اصول فقہ میں شیعہ علماء کی تصانیف

علم فقہ کے مقدماتی علوم میں سے ایک اہم اور بنیادی علم ،اُصول فقہ ہے جو اجتہاد اور شرعی احکام کے استنباط کی بنیاد ہے جس میں مہارت اور تحقیق کے بغیر کوئی بھی شخص فقہ واجتہاد کے درجات عالیہ پر فائز نہیں ہو سکتا ۔

علم اصول فقہ میں علمائے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی علمی خدمات اسلامی علوم وفنون کا ایک سنہری باب ہے جو غیبت کبری ٰ کے زمانے سے لیکر آج تک ترقی وپیش رفت کی منازل طے کر رہا ہے اور شیعہ فقہ میں باب اجتہاد کے کھلا ہو نے کی وجہ سے شیعہ حوزہ ہائے علمیہ میں اس علم کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔اسی لئے شیعہ اُصولیین نے اس باب میں اپنی گرانقدر تحقیقات اور تالیفات یاد گار چھوڑی ہیں ۔جن میںایک ملا محمد کاظم آخوند خراسانی رحمة اللہ علیہ کی کتاب ”کفایة الاصول ” بھی ہے جو عصر حاضر میں شیعہ مدارس اور علمی مراکز میں اُصول فقہ میں نصاب کی کتاب شمار ہوتی ہے اور اس کتاب کی تدریس کر نے والا عالم ،اس علم میں ماہر کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس سے پہلے کہ ہم ”کفایة الاصول ” کا تعارف کرائیں ؛اس کے مئولف کے بارے میں کچھ معلومات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

آخوند خراسانی (١٢٥٥ھ ۔١٣٢٩ھ)

عظیم فقیہ اور علم اُصول فقہ کے ماہر آیت اللہ ملا محمدکاظم خراسانی معروف بہ آخوند خراسانی ١٢٥٥ھ میں مشہد میں پید اہوئے ۔اُن کے والد مُلا حسین ہرات کے رہنے والے تھے لیکن اُنہوں نے مشہد میں سکونت اختیار کر لی تھی وہ ایک عالم دین تھے اور تبلیغ دین کے علاوہ تجارت بھی کرتے تھے۔اسی مقصد کے لئے وہ مسلسل ہرات اور مشہدکے درمیان سفر میں رہتے تھے اور اپنے سفر کے دوران تجارت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دینی احکام کی تبلیغ بھی کرتے تھے ۔اسی دوران اُنہوں نے کاشان میں شادی کر لی اور اس شادی کے نتیجے میں خدا نے اُنہیں چار بیٹے بنام نصر اللہ ،محمد رضا ،غلام رضا اور محمد کاظم عطا کئے ۔ملا حسین ہراتی کے بیٹوں میں سے محمد کاظم نے علوم دینی میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور آخوند خراسانی کے نام سے مشہورہوئے ،محمد کاظم (آخوند خراسانی) نے ابتدائی دینی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور پھر سبزوار چلے گئے اور ایک عرصے تک مُلا ہادی سبزواری کے درس معقولات میں شرکت کی ۔پھر تہران آگئے اور میرزا ابوالحسن جلوہ اور دوسرے اساتذہ سے فلسفہ ومنطق کی تعلیم حاصل کی ۔١٢٧٨ ھ میں نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور اُس زمانے کے عظیم فقیہ اور اُصولی شیخ مرتضیٰ انصاری کے درس میں شرکت کی اور ساتھ ہی نجف کے دوسرے علماء سے بھی کسب فیض کیا ۔شیخ انصاری کی وفات کے بعد میرزائے شیرازی کی شاگردی اختیار کی اور اُن کے خاص شاگردوں میں قرار پائے

