اسلام و عیسائیت

ایک عیسائی حاکم، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قدر شناسی

ایک روایت میں آیا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی جانب سے ایک وفد رسول اللہ کی خدمت میں مدینہ پہنچا تاکہ پیغام پہنچائے۔ جیسا کہ حکومتوں کے درمیان یہ چیز (آج بھی) رائج ہے۔ نجاشی، ملک حبشہ کا بادشاہ تھا اور اس وقت دنیا کے دیگر امراء اور سلاطین کی مانند عیسائی مذہب کا ماننے والا تھا۔ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو وفد میں شامل لوگوں نے دیکھا کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے اور بنفس نفیس وفد کی آؤ بھگت میں مصروف ہو گئے۔ اصحاب نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم موجود ہیں، آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ یہ کام ہم کریں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، جب مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو وہاں کے بادشاہ نے ان مسلمانوں کا بہت زیادہ احترام کیا تھا، میں یہ قرض چکانا چاہتا ہوں، یہ قدر شناسی ہے۔

اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ عبادتیں

“کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم” ہمیں معلوم ہے کہ نماز و زکات امت مسلمہ سے مختص نہیں ہے بلکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل بھی پیغمبروں نے نماز و زکات کو اپنی تعلیمات میں سر فہرست رکھا۔ ” اوصانی بالصلاۃ و الزکاۃ ما دمت حیا” یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا قول نقل کیا گيا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے مجھےنماز اور زکات کی وصیت (ہدایت) کی ہے۔ قرآن کی دوسری آيتوں میں بھی یہ چیز ملتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: روزہ بھی نماز و زکات کی مانند ان احکام میں شامل ہے جو امت اسلامیہ سے مختص نہیں ہیں بلکہ سابقہ امتوں اور پیغمبروں کو بھی اس کا حکم دیا گيا تھا۔

حضرت عیسی مسیح کے حکمت آمیز بیان

اہل بیت علیھم السلام سے منقول روایات میں سے کچھ ایسی ہیں جن میں حضرت عیسی مسیح کے اقوال کا بھی تذکرہ ہے۔ روایات کا یہ حصہ احادیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے اور یہ مسلمانوں کی انتہائی اہم روایات شمار ہوتی ہیں۔ یہ اقوال بے حد حکیمانہ ہیں۔ عیسائيوں کا بھی یہ دعوی نہیں ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے اقوال صرف وہی ہیں جو انجیل میں موجود ہیں۔ اس وقت دستیاب انجیلوں کے علاوہ بھی انجیلیں تھیں اور بہت ممکن ہے کہ اسلامی روایتوں میں جو اقوال مذکور ہیں ضائع ہو جانے والی انجیلوں میں موجود رہے ہوں۔ بہرحال جو اقوال ائمہ اسلام کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں عیسائيوں کو چاہئے کہ اسے معتبر سمجھیں، انہیں حاصل کریں اور ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ عمل مختلف ادیان کے ماننے والوں کی ایک دوسرے سے قربت کا باعث بنے۔ مسلمان حضرت عیسی مسیح کے پیغام کے ایک حصے کا تحفہ پوری انسانیت کو پیش کر سکتے ہیں۔ اسلامی روایتوں میں حضرت عیسی مسیح کے جو اقوال منقول ہیں وہ انتہائی حکیمانہ اور اعلی مضامین کے حامل ہیں۔ میں نے ماضی میں انجیلوں کا بہت مطالعہ کیا ہے۔ انہیں دستیاب انجیلوں -عیسائيوں کی چار انجیلوں- میں بڑی حکمت آمیز باتیں موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مسلمان موجودہ انجیلوں کے مجموعے کو قبول نہیں کرتے لیکن حکمت آمیز باتیں تو انسان تسلیم کرتا ہی ہے۔

