اصلاح نفس سے متعلق مسائل کے عناوین

تمام لوگوں کی نسبت خیرو نیکی کی نیت رکھنا، رغبت ، خوف، خواہش ، خوشی اور غم کے وقت پرہیزگاری کرنا۔

تمام امور اور انجام کار کے بارے میں غور و فکر کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری، تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، ظلم و ستم کرنے والے سے چشم پوشی کرنا، جس نے قطع تعلق کرلیا ہو اس سے صلہ رحم کرنا، جس نے احسان نہ کیا ہو اس کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ خوف خدااس دنیا کے ظاہر و باطن پر خدا کی حفاظت پر توجہ رکھنا، ] کس طرح خدا انسان یا دوسری مخلوق کی حفاظت فرماتا ہے[ عفت اورپاکدامنی، عبادت خدا اور خدمت خلق میں کوشش کرنا،صداقت ، ادائے امانت اور خوش عادت ہونا، پڑوسیوں کا خیال رکھنا، خوبیوں اور نیکیوں سے آراستہ ہونا، طولانی رکوع اور سجدہ کرنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی رفتار و گفتار میں نرم رویہ پیدا کرنا، حلم و حوصلہ، حیاء اور عفت سے کام لینا، نیک اور صالح عمل انجام دینا، شکم اور شہوت کے میدان باعفت رہنا، رضائے الٰہی کے لئے نیک عمل انجام دینا، ذات خدا سے امیدرکھنا، عذاب الٰہی سے خوف زدہ رہنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کی ہدایت کرنا، برائیوں سے دور رہنا، مہمان کی عزت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰة کا ادا کرنا۔

البتہ یہ عناوین گزشتہ احادیث میں بیان ہونے والے اصلاح ک راستہ سے متعلق ہیں جن کی فہرست ہم نے یہاں بیان کی ہے، اگر ہم اپنی ، اہل خانہ اور معاشرہ کی اصلاح ک سلسلہ میں بیان ہونے والی تمام احادیث سے عناوین کو جمع کریں تو واقعاً ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔

اگر انسان اپنے ارادہ و اختیار سے خود کو ان تمام نیکیوں سے مزین اور آراستہ کرلے اور برے صفات خصوصاً مال حرام ، مقام حرام اور شہوت حرام سے محفوظ کرلے تواس کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہی فائدہ نصیب ہوگا۔

اس سلسلہ میں متقی و پرہیزگار افراد کو زندگی کے بعض پہلوئوں میں ہونے والے عظیم الشان فائدوں کی طرف اشارہ کیا جائے تو ممکن ہے خیر و سعادت حاصل کرنے والوں کے لئے ہدایت کا سبب بن جائے۔

ابن سیرین اور خواب کی تعبیر

ابن سیرین کا نام محمد بن سیرین بصری ہے، وہ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب طاقت کا مالک تھا اس کی تعبیر خواب کا سر چشمہ ذوق سالم اور بلند فکر تھی۔

خواب کو انسان سے مطابقت کرتا تھا، اور خواب کی تعبیر میں قرآن مجید اور احادیث سے الہام لیتا تھا۔

اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایک شخص نے اس سے معلوم کیا: خواب میں اذان کہنے کی تعبیر کیا ہے؟ ت

و اس نے کہا: حج سے مشرف ہونا، دوسرے شخص نے اسی خواب کی تعبیر پوچھی تو کہا: چوری کرنا، لیکن جب اس سے ایک خواب کی دو مختلف تعبیروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کہا: میں نے پہلے شخص کو دیکھا تو وہ ایک نیک اور صالح شخص دکھائی دیاتو اس کے خواب کی تعبیر کو اس آیت سے حاصل کیا: (وََذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَج…).(١) لیکن دوسرے شخص کا چہرہ صحیح نہیں تھا لہٰذا اس کے خواب کی تعبیر میں اس آیت سے الہام لیا: (َذَّنَ مُؤَذِّن َیَّتُہَا الْعِیرُ ِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ).(٢)