آخوند خراسانی علم اصول فقہ کے عظیم اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور اُنہوں نے چالیس سال سے زیادہ اس علم کی تدریس کی ہے اُن کے درس سے تقریباً ١٢ سو علماء نے کسب فیض کیا ہے جن میں سے تقریباًدوسو افراد خود مجتہد تھے ؛معاصر فقہا ء میں سے آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی ، آیت اللہ شیخ محمدحسین اصفہانی ، آیت اللہ سید حسین بروجردی ، آیت اللہ حسین قمی اور آیت ضیا ء الدین عراقی کا شمار آخوند خراسانی کے نمایاں شاگردوں میں ہوتا ہے ۔اُن کا زیادہ کام اُصول فقہ میں ہے اور اُنکے اُصولی نظریات وآراء کے بارے میں ہمیشہ حوزہ ہائے علمیہ میں بحث ہوتی ر ہی ہے اور اُن کی اُصولی آراء پر درس خارج کی ابحاث کی جاتی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں دینی سیاست کے میدان میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا اور تحریک مشروطیت کے بانیوں میں سے قرار پائے اور استبداد کے خلاف اُن کی جدو جہد تاریخ ایران کا حصہ بن چکی ہے اُنہوں نے مشروطیت کی ضرورت کا فتویٰ دیا جس کی وجہ سے استبداد مخالف علماء میں اُن کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔آخر کار یہ مجاہد مرجع تقلید ١٣٢٩ ھ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور نجف اشرف میں ہی دفن ہوئے ۔

آخوند خراسانی کی تالیفات

آخوند خراسانی نے بہت سی کتابیں فقہ ، اُصول فقہ اور فلسفہ میں لکھیں ہیں جو یہ ہیں :

الف :اصول فقہ میں تالیفات

حاشیہ مختصر بر رسائل ،کہ جو آخوند کی پہلی تالیف ہے ۔یہ کتاب اُنہوں نے ٢٨ سال کی عمر میں اپنے استاد شیخ انصاری کی کتاب رسائل پر مختصرحواشی کے طور پر لکھی ہے۔

٢۔حاشیہ مفصل بر رسائل شیخ انصاری :یہ کتاب ”دررالفوائد ” کے نام سے چند بار شائع ہو چکی ہے

٣۔فوائدالاصول ؛یہ کتاب ١٣١٦ ھ میں تہران میں شائع ہوئی ہے ۔

٤۔رسالة فی المشتق

٥۔رسالة حواشی الاستصحاب ۔اس کی تاریخ تالیف معلوم نہیں ۔

٦۔رسالة حواشی الظن :یہ کتاب ١٣٠٢ ھ میں لکھی گئی ہے

٧۔رسالة حواشی القطع :یہ کتاب ١٣١٥ ھ میں لکھی گئی ہے ۔

٨۔کفایة الاصول :یہ کتاب ١٢٩١ ھ میں لکھی گئی ہے جس کی تفصیل آگے بیان ہو گی ۔

ب:فقہی تالیفات

٩۔حاشیہ علی المکاسب ۔یہ شیخ انصاری کی کتاب ”المکاسب ”پر حاشیہ ہے ۔جس کا موضوع بیع اور خیارات ہے ،یہ کتاب ١٣١٩ھ میں لکھی گئی ہے ۔یہ فقہ میں آخوند خراسانی کی اہم کتاب ہے جو مکاسب کے دقیق ترین حواشی میں شمار ہوتی ہے ۔

١٠۔ شرح علی ”التبصرہ ” :یہ علامہ حلی کی فقہی کتاب تبصرہ کی شرح ہے ۔

١١۔تلخیص للتبصرة :جو ”تکملة التبصرة ” کے نام سے ١٣٢٨ ھ میں تہران سے شائع ہوئی ہے ۔

١٢۔اللمعات النیّرة فی شرح تکملة التبصرة ” یہ متن تکملة کی طہارت سے مواقیت الصلاة تک شرح ہے

١٣۔رسالة فی مسئلة الاجارة (نامکمل)

١٤۔رسالة فی الطلاق (نامکمل)

١٥۔رسالة فی معنی العدالة

١٦۔رسالة فی الرھن

١٦۔رسالہ ای در وقت

١٧۔رسالة فی الوقف

١٨۔رسالة فی الرضاع (دودھ پلانے کے بارے میں فقہی احکام )