اسلام اور عیسائيت کے اشتراکات

نوجوانوں کو مذہب کے قریب لانے اور معاشرے میں اس کی ترویج کی فکر بالکل صحیح فکر ہے۔ دین ایک الہی عطیہ ہے جو معاشرہ بھی اپنے افراد کا رشتہ اس عطیئے سے مضبوط و مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے نیکیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ البتہ نوجوانوں سے پیش آنے کا مرحلہ بڑا نازک ہوتا ہے تاہم اس کا نتیجہ بہت اچھا نکلتا ہے۔

 اسلام و عیسائیت اور تمام الہی ادیان کے درمیان بہت سے اشتراکات پائے جاتے ہیں۔ دو فریقی یا چند فریقی کانفرنسوں میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے ما بین جو گفتگو ہوتی اس کے ذریعے ان اشتراکات کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔ ان گفتگوؤں کا ہدف کسی ایک مذہب کی حقانیت اور دوسرے مذہب کے بطلان کا اثبات نہیں ہے۔ مقصد اشتراکات تلاش کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اشتراکات زندگی کے انتہائی اہم ترین امور پر مشتمل ہیں۔

آزادی کے سلسلے میں اسلام و عیسائیت کا مشترکہ نظریہ

انسان کی آزادی و حریت کا مسئلہ ہمیشہ سے بشریت کی فکرمندی کا موجب رہا ہے۔ یہ آزادی کیا ہے اور اس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ اس ضمن میں مذاہب نے بڑی اہم باتیں بیان کی ہیں۔ اس وقت جو موضوعات اسلام اور عیسائيت دونوں کے لئے مورد التفات و اعتناء قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک یہی موضوع ہے۔ آج ہم اس سلسلے میں اعتدال کے فقدان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ حصوں میں مطلق العنان حکومتوں اور مرئی و نا مرئی نفوذ و دباؤ کے باعث عوام کی آزادی چھن جاتی ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں انسانوں کو بے تحاشا آزادی دے دی جاتی ہے جسے آزادی نہیں بلکہ بے لگام زندگی کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ادیان کی نظر میں ان دونوں ہی چیزوں کو انحراف قرار دیا گيا ہے۔

 اسلام اور عیسائیت دونوں ہی مذاہب نے ان دونوں چیزوں کے بارے میں تقریبا یکساں رخ اختیار کیا ہے۔ موجودہ دور میں جن لوگوں کو نوجوان نسل اور انسانیت کے مستقبل و تقدیر سے دلچسپی ہے ان کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ دنیا میں روز افزوں فساد و بد عنوانی اور بے راہروی کا مقابلہ کریں۔ بالخصوص عیسائی نظام کا، جو یورپ میں موجود ہے، اس سلسلے میں بڑا سنگین فریضہ ہے۔ کچھ ہاتھوں نے بڑی تشویشناک صورت میں انحراف و فساد کی ترویج کر دی ہے۔ بہت مناسب ہوگا کہ کلیسا بالخصوص کیتھولک کلیسا اپنے وسیع دائرے اور نفوذ کا استعمال کرتے ہوئے اس مشکل کا جو نئی نہیں ہے سنجیدگی کے ساتھ منطقی طریقوں سے حل نکالے۔ اگر یورپ میں عیسائی مذہبی نظام، فساد و گمراہی کا سنجیدگی سے مقابلہ کرے تو بہت سے غیر یورپی ممالک کے لوگ بھی آپ کے ممنون کرم اور احسانمند ہوں گے کیونکہ فساد و گمراہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلتی جا رہی ہے۔

