اعتکاف

اعتکاف تین دن تک عبادت الہی کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور اس عمل کو انجام دینے والا معتکف کہلاتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں اس کے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں جن کی رعایت کی جاتی ہے ۔یہ عمل بنیادی طور پر اسلام میں مستحب جانا گیا ہے لیکن نذر، قسم اور عہد کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے ۔ فقہی کتابوں میں اس کیلئے مستقل بحث ذکر کی جاتی ہے ۔اعتکاف کیلئے کوئی مخصوص وقت بیان نہیں ہوا ہے لیکن روایات میں رسول اللہ کے رمضان میں اعتکاف پر بیٹھنے کا تذکرہ موجود ہے اس بنا پر رمضان کے مہینے کو اس عمل

 کی انجام دہی کا بہترین وقت کہا گیا ہے ۔اسلامی جمہوریہ ایران میں عام طور پر رجب کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو مذہب شیعہ پر کاربند لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس عبادت کو انجام دیتی ہے نیز مساجد میں خواتین کیلئے تمام شرعی مسائل کا لحاظ کرتے ہوئے علیحدہ انتظامات کئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں اہل سنت اور مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیلئے بیٹھتے ہیں ۔
فہرست

    1 لغوی اور اصطلاحی معنی
        1.1 لغوی
        1.2 فقہی
        1.3 تصوف
    2 تاریخچہ
        2.1 قبل از اسلام
        2.2 حیاتِ پیغمبر
    3 احکام
        3.1 اعتکاف
        3.2 معتکف
        3.3 خواتین کے مخصوص احکام
    4 تالیفات
    5 حوالہ جات
    6 مآخذ
    7 بیرونی رابط

لغوی اور اصطلاحی معنی
لغوی

اِعْتِکَاف “ع، ک، ف ” سے نکلا ہے جس کا معنی تعظیم کے ساتھ کسی چیز کے ہمراہ رہنا ہے[1] ۔یہ مفہوم قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے [2] ۔قرآن کے سورۂ حج میں لفظ عاکف ساکن اور مقیم کے معنی میں جبکہ سورۂ فتح میں ممنوع کے معنی میں معکوف آیا ہے ۔
فقہی

اصطلاحی معنی کے لحاظ سے قرب الہی کی نیت سے مسجد میں ضروری ٹھہرنے کو کہا گیا ہے ۔جامع تر تعریف میں یوں کہیں کہ تقرب الہی حاصل کرنے کی خاطر اور عبادت الہی کیلئے مسجد میں کم از کم تین دن تک شرائط مخصوص کی رعایت کرتے ہوئے ٹھہرنا “اعتکاف” ہے ۔
تصوف

تصوف کی اصطلاح میں دنیاوی مشغولیات سے اپنے دل کو پاکیزہ اور صاف قرار دینا اور اپنے نفس کو اپنے آقا اور مولا کے حضور پیش کرنا ہے نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکا معنی ہے کہ جب تک تو یعنی آقا اور مولا مجھے نہیں بخشے گا میں تیری بارگاہ سے دور نہیں ہوں گا ۔[3]
تاریخچہ
قبل از اسلام

درست ہے اعتکاف کی سنت کو مسلمانوں نے رسول اللہ کی سیرت سے اخذ کیا ہے[4] لیکن اس کے باوجود اسلام سے پہلے بھی اہل عرب کے درمیان اعتکاف سے ملتی جلتی ایک رسم موجود تھی ۔ اس کے لئے ممکن ہے کہ اس روایت سے استناد کیا جائے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں نے جاہلیت کے دور میں خانۂ خدا میں ایک رات رہنے کی نذر کی اور میں نے اسے پورا کیا ۔[5]
حیاتِ پیغمبر