١٩۔رسالة فی الدماء الثلاثہ(حیض ونفاس اور استحاضہ کے بارے میں فقہی احکام )یہ رسالہ اکثر محققین کی نظر میں ایک دقیق ترین کتاب ہے ۔

٢٠۔کتاب فی القضاء والشھادات (نامکمل)

٢١۔رسالہ عملیہ بنام ”روح الحیاة ” یہ کتاب ١٣٢٧ھ میں بغداد میں طبع ہوئی ہے ۔

٢٢۔ذخیرة العباد فی یوم المعاد”یہ فارسی میں توضیح المسائل ہے جو پہلے بمبئی اور پھر تہران میں شائع ہوئی ہے 

ج:فلسفی تالیفات

٢٣۔حاشیہ بر اسفار (ملاصدرا کی کتاب پر حاشیہ)

٢٤۔حاشیہ بر منظومہ ہادی سبزواری

کفایة الاصول

”کفایة الاصول ” ملامحمد کاظم خراسانی کی گرانقدر ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے اور یہ کتاب عصر حاضر کی اہم ترین کتا ب سمجھی جاتی ہے جو شیعہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے ۔یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور عربی زبان میں لکھی گئی ہے ۔

کفایة الاصول کے مضامین

یہ کتاب ایک مقدمے اور آٹھ مقاصد اور ایک خاتمے پر مشتمل ہے ۔مقدمے میں تیرہ اہم تمہیدی ابحاث کو پیش کیا گیا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے :

آخوند خراسانی خطبہ کتاب کے بعد :لکھتے ہیں :وبعد فقد رتّبتہ علی مقدمة ومقاصد وخاتمة ۔واماالمقدمة: ففی بیان اُمور (یعنی میں نے اس کتاب کو ایک مقدمے ، کچھ مقاصد اور ایک خاتمے کے ساتھ مرتب کیا ہے ۔اور مقدمے میںچند امور بیان ہوئے ہیں )جو یہ ہیں:

امراول :تعریف موضوع علم ، اغراض کے لحاظ سے علوم میں فرق اور پھر علم اُصول کا موضوع اور ا سکی تعریف بیان ہوئی ہے

امردوم :وضع کی تعریف اور وضع کی اقسام بیان ہوئی ہیں ۔امرسوم :استعمال مجازی کی بحث کی گئی ہے ۔

امرچہارم:اطلاق لفظ کی بحث پر مشتمل ہے ۔امر پنجم : وضع الفاظ کی بحث ہے۔ امر ششم :میں مرکبات کے وضع کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے ۔امر ہفتم :میںامارات الوضع اور تبادرو عدم صحت السلب کا موضوع پیش کیا گیا ہے ۔

امر ہششم : میں لفظ اور اُس کے تعارضات کی بحث کی گئی ہے ۔امر نہم میں الحقیقة الشرطیہ کا موضوع پیش کیا گیا ہے ۔

امر دہم میں صحیح واعم کی بحث پر تفصیلی بیان ہوا ہے ۔امر یازدہم میں اشتراک لفظی کا موضوع چھیڑا گیا ہے ۔

امر دوازدہم میں ”ایک سے زیادہ معانی میں لفظ کے استعمال ” کی بحث کی گئی ہے ۔اور آخر میں امر سیزدہم میں :مشتق جیسے معرکة الآراء اُصولی موضوع کو پیش کیا گیا ہے ۔

ان مقدماتی ابحاث کے بعد آخوند خراسانی ”المقاصد ” کے عنوان کے تحت کتاب کی اصلی فصول کا آغاز کرتے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے :

مقصد اول : اوامر کی بحث ہے جس کی چند فصلیں ہیں :