ابن سیرین کہتا ہے:بازار میں میری کپڑے کی دکان تھی ، ایک خوبصورت عورت کپڑا خریدنے کے لئے میری دکان پر آئی، جبکہ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عورت میری جوانی اور جمال کی عاشق ہوگئی ہے، تھوڑا کپڑا مجھ سے خریدا اور اپنی گٹھری میں رکھ لیا، اور اچانک کہنے لگی: اے کپڑا فروش! میں گھر سے پیسے لانا بھول گئی، یہ گٹھری لے کر تم میرے گھر تک چلو وہاں پر اپنے پیسے بھی لے لینا! مجھے مجبوراً اس کے گھر تک جانا پڑا، گھر کی چوکھٹ پر مجھے بلایا اور جیسے ہی میں نے اندر قدم رکھا اس نے فوراً دروازہ بند کرلیا، اس نے اپنے کپڑے اتار پھینکے اور اپنے جمال و خوبصورتی کو میرے لئے ظاہر کردیا، او رکہا: ایک مدت سے تیرے جمال کی عاشق ہوں ، اپنے وصال کے لئے میں نے یہی راستہ اختیار کیا ہے ، اس وقت یہاں پر تیرے اور میرے علاوہ کوئی نہیں ہے، لہٰذا میری آرزو پوری کردے ورنہ تجھے ذلیل کردوں گی۔

میںنے اس سے کہا: خدا سے ڈر ،اور زنا سے دامن آلودہ نہ کر، زنا گناہ کبیرہ ہے، جو جہنم میںجانے کا سبب ہے. لیکن میری نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوا، میرے وعظ کا کوئی اثر نہ ہوا،اس موقع پر میں نے بیت الخلا جانے کی اجازت مانگی، اس نے سوچا واقعاً قضائے حاجت کے لئے جارہا ہے لہٰذا اس نے چھوڑدیا. میں بیت الخلاء میں گیا اور اپنے ایمان اور آخرت اور انسانیت کو محفوظ کرنے کے لئے نجاست کو اپنے پورے بدن پر مل لیا، جیسے ہی اس حالت میں بیت الخلاء سے نکلا، فوراً ہی اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور مجھے باہر نکال دیا، میں ایک جگہ گیا اور نہایا دھلا،میں نے اپنے دین کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے بدبو دار نجاست کو اپنے بدن پر ملا، اس کے بدلے میں خداوندعالم نے بھی میری بُو کو عطر کے مانند کردیا اور مجھے تعبیر خواب کا علم مرحمت فرمایا(۳)

خداداد بے شمار دولت اور علم

عظیم الشان اصولی فقیہ ، علم و عمل اور عبادت میں مشہور شخصیت حجة الاسلام شفتی سید کے نام سے مشہور، اپنی ابتدائے تعلیم کے دوران نجف اشرف میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، بہت زیادہ غربت اور پریشانی کی زندگی تھی، اکثر اوقات ایک وقت کے کھانے کے لالے پڑجاتے تھے، نجف اشرف میں رہنا ان کے لئے مشکل تھا، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود تحصیل علم کے لئے حوزہ اصفہان گئے جو اس موقع پر شیعوں کاایک پُر رونق حوزہ تھا لیکن وہاں پر بھی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا رہے۔

ایک روزان کے لئے ان کے لئے کہیں سے کچھ پیسہ آیا، اہل و عیال کے کھانے کے انتظام کے لئے بازار گئے، انھوں نے سوچا کہ اپنی اور اہل و عیال کی بھوک مٹانے کے لئے کوئی سستی سی غذا خریدیں۔

ایک قصائی کی دکان سے ایک جگر خریدا اور خوشی خوشی گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔راستہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کی طرف سے گزر ہوا دیکھا کہ ایک ضعیف اور کمزور سی کتیا زمین پر پڑی ہوئی ہے، اور اس کے چند پلّے اس کے سینہ سے چپکے ہوئے ہیں اور دودھ مانگ رہے لیکن اس بھوکی اور کمزور کتیا کے پستان میں دودھ نہیں ہے۔

کتیا کی حالت دیکھ کراور اس کے بچوں کی فریاد سن کر سید کھڑے ہوگئے، جبکہ خود موصوف اور ان کے اہل و عیال کو بھی اس غذا کی ضرورت تھی لیکن انھوں نے خواہش نفس پر کوئی توجہ نہیں کی اور تمام جگر اس کو کھلادیا، اس کتیا نے اپنی دم ہلائی اور اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا گویا خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنی بے زبانی سے اس محسن اور ایثار گر کے حق میں دعا کررہی ہے۔

سید فرماتے ہیں: اس کتیا اور اس کے بچوں پر رحم کئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ”شفت” کے علاقہ سے بہت سا مال میرے پاس لایا گیا، اور کہا: وہاں کے رہنے والے ایک شخص نے ایک صاحب کو کاروبار کرنے کے لئے پیسہ دیا اور اس سے کہا: اس کا فائدہ سید شفتی کے لئے بھیج دیا جائے، اور میرے مرنے کے بعد میرا سارا مال اور اس کے تمام منافع سید کے پاس بھیج دیئے جائیں، اس میں مال کا منافع سید کے ذاتی اخراجات کے لئے اور اصل مال ان کی مرضی کے مطابق خرچ کیا جائے!