ہجرت سے پہلے رسول اللہ کی مکی زندگی میں اعتکاف پر بیٹھنے کے متعلق کوئی اطلاع موجود نہیں ہے البتہ ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے پہلے عشرے میں دوسرے سال درمیانی عشرے میں اعتکاف پر بیٹھے اور اس کے بعد ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے ۔[6]
احکام
اعتکاف
اعتکاف کا روح پرور منظر
اعتکاف میں خواتین کی بھرپور شرکت

    اعتکاف کیلئے کوئی زمان مقرر نہیں ہے لیکن روایات کی بنا پر رسول اللہ رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے ۔[7]
    سیرت رسول کی پیروی کرتے ہوئے اعتکاف کا بہترین زمان رمضان کا آخری عشرہ مستحب مؤکد شمار کیا جاتا ہے اگرچہ دیگر اوقات میں بھی مستحب ہے ۔[8]
    امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی کم سے کم مدت تین دن بیان ہوئی ہے نیز اگر اعتکاف مستحب ہو تو اس سے اٹھ سکتا ہے لیکن دوسرے روز کے اختتام پر تیسرے کے دن کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔[9]
    اعتکاف کے تین ایام پہلے دن کے طلوع فجر سے شروع ہو کر تیسرے دن کے غروب آفتاب تک شمار ہوتے ہیں۔
    مالک بن انس اور شافعی کے نزدیک غروب آفتاب سے پہلے معتکف کو اعکاف کی جگہ حاضر ہونا چاہئے تا کہ رات کی ابتدا وہاں موجود ہو۔[10]
    اہلسنت فقہا کے نزدیک اعتکاف کی کم میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک کسی کم ترین معین مدت کے قائل نہیں ہیں۔[11]
    اعتکاف کی روایات کے ایک گروہ میں مسجد الحرام،مدینہ کی مسجد النبی،کوفہ کی مسجد اور بصرہ کی مسجد بیان ہوئی ہے جبکہ دوسرے گروہ کی روایات میں اعتکاف ک جگہ مسجد جامع یا ایسی مسجد جس میں عادل امام کی موجودگی میں نماز جمعہ یا نماز جماعت قائم ہوئی ہو۔اس وجہ سے فقہائے امامیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔[12]
    قدیمی فقہا میں سے اکثر مذکورہ چار مساجد میں اعتکاف منحصر سمجھتے تھے [13]۔ اخیری سالوں میں شہید اول اور دوم نے اسے ضعیف قرار دیا۔ لیکن بعض مذکورہ مساجد کے علاوہ مساجد میں رجائے مطلوبیت کی نیت اعتکاف کو جائز سمجھتے ہیں ۔[14]
    امامیہ کے نزدیک معتکف شخص کیلئے روزہ رکھنا ضروری ہے[15] لیکن اعتکاف کے روزے کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پس سفر ،مریضی،حائض یا نفاس کی وجہ سے اعتکاف درست نہیں ہے ۔
    عید فطر اور قربان کے روز روزہ رکھنا حرام ہونے کی وجہ سے ان دنوں میں اعتکاف درست نہیں ہے ۔

مالکی فقہ کے مطابق بھی روزے کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے جبکہ حنفیوں کے نزدیک بھی مشہور یہی ہے لیکن ایک قول کی بنا پر مستحب اعتکاف میں روزہ شرط نہیں ہے ۔اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل سے مشہور قول یہ ہے کہ اعتکاف میں سرے سے روزہ واجب ہی نہیں ہے ۔[16]

    مخصوص اور ضروری کاموں کی انجام دہی کیلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے جبکہ نماز جمعہ، نماز جنازہ، گواہی دینے،بیمار کی احوال پرسی اور انفرادی ضرورتوں جیسےقضائے حاجت خورد و نوش کو مہیا کرنا وغیرہ کو اعتکاف کے استثنائی احکام میں گنا گیا ہے ۔ بہر حال ان مذکورہ مقامات میں معتکف کو چاہئے ممکنہ حد تک سائے کے نیچے مت چلے ۔[17]

