اقبال اور جوش کے کلام میں کربلا

شہادت حسین کی نئی معنویت کی طرف سب سے پہلے اقبال کی نظر گئی‘ اور اس کا پہلا بھرپور تخلیقی اظہار اقبال کے فارسی کلام میں ملتا ہے۔ اقبال کی اردو شاعری کی مثالیں بہت بعد کی ہیں۔ بال جبریل ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ رموز بے خودی البتہ ۱۹۱۸ء میں منظر عام پر آچکی تھی۔ اس میں ”درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا“ کے عنوان سے جو اشعار ہیں‘ یقینا ان کو اس نئے معنیاتی رجحان کا پیش خیمہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی بعید ازقیاس نہیں کہ خود مولانا محمد علی جوہر اس معاملے میں اقبال سے متاثر رہے ہوں‘ کیوں اقبال کے فارسی کلام کی مثالیں تو یقینا مولانا کی زندگی کی ہیں مولانا کا انتقال ۱۹۳۱ء میں ہوا اور اس میں شک نہیں کہ اقبال کا اثر نہایت ہمہ گیر اور وسیع تھا۔ رموز بے خودی میں ”درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا“ سے متعلق اشعار رکن دوم میں آئے ہیں‘ جہاں شروع کا حصہ رسالت محمدیہ اور تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم کے بارے میں ہے۔ اس کے بعد اخوت اسلامیہ کا حصہ ہے‘ پھر مساوات کا اور ان کے بعد حریت اسلامیہ کے معنی میں سر حادثہ کربلا بیان کیا ہے۔ اس حصے میں شروع کے کچھ اشعار عقل و عشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پر آتے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسین کو کس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اور کن پہلوؤں پر زور دینا چاہتے ہیں۔ حسین کے کردار میں انہیں عشق کا وہ تصور نظر آتا ہے جو ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ تھا۔ اور اس میں انہیں حریت کا وہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب و تاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ اور نئے نو آبادیاتی تناظر میں ہم وطنوں کو جس کی یاد دلانا چاہتے ہیں۔

درمعنی حریت اسلامیہ و سرحادثہ کربلا

ہر کہ پیماں باہو iiالموجودبست
گردنش ازبند ہر معبود iiرست۔۔۔

عشق را آرام جاں حریت iiاست
ناقہ اش راسارباں حریت iiاست

آں شنیدستی کہ ہنگام iiنبرد
عشق باعقل ہوس پرور چہ iiکرد

آں اماں عاشقاں پور iiبتول
سرو آزادے زبستان iiرسول

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم iiآمدپسر

بہرآں شہزادہ خیر iiالملل
دوش ختم المرسلین نعم iiالجمل

سرخ روعشق غیور ازخون او
شوخی ایں مصرع ازمضمون او

درمیان امت آں کیواں iiجناب
ہمچو حرف قل ھواللہ iiدرکتاب

موسیٰ و فرعون و شبیر و iiیزید
ایں دو قوت از حیات آیدپدید

زندہ حق ازقوت شبیری iiاست
باطل آخر داغ حسرت میری iiاست

چوں خلافت رشتہ از قرآں iiگسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

خاست آں سر جلوہ خیر iiالامم
چوں سحاب قبلہ باراں iiدرقدم

برزمین کربلا بارید و iiرفت
لالہ در ویرانہ ہاکارید و iiرفت

تاقیامت قطع استبداد iiکرد
موج خون او چمن ایجاد iiکرد

بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ iiاست
پس بنائے لاالہ گردیدہ iiاست