سید نے اپنے سے متعلق م ل کو تجارت میں لگادیا اور اس کے فائدے سے کچھ زمین و باغات خریدے، موصوف اس کے منافع سے غریبوںکی امداد اور طلباء کو شہریہ دیا کرتے تھے، نیز لوگوں کی مشکلات کو دور فرماتے تھے، اور ایک عظیم الشان مسجد بنائی جو آج کل اصفہان کی ایک آباد اور سید کے نام سے مشہور ہے، موصوف کی قبر بھی اسی مسجد کے کنارے ایک پُر رونق مقبرہ میںہے۔

ایک پرہیزگار اور بیدار جوان

قبیلہ انصار سے ایک شخص کہتا ہے: گرمی کے دنوں میں ایک روز رسول خدا ۖ کے ساتھ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص آیا جس نے اپنا کرتہ اتار دیا، اور گرم ریت پر لوٹنا شروع کردیا، کبھی پیٹھ کے بل اور کبھی پیٹ کے بل اور کبھی اپنا چہرہ گرم ریت پر رکھتا ہے اور کہتا ہے: اے نفس! اس گرم ریت کا مزہ چکھ، کیونکہ خداوندعالم کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ سخت ہے۔

رسول اکرم ۖ اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے، جس وقت وہ جوان وہاں سے اٹھا او راس نے اپنے کپڑے پہن کر ہماری طرف دیکھ کر جانا چاہا، پیغمبر اکرم ۖ نے اس کوہاتھ کے اشارے سے بلایا، جب وہ آگیا تو آنحضرت نے اس سے فرمایا: اے بندہ خدا! میں نے اب تک کسی کو ایسا کام کرتے نہیں دیکھا اس کام کی وجہ کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا: خوف خدا، میں نے اپنے نفس سے یہی طے کرلیا ہے تاکہ شہوت اور طغیان سے محفوظ رہے!

پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: تو نے خدا سے ڈرنے کا حق ادا کردیا ہے خداوندعالم تیرے ذریعہ اہل آسمان پرفخر و مباہات کرتا ہے، اس کے بعد آنحضرت ۖ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سب لوگ اپنے اس دوست کے پاس جمع ہوجائو تاکہ یہ تمہارے لئے دعا کردے، سب اصحاب جمع ہوگئے تو اس نے اس طرح سے دعا کی:

”اَللّٰھُمَّ اجْمَعْ اَمْرَنا عَلَی الْھُدیٰ وَاجْعَلِ التَّقْویٰ زادَنا وَالْجَنَّةَ مَآبَنا”.(۴)

”پالنے والے! ہماری زندگی ہدایت پر گامزن رکھ، تقویٰ کو ہماری زادہ راہ، اور بہشت کو ہماری جایگاہ بناد ے”۔

ایک جوان عابد اور گناہ کے خطرہ پر توجہ

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے ایک جوان کوگمراہ کرنا چاہا، بنی اسرائیل کے بہت سے لوگ کہتے تھے: اگر فلاں عابد اس عورت کو دیکھے گا تو عبادت چھوڑ دے گا، جیسے ہی اس بدکار عورت نے ان کی باتوں کو سنا تو کہنے لگی: خدا کی قسم میں اس وقت تک اپنے گھر نہ جائوں گی جب تک کہ اس کو گمراہ نہ کردوں، چنانچہ رات گئے اس عابد کے دروازہ پر آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس عابد نے دروازہ نہ کھولا، وہ عورت چلائی او رکہا: مجھے اندر آنے دے، لیکن اس نے نہ کھولا، اس عورت نے کہا: بنی اسرائیل کے کچھ جوان مجھ سے بُرا کام کرنا چاہتے ہیں اگر تو مجھے پناہ نہیں دے گا تو میں ذلیل و رسوا ہوجائوں گی!