انصاف اور مظلوموں کی حمایت کے علمبردار

اگر انصاف اور مظلوموں کے دفاع کے لئے مذہب میدان میں آ جائے تو بڑی اچھی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ دنیا میں ہر جگہ نوجوان انصاف پسندی کی تحریک دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ انصاف کا تعلق ادیان سے ہے۔ انسانیت کی دنیا میں انصاف کی راہ کی عظیم ہستیاں وہی دینی ہستیاں تھیں۔ حضرت عیسی مسیح نے اپنی پوری زندگی انصاف کی ترویج میں صرف کر دی۔ پیغمبر اسلامی نے عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی جد و جہد میں گذاری۔ عیسائیت کی برگزیدہ شخصیتوں نے صدر عیسائيت میں کیسی فداکاری و جاں نثاری کی؟! قرآن ہو، انجیل ہو یا توریت سبھی دینی کتابیں انصاف پسندی اور اس کے لئے جد و جہد کی ترغیب سے بھری پڑی ہیں۔ آج اگر یہی موضوعات دینی علما خواہ وہ عیسائی علما ہوں یا مسلمان علما، ان کا نعرہ بن جائیں تو یقینا ان میں کشش پیدا ہوگی۔ یہودی بھی جو توریت کے پابند ہیں عدل و انصاف پر زور دیں البتہ میں صیہونیوں کو نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ کسی چیز کے پابند نہیں ہیں۔

اللہ تعالی سے رابطہ انسانی زندگی کی ضرورت

انسان اللہ تعالی سے رابطے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کا ثبوت اشتراکی معاشرے ہیں۔ جب سابق سوویت یونین میں ملحد مارکسسٹ نظام کی طاقت کا زوال ہوا لوگ کلیساؤں کی جانب دوڑ پڑے۔ (ارباب کمیونزم) یہ سمجھ رہے تھے کہ ستر سالہ تبلیغ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر عوام کے اوپر سے جبر و اکراہ ہٹا لیا جائے گا تب بھی وہ کلیسا کا رخ نہیں کریں گے، یہی ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ ستر سال گزر جانے کے بعد (جیسے ہی دباؤ ہٹا) عوام کلیساؤں کی جانب ٹوٹ پڑے۔ آج اگر آپ روس یا مشرقی یورپ کے ممالک میں جائیے تو کلیساؤں میں بڑی بھیڑ دیکھیں گے۔ پولینڈ کے عوام کا مارکسسٹوں کے خلاف قیام بنیادی طور پر ایک دینی و عیسائی قیام تھا۔

روحانیت و معنویت الہی ادیان کا نقطہ اشتراک

ادیان الہی میں آپس میں بہت سی چيزوں میں فرق ہے لیکن ان میں اشتراکات بھی موجود ہیں۔ ادیان کا ایک اہم ترین نقطہ اشتراک روحانیت و معنویت پر توجہ ہے۔ وہ حقیقت جو ادیان کی جانب سے انسانوں کے لئے ہمیشہ پہلا پیغام رہی ہے۔ ادیان نے انسانوں کو بتایا کہ جو کچھ ان کی آنکھیں دیکھتی ہیں، کان سنتے ہیں اور جسم محسوس کرتا ہے، انہی چیزوں تک محدود نہ رہیں۔ ادیان نے انہیں متوجہ کیا کہ ایک ایسی بھی حقیقت ہے جو ان کے محسوسات و مسموعات اور مشاہدات سے بہت عظیم اور بالاتر ہے۔

آج دنیا میں معنویت و روحانیت کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن دنیا کا جو عام ماحول ہے وہ دوسری سمت میں جا رہا ہے۔ جو لوگ دین کے ماننے والے ہیں اگر وہ اس غفلت و گمراہی کو دور کرنے میں تھوڑی بہت بھی کامیابی حاصل کریں تو یہ بہت عظیم خدمت ہوگی۔ یہ اسلام اور عیسائیت کا نقطہ اشتراک ہے۔ مختلف ادیان کے علما سے گفتگو اس نقطے پر زیادہ مرکوز ہوتی ہے۔