معتکف

    معتکف عاقل ہو اور قصد قربت کی نیت سے انجام دے۔[18]
    روزے کو باطل کرنے والی چیزیں اعتکاف کے باطل ہونے کا موجب بنتی ہیں۔[19]
    ہمبستری کرنا یہانتک کہ چومنا ۔
    خوشبو کا استعمال۔
    ضرورت کے علاوہ خرید و فروش کرنا۔
    امور دیاوی میں بحث و مباحثہ کرنا۔
    بعض حرام چیزوں کے ارتکاب کی صورت میں اعتکاف کے باطل ہونے کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتا ہے ۔[20]

خواتین کے مخصوص احکام

امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی بنیاد اور اساسی شرائط میں سےاہم ترین شرط مسجد ہے۔ اعتکاف کیلے مسجد کا ہونا ضروری ہے ۔پس اس لحاظ سے اگر خواتین اعتکاف کی عبادت کو انجام دینا چاہیں تو انکے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مسجد میں ہی اسے انجام دیں گی ۔

    احتیاط واجب کی بنا پر عورت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کیلئے اپنے شوہر سے اجازت حاصل کرے۔[21]
    حیض و نفاس کی صورت میں عورت کو چاہئے کہ فورا مسجد سے باہر نکل جائے۔[22] بنا بر احتیاط واجب اس کی قضا ادا کرے۔[23]

تالیفات

عبادات میں سے اعتکاف ایک اہم فقہی بحث کے عنوان سے سمجھا جاتا ہے اور اس عنوان کے متعلق مستقل کتابیں لکھیں گئیں ہیں ۔ جیسے محمد بن ادریس شافعی اور داؤد اصفہانی نے اس کے متعلق کتاب لکھی[24] اسی طرح فقہائے امامیہ میں سے ابو الفضل صابونی اور ابو جعفر ابن بابویہ کی بھی اس کے متعلق کتابیں موجود ہیں[25] نیز ان کے علاوہ درج ذیل نام بھی قابل ذکر ہیں :

    معین الدین سالم بن بدران بصری نے (626 باحیات)الاعتکافیہ کے نام سے کتاب لکھی ۔[26]
    شیخ لطف اللہ میسی اصفہانی (متولد 1033 قمری)الاعتکافیہ یا ماء الحیات و صافی الفرات کے نام سے تالیف رسول جعفریان کی کوششوں سے ایک جلد میں مجموعہ میراث اسلامی ایران کی جانب سے 1373 شمسی میں چاپ ہوئی۔
    الکفاف فی مسائل الاعتکاف کے نام سے محمد جعفر شریعتمدار استرآبادی( متولد1263ق) کی تصنیف کا نسخہ آیت اللہ مرعشی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔[27]
    بزرگ تہرانی نے بعض ذاتی کتابخانوں میں موجود سید محمد علی شہرستانی (متولد1290 ) کی الاعتکافیہ کے نام سے تالیف کا ذکر کیا ہے ۔[28]