جیسے اس عابد نے یہ آواز سنی دروازہ کھول دیا، وہ عورت جیسی ہی اس کے گھر میں آئی تو اس نے اپنے کپڑے اتار دئے، اس عابد نے جیسے ہی اس کی زیبائی اور خوبصورتی کو دیکھا تو وسوسہ میں پڑگیا، اس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور پھر ایک گہری سوچ میں پڑگیا، کچھ دیر سوچ کرچولھے کی طرف گیا اور آگ میں اپنا ہاتھ ڈال دیا، وہ عورت پکاری: ارے تو کیا کرتا ہے؟ اس نے کہا: جو ہاتھ نامحرم کے بدن تک پہنچا ہے اس کو جلانا چاہتا ہوں، چنانچہ یہ دیکھ کر وہ عورت بھاگ گھڑی ہوئی اور بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس جاکر کہا: دوڑو اور اس جوان کو پچائو کیونکہ اس نے اپنا ہاتھ آگ میں رکھ دیا ہے، جیسے ہی لوگ دوڑے تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ جل چکا ہے.(۵)

پوریائے ولی لیکن اپنے نفس سے جنگ کرنے والا

پوریائی ایک قدرتمند اور زبردست پہلوان تھا جس نے اپنے زمانہ کے تمام پہلوانوں سے کشتی لڑی اور سب کو پچھاڑ ڈالاتھا،جس وقت وہ اصفہان میں پہنچاتو اس نے اصفہان کے بھی تمام پہلوانوں سے کشتی لڑی اور سبھی پر فاتح رہا، چنانچہ اس نے شہر کے پہلوانو ں سے درخواست کی کہ میرے بازو پربندھے ہوئے بازوبند پر مہر لگا کر میری پہلوانی کا اقرار کرتے ہوئے دستخط کرو تو شہر کے پہلوانوں کے رئیس کے علاوہ سب نے دستخط کردئے چونکہ اس نے ابھی تک اس سے کشتی نہیں لڑی تھی اس نے کہا کہ میں پوریا سے کشتی لڑوں گا اگر اس نے مجھے ہرادیا تب وقت دستخط کروں گا۔ میدان ”عالی قاپو ‘میں جمعہ کے روز کشتی کا پروگرام رکھا گیا تاکہ اس بے نظیر کشتی کو دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوسکیں، شب جمعہ پوریا ئی نے دیکھا کہ ایک بُڑھیاحلوا بانٹ رہی ہے اور التجا کے انداز میں کہہ رہی ہے: یہ حلوا کھائو او رمیرے لئے دعا کرو کہ خداوندعالم میری حاجت پوری کردے۔

پوریائی نے پوچھا! ماں تیری حاجت کیا ہے؟ اس نے کہا: میرا بیٹا اس شہر کا سب سے بڑا پہلوان ہے، وہ میری اور اپنے اہل و عیال کے لئے روزی لاتا ہے،کل اس کی کشتی پوریائی سے ہے، کچھ لوگ اس کی مدد کرتے ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وہ کشتی ہار گیا تو کہیں وہ لوگ اس کو پیسہ دینا بند نہ کردیں اور ہماری زندگی سختی اور پریشانی میں گزرنے لگے!

پوریائی نے اسی وقت یہ ٹھان لی کہ شہر اصفہان کے مشہور پہلوان کو زیر کرنے کے بجائے اپنے نفس کو زیرکرے گا،چنانچہ اسی نیت سے اس نے کشتی لڑنا شروع کی، جس وقت کشتی ہونے لگی، تو اس نے اندازہ لگالیا کہ ایک وار میں اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، لیکن اس نے اس طرح کشتی لڑی کہ خود اس پہلوان سے ہارگیا تاکہ چند لوگوں کی روزی روٹی بند نہ ہونے پائے ، اس کے علاوہ اس بُڑھیا کے دل کو بھی خوش کردے، اور خود بھی رحمت الٰہی کا مستحق ہوجائے۔

 آج بھی اس کا نام تاریخ پہلوانی میں ایک بلند انسان ، شجاع اور بخشش کرنے والے کے نام سے باقی ہے، اس کی قبر گیلان میں ہے، اور لوگ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لئے جاتے ہ(۶)

جن لوگوں نے ہوائے نفس اور ہوا و ہوس سے جنگ کی ہے اور بلند و بالا منصب اور ملکوتی درجات پرپہنچے ہیں، ان کا نام قرآن ،حدیث اور تاریخ میں بیان ہوا ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان سب کے حالات کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو واقعاًچند جلد کتاب ہوجائے ۔

ہوائے نفس اور حرام شہوت سے مقابلہ کے سلسلہ میں رسول اکرم ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام بہت سی احادیث بیان ہوئی ہیں، جن میں چند کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا وندعالم کا فرمان ہے:”وَعَزَّتِی وَجَلَالِی وَ عَظَمَتی وَبَھائِی وَعُلُوِّارْتِفاعِی،لَایُؤْثِرُ عَبْد مُؤْمِن ھَوایَ عَلیٰ ھَواہُ فِی شَیْئٍ مِنْ اَمْرِالدُّنْیا اِلاَّ جَعَلْتُ غِناہُ فِی نَفْسِہِ،وَھِمَّتَہُ فِی آخِرَتِہِ، وَضَمَّنْتُ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ رِزْقَہُ ، وَکُنْتُ لَہُ مِنْ وَرائِ تِجارَةِ کُلِّ تاجِرٍ”.(۷)

