اسلام کا ایک عظیم امتیاز

ہم جانتے ہیں کہ آج کل کی مسیحیت میں مذہبی راہنماؤں کا دائرہ اختیار مضحکہ انگیزحد تک پاچکا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے لئے گناہ بخش دینے کے حق کے قائل ہیں اور اسی بنا پر اگر وہ چاہیں کسی شخص کو معمولی سی بات پر دھتکار دیں اور کافر قرار سے دیں اور چاہیں تو کسی کو قبول کرلیں ۔

قرآن مجید زیر نظر آیت میں اور دیگر آیات میں راحت کے ساتھ یاددہانی کراتا ہے کہ نہ صرف مذہبی علماء بلکہ پیغمبر کی ذات تک بھی اظہار ایمان کرنے والے کو دھتکار نے اور دور کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے، جب کہ انھوں نے کوئی ایسا کام بھی انجام نہیں دیا کہ جو ان کے اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنے، گناہوں کی بخشش اور بندوں کا حساب وکتاب صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے سوا کوئی بھی اس کام میں دخل دینے کا حق نہیں رکھتا ۔

لیکن کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، آیت میں موضوع بحث ”طردمذہبی“ہے نہ کہ ”طرد حقوقی“ اس معنی میںکہ اگر مثلا ایک مدرسہ خاص قسم کے طالب علموں کے لئے وقف ہو اور کوئی شخص ابتدا سے ان شرائط کا حامل ہو اور بعد ان میں یہ شرائط باقی نہ رہے تو اسے اس مدرسہ سے نکالنا کوئی منع نہیں رکھتا اور اسی طرح اگر مدرسہ کا متولی مدرسہ کی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کچھ اختیارات رکھتا ہو تو اس مدرسے کے نظام اور اس کی حیثیت وموقعیت کی حفاظت کی لئے ان جائز اختیارات سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے( اس بنا پر وہ مطالب جو تفسیر المنار میں اس آیہ کے ذیل میں اس مطالب کے برخلاف نظر آتے ہیں وہ ”طرد مذہبی“کے ”طرد حقوقی“ سے اشتباہ سے پیدا ہوئے ہیں ) ۔

بعد والی آیت میں بے ایمان دولت مند افراد کو تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ واقعات ان کے لئے آزمائش ہیں اور اگر وہ ان آزمائشوں کی بھٹی سے صحیح طریقے سے باہر نہ نکل سکے تو وہ دردناک عواقب وانجام کے متحمل ہوں گے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس طرح سے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض کے ذریعے آزمایا (وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْض)یہاں ”فتنتہ“ آزمائش کے معنی میں ہے(1) ۔

اس سے سخت آزمائش اور کیا ہوگی کہ وہ اشراف اور دولت مندکہ جنھوں نے سالہا سال سے یہ عادت بنائی ہوئی ہے کہ اپنے تمام معاملات کو نچلے طبقے کے لوگوں سے بالکل الگ رکھیں ، نہ ان کی خوشی میں شریک ہوں اور نہ ہی ان کے رنج وغم میں ، یہاں تک کہ ان کی قبریں بھی ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوں ، وہ یکا یک ان تمام آداب ورسوم توڑ ڈالیں اور ان کی عظیم زنجیروں کو اپنے ہاتھ پاؤں سے نکال پھینکےں اور ایسے دین کو اپنالیں کہ جس کی طرف سبقت کرنے والے لوگ اصطلاح کے مطابق نچلے درجے اور طبقہ فقراء کے آدمی شمار ہوتے ہیں ۔

پھر مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ان تونگروں کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ سچے مومنین کی طرف حقارت کی نگاہ ڈال کر کہتے ہیں : کیا یہی لوگ ہیں جنھیں خدا نے ہمارے درمیاں سے چن لیا ہے اور انھیں نعمت ایمان واسلام کے ساتھ نوازا ہے، کیا یہ اس قسم کی باتوں کی قابلیت رکھتے ہیں

 

( لِیَقُولُوا اٴَھَؤُلاَءِ مَنَّ اللَّہُ عَلَیْھِمْ مِنْ بَیْنِنَا )(2)

بعد میں ان کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ صاحبان ایمان ایسے افراد ہیں کہ انھوں نے عمل وتشخیص کی نعمت کا شکر ادا کیا ہے اور اس کو روبہ عمل لائے ہیں، اسی طرح انھوں نے پیغمبر کی دعوت کی نعمت کا شکرادا کیا ہے اور ان کی دعوت کو قبول کیا ہے، اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی اور اس سے بڑھ کر شکر اور کیا ہوگا، اسی بنا پر خدانے ایمان کو ان کے دلوں میں راسخ کردیا ہے، کیا خدا شکر گزاروں کو بہتر نہیں پہچانتا(اٴَلَیْسَ اللَّہُ بِاٴَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ) ۔

۵۴وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوئًا بِجَھَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔

۵۵ وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ۔

ترجمہ

۵۴۔ جب وہ لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے ہیں تمھارے پاس آئیں تو ان سے کہو، تم پر سلام ہو تمھارے پرور دگار نے اپنے اوپر رحمت فرض کرلی ہے، تم میں سے جو آدمی نادانی سے کوئی برا کام کرلے اس کے بعد توبہ اور اصلاح (وتلافی) کرلے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

۵۵۔اور ہم اس طرح سے آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (اور واضح کرتے ہیں) تاکہ گناہگاروں کا راستہ آشکار ہوجائے ۔

1۔مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کہ جلد ۲، سورہٴ بقرہ کی آیہ ۱۹۱ (صفحہ ۲۶ اردو ترجمہ ) اور آیہ ۱۹۳ (صفحہ ۲۹ اردو ترجمہ) کی طرف روجوع کریں ۔

2۔ سورہٴ آل عمران آیہ ۱۶۴ کے ذیل میں اشارہ ہوچکا ہے کہ ”منة“ اصل میں نعمت بخشنے کے معنی میں ہے مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۳(صفحہ ۱۲۲ اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔

تبصرے
Loading...