اس وقت ان کی اسی فی صد گفتگو سمجھنے سے قاصر تھے لیکن اس میں سے بیس فیصدی جو سمجھتے تھے، اس کے مطابق وہ عصمت کی ایک دوسرے انداز میں تعریف کرتے تھے وہ فرماتے تھے، معصوم وہ نهیں هے جو گناہ نہ کرے۔ ہماری نگاہ میں بہت سے ایسے افراد هیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں گناہ هی نهیں کیا، لیکن انهیں معصوم نهیں کہتے۔ اس وقت ہمیں اس فکر سے سروکار نهیں هے۔ آقائے مطہری کے پاس یقیناً اس کا جواب هوگا کہ معصوم سے کیا مراد هے؟ اگر معصوم وہ شخص هے جس سے کبھی کوئی غلطی یا بھول چوک بھی نہ هوئی هو تو ہم دیکھتے هیں کہ بارہ ائمہ علیہم السلام میں سے صرف دو حضرات مسندِ خلافت پر جلوہ افروز هوئے: حضرت علی (علیه السلام) اور حسن (علیه السلام) اور وہ بھی بڑی مختصر مدت کے لئے اوراس میں بھی شک نهیں کہ ان حضرات سے خلافت کے معاملات اور حکومت چلانے کے سلسلہ میں بہت سے اشتباہ هوئے اور تاریخی نقطۂ نظر سے ان اشتباہات اور غلطیوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نهیں۔ اور یہ بات معصوم کی مذکورہ بالا تعریف سے کسی طرح میل نهیں کھاتی۔

مثال کے طور پر امام حسن علیہ السلام کا عبیداللہ بن عباس کو معاویہ سے جنگ کے لئے مامور کرنا۔ یا خود حضرت علی علیہ السلام کا عبداللہ بن عباس کو بصرہ کا حاکم مقرر کرنا۔ اگر آپ جانتے هوتے کہ یہ شخص اس قدر رسوائی کا باعث هوگا اور ایسی بد عملی کا مظاہرہ کرے گا تو یقیناً آپ یہ کام نہ کرتے۔ لہٰذا یہ طے هے کہ آپ حقیقت سے واقف نہ تھے یعنی پہلے آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جسے انتخاب کیا هے وہ اس کام کے لئے بہترین شخص هے، لیکن بعد میں وہ شخص غلط نکلا۔ اور اگر حضرت کے دورۂ حکومت سے متعلق مزید تحقیق کی جائے تو یقیناً اس طرح کے اور بھی مسائل نظر آئیں گے اور تاریخی لحاظ سے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش  بھی نهیں هے۔ لیکن یہ بات عصمت کی اس تعریف سے بالکل میل نهیں کھاتی۔

 اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ بحث کرنے کا یک طرفہ انداز یعنی سارے موافق حضرات کا کسی بحث میں حصہ لینا زیادہ مفید نهیں هے، اس کی وجہ یہ هے کہ واقعی جب انسان  کوئی عقیدہ  رکھتا هے تو اسے دوست بھی رکھتا هے اور اسے یہ گوارہ نهیں هوتا کہ اپنے اس عقیدہ کے خلاف کچھ بھی سُنے۔ خاص طور سے ہم جو بچپن سے هی شیعیت اور خاندان علی بن ابی طالب علیہ السلام سے محبت اپنے دل میں رکھتے آئے هیں اور کبھی اس کے خلاف تنقید نهیں سنی ہے۔ شاید خود دین و اصول دین یہاں تک کہ توحید خدا پرستی سے متعلق اعتراضات یاتنقیدیں تو آسانی سے سن لی هوں لیکن تشیع اور ا ئم علیھم السلام پر تنقید یا کسی کا ان حضرات کی زندگی کہ انھوں نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کیوں نہ کیا، سے ہمارے کان آشنا نهیں هیں،اسی وجہ سےاگر کوئی مثال کے طور پرامام حسن (علیه السلام) کے عمل یا امام حسین (علیه السلام) کے اقدام پر اعتراض کرے تو ہمیں بہت شاق گزرتا هے۔