”مجھے اپنی عزت و جلال، بزرگی و حسن اور بلند و بالا مقام کی قسم کوئی بھی میرا بندہ اپنی خواہشات پر میری مرضی کو مقدم نہیں کرے گا مگر یہ میں اس کو بے نیاز بنادوں گا، اور اس کی ہمت و قصد کو آخرت کی طرف موڑ دوں گا، زمین و آسمان کو اس کی روزی کا کفیل بنادوں گا، اور خود میں اس کے لئے ہر تاجر کی تجارت سے بہتر منافع عطا کروں گا”۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: ”اِذاکاَنَ یَوْمَ القِیامَةِ تَقومُ عُنُق مِنَ النَّاسِ فَیَأْتُونَ بَابَ الْجَنَّةِ فَیَضْرِبُونَہُ،فَیُقالُ لَھُم:مَنْ اَنْتُم ؟فَیَقُولُونَ:نَحْنُ اَھْلُ الصَّبْرِ،فَیُقالُ لَھُمْ:عَلی مَاصَبَرْتُم ؟فَیَقُولُونَ :کُنّا نَصْبِرُ عَلَی طاعَةِ اللّٰہِ وَنَصْبِرُ عَنْ مَعاصِی اللّٰہِ، فیقول اللہ عَزَّوَجَلَّ:صَدَقُوا،اَدْخِلُوھُمُ الجَنَّةَ.(۸) وَھُوَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:(… ِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ َجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ).(۹)”جس وقت قیامت برپا ہوگی،کچھ لوگ اٹھیں گے اور جنت کے دروازہ کی طرف جانے لگیں گے، وہاں پہنچ کر دقّ الباب کریں گے،آواز آئے گی: تم کون لوگ ہو؟ تو وہ کہیں گے: اہل صبر، سوال ہوگا: تم لوگوں نے کس چیز پر صبر کیا: جواب دیں گے: ہم نے اطاعت خدا اور اس کی معصیت پر صبر کیا، اس وقت آواز قدرت آئے گی: یہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں، ان کو جنت میں داخل ہونے دو، اسی چیز کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”پس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کوبے حساب اجر دیا جاتا ہے”۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

”طُوبٰی لِمَنْ لَزِمَ بَیْتَہُ،وَاَکَلَ قوتَہُ،وَاشْتَغَلَ بِطاعَةِ رَبِّہِ،وَبَکیٰ عَلیٰ خَطِیئَتِہِ،فَکَانَ مِنْ نَفْسِہِ فی شُغُلٍ،وَالنّاسُ مِنْہ فِی رَاحَةٍ”.(۱۰)                  

”خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے گھر میں رہے، اور اپنی روزی روٹی کھاتا رہے، خدا کی اطاعت میں مشغول رہے، اپنے گناہوں پر گریہ کرتا رہے، اپنے ہی کاموں میں مشغول رہے اور دوسرے لوگوں کو پریشان نہ کرے”۔

یعقوب بن شعیب کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے س ا کہ آپ نے فرمایا:”مَانَقَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَبْداً مِنْ ذُلِّ الْمَعاصِی اِلیٰ عِزِّالتَّقْویٰ اِلاّ اَغْناہُ مِنْ غَیْرِ مالٍ،وَاَعَزَّہُ مِنْ غَیُرِ عَشِیرَةٍ،و١آنَسَہُ مِنْ غَیْرِ بَشَرٍ”.(۱۱)” خداوندعالم کسی بھی بندہ کو گناہوں کی ذلت سے تقویٰ کی عزت کی طرف نہیں پہونچاتا مگر یہ کہ اس کو بغیر مال و دولت کے بے نیاز بنادیتا ہے اور اس کو بغیر قوم و قبیلہ کے عزت دیتا ہے اور اس کو بغیر انسان کے انس       دیدیتا ہے”۔

پیغمبر اسلام ۖ فرماتے ہیں:”مَنْ ذَرَفَتْ عَیْناہُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ کَانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ قَطَرَتْ مِنْ دُموعِہِ قَصْر فِی الجَنَّةِ مُکَلَّل بِالدُّرِّ وَ الْجَوْھَرِ ،فیہِ مَا لَا عَیْن رَأَتْ،وَلَا اُذُن سَمِعَتْ ،وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ”.(۱۲)          