سچے مذاہب نے کبھی بھی یہ نہیں کیا کہ انسانوں کو دنیوی کاموں سے بالکل الگ کر دیں ہاں انہیں یہ ضرور سمجھایا کہ یہ (دنیوی) کوششیں ایک اعلی روحانی مقام و منزلت تک رسائی کا وسیلہ بن سکتی ہیں اس طرح انہیں ایک حقیقت تابندہ کی جانب متوجہ کیا۔ اس حقیقت سے انسانوں کی غفلت ان کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ یہ ایسا خسارہ ہوگا جس کا کسی بھی دوسرے خسارے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج بشر بڑی شدت سے اس غفلت کا شکار ہے۔ مادی دنیا کی وسیع سرگرمیوں نے انسان کو پوری طرح غفلت میں ڈال دیا ہے۔

اسلام و عیسائیت کے ما بین ٹکراؤ

اسلام و عیسائیت کے ما بین ٹکراؤ ہے اور نہ پیش آئے گا۔ اگر اسلام اور عیسائیت کے ٹکراؤ سے مراد ان حکومتوں کا ٹکراؤ ہے جن میں عیسائی اور مسلمان ہیں تو کہنا پڑے گا کہ یہ ٹکراؤ دو عیسائی حکومتوں کے ٹکراؤ سے بڑا نہیں ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ دنیا میں جنگ پسندی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ان ستر برسوں میں خود عیسائي دنیا میں دو بار جنگیں ہوئیں جس کی لپیٹ میں مسلمان بھی آئے۔

 ایران کا اسلامی نظام اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ یہ اتحاد عیسائیوں کے خلاف ہے نہ دیگر ادیان اور اقوام کے خلاف بلکہ جارحوں، قابضوں اور جنگ پسندوں کے مقابلے کے لئے، اخلاقیات و روحانیت کی ترویج کے لئے، عقل و منطق اور اسلامی عدل و انصاف کے احیاء کے لئے، علمی و اقتصادی ترقی کے لئے اور اسلامی وقار کی بازیابی کے لئے ہے۔ ایران کا اسلامی نظام دنیا والوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں جب بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا عیسائی و یہودی چین و سکون کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن اب جب بیت المقدس اور دیگر مراکز صیہونیوں یا صلیبی صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہیں تو مسلمانوں کا خون بہانا کیونکر جائز ہو گیا ہے؟!

رحمت و عطوفت کا دین

اسلام دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام تو وہ دین ہے جو غیر مسلم علاقوں میں پہنچا تو دیگر ادیان کے پیروکاروں نے اسلامی رحمدلی کے قصیدے پڑھے اور برجستہ کہا کہ آپ (مسلمان حکام) تے ہمارے سابق حکام سے زیادہ ہمدرد اور مہربان ہیں۔ اسی “شامات” کے علاقے میں جب اسلامی فاتح پہنچے تو خطے کے یہودیوں اور عیسائیوں نے اعتراف کیا کہ آپ مسلمانوں نے ہم سے ہمدردی کا برتاؤ کیا۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ رحمدلی کا برتاؤ کیا۔ اسلام رحمدلی و عطوفت کا مذہب ہے، دین رحمت ہے، رحمۃ للعالمین ہے۔ اسلام عیسائیوں سے بھی کہتا ہے: ” تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم” ان کے ساتھ اپنے اشتراکات پر توجہ دیتا ہے۔ اسلام دیگر قوموں کے خلاف نہیں ہے، دیگر مذاہب کا مخالف نہیں ہے۔ جبر پسندی اور ظلم و استبداد کا مخالف ہے۔ سامراج کا مخالف ہے، تسلط پسندی کا مخالف ہے۔ تسلط پسند، ظالم اور سامراجی طاقتیں اس حقیقت کو دنیا میں برعکس شکل میں پیش کرتی ہیں۔ وہ تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں۔ ہالیوڈ سے لیکر ابلاغیاتی وسائل، اسلحے اور افواج تک استعمال کرتی ہیں تاکہ اس حقیقت کو بر عکس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔

تبصرے
Loading...