اسلام کے پہلے مہاجرین

بہت سے مفسرین نے منجملہ طبرسیۺ نے ”مجمع البیان“ میں اور فخر الدین رازی اور ”المنار“ کے موٴلف نے اپنی اپنی تفسیروں میں اپنے سے پہلے مفسرین کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیات پیغمبر اکرم کے زمانے کے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نال ہوئی ہیں، نیز جو حدیث تفسیر ”برہان“ میں نقل ہوئی ہے اس میں بھی یہی بات شرح وبسط سے بیان کی گئی ہے ۔

اس سلسلے میں اسلامی روایات وتواریخ اور مفسرین کے اقوال سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ اس طرح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ہی کم تعداد میں تھے ۔ قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کر رکھی تھی کہ ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم پر ایمان لاچکے ہیں انتہائی سخت دباؤ ڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ہر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتہائی سختی اور دباؤ میں مبتلا تھا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد جہادِ آزادی شروع شروع کرنے کے لئے کافی نہیں تھی، پیغمبر اکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باہر قیام گاہ مہیّا کرنے کے لئے انھیں ہجرت کا کا حکم دے دیا اور اس مقصد کے لئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کہا کہ وہاں ایک نیک دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ تم وہاں چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ خداوندتعالیٰ کوئی مناسب موقع ہمیں عطا فرمائے ۔

پیغمبر اکرم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاہوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر کا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ہے)مسلمانوں میں سے گیارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار ہوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ ہوگئے، یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ہے ۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھس مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲ مردوں کے علاوہ کافی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی تھے ۔

اس ہجرت کی بنیاد بت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ وہ اچھی طرح سے دیکھ رہے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام قبول کرچکے ہیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ہیں، مسلمانوں کی طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے ۔ یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انھوں نے کام کرنا شروع کردیا ، اس مقصد کے لئے انھوں نے جوانوں میں سے دو ہوشیار، فعّال، حیلہ ساز اور عیّار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا، بہت سے ہدیے دے کر اُن کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ۔ ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے، لیکن آخر کار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل ہوگئے، ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے، دربار میں باریاب ہونے سے پہلے انھوں نے نجاشی کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کر اُن کو اپنا موافق بنالیا تھا اور اُن سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔

عمروعاص نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ہمکلام ہوا:

”ہم سرداران مکہ کے بھیجے ہوئے ہیں، ہمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا اور وہ اپنے بزرگوں کے دین سے پھر گئے ہیں اور ہمارے خداؤں کو بُرا بھلا کہتے ہیں، انھوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ہے، لوگوں میں نفاق کا بیج بودیا ہے؛ آپ کی سرزمین کی آزادی سے انھوں نے غلط اُٹھایا ہے اور انھوں نے یہاں آکر پناہ لی ہے، ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ یہاں بھی خلل اندازی نہ کریں، بہتر یہ ہے کہ آپ انھیں ہمارے سُپرد کردیں تاکہ ہم انھیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔

یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدیے جو اپنے ساتھ لائے تھے پیش کئے ۔

نجاشی نے کہا: جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذہبی بحث ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مذہبی نمائندوں ہی کو ایک جلسہ میں تمھاری موجودگی میں دعوت دی جائے ۔

دوسرے دن ایک اہم جلسہ منعقد ہوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی، جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر تھے، نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور اُن سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر بیان کریں ۔

جناب جعفر ادائے احترام کے بعد اس طرح گویا ہوئے: پہلے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم ان کے بھاگے ہوئے غلاموں میں سے ہیں؟

عمرو نے کہا: نہیں بلکہ آپ آزاد ہیں ۔

جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ہمارے ذمّے ہے کہ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں؟

عمرو: نہیں ہمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔

جعفر: کیا ہم نے تمھارا کوئی خون بہایا ہے کہ جس کا ہم سے بدلہ لینا چاہتے ہو؟

عمرو: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔

جعفر: تو پھر تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ تم نے ہم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ہم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باہر نکل آئے ہیں ۔

اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کہا :ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے، مردار کا گوشت کھاتے تھے، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، اپنے ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور ہمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔

لیکن خداوند تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک پیغمبر کو مبعوث فرمایا، جس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خدا کا کوئی مثل اور شریک زبنائیں اور فحشاء و منکر، ظلم و ستم اور قمار بازی ترک کردیں ۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز پرھیں، زکوٰة ادا کریں، عدل و احسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔ 

نجاشی نے کہا: عیسیٰ مسیح بھی انہی چیزوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۔ اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمہارے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں کچھ تمھیں یاد ہیں ۔ 

جعفر نے کہا: جی ہاں:

اور پھر انھوں نے سورئہ مریم کی تلاوت شروع کردی ۔ اس سورہ کی ایسی ہلا دینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح اور اُن کی ماں کو ہر قسم کی ناروا تہمتوں سے پاک قرار دیتی ہیں، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب و غریب اثر کیا یہاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاسی نے پکار کر کہا: خدا کی قسم! ان آیات میں حقیقت کی نشانیان نمایاں ہیں ۔ 

جب عمرونے چاہا کہ اب یہاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سُپرد کرنے کی در خواست کرے، نجاشی نے ہاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کہا: خاموش رہو، خدا کی قسم! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجھے سزادوں گا ۔ یہ کہہ کر مامورینِ حکومت کی طرف رُخ کیا اور پکار کر کہا: ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انھیں حبشہ کی سرزمین سے باہر نکال دو۔ جناب جعفر اور اُن کے ساتھیوں سے کہا: تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو۔ 

اِس واقعہ نے جہاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گہرا تبلیغی اثر کیا وہاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمار کریں اور نئے مسلمان ہونے والوں کو اُس دن کے انتظار میں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں وہاں پر بھیجتے رہیں ۔ 

کئی سال گزرگئے ۔ پیغمبر بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا، عہد نامہٴ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبر کی طرف متوجہ ہوئے ۔ 

اس وقت جبکہ مسلمان یہودیوں کے سب سے بڑے اور خطرناک مرکز کے ٹوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نہیں سماتے تھے، دور سے انھوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ معلوم ہوا کہ یہ وہی مہاجرین حبشہ ہیں، جو آخوش وطن میں پلٹ کر آرہے ہیں، جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتین دم توڑچکی ہیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیں کافی پھیلا چکا ہے ۔ 

پیغمبر اکرم نے جناب جعفر اور مہاجرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: 

”لا ادری انا بفتح خبیر اسرام بقدوم جعفر؟“

”میں نہیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح ہونے کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے پلٹ آنے کی“

کہتے ہیں کہمسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راہب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا ہوگیا تھا، پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھو ںنے سورہٴ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح کی سچّی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ہیں ۔

اُ س روایت کے مطابق جو تفسیر ”المنار“ میں سعید ابن جبیر سے منقول ہے نجاشی نے اپنے یاور وانصار میں سے تیس بہترین افراد کو پیغمبر اکرم اور دین اسلام کے ساتھ اظہارِ عقیدت کے لئے مدینہ بھیجا اور یہ وہی تھے جو سورہٴ یٰسین کی آیات سُن کر رو پڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور ان مومنین کی عزت افزائی کی گئی ۔ (یہ شان نزول اس بات کے خلاف نہیں کہ سورئہ مائدہ پیغمبر اکرم کی عمر کے اواخر میں نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ یہ بات اس سورہ کی اکثر آیات کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اُن میں سے کچھ آیات قبل کے واقعات کے شلشلے میں نازل ہوئی ہوں اور پیغمبر کی ہدایت کے مطابق اس سورہ میں بہت سی مناسبات کی وجہ سے شامل کردی گئی ہوں)۔

تبصرے
Loading...