فصل١ :مادہ امر ۔فصل ٢ :صیغہ امر ۔فصل ٣:اجزاء کے متعلق ہے ۔فصل ٤:مقدمہ واجب کے موضوع پر مشتمل ہے ۔فصل ٥: میں مسئلہ ضد کی بحث ہے ۔فصل ٦: کا عنوان”فی حکم امر الآمر مع علمہ بانتفاء شرطہ ” ہے ْفصل ٧: میں اوامر ونواہی کے طبائع سے تعلق کی بحث ہے ۔فصل ٨ : میں نسخ الوجوب کی بحث ہے ۔فصل ٩ : کا عنوان” وجوب تخییری ” ہے ۔فصل ١٠ : کا عنوان وجوب کفائی ہے ۔فصل ١١ : میں واجب الموقت کی بحث کی گئی ہے ۔فصل ١٢ : میں ”فی الامر بالامر ” کا موضوع ہے اور فصل ١٣: میں”فی الامر بعد الامر ” کی بحث کی گئی ہے ۔

مقصد دوم میں” نواہی ”کی بحث ہے ۔اس کی بھی چند فصلیں ہیں جن میں :مادة النہی ،اجتماع امر ونہی ،کسی شئے سے نہی اُس کے فساد کی مقتضی ہے یا نہیں ؟ جیسے موضوعات کو پیش کیا گیا ہے ۔

مقصد سوم میں” مفاہیم” کی بحث ہے ۔جو ایک مقدمے اور پانچ فصول پر مشتمل ہے جن میں مفہوم شرط ،مفہوم وصف ،مفہوم غایت ،ادوات استثنا ء اور مفہوم لقب وعدد کی بحث کی گئی ہے ۔

مقصد چہارم :عام وخاص کے عنوان سے ہے جس میں چند فصول ہیں جو عام کی تعریف سے لیکر خاص وعام کے احوال کی بحث ہے اور پھر نسخ کی بحث کے تحت بداء جیسے اہم کلامی وفلسفی موضوع کی بھی وضاحت کی گئی ہے ۔

مقصد پنجم : میں مطلق ومقید اور مجمل ومبیّن کی بحث کی گئی ہے ۔یہ بھی چند فصلو ں پر مشتمل ہے ۔

مقصد ششم : میں امارات شرعی وعقلی کے موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔جس میں چند فصول کے تحت :قطع ،اقسام قطع ،قطع اجمالی کی حجیت،طنون اور ظواہر الفاظ ،اجماع منقول ،خبر واحد ،اور اس کی حجیت کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔

مقصد ہفتم : میں اُصول عملیہ کے عنوان کے تحت چند فصول میں :برائت ،تخییر ،اشتغال ،اقل واکثر ،استصحاب جیسے معرکة الآراء اصولی موضوعات پر تفصیلی ابحاث پیش کی گئی ہیں ۔

مقصد ہشتم : میں ادلہ اور امارات کے تعارض کی بحث کی گئی ہے جس کوچند فصول کے تحت پیش کیا گیا ہے ۔

آخر میں ”الخاتمہ ” کے عنوان سے” اجتہاد وتقلید ”کے عنوان سے چند فصول میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔

کفایة الاصول کے حواشی

اس کتاب پر ایک سو سے زیادہ مجتہدین نے حاشیہ ،شرح اور تقریرات لکھی ہیں ۔حواشی لکھنے والوں میں ،سید ابراہیم بن سید محمد شبر الحسینی النجفی ،شیخ محمد ابراہیم بن شیخ علی بن محمد حسین کلباسی ،میرزا ابوالحسن بن عبد الحسین مشکینی اور خود آخوند کے فرزند حاج میرزا محمد کانام مشہور ہے ۔

شرح لکھنے والوں میں :سید میرزا حسن رضئی قمی ،شیخ ابو الحسن مشکینی ،شیخ علی بن قاسم قوچانی اور سید حسن اشکوری یزدی حائری کانام مشہور ہے ۔

ٍٍ تقریرات لکھنے والوں میں :شیخ ابوتراب بن محمد سلیم الساروی ،شیخ علی قوچانی نجفی ،شیخ علی گنابادی اور شیخ عبداللہ گلپائیگانی کا نا م مشہور ہے ۔

تبصرے
Loading...