مدعایش سلطنت بودے iiاگر
خود نکردے باچنپن ساماں iiسفر

دشمنان چوں ریگ صحرا iiلاتعد
دوستان او بہ یزداں ہم iiعدد

سرابراہیم و اسماعیل iiبود
یعنی آں اجمال راتفصیل iiبود

عزم اوچوں کوہساراں iiاستوار
پائدار و تندسےر iiوکامگار

تیغ بہر عزت دین است iiوبس
مقصد اوحفظ آئین است وبس

ماسواللہ رامسلماں بندہ iiنیست
پیش فرعونے سرش افگندہ iiنیست

خون اوتفسیر ایں اسرار iiکرد
ملت خوابیدہ را بیدار iiکرد

تیغ لاچوں ازمیاں بیروں iiکشید
ازرگ ارباب باطل خوں iiکشید

نقش الا اللہ برصحرا iiنوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت

رمز قرآں ازحسین iiآموختیم
زآتش او شعلہ ہا iiاندوختیم

شوکت شام وفربغداد iiرفت
سطوت غرناطہ ہم iiازیادرفت

تارما اززخمہ۔۔۔اش لرزاں iiہنوز
تازہ ازتکبیراد اوایماں iiہنوز

اے صبا اے پیک دور iiافتادگاں
اشک مابرخاک پاک او iiساں

 

رموز بیخودی ہی میں ”درمعنی ایں کہ سیدة النسا فاطمتہ الزہرا اسوہ کاملہ ایست برائے نساء اسلام“ کے ذیل میں بھی حسین کا ذکر آیا ہے۔

درنوائے زندگی سوز ازحسین
اہل حق حریت آموز iiازحسین

سیرت فرزندہا از iiامہات
جوہر صدق و صفا از iiامہات

مزرع تسلیم را حاصل iiبتول
مادراں را اسوہ کامل iiبتول

 

اس کے فوراً بعد ”خطاب بہ مخدرات اسلام“ میں یہ حوالہ پھر آیا ہے۔

فطرت تو جذبہ ہا دار iiبلند
چشم ہوش از اسوہ زہر مبند

تاحسینے شاخ تو بار iiآورد
موسم پیشیں بہ گلزار iiآورد

 

پھر یہ حوالہ زبور عجم ۱۹۶۷ء کی ایک غزل کے اس زبردست شعر میں ملتا ہے۔
ریگ عراق منتظر کشتِ حجاز تشنہ کام
خونِ حسین باز دہ کوفہ و شام خویش را ریگ عراق منتظر ہے‘ کشت حجاز تشنہ کام ہے‘ اپنے کوفہ و شام کو خونِ حسین پھردے‘ اس میں حال کا صیغہ اور کوفہ و شام خویش نئی فکر کے غماز ہیں‘ یعنی پھر وہی تشنگی کا منظر ہے اور موجودہ حالات میں تمہارے کوفہ و شام کو خون حسین کی پھر ضرورت ہے۔ یہ تھی وہ تڑپ اور آگ جو اقبال کو بار بار اس حوالے کی طرف لے آتی تھی۔
جاوید نامہ (۱۹۳۲ء) میں سلطان شہید (ٹیپو سلطان) کا ذکر کرتے ہوئے اسے ”وارث جذب حسین “ کہا ہے۔ پس چہ باید کرد (۱۹۳۶ء) میں بھی ”فقر“ اور ”حرفے چند باامت اسلامیہ“ کے ذیل میں حسین کا حوالہ آیا ہے۔
فقرِ عریاں گرمی بدروحنیں
فقرِ عریاں بانگ تکبیر حسین

ارمغان حجاز (۱۹۳۸) میں فرماتے ہیں:
اگرپندے ز درویشے iiپذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ iiمیری

بتولے باش وپنہاں شوازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے iiبگیری