لیکن مثال کےطور پر یہ آیت جسے آقائے مطہری نے پہلے جلسہ میں اور اس جلسہ میں موضوع قرار دیا هے۔ اس میں ارشاد هوتا هے ” وہ لوگ جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکات ادا کرتے هیں ” اس کے بعد آپ نے استدلال فرمایا کہ یہ آیت اس واقعہ کے تحت جس میں حضرت علی(ع( نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی سائل کو دی تھی، سوائے حضرت علی (علیه السلام) کے کسی اور کے بارے میں نهیں هے۔ میری نظر میں یہ بات کچھ منطقی اور معقول نهیں لگتی، کیونکہ اول تو ہم نے امیر المومنین (علیه السلام) کی زندگی کے بارے میں یہ پڑھا اور سنا هے کہ نماز کی حالت میں آپ کی توجہ خدا وند عالم کی جانب سے اس قدر هوا کرتی تھی کہ گردو پیش کے لوگوں سے بے خبر هوجاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا هے کہ وضو کرتے وقت بھی اگر آپ کے سامنے سے لوگ گزر جاتے تھے تو آپ انهیں پہچان نهیں پاتے تھے۔ پھر یہ کیسے هوسکتا هے کہ نماز کی حالت میں ایسے شخص کے حواس اس قدر دوسروں کی طرف متوجہ هوں کہ سائل مسجد میں وارد هوتا هے، سوال کرتا هے، کوئی اسے کچھ نهیں دیتا اور حضرت اپنی انگوٹھی اتار کر اس کے حوالہ کردیتے هیں۔ مزید یہ کہ سائل کو پیسے دینا کوئی اچھی بات بھی نهیں هے۔ سائل کو پیسہ دینا اس قدر اہم نهیں هے کہ انسان اپنی نماز کو کم از کم باطنی اور روحانی اعتبار سے هی ناقص کردے یا اس میں خلل پیدا کرے ؟

اس کے علاوہ زکات کا تعلق انگوٹھی سے نهیں هے اور فقہائے شیعہ کے فتووں کے مطابق زکوٰۃ سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں شامل بھی نهیں هے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر وہ افراد جو اس سلسلہ میں کٹّر هیں اس موضوع کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے یہ بھی فرما گئے هیں کہ یہ انگوٹھی بہت زیادہ قیمتی تھی ۔ جبکہ حضرت علی (علیہ السلام) نے قیمتی انگوٹھی نهیں پہنی۔؟

 جواب : جس نکتہ کی طرف انهوں نے اشارہ فرمایا کہ جلسہ میں مخالف موقت رکھنے والے افراد بھی هونے چاہئے یقیناً تمام جلسوں کے لئے یہ ایک مفید فکر هے اور میں اسی پر اکتفا کرتا هوں کہ یہ کام اچھا اور مفید هے۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ عصمت کیا هے ؟ تو اس سلسلہ میں اکثر انسان یہ خیال کرتا هے کہ عصمت کا مطلب یہ هے کہ اللہ اپنے بندوں میں بعض مخصوص افراد کی ہمیشہ نگرانی کیا کرتا هے کہ جیسے هی وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتے هیں فوراً انھیں روک دیتا هے۔ مسلّم طور پر عصمت کے یہ معنی نهیں هیں۔ اور اگر هوں بھی تو یہ  کسی کے لئے کمال کی بات نهیں هے۔ اگر کسی بچہ پر ایک شخص برابر نگرانی رکھے اور اسے کوئی غلط کام کرنے نہ دے تو یہ اس بچہ کے لئے کوئی کمال شمار نہ ھوگا۔ لیکن عصمت کا ایک مفهوم اور بھی هے جو قرآن سے ظاہر هوتا هے اور وہ یہ کہ ہم دیکھتے هیں کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام صدیق کے بارے میں اس سخت منزل میں جب زلیخا ان کو اپنی طرف مائل کر رهی تھی، فرماتا هے ؛

” وَلَقَدۡ ھَمَّتۡ بِہ یعنی اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔

وَھَمَّ بِھَا لَوۡلَا اَنۡ رَّاٰبُرۡھَانَ رَبِّہ”[2] اور یوسف بھی اگر دلیل پروردگار کا مشاہدہ نہ کرتے هوتے تو اس کا ارادہ کرتے۔

یعنی وہ بھی ایک انسان تھے،جوان تھے اور جذبات رکھتےتھے۔ زلیخا یوسف علیہ السلام کی طرف بڑھی لیکن یوسف علیہ السلام اس کی طرف نهیں بڑھے۔ یوسف علیہ السلام بھی اگر شهود کی منزل پر نہ هوتے یعنی اس عمل کی حقیقت کو اپنے سامنے ظاہر و عیاں نہ دیکھتے تو اس کی طرف مائل هوجاتےحضرت یوسف علیہ السلام چونکہ صاحب ایمان تھے اور آپ کا ایمان کامل تھا اور ایمان شهودی کی حد کو پہنچا هوا تھا۔یعنی گویا وہ اس عمل کی اچھائی اور برائی کو دیکھ رهے تھے وہ ایمان جو خدا نے یوسف علیہ السلام کو عطا کیا تھا، وهی ایمان آپ کو اس عمل سے روک رہا تھا۔