حوالہ جات

راغب، ۳۵۵.
دیکھیں: سوره بقره، ۱۲۵؛ اعراف، ۱۳۸؛ طہ، ۹۷؛ شعراء، ۷۱.
جرجانی، ص۲۵.
مالک، ج۱، ص۳۱۴.
بخاری، ج۳، ص۱۰۵، ۱۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۵۶۳.
کلینی،الکافی،4/175
کلینی، ج۴،ص۱۷۵
مثلاً : شہید ثانی، ج۲،ص۱۴۹،جزیری، ج۱،ص۵۸۲
محقق، ج۱، ص۲۱۶.
ج۱، ص۳۱۴.شافعی، ج۲، ص۱۰۵.
ابن رشد، ج۱، ص۳۱۴.
کلینی، ج۴، ص۱۷۶؛ مفید، ص۳۶۳.
ر ک: ص۱۸؛ : سیدمرتضی، ص۷۲؛ طوسی، ج۲، ص۲۷۲.
خمینی، ج۱، ص۳۰۵.
مالک، ج۱، ص۳۱۵؛ محقق، ج۱، ص۲۱۵.
ر ک: شافعی، ج۲، ص۱۰۷؛ ابن ہبیره، ۱/۱۷۰؛ نیز : مروزی، ص۷۵.
کلینی، ج۴، ص۱۷۸؛ ابن رشد، ج۱، ص۳۱۷؛ محقق، ج۱، ص۲۱۷.
مسائل اعتکاف
مسائل اعتکاف
ابن ہبیره، ج۱، ص۱۷۱؛ محقق، ج۱، ص۲۱۹-۲۲۰؛ جزیری، ج۱، ص۵۸۵-۵۸۷.
اآ یت اللہ ناصر مکارم
آیت اللہ خامنہ ای
آیت اللہ سیستانی
ابن ندیم، ص۲۶۴، ۲۷۱.
نجاشی، ص۳۷۵، ۳۸۹.
آقابزرگ، ج۲، ص۲۳۰.
آقابزرگ، ج۲،ص۲۲۹؛ مدرسی، ص۳۳۸.

    ج۲، ص۲۲۹-۲۳۰.

مآخذ

    قرآن کریم.
    آقابزرگ، الذریعہ.
    ابن بابویہ، محمد، «المقنع»، الجوامع الفقہیہ، قم، ۱۴۰۴ق.
    ابن رشد، محمد، بدایہ المجتہد، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
    ابن ماجہ، محمد، سنن، بہ کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م.
    ابن ندیم، الفہرست.
    ابن ہبیره، یحیی، الافصاح، بہ کوشش محمد راغب طباخ، حلب، ۱۳۶۶ق /۱۹۴۷م.
    بخاری، محمد، صحیح، قاہرہ، اداره الطباعہ المنیریہ.
    جرجانی، علی، التعریفات، قاہرہ، ۱۳۵۷ق /۱۹۳۸م.
    جزیری، عبدالرحمان، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، ۱۴۰۶ق / ۱۹۸۶م.
    خمینی، روح الله، تحریر الوسیلہ، نجف، مطبعہ الاداب.
    راغب اصفہانی، حسین، مفردات الفاظ القرآن، بہ کوشش ندیم مرعشلی، قاہره، ۱۳۹۲ق.
    سمرقندی، علاءالدین، تحفہ الفقہاء، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
    سیدمرتضی، علی، الانتصار، بہ کوشش محمدرضا خرسان، نجف، ۱۳۹۱ق /۱۹۷۱م.
    شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ.
    شہید ثانی، زین الدین، الروضہ البہیہ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
    طوسی، محمد، الخلاف، قم، ۱۴۰۷ق.
    الفتاوی الہندیہ (الفتاوی العالمکیریہ)، قاہره، ۱۳۲۳ق.
    کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق.
    مالک بن انس، الموطأ، بہ کوشش محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۵م.
    محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹م.
    مدرسی طباطبایی، حسین، مقدمہ ای بر فقہ شیعہ، ترجمہ محمدآصف فکرت، مشہد، ۱۳۶۸ش.
    مروزی، محمد، اختلاف العلماء، بہ کوشش صبحی سامرایی، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
    مفید، محمد، المقنعہ، قم، ۱۴۱۰ق.
    نجاشی، احمد، رجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
    الشیخ الصدوق، معانی الاخبار، التصحیح: علی اکبر الغفاری، قم: انتشارات اسلامی، ۱۳۶۱ش.
    الشیخ الصدوق، من لایحضره الفقیہ، التحقیق: علی اکبر غفاری، قم: جامعۃ المدرسین، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۰۴ق.
    الطوسی، محمد بن الحسن، الفہرست، محقق: جواد القیومی، بی‌جا: مؤسسۃ نشر الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق.
    نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی‌، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۳۶۵ش.

تبصرے
Loading...