”جو شخص خوف خدا میںآنسو بہائے،اس کے ہر قطرہ کے عوض بہشت میں ہیرے جواہرات سے بنا ہوا ایک محل ملے گا، اس قصر میں ایسی چیزیں ہیں جس کو کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہو اورنہ ہی کسی دل میں اس کے متعلق خطور ہواہو”۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”کُلُّ عَیْنٍ باکِیَة یَوْمَ القِیامَةِ اِلاَّ ثَلاثَةً:عَیْن غُضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ،وَعَیْن سَھِرَتْ فِی طَاعَةِ اللّٰہِ ،وَعَیْن بَکَتْ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ”۔(۱۳)

”یوم قیامت ہر آنگھ گریہ کرے گی سوائے تین آنکھوں کے: جس آنکھ سے حرام خدا کو نہ دیکھا ہو، جو آنکھ اطاعت و عبادت خدا میں جاگی ہو، اور وہ آنکھ جو رات کے اندھیرے میں خوف خدا سے روئی ہو”۔

حضرت رسول اکرم ۖ نے فرمایا:”اِنَّ الصَّدَقَةَ تَزِیدُ صَاحِبَھا کَثْرَةً ،فَتَصَدَّقُوا یَرْحَمْکُمُ اللّٰہُ.وَاِنَّ التَّواضُعَ یَزِیدُ صاحِبَہُ رِفْعَةً،فَتَواضَعُوا یَرْفَعْکُمُ اللّٰہُ.وَاِنَّ العَفْوَ یَزِیدُ صَاحِبَہُ عِزّاً،فَاعْفُوا یُعِزَّکُمُ اللّٰہُ ”.(۱۴)

”بے شک صدقہ صاحب مال کے مال میں اضافہ کرتا ہے، پس راہ خدا میں صدقہ دیا کرو، خداوندعالم تم پر رحمت نازل کرے، تواضع و انکساری کرنے والے کی سربلندی میں اضافہ ہوتا ہے، پس تواضع و انکسار ی کرو، خداوندعالم تم کو سربلند و سرفراز فرمائے گا، عفو و بخشش کرنے والے کی عزت و سربلندی میں اضافہ ہوتا ہے، پس عفو و بخشش سے کام لو خداوندعالم تم کو عزت دیگا”۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:”اَلاٰ اِنَّہُ مَنْ یُنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ اِلاَّعِزًّا”.(۱۵)

”آگاہ ہوجائو کہ جو شخص دوسرے لوگوں سے انصاف کرے گا، خداوندعالم اس کی عزت و سربلندی میں اضافہ فرمادے گا”۔

حضرت رسول خدا ۖ فرماتے ہیں:”طُوبیٰ لِمَنْ طابَ خُلُقُہُ،وَطَھُرَتْ سَجِیَّتُہُ ،وَصَلُحَتْ سَریرَتُہُ،وَحَسُنَتْ عَلانِیَتُہُ،وَاَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مالِہِ،وَاَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِہِ ، وَاَنْصَفَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ”.(۱۶)

”خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا اخلاق اچھا ہو، جس کی طینت پاک ہو، جس کا باطن صالح اور نیک ہو، جس کا ظاہر نیک ہو، اپنے اضافی مال سےانفاق کرے، اور زیادہ گفتگو سے پرہیز کرے، اور لوگوں کے ساتھ انصافسے کام لے”۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں بیان شدہ احادیث میں مختلف مسائل کو ملاحظہ کیا جن کا خلاصہ یہ ہے:” آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا، عبادت خدا میں صبر و ضبط کرنا، ]یعنی عبادت کی مشکلات سے نہ گھبرانا[ گناہوں کے مقابلہ میں استقامت دکھانا، حلال رزق پر قناعت کرنا، اطاعت الٰہی میں مشغول رہنا، گناہوں پر آنسو بہانا، اپنے کاموں میں مشغول رہنا، لوگوں کو اذیت دینے سے پرہیز کرنا،تقویٰ الٰہی کی رعایت کرنا، رات کے سناٹے میں خوف خدا سے آنسوبہانا، نامحرم پر نظر کرنے سے پرہیز کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری کرنا، راہ خدا میں صدقہ دینا، تواضع و انکساری اور عفو و بخشش سے کام لینا، اپنی طرف سے تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا، اخلاق حسنہ رکھنا، پاک طبیعت رکھنا، شائستہ باطن رکھنا، پسندیدہ ظاہر رکھنا، اضافی مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا، زیادہ گفتگو سے پرہیز کرنا”۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان تمام چیزوں کو عملی جامہ پہنانا ،خواہشات نفسانی سے جنگ کئے بغیر ممکن نہیں ہے، جو شخص شیطانی چالوں سے دنیاوی اور مادی امور ،ہوائے نفس اور بے لگام شہوت کے ساتھ مقابلہ کرے تو واقعاً اس نے جہاد اکبر کیا ہے اوراسے اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا، وہ فائدہ جس کا وعدہ خداوندعالم نے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام سے کیا ہے۔