ہم میں کا ہر شخص کسی طاقت کے روکے ٹوکے بغیر بعض لغزشوں اور گناهوں سے معصوم هے اور یہ ہمارے اس ایمانی کمال کا نتیجہ هے جو ہم ان گناهوں کے خطرات سے تعلق رکھتے هیں۔ مثال کے طور پر کسی چار منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگانا۔ یا آگ میں کود پڑنا یہ بھی گناہ هیں لیکن ہم ہرگز ان گناهوں  کے مرتکب نهیں هوتے کیونکہ ان کے خطرات و نقصان ہمارے لئے ثابت اور ایک دم عیاں هیں۔ ہم جانتے هیں کہ ادھر ہم نے بجلی کے ننگے تار کو چھوا ادھر ہماری جان گئی۔ ہم صرف اسی وقت اس گناہ کے مرتکب هوسکتے هیں جب ان خطرات سے آنکھیں بند کرلیں، لیکن ایک بچہ دہکتے هوئے انگارہ پر ہاتھ مارتا هے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس خطرہ کا گناہ جس قدر ہم پر ثابت و عیاں هے اس پر عیاں نهیں هے ایک عادل انسان تقویٰ کا ملکہ رکھتا هے اسی بنا پر بہت سے گناہ وہ سرے سے انجام هی نهیں دیتا۔ یهی ملکہ اسے اس حد تک کہ وہ ان گناهوں سے دور رهے، عصمت بخشتا هے۔ بنابر ایں گناهوں سے عصمت کا تعلق انسان کے درجۂ ایمان سے هے کہ وہ فلاں گناہ کو گناہ اور فلاں خطرہ کو خطرہ سمجھتا هے یا نهیں۔ ہم نے گناهوں کو نعبداً قبول کیا هے یعنی ہم یہ کہتے هیں کہ چونکہ اسلام نے کہا هے کہ شراب نہ پیو اس لئے ہم نهیں پیتے، کہا هے کہ جوا نہ کھیلو، ہم نهیں کھیلتے۔ ہم کم و بیش جانتے بھی هیں کہ یہ جان برے هیں، لیکن جس قدر خود کو آگ کے حوالے کردینے کا خطرہ یا گناہ ہم پر روشن و واضح هے اس قدر ان گناهوں کے خطرات ہم پر واضح نهیں هیں۔ ہم جتنا اس خطرہ سے متعلق یقین رکھتے هیں اگر اتنا هی ان خطرات اور گناهوں پر یقین و ایمان رکھتے تو ہم بھی ان گناهوں سے معصوم هوتے۔ پس گناهوں سے عصمت کا مطلب هے منتهی و کمالِ ایمان۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا هے ” لَوۡ کُشِفَ الغطَاء لَمَا ازۡدَدۡتُ یَقِیۡنِی ” [3] “اگر پردے اٹھ جائیں پھر بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نهیں هوگا۔” وہ قطعی طور پر گناهوں سے معصوم هے۔ وہ پردے کے اس سمت سے بھی پس پردہ کی چیزوں کو مجسّم دیکھتا هے۔ یعنی مثال کے طور پر وہ محسوس کرتا هے کہ ایک بُری بات منہ سے نکالنے کا مطلب یہ هے کہ اس نے حقیقتاً اپنی جان کے لئے ایک بچھو پیدا کرلیا هے اسی بنا پر وہ ایسے کام نهیں کرتا، اور بلا شبہ قرآن بھی اس پایہ کے ایمان کا تذکرہ فرماتا هے۔ لہٰذا معلوم هوا کہ عصمت نسبی هے یعنی اس کے مراتب و درجات هیں۔

معصومین ان چیزوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو ہمارے لئے گناہ هے اور کبھی ہم ان کے مرتکب هوتے هیں اور کبھی ان سے پر هیز کرتے هیں۔۔۔۔۔۔۔۔معصوم هیں اور ہر گز گناہ نہٰں کرتے ۔ لیکن تمام معصومین ایک جیسے نهیں هیں۔ عصمت کو بھی مراحل و مراتب هیں۔ عصمت کے بعض مراحل میں وہ ہمارے جیسے هیں یعنی جس طرح ہم گناهوں سے معصوم نهیں هیں، وہ حضرات بھی (عصمت کے ان مراحل و مراتب میں)معصوم نھیں ھیں۔ جن چیزوں کو ہم گناہ شمار کرتے هیں ان میں وہ صد فی صد معصوم هیں لیکن ایسی چیزیں ان کے لئے گناہ هیں جو ہمارے لئے حسنہ و نیکیاں هیں، کیونکہ ہم (اس درجہ تک) نهیں پہنچے هیں۔۔مثال کے طور پر درجہ پانچ کا طالب علم چھٹے درجہ کا کوئی سوال حل کردے تو یہ اس کے لئے باعث شرف و فضیلت اور انعام کے لائق بات هے۔ لیکن اگر اسی سوال کو نویں درجہ کا طالب علم حل کرے تو یہ اس کے لئے کچھ اہمیت کی بات نہ هوگی۔ اسی طرح سمجھیں کہ کچھ چیزیں ہمارے لئے تو حسنات هیں لیکن ان کے لئے گناہ هیں۔

یهی وجہ هے کہ ہم دیکھتے هیں کہ قرآن انبیاء کے معصوم هونے کے باوجود ان کی طرف عصیان کی نسبت دیتا هے ( وَعَصَیٰ اٰدَمُ رَبَّہ ) [4] ( آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ) یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرتے هوئے فرماتاهے :

“لِیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ “

تبصرے
Loading...