آخری مجموعہ ارمغان حجاز جو اقبال کے انتقال کے کچھ ماہ بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس شعر پر ختم ہوتا ہے۔
ازاں کشت خرابے حاصلے نیست
کہ آب ازخون شبیرے ندارد! اقبال فارسی میں بھی جو کچھ کہتے تھے‘ پوری اردو دنیا میں اس سے ارتعاش پیدا ہوتا تھا۔ رثائی ادب سے ہٹ کر نئے تناظر میں اس تاریخی حوالے کی اہمیت کا ذکر اردو دنیا کے لیے ایک بالکل نیا موضوع تھا۔ اقبال کی اردو شاعری میں اس موضوع کی گونج پہلی بار بال جبریل (۱۹۳۵ء) کی غزلوں اور نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے کلام کے پیش نظر اقبال کے یہاں حسین ‘ شبیر‘ مقام شبیری‘ اسوہ شبیری‘ باقاعدہ تھیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ ذیل کے اردو اشعار اس سلسلے میں بے حد اہم ہیں۔ ان کو اس رحجان کے اولین سنگ میل سمجھنا چاہئے۔ نئے نو آبادیاتی تناظر میں ان کی معنویت غور طلب ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان اشعار نے بعد کے شعرا کے لیے اس تاریخی حوالے کے نئے علامتی ابعاد کو روشن نہ کیاہوگا۔
حقیقت ابدی ہے مقام iiشبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستاں iiحرم
نہایت اس کی حسین‘ ابتدا ہے اسماعیل اقبال کے اس تخلیقی رویے کا اثر بعد میں آنے والے شاعروں پر رفتہ رفتہ مرتب ہوا‘ اوریوں آہستہ آہستہ شعری اظہار کی ایک نئی راہ کھل گئی۔ بال جبریل کی مختصر نظم ”فقر“ کا نقطہ عروج بھی کئی فارسی نظموں کی طرح سرمایہ شبیری ہی ہے۔
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار iiجہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت iiاکسیری

اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے iiمیری
میراث مسلمانی‘ سرمایہ iiشبیری

لیکن انتہا درجہ کی حسن کاری اور حد درجہ شدت احساس کے ساتھ یہ حوالہ بال جبریل کی شاہکار نظم ”ذوق وشوق“ کے دوسرے بند میں ابھرتا ہے۔ اختتامی بیت میں تطبیق‘ تصورعشق سے کی گئی ہے جو اقبال کامرکزی موضوع ہے۔
صدق خلیل بھی ہے عشق‘ صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں‘ بدروحنین بھی ہے عشق

لیکن اسی بند کا یہ شعر:
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوئے دجلہ و فرات بالخصوص اس کا پہلا مصرع تو ضرب المثل کا درجہ احتیار کرچکا ہے۔ شاعر تڑپ کر کہتاہے کہ ذکر عرب عربی مشاہدات سے اور فکر عجم عجمی تخیلات سے تہی ہوچکے ہیں۔ کاش کوئی حسین ہو جو زوال و غفلت کے اس پرآشوب دور میں حریت و حق کوشی کی شمع روشن کرے۔
رموز بے خودی ۱۹۱۸ء میں بال جبریل ۱۹۳۵ء میں اور ارمغان حجاز ۱۹۳۸ء میں منظر عام پر آئیں۔ لگ بھگ اسی زمانے میں جوش ملیح آبادی کے یہاں بھی شہادت حسین کا حوالہ سے انقلابی ابعاد کے ساتھ لگتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوں تو جوش ملیح آبادی نے ذاکر سے خطاب اور سوگواران حسین سے خطاب“ جیسی نظمیں بھی لکھیں جن کا مقصد اصلاح تھا‘ لیکن شہادت حسین کی انقلابی معنویت کی طرف اشارے انہوں نے ”رثائی ادب“ کے دائرے ہی میں رہ کر کیے۔ شعلہ و شبنم میں اس نوعیت کا جتنا کلام ہے‘ اس کے بارے میں خود جوش نے وضاحت کردی ہے کہ یہ تمام نظمیں ۱۹۲۷ء سے پہلے کی ہیں جوش ان منظومات کو بھلے ہی زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں‘ کردار حسین کی انقلابی معنویت کو روشن کرنے میں جوش کی شاعری نے نہایت اہم خدمات انجام دیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کا پہلا مرثیہ جو ”آواز حق“ کے نام سے شائع ہوا‘ اور جس کے آخری بند میں واضح طور پر جوش نے صدیوں کی تاریخ کا سلسلہ اپنے عہد کی سامراج دشمنی سے ملا دیا‘ ۱۹۱۸ء کی تصنیف ہے۔ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف رموزبے خودی بھی (جس سے ہم درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا اور متعدد دوسرے حوالے پیش کرچکے ہیں ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کا اور تحریک خلافت کے تقریباً آغاز کا زمانہ تھا۔ جوش کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں وہ دعوت دیتے ہیں کہ اسلام کا نام جلی کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو۔
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا iiزمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ

کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا iiفسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی iiہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو

واضح رہے کہ ”آواز حق“ کو شعلہ و شبنم میں شامل کرتے وقت جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی جوش نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور یہ نوٹ درج کیا ”اس نظم کو صرف اس نظر سے پڑھا جاسکتا ہے کہ یہ آج سے اٹھارہ برس پیشتر کی چیز ہے۔ (ص ۲۴۸)۔
یوں تو جوش ملیح آبادی نے نو مرثیے لکھے جنہیں ضمیر اختر نقوی نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے (جوش ملیح آبادی کے مرثیے لکھنو ۱۹۸۱ء) لیکن آزادی سے پہلے ”آواز حق“ کے علاوہ جو ش کا صرف ایک اور مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ملتا ہے جو ۱۹۴۱ء کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کا اظہار اور بھی کھل کر کیاہے اور کئی بندوں میں حسین کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ چالیسویں بند کی بیت ہے۔
عباس نامور کے لہو سے دُھلا iiہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا

***
اس کے بعد کچھ بند ملاحظہ ہوں۔

یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے iiضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے iiپو

یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے iiلو
در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز iiدوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز iiدوستو

پھر حق ہے آفتاب لب بام اے iiحسین
پھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے iiحسین

پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے iiحسین
پھر حریت ہے مورد الزام اے iiحسین

ذوق فساد ولولہ شر لیے iiہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے

مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ iiانتشار

پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر iiیار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر iiدوچار

اے زندگی جلال شہ مشرقین iiدے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین iiدے

آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و iiزین
ہرگام ایک بدر ”ہر ہو سانس اک ii”حنین“

بڑھتے رہو یو نہیں پے تسخیر iiمشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ ii”یاحسین“

تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ iiدو
اس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ iiدو

***

اس مرثیہ کا خاتمہ اس بیت پر ہوا iiہے۔

دنیا تری نظیرشہادت لیے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لیے ہوئے

***

جوش ملیح آبادی نے اسی زمانے میں iiکہا

انسان کو بیدار تو ہو لینے iiدو
ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں iiحسین

اس سلسلے میں جوش کے ایک سلام کے یہ شعر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جس میں عہد نو کی صاف گونج موجود ہے۔
محراب کی ہوس ہے نہ منبر کی iiآرزو
ہم کو ہے طبل وپرچم ولشکر کی iiآرزو

اس آرزو سے میرے لہو میں ہے جزرومد
دشت بلا میں تھی جو بہتر کی iiآرزو

ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ جوش رثائی ادب کی کلاسیکی روایت سے جو مذہبی مقصد کے لیے مخصوص تھی‘ سیاسی نوعیت کا کام لے رہے تھے‘ اس پر کچھ اعتراض بھی ہوئے۔ باایں ہمہ اس کا اعتراف بھی کیا گیا کہ ”جوش نے مرثیے میں انقلاب اور قومی آزادی کے تصور کو رواج دیا“ تاہم رثائی ادب کی اپنی حدود تھیں‘ جن کا احترام مرثیہ گو شعرا کے لیے واجب تھا۔ جوش کی البیلی شخصیت کی بات ہی اور تھی۔ وہ اپنی رومانیت اور بغاوت کی وجہ سے ہر چیز کو نبھالے جاسکتے تھے۔ دوسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ جمیل مظہری نے کچھ کوشش کی لیکن ان سے چلا نہیں‘ اور اس کا چلنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ان کوششوں کے برعکس‘ اقبال اور محمد علی جوہر نے نظم اور غزل میں کردار حسین کی عظمت کے بلاواسطہ اور بالواسطہ تخلیقی اظہار کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس نے آنے والوں کے لیے ایک شاہراہ کھول دی۔ اور بعد کی اردو شاعری میں اس رجحان کا فروغ دراصل انہیں اثرات کے تحت ہوا۔

تبصرے
Loading...