فرصت کو غنیمت جاننا چاہئے

فرصت کو غنیمت جاننا چاہئیے بالخصوص اپنے پاس موجود فرصت کی قدر کرنا چاہئے ، عمر کی فرصت کے بارے میں؛ خدا کا حکم، انبیاء و ائمہ علیہم السلام اور اولیاء الٰہی کی وصیت ہے، کیونکہ انسان اسی عمر کی فرصت میں اپنے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرسکتا ہے، برائیوں کی جگہ اچھائیوں کو قرار دے سکتا ہے، اور ظلمت و تاریکی کی جگہ نور و روشنی کو قرار دے سکتا ہے۔

اگر فرصت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے،اور کوئی اچھا کام انجام نہ دیا جائے، اور موت کا پیغام پہنچ جائے، اور عمر کا چراغ اس موقع پر گل ہونے لگے کہ انسان توبہ کی فرصت نہ پاسکے، تو اس موقع پر شرمندگی اور پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔

جس وقت طلحہ جنگ جمل میں مروان بن حکم کے تیر سے زمین پر گرا، اور اس دنیا سے چلنے لگا تو کہتا ہے: میری بدبختی ہے کہ بزرگان قریش ]حضرت علی علیہ السلام[ کی بزرگی کو نہیں دیکھ سکا،لیکن طلحہ کو یہ احساس اس وقت ہوا جب فرصت ہاتھ نکل چکی تھی، اور اس کی زندگی کا دیا گُل ہونے والا تھا، طلحہ وہ پہلا شخص تھا جس نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے چونکہ اس کی ناجائز پیش کش کو قبول نہیں کیا تھا نیز اُدھر معاویہ نے اس کو بھڑکایا اور اس پر اثر ہوگیا، لہٰذا اس نے حضرت امیر کی بیعت توڑ ڈالی، اور اپنی دنیا و آخرت کو تاریک کرڈالا۔

جناب نوح اور جناب لوط علیہم السلام کی ازواج نے اپنے شوہروں کی مسلسل مخالفت کی، اور آخری لمحات اور فرصت کے ختم ہونے تک انھوں نے مخالفت جاری رکھی یہاں تک کہ دونوں پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور اس دنیا سے چلی گئیں۔

جناب آسیہ زوجہ فرعون نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور خدا کی رضا کو اپنے شوہر کی رضا پر مقدم رکھا،جس کی بنا پر اسے خوشنودی خدا اور ہمیشہ کے لئے بہشت مل گئی۔

جناب خدیجہ نے فرصت کو غنیمت سمجھا، اور پیغمبر اکرم ۖ کے راستہ میں قربانی دی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی، ان کی قوم نے پیغمبر اسلام ۖ سے شادی کرنے کی وجہ سے قطع تعلق کرلیا، لیکن جناب خدیجہ نے خدا سے رابطہ مستحکم کرلیا، اور اس طرح سے فوز عظیم پرفائز ہوگئیں۔حر ّ بن یزید ریاحی نے باقی بچی تھوڑی سی فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اس غنیمت کے خزانہ سے ہمیشہ کے لئے عظیم الشان منفعت حاصل کرلی۔

جی ہاں! جس شخص نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اگرچہ تھوڑی سی فرصت کیوں نہ ہو، نور الٰہی اس کے دل میں چمک اٹھتا ہے اور اس کی نصرت و مدد کرتا ہے۔اس موقع پر کہا جانا چاہئے : وہ نور ہدایت جس نے عابد و زاہد کے دل میں راہ خدا کو واضح کیااس نے تمام طاقتوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا،چنانچہ اس کے کان کو نغمہ الٰہی اور سخن حق کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی، جس کا ذائقہ کسی بھی حرام چیز کو چکھنے کے لئے تیار نہیں ہے، آنکھیں نامحرم کے بدن کی طرف اٹھنے سے رک گئیں،درحقیقت ایک عالم عارف کی نگاہ ایک معمولی آنکھ سے کہیں زیادہ دیکھتی ہے، کیونکہ اس کو اندر سے نور ہدایت طاقت پہنچاتا رہتا ہے، او راسی نور کے ذریعہ پہلے وہ خالق کائنات کی مخلوق کے جلال و جلووں کو دیکھتا ہے، اور اس کے بعد اپنی ظاہری آنکھوں سے اس دنیا کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔

راہ خدا پر چلنے والا دوسروں کی طرح نہیںدیکھتا، کہ جہاںدوسرے لوگ زندگی کو لذت حاصل کرنے اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے دیکھتے ہیں، اور آخر کار پشیمان ہوکر فریاد کرنے لگتے ہیں: ہائے کوئی چیز کام آنے والی باقی نہ رہی اور اب اپنے یا دوسروںکی کوئی امید نہیں ہے۔

جس شخص کو نور ہدایت حاصل ہوجاتا ہے اس کی زندگی کے اغراض و مقاصد بلند وبالا ہوتے ہیں،اور وہ صرف ظاہری زندگی کی شناخت پر قناعت نہیں کرتا بلکہ زندگی کے اسرار و رموز کی گہرائی میں جاتا ہے اور اس حاصل شدہ بصیرت سے اپنی زندگی کے لمحات گزارتا ہے۔یہی وہ بصیرت ہے جس سے انسان ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی یاد خدا سے غافل نہیں ہوتا۔اگر انسان کو عالم ہستی کی اہمیت معلوم ہوجائے تو کیا وہ ایک لمحہ کے لئے غفلت کی زندگی بسر کرسکتا ہے؟ غفلت کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی غفلت کی مقدار بھر اپنے وجود میں کمی اور نقصان کا تصور کرے۔(۱۷)

(حوالہ جات)

(۱)سورۂ حج ،آیت٢٧.

(۲)سورۂ یوسف،آیت ٧٠.

(۳)سفینة البحار ج٤، ٣٥٢ باب السین بعدہ الیائ.

(۴)امالی صدوق :ص٣٤٠،ا؛المجلس الرابع والخمسون ،حدیث ٢٦؛بحارالانوار،ج٦٧،ص٣٧٨،باب ٥٩،حدیث٢٣.

(۵)قصص راوندی ص ٨٣، حدیث ٢٢٢؛ بحار الانوار ،ج ٦٧، ص ٣٨٧، باب ٥٩، حدیث ٥٢.

(۶)جامع النورین ص ٢٣٤.

(۷)کافی،ج٢،ص١٣٧،حدیث٢؛وسائل الشیعہ:ج١٥،ص٢٧٩،باب٣٢،حدیث٢٠٥١٠؛بحارالانوار :ج٦٧، ص٨٢، باب ٤٦، حدیث١٦.

(۸)کافی ج٢،ص٧٥،باب الطاعة والتقوی ،حدیث ٤؛بحارالانوار ،ج٦٧،ص١٠١،باب ٤٧،حدیث٥.

(۹)سورۂ زمر،آیت١٠ .

(۱۰)نہج البلاغہ :٤٠٣،خطبہ ١٧٥؛بحارالانوار ،ج٦٧،ص١١١،باب ٤٩حدیث١٣.

(۱۱)کافی ج،٢،ص٧٦،باب الطاعة والتقوی ،حدیث ٨؛وسائل الشیعہ :ج١٥،ص٢٤١،باب ٢٠،حدیث٢٠٣٨٥.

(۱۲)امالی صدوق :٤٣١،مجلس ٦٦،حدیث ١؛مجموعہ ٔ ورام ج، ٢ص ٢٦٣؛وسائل الشیعہ ج١٥،ص٢٢٣،باب ١٥،حدیث ٢٠٣٣٣.                     

(۱۳)کافی ،ج٢،ص٤٨٢،باب البکائ،حدیث٤؛عوالی اللئالی:ج٤ص٢١،حدیث٥٩؛وسائل الشیعہ:ج١٥،ص٢٢٨،باب ١٥،حدیث٢٠٣٤٦.

(۱۴)کافی ،ج٢،ص١٢١،باب التواضع ،حدیث١؛بحارالانوار ج٧٢،ص١٢٤،باب ٥١،حدیث٢٣.

(۱۵)کافی ج٢،ص١٤٤،باب الانصاف والعدل ،حدیث ٤؛وسائل الشیعہ ،ج١٥،ص٢٨٣،باب ٣٤،حدیث٢٠٥٢٥.

(۱۶)کافی ،ج٢،ص ١٤٤،باب الانصاف والعدل ،حدیث ١؛وسائل الشیعہ ج١٥،ص٢٨٤،باب ٣٤،حدیث ٢٨ ٢٠٥؛ بحارالانوار ج ٧٢،ص٢٩،باب ٣٥،حدیث٢٢.

(۱۷)شرح نہج البلاغہ، علامہ جعفری، ج١٤ص٩٤.

 

تبصرے
Loading...